انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں طالبان اور سکیورٹی فورسز دونوں کی جانب سے حقوقِ انسانی کی خلاف ورزیاں انصاف کی پہنچ سے کہیں دور ہیں اور یہی وجہ ہے کہ لاکھوں قبائلی تشدد اور لاقانونیت کےگرداب میں پھنسے ہوئے ہیں
پاکستانی فوج کے حکام نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے جھوٹ کا پلندہ قرار دیا ہے۔
پاکستانی فوج کے ایک ترجمان نے مختصر بیان میں ان الزامات کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ جھوٹ کا پلندہ ہے اور پاکستان اور اس کی مسلح افواج کے خلاف ’ناپاک پروپیگنڈے‘ کا حصہ ہے۔
فوجی ترجمان نے کہا ہے کہ یہ ایسی خودساختہ کہانیوں پر مبنی ایک متعصبانہ
رپورٹ ہے جنہیں مخصوص ایجنڈے کی خاطر گڑھا گیا ہے۔
ایمنسٹی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان قبائلی علاقوں میں ایک دہائی کے تشدد، کشیدگی اور مسلح تصادم کے بعد حقوقِ انسانی کا بحران جاری ہے جہاں ریاستی اور غیر ریاستی عناصر بغیر کسی روک ٹوک کے کارروائیاں کر رہے ہیں۔
’ظلم کے ہاتھ: پاکستان کے قبائلی علاقوں میں مسلح افواج اور طالبان کی زیادتیاں‘ نامی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جہاں پاکستان کی سکیورٹی فورسز پر حراستوں، جبری گمشدگیوں، تشدد اور دیگر بدسلوکیوں اور دوران حراست ہلاکتوں کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں وہیں طالبان بلاامتیاز حملوں اور مغوی سپاہیوں اور جاسوسی کے الزام میں پکڑے ہوئے افراد کا غیرقانونی قتل جاری رکھے ہوئے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مسلح افواج کی جانب سے خلاف ورزیوں کو ریگولیشنز کے تحت قانونی تحفظ دینے اور قبائلی علاقوں تک قانون کا دائرہ نہ بڑھانے سے حکام نے سکیورٹی فورسز اور طالبان کو حقوقِ انسانی کی پامالیوں کی کھلی چھٹی دے دی ہے۔
ایمنٹسی کا یہ بھی کہنا ہے کہ قبائلی علاقوں میں حکومتی رٹ کی عدم موجودگی میں امریکہ ڈرون طیاروں کے ذریعے ’نشانہ بنا کر ہلاک‘ کرنے کا ایک پروگرام جاری رکھے ہوئے ہے جو شفاف نہ ہونے کی وجہ سے تشویش کا باعث بن رہا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ قبائلی علاقوں میں قانون کی حکمرانی میں ’بہتری‘ کے لیے پاکستانی حکام نے جو نیا سلامتی قانون ایکشنز (ان ایڈ آف سول پاور) ریگولیشن 2011 (اے اے سی پی آر) متعارف کرایا ہے وہ سکیورٹی فورسز کو طویل، بلاامتیاز اور حراست کی اجازت دیتا ہے جو کہ حقوق انسانی کے بین الاقوامی معیار کی خلاف ورزی ہے۔
"قبائلی علاقوں میں قانون کی حکمرانی میں ’بہتری‘ کے لیے پاکستانی حکام نے جو نیا سلامتی قانون ایکشنز (ان ایڈ آف سول پاور) ریگولیشن 2011 (اے اے سی پی آر) متعارف کرایا ہے وہ سکیورٹی فورسز کو طویل، بلاامتیاز اور حراست کی اجازت دیتا ہے جو کہ حقوق انسانی کے بین الاقوامی معیار کی خلاف ورزی ہے۔"
ایمنسٹی انٹرنیشنل
