ایک رپورٹ کے مطابق اژدھے یا اس کی نسل کے دوسرے سانپوں کے کھال کی دنیا میں بڑھتی تجارت سے ایسی نسل کے سانپوں کے وجود کو خطرہ لاحق ہے۔
تحقیق کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یورپ میں ان چمڑوں سے بنے بیگ یا دوسری فیشن کی اشیاء کی مانگ میں اضافہ ہورہا ہے اس لیے یورپ میں اسے خوب برآمد بھی کیا جاتا ہے۔
اسی بارے میں
برطانوی وائلڈ لائف فوٹوگرافی ایوارڈز کے فاتح
وائلڈ لائف کیمرے کی نظر سے
ویلز میں جنگلی حیات اور قدرتی مناظر
لیکن یہ تجارت اصول و ضوابط سے اس قدر دور ہے کہ یہ پتہ کرنا بڑا مشکل ہے کہ ایسی کھالیں کہاں سے آئی ہیں۔
اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گيا ہے کہ ان کھالوں کے حصول کے لیے کئی بار بڑی بے رحمی سے ان سانپوں کو مارا جاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سانپ کی کھالوں کی تجارت بڑی فائدے مند ہے اور ایک ارب ڈالر کی تجارت کے تحت جنوب مشرقی ایشیا سے ہر برس تقریباً پانچ لاکھ سانپ کی کھالیں بر آمد کی جاتی ہیں۔
وائلڈ لائف کے تحفظ سے متعلق جو عالمی معاہدہ ہے اس کے تحت ایسی بعض نسلوں کی تجارت کی اجازت بھی ہے لیکن اژدھے سانپوں کے معاملے میں ان قوانین کا بھر پور استحصال کیا جاتا ہے۔
وہ سانپ جنہیں پال کر بڑا کیا جاتا ہے ان کی خرید و فروخت کی اجازت ہے لیکن اس رپورٹ کے مطابق بیشتر وہ سانپ جنہیں پالا ہوا بتایا جاتا ہے دراصل وہ جنگلی سانپ ہوتے ہیں۔
لمبے سانپوں کی کھالوں کی زیادہ مانگ ہے
جو افراد اس کی کھال نکال کر بیچتے ہیں انہیں تو اتنے پیسے نہیں ملتے لیکن یورپ میں پہنچ کر اس کی قیمت زیادہ ہوجاتی ہے۔
مثلا انڈونیشیاء میں اگر گاؤں کے ایک شخص نے تیس ڈالر میں کھال بیچی تو فرانس اور اٹلی میں وہ پندرہ ہزار ڈالر تک قیت کی ہوتی ہے۔
سب سے زیادہ قیمت تین یا چار میٹر لمبی کھال کی ہوتی ہے اور اسی کی زیادہ مانگ بھی رہتی ہے۔
اس رپورٹ کوتیار کرنے والوں میں سے ایک اولور کیلابیٹ کا کہنا ہے کہ زیادہ تر یہ تجارت غیر قانونی طریقے سے ہوتی ہے۔’ یہ مقامی انتظامیہ پر منحصر ہے کہ وہ قانون کو کیسے نافذ کرتے ہیں۔’
ان کا کہنا ہے ’کئی بار تو انہیں اس سے متعلق کچھ پتہ ہی نہیں ہوتا ہے اور بہت بار وہ اس کی پرواہ بھی نہیں کرتے۔‘
اس رپورٹ کے مطابق جس تیز رفتاری سے اژدھے مارے جاتے ہیں اس میں کمی ضروری ہے کیونکہ بہت سے کم عمری میں ہی مار دیے جاتے ہیں۔
لیکن یہ کام آسان بھی نہیں کیونکہ سانپوں کے متعلق اس طرح بیداری پیدا کرنا مشکل کام ہے۔ ان کے بارے میں عوام میں کوئی خاص جذبہ نہیں ابھرتا۔
لیکن محقیقین کا کہنا ہے کہ اس کا حل تجارت پر پابندی عائد کرنا بھی نہیں ہے۔ ان کے مطابق اس کے بارے میں مقامی انتظامیہ کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ کوئي ایسا طریقۂ کار اپنایا جائے جس سے سانپوں کا پتہ رہے کہ وہ کہاں کہاں ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں کہ لوگ اس کا بہت مطالبہ کرتے ہیں بلکہ یورپی ممالک میں تاجر اس کھال کی بنی اشیاء زیادہ سے زیادہ پیش کرنا چاہتے ہیں۔
نے ایسی پر تعیش اشیاء بنانے والوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن کسی نے بھی جواب نہیں دیا۔batkhela-movies.blogspot.com
No comments:
Post a Comment