غزہ اور اسرائیل کے درمیان جنگ میں سرحد کے دونوں جانب
شہریوں کی ہلاکت انتہائی افسوس ناک بات ہے بطور خاص جب ہلاک ہونے والوں میں
معصوم بچے بھی شامل ہوں۔
غزہ میں بی بی سی کے نامہ نگار جان ڈونیسن نے بہت ہی قریب سے ایک ایسے ہی اندوہ ناک واقعے کو دیکھا۔وہ ٹھنڈے دل و دماغ کے مالک ہیں اور جب ہم جیسے لوگ ان کے سامنے بھاگ دوڑ رہے ہوتے ہیں یا چھیڑ چھاڑ کر رہے ہوتے ہیں تو اس وقت بھی وہ سنجیدہ ہوتے ہیں۔ وہ ویڈیوایڈیٹر ہیں اور بی بی سی عربی سروس کے ایک مقامی سٹاف ہیں جن کی وجہ سے آفس کا کام چلتا رہتا ہے۔
اندازاً دو ہفتے قبل جب غزہ میں لڑائی شروع ہو ئی تھی اور اسرائیل کے ساتھ لڑائی میں حماس کے فوجی کمانڈر احمد الجعبری مارے گئے تھے تو اس وقت جہاد اپنے ایڈیٹنگ کے کمرے سے چیختے ہوئے باہر نکلے تھے۔
وہ اپنے سر کو دونوں ہاتھوں سے پکڑتے ہوئے زینے سے نیچے اترے اور ان کے چہرے پر فکر اور صدمے کے اثرات واضح تھے۔
کسی نے انھیں تھوڑی دیر پہلے فون پر بتایا تھا کہ اسرائیلی فوج نے ان کے گھر پر بمباری کی تھی اور ان کا گیارہ ماہ کا لڑکا عمر اس میں جاں بحق ہو گیا تھا۔
اپنے مکان کے ملبے پر کھڑے ہوکر جہاد نے مجھے اپنے موبائل پر کچھ دن قبل لی گئی اپنے بچے کی تصویر دکھائی، ایک گول مٹول بچے کی جو کہ ڈینم کی نیلی ڈانگری میں ملبوس پرام میں لیٹا تھا، کالی آنکھیں، چوڑی پیشانی، نفیس بھورے بال جو اس کی پیشانی پر آ رہے تھے۔
جہاد نے مجھ سے کہا ’اس نے ابھی صرف مسکرانا سیکھا تھا‘ اور پھر ہم دونوں اپنے آنسوؤں کو روکنے کی کوشش کر نے لگے جو امڈ رہے تھے۔
جہاد نے کہا ’عمر کو ابھی صرف دو الفاظ بابا اور ماما کہنے آتے تھے۔‘
جہاد کے فون میں دوسری تصویر بھی تھی جو کہ ایک دلدوز چھوٹی سی جلی ہوئی مسخ شدہ لاش کی تھی، جس میں عمر کا مسکراتا پھول سا چہرہ جو تقریبا جل چکا ہے اور وہ بال جو اس کی پیشانی پر جھوما کرتے تھے وہ اس جلے سر سے چپک ہوئے ہیں۔
اس حملے میں جہاد کی سالی حبہ بھی ہلاک ہوگئی ہیں۔ جہاد نے کہا کہ ’ہمیں ابھی تک ان کا سر نہیں ملا ہے‘۔ اور اس کا بھائی بری طرح جلی ہوئی حالت میں ابھی بھی ہسپتال میں ہے اور اس کے بچنے کی موہوم سی امید ہے۔
جہاد کا ایک بیٹا علی بھی ہے جو چار سال کا ہے اور وہ بھی معمولی زخمی ہے۔ وہ پوچھتا رہتا ہے کہ اس کا چھوٹا بھائی کہاں چلا گیا ہے۔
گیارہ افراد پر مشتمل یہ مشراوی خاندان غزہ کے شبرہ ضلعے کے ایک چھوٹے سے مکان میں رہتا تھا۔ ایک کمرے میں پانچ افراد سویا کرتے تھے۔
اور اب اس کے بستر صرف تارکول کے لیے ہیں اور الماریاں ملبے اور بچوں کے گرد میں اٹے کپڑوں سے بھری ہیں۔