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایشیا پیسیفک خطے کی ڈپٹی ڈائریکٹر پولی ٹرسکوٹ کا کہنا ہے ’ایک دہائی کے تشدد، لڑائی اور شورش کے بعد بھی قبائلی طبقے کے لوگوں کی حفاظت کے بجائے ان پر حملے ہو رہے ہیں اور ان کی گمشدگیاں اور ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ جاری ہے‘۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے حکومتِ پاکستان سے وفاق اور صوبے کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں نافذ ایکشن (ان ایڈ آف سول پاور) ریگولیشنز 2011 منسوخ کرنے اور پاکستان کی ہائی کورٹس اور پارلیمان کے دائرہ اختیار کو قبائلی علاقوں تک بڑھانے اور ان علاقوں میں انتظامی حراستوں کے نظام کو ختم کرنے کے مطالبات کیے ہیں۔
تنظیم کا یہ بھی کہنا ہے کہ دورانِ حراست ہلاکتوں کے علاوہ قیدیوں پر تشدد اور لوگوں کی جبری گمشدگیوں کی فوری اور آزادنہ تحقیقات کروائی جائیں جن کا عوامی معائنہ بھی ممکن ہو۔
طالبان ’زیادتیاں‘
ایمنٹسی کی رپورٹ کے مطابق طالبان اور مسلح گروپ پاکستانی سماج کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں اور گزشتہ ایک دہائی میں شہریوں پر ان کے حملوں میں ہزاروں افراد اپنی جان گنوا چکے ہیں۔
"اس کی لاش انتہائی مسخ شدہ تھی۔ اسے بظاہر بائیں کنپٹی پر گولی ماری گئی تھی جبکہ اس کا گلا جزوی طور پر کاٹا گیا تھا۔"
مقتول کے بھائی امجد
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ جن علاقوں میں طالبان کی گرفت ہے وہاں وہ لوگوں کو غیر قانونی طور پر قتل کر رہے ہیں۔ رپورٹ میں نذر نامی ایک ایسے ہی شخص کی کہانی بیان کی گئی ہے جسے شمالی وزیرستان میں پاکستانی فوج کے لیے جاسوسی کے الزام میں قتل کیا گیا۔
مقتول کے بھائی امجد نے تنظیم کو بتایا کہ ’اس کی لاش انتہائی مسخ شدہ تھی۔ اسے بظاہر بائیں کنپٹی پر گولی ماری گئی تھی جبکہ اس کا گلا جزوی طور پر کاٹا گیا تھا‘۔
امجد کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کے سینے پر پشتو میں ایک نوٹ چسپاں تھا جس میں لکھا تھا کہ ’وہ سب جو جاسوسی کر رہے ہیں ان کا یہی حشر ہوگا‘۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ طالبان کے خوف اور ان کے ہاتھوں قتل ہونے والوں کی بدنامی کی کیفیت یہ ہے کہ علاقے میں لوگوں نے نذر کا جنازہ پڑھنے سے بھی انکار کر دیا۔
تنظیم کے مطابق طالبان کی نیم عدالتی کارروائی بین الاقوامی حقوقِ انسانی کے معیار اور قوانین کے تحت منصفانہ سماعت کے بنیادی معیار پر بھی پورا نہیں اترتے۔
زیرِ حراست ہلاکتیں
پاکستانی فوج کی سرگرمیوں کا جائزہ لیتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے اس نے ان علاقوں سے جن ہزاروں مرد اور نوجوان افراد کو حراست میں لیا ہے ان میں سے متعدد نے حراست کے دوران تشدد کا الزام عائد کیا ہے جبکہ بعض افراد کو دوبارہ کبھی نہیں دیکھا گیا ہے۔
رپورٹ میں نیاز نامی ایک شخص کی داستان بھی شامل ہے جنہیں ان کے بھائی ایوب سمیت طالبان کے سابق زیرِ اثر علاقوں میں کارروائیوں کے دوران مسلح افواج نے پکڑا تھا۔
