امریکی خلائی ایجنسی ناسا کے سابق افسران نے ایک نجی کمپنی کا آغاز کیا ہے جس کے تحت وہ چاند پر دو افراد کو بھیجیں گے اور اس پر ایک اعشاریہ چار بلین ڈالر لاگت آئے گی۔
گولڈن سپائیک نامی کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ زیرِ استعمال راکٹ اور کیپسیول ٹیکنالوجی کا استعمال کریں گے۔ اس کمپنی کا مزید کہنا ہے کہ وہ اس دہائی کے آخر تک دو افراد کو چاند پر بھیجنے کا ارادہ رکھتی
یہ نجی کمپنی ان بہت سی کمپنیوں میں سے ایک ہے جو سپیس ایکس کے تجربے سے مستفید ہونا چاہتی ہیں۔ واضح رہے کہ سپیکس ایکس کے ذریعے بین الاقوامی خلائی سٹیشن پر سامان بھیجا گیا تھا۔
امریکہ پہلا اور واحد ملک ہے جس نے 1960 کی دہائی میں چاند پر انسان اتارا تھا۔
لیکن اس پر آنے والے خرچے اور دلچسپی میں کمی کے باعث چاند پر کوئی اور مشن نہیں بھیجا گیا۔ امریکی صدر براک اوباما نے ناسا کا چاند کا مشن یہ کہہ کر منسوخ کردیا تھا کہ امریکہ پہلے ہی چاند پر جا چکا ہے۔
ناسا کے سابق نائب منتظم ایلن سٹرن گولڈن سپائیک کمپنی کے سربراہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ دیگر ممالک کی حکومتوں کو چاند کے مشن کی پیشکش کریں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ جیسے جنوبی افریقہ، جنوبی کوریا اور جاپان جہاں کی حکومتیں سائنسی تحقیق میں دلچسپی رکھتی ہیں یا پھر قومی وقار کے لیے یہ مشن کرنا چاہتی ہیں۔
ایلن سٹرن نے کہا ’یہ سب چاند پر سب سے پہلے جانے کی بات نہیں ہے بلکہ یہ بات ہے کلب میں شمولیت کی۔ ہم 2020 تک اس کو ایک شے کی طرح پیش کریں گے تاکہ لوگ اس سے مستفید ہو سکیں۔‘
گولڈن سپائیک کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ چاند کے پندرہ سے بیس مشنز کریں گے۔
اس کمپنی میں ناسا کے نامور افسران شامل ہیں۔ اس کمپنی کے بورڈ کے چیئرمین اپولو کے زمانے کے فلائیٹ ڈائریکٹر جیری گرفن ہیں جو ایک وقت میں جانسن خلائی سینٹر کے سربراہ بھی تھے۔
تاہم پارورڈ یونیورسٹی کے خلاباز جوناتھن میک ڈاول جو دنیا بھر میں خلائی مشنز پر نظر رکھتے ہیں کا کہنا ہے کہ کئی نئی کمپنیاں کچھ بننے سے پہلے ہی ختم ہو جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ گولڈن سپائیک کمپنی نے جو چاند کے مشن کی قیمت مقرر کی ہے وہ اتنی زیادہ ہے کہ یہ کامیاب نہیں ہو سکے گی۔
No comments:
Post a Comment