"جہاد کے فون میں دوسری تصویر بھی ہے۔ ایک دلدوز چھوٹی سی لاش، عمر کا مسکراتا پھول سا چہرہ تقریبا جل چکا ہے اور وہ بال جو اس کی پیشانی پر جھوما کرتا تھا وہ اس جلے سر سے چپک چکا ہے۔"
داخل ہوتے ہی ملنے والے ہال کی آہنی چھت میں دو فٹ چوڑا سوراخ ہے جہاں میزائل آکر لگا تھا۔
ہرچند کہ تمام شواہد یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ اسرائیلی حملہ ہے تاہم کچھ بلاگ لکھنے والوں نے کہا ہے کہ یہ حماس کے راکٹ سے ہوا ہے جو کہ غلطی سے ادھر چلا گیا ہوگا۔
لیکن اسرائیل آپریشن کے بعد اسرائیل فوج نے کہا تھا کہ غزہ سے مارٹر داغے گئے ہیں اور بہت کم راکٹ برسائے گئے۔ جہاد کے گھر میں مارٹر سے اتنی تباہی نہیں ہو سکتی تھی۔
دوسرے بلاگروں نے لکھا ہے کہ جہاد کے گھر پر ہونے والا حملہ اسرائیل کا معمول کا حملہ نہیں ہے لیکن بی بی سی نے اس ہفتے ان مقامات کا دورہ کیا جہاں اسرائیل نے قبول کیا ہے کہ وہ ان کے ’سرجیکل حملے‘ کے نشانے تھے اور دونوں میں کافی مماثلت ہے۔
جہاد کے گھر پر ہونے والے حملے میں تعمیرات کو تو کم نقصان ہوا ہے لیکن لوگوں کو شدید طور پر جلی ہوئی اور زخمی حالت میں باہر نکالا گیا ہے۔
زیادہ قرین قیاس یہ ہے کہ عمر کی موت ان بیس حملوں میں ہوئی ہوگی جو اسرائیل نے شروع میں غزہ پر کیے تھے۔
ان میں سے تیس بچے ہیں اور ان میں سے بارہ بچے دس سال سے کم عمر کے ہیں۔ اس کے علاوہ ان حملوں میں ایک ہزار افراد زخمی ہوئے ہیں۔
جہاد کا بچہ ابتدائی حملے میں ہلاک ہونے والا شاید پہلا بچہ تھا۔ اور آخری بچہ چھ سال کا عبدالرحمان نعیم تھا جو امن معاہدے سے قبل اسرائیلی حملے میں ہلاک ہوا تھا۔
عبدالرحمٰن کے والد ڈاکٹر مجدی غزہ شہر کے شفا ہسپتال میں سپیشلسٹ ڈاکٹر ہیں۔
انہیں اپنے بچے کی موت کا اس وقت علم ہوا جب وہ ایک مریض کا علاج کرنے کے لیے گئے تھے وہاں انھوں نے دیکھا کہ وہ انہی کا لخت جگر تھا۔
بظاہر ڈاکٹر مجدی نے کئی دنوں سے اپنے بچے کو نہیں دیکھا تھا، زخمیوں کے علاج کے سے انہیں فرصت ہی نہیں ملی تھی۔
جہاد کا گھر چھوڑنے سے قبل جہاں وہ ایک الاؤ کے پاس دوسرے غمزدہ افراد کے ساتھ بیٹھے تھے میں نے ان سے ایک احمقانہ سوال پوچھا کہ ’کیا انھیں عمر کی موت پر غصہ ہے؟‘
اپنے بچے کی تصویر پر نظر ڈالتے ہوئے ان کے جبڑے سخت ہو گئے اور انھوں نے کہا، ’ہاں، بہت زیادہ غصہ ہے؟‘
یہ اس شخص نے کہا جس نے کبھی بھی غصے میں اونچی آواز میں بات نہیں کی تھی۔۔۔
مجھے خدا حافظ کہنے سے پہلے جہاد نہ مجھ سے گلے ملتے ہوئے کہا کہ ’میں بہت شرمندہ ہوں جون کہ مجھے رکنا ہو گا اور جب آپ کو میری ضرورت ہے میں آپ کے پاس نہیں ہوں گا۔‘
No comments:
Post a Comment