"پہلے پانچ دن انہوں نے ہمیں چمڑے کی بیلٹ سے کمر پر مسلسل پیٹا، درد اتنا تھا کہ بیان نہیں کیا جا سکتا۔ پانچ فوجی ہمیشہ ہر تفتیشی سیشن کے دوران موجود رہتے ۔۔۔ لیکن ان میں سے ایک صوبیدار بولتا تھا کہ وہ مجھے طالبان کا حصہ ہونے کا اقرار نہ کرنے پر مار دینے کی دھمکی دیتا تھا۔"
نیاز
نیاز کا کہنا ہے کہ ’پہلے پانچ دن انہوں نے ہمیں چمڑے کی بیلٹ سے کمر پر مسلسل پیٹا، درد اتنا تھا کہ بیان نہیں کیا جا سکتا۔ پانچ فوجی ہمیشہ ہر تفتیشی سیشن کے دوران موجود رہتے ۔۔۔ لیکن ان میں سے ایک صوبیدار بولتا تھا کہ وہ مجھے طالبان کا حصہ ہونے کا اقرار نہ کرنے پر مار دینے کی دھمکی دیتا تھا۔ میں انہیں بتاتا تھا کہ میرا ایک چچازاد شدت پسند تھا لیکن نہ میں اور نہ ایوب طالبان کا حصہ تھے۔ ہم محض کسان ہیں۔ یہ تردید سن کر صوبیدار چیخ پڑتا کہ تمھارا بھائی آج رات مر جائے گا! اگر تم اسے آخری مرتبہ نہیں دیکھنا چاہتے تو سچ بول دو‘۔
ایمنسٹی کے مطابق اپریل دو ہزار دس میں نیاز کو رہا کر دیا گیا اور ان کی رہائی کے چند گھنٹوں کے اندر انہیں اپنے بھائی ایوب کے مقامی ہسپتال منتقل کرنے کی اطلاع ملی۔ نیاز کے مطابق ’دوپہر کو بلال (نیاز کا رشتہ دار) کا فون ایک بری خبر کے ساتھ آیا اور اس نے کہا کہ اس کے پاس ایوب کی لاش ہے‘۔
ایمنسٹی کے مطابق پاکستانی فوج کے افسران نے بلال کو ایوب کی ہلاکت کی وجہ ’حرکتِ قلب‘ کی بندش بتائی تاہم تنظیم کا یہ دعویٰ ہے کہ پاکستانی فوج نے نیاز اور ایوب پر مبینہ تشدد یا ایوب کی دوران فوجی حراست ہلاکت کی کوئی تحقیقات نہیں کروائیں۔
قانون کی کمزوریاں
تنظیم کے مطابق پاکستانی سکیورٹی فورسز قبائلی علاقوں میں بغیر کسی روک ٹوک کے سرگرم ہیں جس میں انہیں ایک ایسے قانونی فریم ورک کی مدد حاصل ہے جس میں آئین اور نئے ریگولیشنز ملکی ہائی کورٹس کو قبائلی علاقوں میں حقوق انسانی پر عمل درآمد کو یقینی بنانے سے روکتے ہیں۔
"پاکستانی حکام اور عدالتوں نے ابھی تک پاکستان فوج، سکیورٹی فورسز اور خفیہ اداروں کے کسی رکن کو جبری گمشدگی، تشدد یا کسی اور بدسلوکی یا قبائلی علاقوں میں دوران حراست شخص کو غیرقانونی طور پر ہلاک کرنے کے مبینہ الزام کی تحقیقات یا اس کی بنیاد پر سزا نہیں دی ہے۔"
ایمنسٹی کی رپورٹ
ایمنسٹی کے مطابق پاکستانی حکام اور عدالتوں نے ابھی تک پاکستان فوج، سکیورٹی فورسز اور خفیہ اداروں کے کسی رکن کو جبری گمشدگی، تشدد یا کسی اور بدسلوکی یا قبائلی علاقوں میں دوران حراست شخص کو غیرقانونی طور پر ہلاک کرنے کے مبینہ الزام کی تحقیقات یا اس کی بنیاد پر سزا نہیں دی ہے۔
تنظیم کا کہنا ہے کہ کسی بھی واقعے میں یہ نظام تشدد اور بدسلوکی کو روکنے کے لیے موثر نہیں کیونکہ فوجی اہلکار عدالتی کارروائی سے مستثنیٰ ہیں اور زیرِ حراست افراد کو خاندان اور وکیل تک رسائی کی ضمانت نہ دینے کی وجہ سے یہ قانون حقوقِ انسانی سے بھی متصادم ہے۔
رپورٹ کے مطابق اب بھی کم از کم آٹھ سو پچانوے افراد ’حراستی مراکز‘ میں قید ہیں جہاں ان پر تشدد اور ان کی ہلاکت کا خطرہ ہے اور یہ بھی واضح نہیں کہ انہیں عدالتوں میں پیش کیا بھی جائے گا یا نہیں اور اگر کیا جائے گا تو کب۔
No comments:
Post a Comment