افغان حکام نے تصدیق کی ہے کہ امن کی کوششوں کے سلسلے میں اب تک پاکستان نے اپنی قید سے اٹھارہ طالبان رہنماؤں کو رہا کیا ہے۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ افغان حکام کی درخواست پر طالبان قیدیوں کی رہائی ایک طے شدہ نظام کے تحت جاری ہے۔
فغان امن کونسل کے اہلکار معصوم
ستنزئی نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ گزشتہ ماہ سے اب تک درم
پاکستان کا کہنا ہے کہ افغان حکام کی درخواست پر طالبان قیدیوں کی رہائی ایک طے شدہ نظام کے تحت جاری ہے۔یانے درجے کے اٹھارہ طالبان پاکستان کی قید سے رہا ہوئے ہیں۔ تاہم ان میں اہم سمجھے جانے والے طالبان قیدی ملا عبدالغنی برادر شامل نہیں ہیں۔
ادھر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان معظم خان نے کہا کہ پاکستان نے افغان حکام کی درخواست پر طالبان قیدیوں کی رہائی کے لیے ایک مشترکہ نظام تشکیل دیا ہے جو کہ گزشتہ ماہ سے جاری ہے۔ اس نظام کے تحت مزید قیدیوں کی رہائی بھی ہوگی۔
معصوم ستنزئی کے مطابق پاکستان کی جانب سے یہ مثبت اقدام ہے ۔ انہوں نے کہا کہ افغان حکام انہیں درکار طالبان قیدیوں کی مزید فہرستوں پر کام کر رہے ہیں اور اس سلسلے کو جاری رکھنے کے لیے پاکستان نے اپنی حمایت کا یقین دلایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ خطے میں امن کے لیے پاکستان نے اب چند عملی اقدامات کیے ہیں۔ انہوں نے امید کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان امن کی کوششوں میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے گا۔
افغان امن کونسل کے اہلکار نے مزید قیدیوں کی رہائی کی تصدیق ایسے وقت کی ہے جب دو روز قبل ہی ترکی میں پاکستان کے صدر آصف علی زرداری اور افغان صدر حامد کرزئی نے سہ فریقی مذاکرات میں شرکت کی۔
"پاکستان نے افغان حکام کی درخواست پر طالبان قیدیوں کی رہائی کے لیے ایک مشترکہ نظام تشکیل دیا ہے جو کہ گزشتہ ماہ سے جاری ہے۔ اس نظام کے تحت مزید قیدیوں کی رہائی بھی ہوگی۔"
معظم خان، ترجمان دفترِ خارجہ
ترکی میں دونوں ملکوں کے رہنماؤں نے افغان خفیہ ادارے کے سربراہ اسد اللہ خالد پر ایک ہفتے پہلے ہونے والے قاتلانہ حملے کی مشترکہ تحقیقات کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ افغان صدر نے حملے کے بعد الزام لگایا تھا کہ اس کی منصوبہ بندی پاکستان میں کی گئی جس کی پاکستان نے فوری تردید کی اور کہا کہ اس الزام کے ثبوت مہیا کیے جائیں۔
افغان اہلکار کا کہنا ہے کہ حملے سے متعلق ان کے پاس شواہد موجود ہیں جو کہ وہ پاکستان کے حوالے کریں گئے ۔
خیال رہے گزشتہ برس افغان حکام نے افغان رہنما برہان الدین ربانی کی ہلاکت کا الزام بھی پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں پر لگایا تھا جس کے بعد ان پر ہونے والے خودکش حملے کی مشترکہ تحقیقات کا اعلان کیا گیا تھا۔
پاکستان کی جانب سے طالبان قیدیوں کی رہائی کو عالمی سطح سراہا جا رہا ہے اور اسے کئی عشرے بعد پاکستان کی افغان پالیسی میں تبدیلی قرار دیا جا رہا ہے۔ بعض ماہرین کے خیال میں اگر پاکستان اس طرح طالبان، افغان حکومت اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کی کوششوں میں سرگرم رہا تو سنہ دو ہزار چودہ میں افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلاء تک کسی بڑی کامیابی کی امید کی جا سکتی ہے۔
تاہم صوبہ خیبر پختونخوا کے سینیٹر حاصل خان بزنجو کا کہنا ہے کہ پاکستان امن تو چاہتا ہے مگر ابھی بھی اس کی افغان پالیسی واضح نہیں ہے۔
انہوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے قیدی تو رہا کیے ہیں مگر جب تک سرحدوں پر جاری دہشت گردی کو نہیں روکا جاتا تب تک خطے کے حالات بدلنا مشکل ہو گا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ’پاک افغان تعلقات میں ابھی اتنی بڑی پیش رفت ہوئی جس سے امن کی کوششوں کو فروغ ملے‘۔
انہی کوششوں میں تیزی لانے کے لیے جنوری میں پاک افغان علماہ کی ایک کانفرنس افغانستان میں ہو رہی ہے جس کا مقصد دہشت گردی کے خلاف سوچ تبدیل کرنی
No comments:
Post a Comment