ایک ایسے معاشرے میں، جہاں ہر بات کو خفیہ رکھا جاتا ہو، اس میں انٹرنیٹ کا استعمال کیسا لگتا ہے؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ کم از کم دیگر ممالک کے مقابلے میں تو یہ ایک عجیب تجربہ ہوگا۔ مگر جیسے جیسے شمالی کوریا کے شہری محض انٹرنیٹ تک رسائی کے لیے اپنی جانیں داؤ پر لگا رہے ہیں، شاید یہ ان کی ملکی تاریخ میں ایک اہم موڑ ثابت ہو۔
شمالی کوریا میں تمام سرکاری ویب سائٹوں پر ایک انوکھا سافٹ ویئر نصب کیا جاتا ہے۔ اس کا کام خاصا آسان مگر اہم ہے۔ ان ویب سائٹوں پر جب بھی ملک کے سربراہ کم جون ان کا نام لکھا جاتا ہے، تو وہ خودکار طور پر دیگر الفاظ سے تھوڑا سا بڑا نظر آتا ہے۔ یہ شمالی کوریا کے ’انٹرنیٹ‘ کی خصوصیات کی ایک چھوٹی سی مثال ہے۔
شمالی کوریا میں شہریوں کو حکومتی پروپیگینڈا کے علاوہ دیگر تمام معلومات سے دانستہ طور پر محروم رکھا جاتا ہے۔ ملک میں جو انٹرنیٹ دستیاب ہے اس کو ریاستی مفادات کے مطابق کنٹرول کیا جاتا ہے۔ تاہم بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ریاست کا کنٹرول اب کم ہوتا جا رہا ہے۔
شمالی کوریا کے معاملات کے ماہر سکاٹ ٹامس بروس کا کہنا ہے کہ ’حکومت اب ملک میں تمام مواصلات کی اس طرح نگرانی نہیں کر سکتی جیسا کہ ماضی میں کرتی رہی ہے۔ یہ اہم تبدیلی ہے۔‘
دارالحکومت پیانگ یانگ میں صرف ایک انٹرنیٹ کیفے موجود ہے۔
اس کیفے میں کوئی کمپیوٹر مائیکروسافٹ ونڈوز نہیں چلاتا بلکہ شمالی کوریا کا خود تیار کردہ ’ریڈ سٹار‘ نامی آپریٹنگ سسٹم لگایا گیا ہے۔
اس سسٹم میں پہلے سے نصب ایک فائل ریاستی عقائد کی اس آپریٹنگ سسٹم سے ہم آہنگی کی اہمیت بیان کرتی ہے۔
ان کمپیوٹروں پر کیلنڈر سنہ دو ہزار بارہ کی بجائے سنہ ایک سو ایک دکھایا جا رہا ہے۔ ملک کے سابق رہنما کم اِل سنگ، جن کے سیاسی نظریات ریاست کی پالیسیوں کی بنیاد ہیں، ان کی ولادت کو ایک سو ایک سال گزر چکے ہیں۔
ملک میں عام شہریوں کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل نہیں ہے بلکہ یہ سہولت ملک کی چند اہم شخصیات، سائنسدانوں اور تعلیمی اداروں کو حاصل ہے۔
جو انٹرنیٹ ان لوگوں کو فراہم کیا جاتا ہے وہ اسے قدر محدود کر دیا گیا ہے کہ وہ انٹرنیٹ کم اور کسی بڑی کمپنی کا اندرونی نیٹ ورک (انٹرانیٹ) زیادہ لگتا ہے۔
سکاٹ بروس کا کہنا ہے کہ ’جو نظام انھوں نے بنا رکھا ہے، وہ (حکومت) اسے کنٹرول کر سکتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر اسے ناکارہ بھی بنا سکتے ہیں۔‘
اس نظام کا نام کوانگ میونگ ہے اور اس کی ذمے دار ملک کی واحد ریاستی انٹرنیٹ کمپنی ہے۔
سکاٹ بروس کہتے ہیں ’اس نظام میں زیادہ تر میسج بورڈ، چیٹ فنکشنز اور ریاستی میڈیا ہے۔ ٹوئٹر کا اس میں کوئی نام و نشان نہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’مشرقِ وسطیٰ پر نظر رکھنے والی بہت سی آمر حکومتیں یہ سوچ رہی ہیں کہ بجائے اس کے کہ عوام کے لیے فیس بک اور ٹوئٹر تک رسائی دی جائے، کیوں نہ حکومت خود ایک فیس بک بنائے جس کی وہ نگرانی بھی کر سکیں۔‘
ریڈ سٹار آپریٹنگ سسٹم میں فائر فاکس انٹرنیٹ براؤزر کا ترمیم شدہ براؤزر چلاتا ہے جس کا نام ’نائے نارا‘ ہے۔ ملک کے ایک آن لائن پورٹل کا نام بھی نائے نارا ہے جس کا ایک ورژن انگریزی میں بھی ہے۔
