ضلع اٹک کی تحصیل حسن ابدال کے گاؤں پوڑ میانہ میں اسکول دیر سے آنے پر آٹھویں کلاس کا طالب علم محمد حسنین ، استاد کے غیض و غضب کا نشانہ بننے کے بعد اسپتال میں دم توڑ گیا ،تادم تحریر پی ٹی ٹیچر ممتاز ہمدانی مفرور ہے۔یہ دل خراش واقعہ ان ان گنت واقعات میں سے ایک ہے جو آئے دن ملک کے طول و عرض میں اسکولوں میں پیش آتے رہتے ہیں۔مولا بخش سے ٹھکائی، اٹھک بیٹھک اور مرغا بننا تو ہمارے ہاں کے اسکولوں کی روایتی سزائیں ہیں لیکن
دن بدن ان سزاؤں کی نوعیت اور شکلیں بھی بدلتی جارہی ہیں۔ سخت گرمی میں دھوپ میں ایک پاؤں پر کھڑا کر دینا، چہرے پر سیاہی مل دینا،لڑکوں کے ماتھے سے بال کاٹ دینا، لڑکیوں کے بال کاٹ دینا، بالوں میں مٹی ڈال دینا، انگلیوں میں پین پھنسا کر زور سے دبانا، کرسی بن کر میدان کا چکر لگانا اور نہ جانے کون کون سی سزائیں ہیں جو اسکولوں کے طالب علم مختلف نوعیت کے ”جرائم‘ ‘ میں بھگتتے ہیں۔ اس میں سرکاری اور نجی اسکولوں کی کوئی تفریق نہیں۔ شاید ایلیٹ کلاس کے اسکولوں کے بچے اس عذاب سے محفوظ ہوں یا ان کے عذاب کچھ اور نوعیت کے ہوں گے۔ڈسپلن زندگی کا لازمی حصہ ہے اور تعلیمی اداروں میں اس کو سکھانا اور اس کی پابندی کرانا تدریس کے واجبات میں شامل ہوتا ہے لیکن اس کے طریقہ کار اور اطلاق میں کمال احتیاط اور تدبر کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے کہ مبادا کہیں کچے ذہن کا مالک طالب علم تعلیم، اسکول اور استاد سے ہی بیزار نہ ہو جائے اور اسکول سے دور بھاگنا شروع ہو جائے۔ ہمارے ہاں دور دراز کے شہروں میں ویسے ہی تعلیم حاصل کرنے کا چلن کم ہے، تعلیمی سہولتیں بھی مفقود ہیں اور کہیں تو تعلیم حاصل کرنے کی حوصلہ شکنی بھی کی جاتی ہے، کہیں تو والدین خودبچوں کو اسکول بھیجنے سے گریزاں ہوتے ہیں کہ پڑھ لکھ کر انہیوں نے کونسا تیر مار لینا ہے، اس کے بعد تو یہ محنت مزدوری سے بھی جائیں گے۔ایسے میں اگر اسکولوں سے ایسی خبریں آنا شروع ہو جائیں اورستاد کا ایسا امیج ذہنوں میں پیدا ہو نے لگے تو پھر کون اپنے لخت جگر کو پڑھنے اسکول بھیجے گا؟ ہمارے ہاں اسکولوں میں اساتذہ کی بھرتی کا عمل بھی ایک مذاق سے کم نہیں ہوتا۔ سیاسی اثر ورسوخ، سفارش اور مختلف اقسام کے ایجنٹوں کوپیسے دے کر اسکولوں میں ملازمت حاصل کر نے کا رجحان پچھلے کئی سالوں سے زوروں پر ہے۔ ایسے میں کون اساتذہ کا انٹرویو کرتا ہے ، کون ان کی استعداد کو جانچتا ہے، کون ان کے رجحانات کا جائزہ لیتا ہے اور کون ان کی نفسیاتی کیفیت کو پرکھتا ہے؟ ظاہر ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوتاہوگا، جبھی ذہنی مریض اور تشدد پسند نفسیاتی افراد اس مقدس پیشے میں داخل ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اورتمام اساتذہ کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔ ان تمام بد اعمالیوں کی ذمہ داری صوبائی انتظامیہ اور محکمہ تعلیم پر عائد ہوتی ہے، جنہیں بد قسمتی سے خود اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کا احساس نہیں ہوتا۔دنیا کے33ویں بدعنوان ملک میں ایسا ہوتا آرہا ہے اور نہ جانے کب تک ایسا ہوتا رہے گا؟
