لیبارٹری میں ’جِلد‘ تیار: وہ تحقیق جو آپ کو بڑھاپے میں بھی جوان بنا سکتی ہے
محققین نے ایک سائنسی دریافت کی ہے جسے وقت کے ساتھ ساتھ بڑھاپے کی علامات کو کم کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
'ہیومن سیل ایٹلس' پراجیکٹ نامی ٹیم نے دریافت کیا کہ سٹیم سیل سے انسانی جلد کس طرح بنتی ہے۔ اس معلومات کو استعمال کر کے انھوں نے لیبارٹری میں مصنوعی جِلد تیار کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔
یہ منصوبہ عالمی سطح پر کی جانے والی ایک تحقیق ہے جس میں مختلف ممالک کے کئی سائنسدان کام کر رہے ہیں۔ تاہم اس کا مرکز برطانیہ ہے۔
اس پروجیکٹ کی بنیادی تحقیق کا مقصد اس بات کو سمجھنا ہے کہ انسانی جسم کا ایک ایک حصہ کس طرح بنتا ہے اور اسے بنانے میں خلیوں کا انفرادری کردار کیا ہوتا ہے۔
اس تحقیق کی دریافت کے ذریعے نہ صرف جلد پر بڑھاپے کی علامات کم کی جا سکتی ہیں بلکہ اسے جلد کے ٹرانس پلانٹ کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا۔
اس معلومات کے ذریعے جلد پر نشان پڑنے کو بھی روکا جا سکتا ہے۔
پروجیکٹ میں شامل پروفیسر مزلفہ حنیفہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس سے سائنسدانوں کو بیماریوں کے موثر علاج میں مدد ملے گی۔ ہمیں زیادہ دیر تک صحت مند رکھنے کے نئے طریقے بھی ملیں گے اور شاید ہمیں جوان نظر آنے کا طریقہ بھی مل جائے۔'
ویلکم سینگر انسٹی ٹیوٹ کے پروفیسر حنیفہ نے کہا ’اگر ہم جلد میں کچھ بدلاؤ لا سکیں اور بڑھاپے کو روک سکیں تو (جسم پر) جھرّیاں بھی کم پڑیں گی۔‘
’اگر ہمیں یہ سمجھ میں آ جائے کہ کس طرح خلیات اپنی ابتدائی نشو و نما سے بڑھاپے میں تبدیل ہوتے ہیں تو ہم یہ سمجھنے کی کوشش کر سکتے ہیں کہ اعضا کو کیسے جوان رکھا جا سکتا ہے، دل کو کیسے جوان رکھا جا سکتا ہے اور جلد کو جوان کیسے بنایا جا سکتا ہے؟
تحقیق میں ابھی بہت کام باقی ہے تاہم سائنسدان نے یہ معلوم کر لیا ہے کہ جنین میں جلد کے خلیے کیسے بنتے ہیں۔
جب بیضہ فرٹیلائز ہوتا ہے تو اس وقت تمام انسانی خلیے ایک جیسے ہوتے ہیں۔ تاہم تین ہفتوں بعد سٹیم سیلز میں موجود جینز کا 'سوئچ آن' ہو جاتا ہے جن کے ذریعے جنین کے مختلف حصے بننے شروع ہو جاتے ہیں۔
محققین کو یہ معلومات مل گئی ہیں کہ جنین کا کون سا حصہ کس وقت کس جگہ ’جاگتا ہے‘ جس سے انسانی جسم کا سب سے بڑا اعضا یعنی جلد بنتی ہے۔
جب انھیں کیمیکل لگا کر مائیکرو سکوپ کے ذریعے دیکھیں تو یہ چھوٹی چھوٹی ٹمٹماتی ہوئی بتّیوں جیسے لگتے ہیں۔
کیمیکل لگانے کے بعد جو جنین مائیکرو سکوپ میں نارنجی رنگ کے نظر آتے ہیں وہ جلد کی سطح تیار کرتے ہیں۔ جو پیلے نظر آتے ہیں وہ جلد کی رنگت کیا ہو گی، اس کا فیصلہ کرتے ہیں۔
ان کے علاوہ کئی ایسے جنین ہیں جو جلد کے دیگر حصّے بناتے ہیں جن کے ذریعے جلد پر پسنیہ آتا ہے، بال اُگتے ہیں اور جراثیم کے خلاف ہمیں تحفظ دیتے ہیں۔
محققین نے بنیادی طور پر اس تحقیق میں انسانی جلد بنانے کی ہدایات حاصل کی ہیں۔ ان معلومات کو 'نیچر' نامی جریدے میں شائع کیا ہے۔
ان ہدایات کو مد نظر رکھتے ہوئے سائنسدانوں کے لیے کافی دلچسپ امکانات سامنے آ رہے ہیں۔
