اقوام متحدہ نے ڈرون حملوں سے عام شہریوں پر پڑنے والے اثرات اور دیگر ٹارگٹ کلنگ سے متعلق انکوائری شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس انکوائری کی ذمہ داری اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی بین ایمرسن کو سونپی گئي ہے۔
ڈرون حملوں سے متعلق انکوائری کے لیے مہم چلانے والے ایک برطانوی وکیل کیو سی بین ایمرسن نے صحافیوں سے کہا ’ایسے تمام واقعات جن میں بڑی غلطیاں ہوئیں اس کی جوابدہی اور تلافی ہونی چاہیے۔‘
اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچي بین ایمرسن کیو سی نے کہا کہ ڈرون ٹیکنالوجی میں اس قدر اضافے پر قابو پانے کے لیے قانون وضع کرنے کی ضرورت ہے۔
ادھر جمعرات کو پاکستان نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی
ڈرون حملوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی انکوائری کی ذمہ داری سنبھالنے والے ہیں۔
پاکستان میں وزارت خارجہ کے ترجمان معظم علی خان نے اپنے ہفتہ وار پریس بریفنگ میں اس بات کی تصدیق کی ہے۔
اس انکوائری کے تحت پانچ مقامات پر ڈرون حملوں کے اثرات کا جائزہ لیا جائےگا۔ اس میں پاکستان، افغانستان، یمن، فلسطینی علاقوں اور صومالیہ میں کیےگئے پچيس حملوں کی تفتیش کی جائےگي۔
بین ایمرسن نے اس سلسلے میں لندن میں صحافیوں سے بات چیت میں کہا کہ ڈرون حملوں میں اضافہ ’عالمی قوانین و ضوابط کے لیے ایک حقیقی چيلنج بن کر ابھرا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا اگر اسے اصول و ضوابط کے دائرے میں نہیں لایا گیا تو ڈرون حملوں میں مزید اضافہ ہوگا۔
اس انکوائری میں عام شہریوں کی ہلاکتوں کا جائزہ لیا جائے گا۔ ان پہلوؤں کی تفتیش ہوگي کہ کن شدت پسندوں کو نشانہ بنایا گيا اور کن ایسی جگہوں پر حملے کیے گئے جنہیں اقوام متحدہ نے جنگ ذدہ قرار نہیں دیا۔
جو لوگ حملوں کی وکالت کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ڈرون حملوں کے دوران کم سے کم شہریوں کی ہلاکت کا خیال رکھا جاتا ہے۔
لیکن اس کے مخالفین کا کہنا ہے کہ ڈرون حملے در اصل ماورائے عدالت قتل ہے اور ایسے حملوں میں اب تک سینکڑوں شہری ہلاک ہوچکے ہیں۔
ڈرون ان ممالک کے لیے ایک مؤثر ہتھیار کے طور پر ابھر رہا ہے جو شدت پسندوں کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں۔ لیکن ڈرون حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکت کی وجہ سے یہ متنازعہ ہو گئے ہیں۔
بیورو آف انویسٹیگیٹیو جرنلزم کی تحقیق کے مطابق امریکی جاسوسی ادارے سی آئی اے کے زیر نگرانی ہونے والے ڈرون حملوں میں 2004 اور 2013 کے درمیان 3461 افراد مارے گئے جن میں 891 عام شہری تھے۔
اس تحقیق کے مطابق زیادہ ڈرون حملے صدر براک اوباما کے دور حکومت میں ہوئے۔
بین ایمرسنن نے جمعرات کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے اس تاثر کو رد کر دیا کہ اس تحقیق میں امریکہ اور اسرائیل کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دینا کے 51 ممالک کے پاس ڈرون ٹیکنالوجی ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان میں ڈرون حملوں پر حکومت متعدد بار امریکہ سے احتجاج کر چکی ہے جب کہ ملک کی مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے بھی ڈرون حملوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے ہیں۔
پاکستان امریکہ سے مطالبہ کر چکا ہے کہ ڈرون حملوں کا مستقل حل تلاش کیا جانا چاہیے لیکن امریکہ کا موقف رہا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف ڈرون حملے ایک موثر ہتھیار ثابت ہو رہے ہیں اور ان ڈرون حملوں کا قانونی اور اخلاقی جواز موجود ہے۔
No comments:
Post a Comment