مصر کے صدر محمد مرسی نے سیاسی بحران کو کم کرنے کے لیے سنیچر کو حزبِ مخالف کے رہنماؤں کو مذاکرات کے لیے بلایا ہے۔
صدر مرسی کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان جھڑپوں میں اب تک کم از کم پانچ افراد ہلاک اور 644 زخمی ہوئے ہیں۔
ٹی وی پر کیے گئے خطاب میں صدر مرسی نے ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ وہ پر امن احتجاج کی حمایت کرتے ہیں لیکن انہوں نے ساتھ ہی یہ الزام بھی لگایا کہ کچھ افراد کو تشدد کو ہوا دینے کے لیے پیسے دیے گئے ہیں۔
صدر مرسی نے کہا کہ اسی سے زائد افراد پرتشدد کارروائیاں کرنے کے الزام میں پکڑے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آئین کی اس متنازع شق میں جس میں ان کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا ہے حزبِ اختلاف کے ساتھ مذاکرات کے بعد ترمیم کی جا سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ اعلامیہ پندرہ دسمبر کو نئے آئین پر متوقع ریفرنڈم کے بعد منسوخ کر دیا جائے گا، چاہے ریفرنڈم کا کوئی بھی نتیجہ سامنے آئے۔
انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ ریفرنڈم منصوبے کے مطابق ہی ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر آئین منظور نہیں کیا جاتا، تو پھر نئی آئین ساز اسمبلی تشکیل دی جائے گی جو نیا مسودہ تیار کرے گی۔
دوسری طرف قاہرہ میں فوج نے صدارتی محل کے باہر سے مظاہرین اور میڈیا کے لوگوں کو ہٹانا شروع کر دیا ہے۔
دریں اثناء مصر کے اعلٰی اسلامی ادارے نے صدر مرسی سے کہا ہے کہ وہ اپنے اس فرمان کو واپس لے لیں جس میں انہوں نے اپنے اختیارات میں اضافہ کیا ہے۔
الاظہر ادارے نے صدر اور ان کے مخالفین کے درمیان غیر مشروط بات چیت کا بھی مطالبہ کیا۔
صدر مرسی نے بائیس نومبر کو ایک فرمان کے ذریعے اپنے اختیارات میں اضافہ کر لیا تھا جن کے تحت عدالت ان کے جاری کردہ کسی فیصلے کو چیلنج نہیں کر سکتی۔
صدر مرسی جنہوں نے جون میں ہونے والے صدارتی الیکشن میں کامیابی حاصل کی تھی ان کا کہنا ہے کہ ایک بار نئے آئین کی توثیق ہو جائے وہ اپنے اختیارات میں کمی کر دیں گے۔
تاہم آئین کے مجوزہ مسودے پر بھی تنازع ہے جسے صدر کے حامی اسلام پسندوں کی تنظیم نے تیار کیا ہے۔
مصر کے نائب صدر محمود مکی کا کہنا ہے کہ تمام مخالفت کے باوجود آئین کے متنازع مسودے پر ریفرنڈم کرایا جائے گا۔
صدر مرسی کے مشیروں میں سے چار نے احتجاجاً بدھ کے روز اسعفی دیدیا ہے۔
قاہرہ میں صدر محمد مرسی کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان جھڑپوں کے بعد فوج نے صدارتی محل کے باہر ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں تعینات کردی تھیں۔
فوج کے اس قدم کے بعد قاہرہ کی سڑکوں پر امن ہے۔
No comments:
Post a Comment