مگر اس انٹرنیٹ پر کچھ بھی شائع کرنے والوں کو بہت محتاط رہنا ہوتا ہے۔
آزادیِ صحافت پر عالمی سطح پر نظر رکھنے والے ادارے ’رپورٹرز ودآوٹ بورڈرز‘ کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا کے کچھ صحافیوں کو صرف اِملا کی غلطیوں کی وجہ سے ’تربیتی‘ کیمپوں میں بھیجا جا چکا ہے۔
کوانگ میونگ نظام کے علاوہ کچھ شمالی کوریائی شہریوں کو انٹرنیٹ تک مکمل رسائی حاصل ہے۔ تاہم خیال کیا جاتا ہے کہ یہ سہولت صرف چند شمالی کوریائی خاندانوں تک محدود ہے جن میں سے زیادہ تر سربراہ کم جون ان کے قریبی رشتے دار ہیں۔
شمالی کوریا میں شہریوں کو انٹرنیٹ تک رسائی نہ دینے کا جواز یہ سمجھا جاتا ہے کہ تجارت کی طرح ریاست کو قائم رہنے کے لیے اس معاملے میں بھی بیرونی دنیا سے کم سے کم روابط رکھنے ہوں گے۔
جہاں چین کی معروف ’گریٹ فائر وال‘ ٹوئٹر وغیرہ اور کبھی کبھی بی بی سی کی ویب سائٹ کو روکتی ہے، شمالی کوریا کے ٹیکنالوجی نظام کو ’موسکیٹو نیٹ‘ یعنی مچھردانی قراد دیا جاتا ہے جو صرف اشد ضروری معلومات کو داخل اور خارج ہونے دیتا ہے۔
اس ٹیکنالوجی نظام میں سب سے زیادہ بیرونی روابط موبائل فون نیٹ ورک کے ذریعے ہوتے ہیں۔
ملک کا واحد سرکاری موبائل نیٹ ورک ڈیٹا کنکشن یا غیر ملکی کالوں کی اجازت نہیں دیتا، تاہم بہت سے عام شہری ملک میں غیر قانونی طور پر موجود چینی موبائل فون حاصل کرنے لگے ہیں۔ یہ فون دونوں ممالک کی سرحد سے تقریباً دس کلومیٹر فاصلے تک کام کرتے ہیں۔ لیکن ان کا استعمال خطرے سے خالی نہیں۔
"مشرقِ وسطیٰ پر نظر رکھنے والی بہت سی آمرانا حکومتیں یہ سوچ رہی ہیں کہ بجائے اس کے کہ عوام کے لیے فیس بک اور ٹوئٹر تک رسائی دی جائے کیوں نہ حکومت خود ایک فیس بک بنا لے جس کی وہ نگرانی بھی کر سکیں۔"
سکاٹ بروس
شمالی کوریا میں میڈیا کے بدلتے حالات پر ایک معروف رپورٹ کے شریک مصنف نیٹ کریچن کا کہنا ہے کہ ’آج لوگ جس قدر خطرہ مول لے رہے ہیں، آج سے بیس سال پہلے ان کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔‘
’اے کوائٹ اوپننگ‘ نامی اس رپورٹ میں چار سو بیس ایسے افراد کا انٹرویو کیا گیا ہے جو ملک سے منحرف ہو گئے ہیں۔ ان کی کہانیوں میں پتا چلتا ہے کہ وہ غیر قانونی موبائل فون استعمال کرنے کے لیے کیا کیا خطرات مول لے رہے ہیں۔
نومبر دو ہزار دس میں ملک چھوڑنے والے ایک اٹھائیس سالہ شخص نے بتایا کہ ’موبائل فریکیوئنسی پکڑے نہ جانے سے بچنے کے لیے میں اپنے واش بیسن کو پانی سے بھر لیتا تھا اور رائس ککر کا ڈھکنا اپنے سر پر رکھ کر کال کرتا تھا۔ مجھے معلوم نہیں کہ یہ سب کام کرتا ہے کہ نہیں مگر میں کبھی پکڑا نہیں گیا۔‘
سکاٹ بروس بتاتے ہیں کہ غیر قانونی موبائل فون رکھنا سنگین جرم ہے۔’حکومت نے ان کو پکڑنے کے لیے خصوصی آلات خریدے ہوئے ہیں۔ اگر آپ ان کو استعمال کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو گنجان آباد علاقے میں جا کر چھوٹی سی کال کرنی ہوگی۔‘
اپنے دورِ حکومت میں کم جون اِل سڑکوں پر سینکڑوں ٹینکوں کے ساتھ پریڈ کیا کرتے تھے تاکہ انھیں فوجی ماہر سمجھا جائے۔
بہت سے مبصرین کا کہنا ہے کہ ان کے بیٹے کم جون ان کو اُن کے برعکس خود کو ٹیکنالوجی کے معاملے میں سمجھدار ذہن کا مالک ظاہر کرنا ہوگا جس کے لیے انھیں عام شہریوں کی زندگی میں ٹیکنالوجی کے ذریعے جدت لانا ہوگی۔
No comments:
Post a Comment