افغانستان کی صورتحال سے متعلق پیرس میں ہونے والی تین روزہ کانفرنس سنیچر کی شب اختتام کو پہنچ رہی ہے جس میں طالبان وفد کا موقف رہا ہے کہ حقیقی امن صرف غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد ہی قائم ہوسکے گا۔
یہ پہلی بار ہے کہ افغان حکومت ان کے عسکری حریف طالبان اور سیاسی حریف شمالی اتحاد ایک ہی جگہ بات چیت کے لیے اکھٹے ہوئے ہیں۔
افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ طالبان گروہوں، افغان دھڑوں اور افغان حکام کے درمیان مذاکرات ہو رہے ہیں۔
اگرچہ مذاکرات کی حیثیت باضابطہ نہ ہونے کی وجہ سے اس کانفرنس کے اختتام پر کوئی دستاویز جاری نہیں کی گئی، تاہم کانفرنس کے دوران خیالات کا تبادلہ اور بلاتکلف بحث ہوئی۔
تمام فریقین نے افغانستان میں جلد امن کی اشد ضرورت پر اتفاق کیا بلکہ جنگ بندی کے امکان پر بھی غور کیا گیا۔ غیر ملکی افواج کے ملک سے جانے پر تو تمام فریقوں نے رضامندی ظاہر کی تاہم اس انخلا کےطریقہ کار اور رفتار پر کئی اختلافات بھی سامنے آئے۔ طالبان کا مطالبہ ہے کہ غیر ملکی افواج فورًا اور مکمل طور پر افغانستان چھوڑ دیں۔
آئین میں ترامیم کی ضرورت پر اتفاق کیا گیا تاہم مختلف فریقوں کی جانب سے آنے والے مطالبات پارلیمانی نظام، وفاقی نظام اور وزیرِ اعظم کا عہدہ متعارف کروانے کے بارے میں بٹے رہے۔
قطر میں موجود طالبان کے دفتر سے شہاب الدین دلاور اور محمد ندیم وردک نے تنظیم کی نمائندگی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ دنیا کو اپنا موقف بتانے اور اپنی رائے کا اظہار کرنے کے لیے آئے ہیں۔
اب سے چند گھنٹے قبل طالبان نے اپنی ویب سائٹ پر وہ بیان شائع کیا ہے جو کہ ان کے نمائندوں نے کانفرنس کے شرکا کے سامنے پیش کیا۔ اس بیان میں کہا گیا ہے کہ ’حقیقی امن افغانستان پر قبضے کے اختتام کے بعد ہی قائم ہو سکے گا۔ کوئی بھی طاقت کسی اور طاقت پر قابض نہیں ہو پائے گی اور یہ غیر ذمہ دارانہ اور غیر قانونی معاہدوں پر دستخط کرنے سے ممکن نہیں ہو سکے گا۔ امن کی کوششیں مخلص نہیں۔۔۔۔ امن سب کی مجموعی ذمے داری ہے۔ عملی اقدامات کے ذریعہ اس کو یقینی بنانا ہوگا کہ جنگ کی جگہ امن کو ترجیح دی جائے۔۔۔ جب تک ’مجاہدین‘ (طالبان جنگجو) جیلوں میں ہیں اور ان پر تشدد کیا جا رہا ہے، حقیقی امن نا ممکن ہے۔‘
طالبان کے بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’امریکہ اور دیگر فریقین کو افغان عوام کی مرضی کو تسلیم کرتے ہوئے ملک سے اپنے فوجی واپس بلا لینے چاہیئں اور فرانسس کی مانند دیگر غیر ملکی حکومتوں کو اپنے عوام کے مفادات کے بارے میں سوچنا چاہیے۔‘
افغان آئین کے بارے میں وفد کا موقف تھا کہ ایک آزاد ماحول اور افغان ماہرین کی نگرانی میں نیا آئین تیار کیا جائے۔ ان کے مطابق موجودہ آئین اس لیے قانونی نہیں کیونکہ یہ ’قابضوں کے بی باون بمبار طیاروں کے سائے میں تیار کیا گیا ہے۔‘
طالبان نے دعوٰی کیا ہے کہ ’انتخابات افغان مسئلے کا حل نہیں کیونکہ آئندہ انتخابات غیر ملکی قبضے کے دوران ہی کروائے جائیں گے۔ ہم اس بات پر اصرار کرتے رہے ہیں کہ ہم اقتدار پر قابض نہیں ہونا چاہتے بلکہ ہم افغانستان میں ایک وسیع البنیاد حکومت چاہتے ہیں۔‘
نئے افغانستان کی فوج کے بارے میں طالبان نے کہا کہ ملک کو در پیش مالی مسائل کے پیشِ نظر تمام عوام پر فوج میں خدمات انجام دینا لازم ہونا چاہیے۔ ایک دلچسپ اور اہم موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے طالبان کے وفد نے کہا کہ سکیورٹی فورسز کو لسانی، علاقائی اور نسلی تعصبات سے پاک ہونا چاہیے اور انھیں ملک کے دفاع کے جذبے کے ساتھ تربیت دی جانی چاہیے۔
خواتین کے حقوق کے بارے میں طالبان نے کہا کہ ہم اسلام کی روشنی میں ان کے حقوق کی پاسداری پر یقین رکھتے ہیں اور انھیں تعلیم اور کام کرنے کے حقوق حاصل ہیں۔
کانفرنس میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ بات چیت کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔ اس کانفرنس کے منتظم پیرس میں موجود تھنک ٹینک فاؤنڈیشن فار سٹریجک ریسرچ تھے۔