پولینڈ کی سب سے بڑی عدالت نے ملک میں مذہبی طریقہ سے ذبح کرنے کے طریقہ کو غیر قانونی قرار دیا ہے جبکہ یورپی یونین اس طریقے کو قانونی حیثیت دینے والی ہے۔
عدالت کے ایک آئینی ٹرائبیونل نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ بغیر بے ہوش کیے جانورکی گردن کاٹنے سے خون بہہ کر موت ہونا پولش قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
اسی بارے میں
گوشت کی برآمد پر پابندی کا خیرمقدم
گائے اور خنزیر کے فوڈ فیسٹیول پر پابندی
گائے کا گوشت کھانا ایک سنگین جرم
پولینڈ میں مسلمانوں اور یہودیوں کی آبادی کم ہے جو اپنے مذہبی عقیدے کی بنیاد پر ذبح کا یہ طریقہ اپناتے ہیں۔
لیکن ابھی یہ واضح نہیں کہ یورپی یونین نے ذبحہ کرنے کے طریقہ کو جو قانونی درجہ دینے کا فیصلہ کیا اس سے پولینڈ کا یہ قانون متصادم ہوگا یا اس کا اس پر کوئي اثر نہیں پڑیگا۔
یورپی یونین نے مذہب اور عقیدہ کی بنیاد پر ذبحہ کرنے کے طریقہ کو قانونی حیثیت دینے کا فیصلہ کیا ہے جس کا نفاذ یکم جنوری سے ہوگا۔
پولینڈ کے وزیر ذراعت سٹینسلاء کلیمبا کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کے قوانین ایک مثال ہیں اور اگر اس فیصلے سے کوئي مشکل پیش آئی تو اس سے دور ہو جائیگي۔
ان کی وزارت نے ایسے تقریباً سترہ ذبح خانوں کو لائسنس جاری کیے ہیں جس کے تحت انہیں مذہبی بنیاد پر ذبح کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔
لیکن مویشیوں پر ظلم کے خلاف مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کے قوانین کے تحت ہر ملک کو اپنے انفرادی اصول و ضوابط وضع کرنے کی بھی اجازت ہے۔
ایسی ہی ایک تنظیم کے رکن ڈریز گزریا نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا ’ یہ ہم پر منحصر ہے کہ آيا ہم اس طرح کے قانون اپنائیں یا نہیں جس کے تحت اس طرح کے ذبیحہ کی اجازت دی گئي ہے۔''
یورپ میں پولینڈ حلال گوشت پر پابندی لگانے والا دوسرا ملک ہے
یورپ میں پولینڈ سے پہلے سویڈن نے اس طرح کے ذبیحے پر پابندی عائد کی تھی اور اب ایسا پولینڈ نے کیا ہے۔
پولش ریڈیو کے مطابق ملک میں جانوروں کے لیے کام کرنے والی بعض تنظیموں کی درخواست پر عدالت نے یہ فیصلہ سنایا ہے۔
لیکن اس پر نکتہ چینی کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کی پابندی سے غلط پیغام جائے گا اور یہ تاثر ہوگا کہ ملک میں مذہبی اقلیتوں سے روادی نہیں برتی جاتی۔
صدر برونسلاء کموسوکی نے روایتی ذبحہ کرنے کے طریقہ کا یہ کہہ کر دفاع کیا ہے کہ یہ تو ایک قدیم زمانے سے ہوتا آیا ہے۔
نیدرلینڈ میں گزشتہ برس اسی موضوع پر ایک بحث کے دوران انہوں نے کہا تھا کہ روایتی ذبح کرنے کے طریقہ کے خلاف قانون بنانا یہودیوں اور مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے مترادف ہوگا اور یورپ میں غیر رواداری کے بحران سے تعبیر کیا جائےگا۔
پولینڈ میں یہودی کمیونٹی کی یونین کے صدر پیؤٹ کاڈلک نے اس کے رد عمل میں کہا کہ مذہی امور سے متعلق ان کی تنظیم اور پولینڈ حکومت کے درمیان سنہ انیس سو ستانوے میں جو معاہدہ ہوا تھا اس کی یہ صریحا خلاف ورزی ہے۔
ان کا کہنا تھا ’ایسا لگتا ہے اس میں قانونی تضاد ہے اور اس کا کیا مطلب ہے اس بارے میں کچھ بھی کہنا جلد بازی ہوگي۔ہم اس پر قانونی صلاح و مشورہ کر رہے ہیں۔‘
یہودیوں کے ذبح کو کوشر کہا جاتا ہے اور چونکہ نازیوں کے زمانے میں پولینڈ میں یہودیوں کو ہلاک کیا گيا تھا اس لیے وہاں اس کی بڑی اہمیت ہے۔
اس دور میں پولینڈ میں تقریباً تیس لاکھ یہودی تھے اور اب ان کی تعداد چھ ہزار ہے۔ مسلمانوں کی تعداد بھی زيادہ نہیں اور وہ بھی چند ہی ہزار ہیں۔
لیکن پولینڈ میں کوشر اور حلال دونوں طرح کےگوشت تیار ہوتے ہیں اور یہاں سے عرب ممالک، ترکی اور اسرائيل کو بر آمد بھی کیے جاتے ہیں۔ یہ بھی ملک کا ایک بڑا بزنس ہے۔
No comments:
Post a Comment