مثال کے طور پر سائنسدانوں کو یہ بات پہلے سے ہی معلوم ہے کہ جنین کی جلد کو اگر کوئی نقصان پہنچتا ہے تو وہ بغیر کوئی نشان چھوڑے ٹھیک بھی ہو جاتا ہے۔
تاہم جلد کیسے بنتی ہے اس بارے میں جو معلومات ملی ہیں اس پر مزید تحقیق کر کے یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ جوانی میں بھی جلد اسی طرح ٹھیک کی جا سکے، خاص طور پر جب سرجری کی ضرورت ہو۔
ایک اہم پیشرفت میں سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ مدافعتی خلیات جلد میں خون کی نالیوں کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ انھوں نے لیبارٹری میں اس معلومات کو استعمال کر کے جِلد تیار کرنے کی کوشش کی۔
انھوں نے صحیح وقت اور صحیح جگہ پر جینز کو کیمیکل لگا کر ان کے حصّوں کو جگایا جس سے مصنوعی طور پر جلد تیار ہو سکی۔
ابھی تک سائنسدانوں نے مصنوعی طور پر جلد کے چھوٹے چھوٹے حصے تیار کیے ہیں جن پر چھوٹے چھوٹے بال نکلے ہیں۔
پروفیسر حنیفہ نے بتایا کہ اس تکنیک پر مہارت حاصل کرنا محققین کا مرکزی مقصد ہے۔
انھوں نے کہا کہ 'اگر آپ کو انسانی جلد تیار کرنی آ جائے تو اس تکنیک کے ذریعے آپ ان لوگوں کی مدد کر سکتے ہیں جو کسی وجہ سے جھلس گئے ہوں۔'
اس تکنیک کے ذریعے جلد کا ٹرانسپلانٹ بھی ہوسکے گا۔
انھوں نے کہا کہ اس کے علاوہ اس تکنیک کے ذریعے اگر ’آپ کو یہ معلوم ہو جائے کہ بالوں کی جڑ کیسے بنتی ہے تو گنجے لوگوں کے سر پر بال بھی اگائے جا سکتے ہیں۔'
لیبارٹری کی ڈش میں موجود جلد کو یہ سمجھنے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے کہ کس طرح وراثت میں ملنے والی جلد کی بیماریاں ختم ہوسکتی ہے۔ ایسی جینیاتی بیماریوں کے ممکنہ نئے علاج کی جانچ کی جا سکتی ہیں۔
جینز کو آن اور آف کرنے کی ہدایات ایمبریو میں بھیجی جاتی ہیں۔ یہ عمل پیدائش سے لے کر جوانی تک ہمارے تمام مختلف اعضا اور بافتوں کی نشوونما کے لیے جاری رہتا ہے۔
'ہیومن سیل ایٹلس' پروجیکٹ کے محققین نے آٹھ سالوں میں جسم کے مختلف حصوں سے 10 کروڑ خلیوں کا تجزیہ کیا ہے۔ محققین نے دماغ اور پھیپھڑوں کا نقشہ تیار کر لیا ہے اور ابھی جگر، گردے اور دل پر کام ہو رہا ہے۔
کیمبرج یونیورسٹی کی پروفیسر سارہ ٹائیکمن کے مطابق اگلے مرحلے میں جسم کے ان تمام نقشوں کو اکٹھا کرنا ہے۔ پروفیسر ٹائیکمن ہیومن سیل ایٹل کی شریک بانی سائنسدانوں میں سے ایک ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ 'یہ عمل نہایت ہی دلچسپ ہے کیونکہ اس سے انسانوں کی فزیالوجی (انسانوں اور جانوروں کے اعضا کے مطالعے کا شعبہ) اور اناٹمی کے بارے میں نئی معلومات ملیں گی۔'
'نئی معلومات کے لیے نئی کتابیں چھپیں گی۔ ان کتابوں میں ہمارے جسم، بافت اور اعضا کے بارے میں بتایا جائے گا اور بتایا جائے گا کہ یہ کس طرح کام کرتے ہیں۔'
آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں نئی تحقیقات شائع کی جائیں گی جن میں بتایا جائے گا کہ جینز میں وہ کیا ہدایات ہوتی ہیں جن کی وجہ سے ہمارے اعضا اور دیگر حصے بڑھتے ہیں۔
'آخر میں ہمیں معلومات مل جائیں گی کہ انسان کیسے بنتا ہے۔'
No comments:
Post a Comment