دن بدن ان سزاؤں کی نوعیت اور شکلیں بھی بدلتی جارہی ہیں۔ سخت گرمی میں دھوپ میں ایک پاؤں پر کھڑا کر دینا، چہرے پر سیاہی مل دینا،لڑکوں کے ماتھے سے بال کاٹ دینا، لڑکیوں کے بال کاٹ دینا، بالوں میں مٹی ڈال دینا، انگلیوں میں پین پھنسا کر زور سے دبانا، کرسی بن کر میدان کا چکر لگانا اور نہ جانے کون کون سی سزائیں ہیں جو اسکولوں کے طالب علم مختلف نوعیت کے ”جرائم‘ ‘ میں بھگتتے ہیں۔ اس میں سرکاری اور نجی اسکولوں کی کوئی تفریق نہیں۔ شاید ایلیٹ کلاس کے اسکولوں کے بچے اس عذاب سے محفوظ ہوں یا ان کے عذاب کچھ اور نوعیت کے ہوں گے۔ڈسپلن زندگی کا لازمی حصہ ہے اور تعلیمی اداروں میں اس کو سکھانا اور اس کی پابندی کرانا تدریس کے واجبات میں شامل ہوتا ہے لیکن اس کے طریقہ کار اور اطلاق میں کمال احتیاط اور تدبر کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے کہ مبادا کہیں کچے ذہن کا مالک طالب علم تعلیم، اسکول اور استاد سے ہی بیزار نہ ہو جائے اور اسکول سے دور بھاگنا شروع ہو جائے۔ ہمارے ہاں دور دراز کے شہروں میں ویسے ہی تعلیم حاصل کرنے کا چلن کم ہے، تعلیمی سہولتیں بھی مفقود ہیں اور کہیں تو تعلیم حاصل کرنے کی حوصلہ شکنی بھی کی جاتی ہے، کہیں تو والدین خودبچوں کو اسکول بھیجنے سے گریزاں ہوتے ہیں کہ پڑھ لکھ کر انہیوں نے کونسا تیر مار لینا ہے، اس کے بعد تو یہ محنت مزدوری سے بھی جائیں گے۔ایسے میں اگر اسکولوں سے ایسی خبریں آنا شروع ہو جائیں اورستاد کا ایسا امیج ذہنوں میں پیدا ہو نے لگے تو پھر کون اپنے لخت جگر کو پڑھنے اسکول بھیجے گا؟ ہمارے ہاں اسکولوں میں اساتذہ کی بھرتی کا عمل بھی ایک مذاق سے کم نہیں ہوتا۔ سیاسی اثر ورسوخ، سفارش اور مختلف اقسام کے ایجنٹوں کوپیسے دے کر اسکولوں میں ملازمت حاصل کر نے کا رجحان پچھلے کئی سالوں سے زوروں پر ہے۔ ایسے میں کون اساتذہ کا انٹرویو کرتا ہے ، کون ان کی استعداد کو جانچتا ہے، کون ان کے رجحانات کا جائزہ لیتا ہے اور کون ان کی نفسیاتی کیفیت کو پرکھتا ہے؟ ظاہر ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوتاہوگا، جبھی ذہنی مریض اور تشدد پسند نفسیاتی افراد اس مقدس پیشے میں داخل ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اورتمام اساتذہ کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔ ان تمام بد اعمالیوں کی ذمہ داری صوبائی انتظامیہ اور محکمہ تعلیم پر عائد ہوتی ہے، جنہیں بد قسمتی سے خود اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کا احساس نہیں ہوتا۔دنیا کے33ویں بدعنوان ملک میں ایسا ہوتا آرہا ہے اور نہ جانے کب تک ایسا ہوتا رہے گا؟
No comments:
Post a Comment