ایچ آئی وی – ایڈز کا شکار چند پاکستانی مریضوں کے ساتھ گفتگو
بہت مشکل حالات تھے۔ ہم 'جوائنٹ فیملی' میں رہتے ہیں۔ جب ہماری بیماری کا خاندان والوں کو پتا چلا تو سب نے آنکھیں پھیر
۔ ہمارے بچے گھر سے باہر نکلتے تھے تو ہمارے سگے بہن بھائی اور ان کے بچے اپنے اپنے گھروں کے دروازے بند کرلیتے تھے"۔
یہ الفاظ کہتے ہوئے حنا مہتاب نے نظریں جھکا رکھی تھیں۔ ہماری گفتگو کے دوران میں بیشتر وقت ان کی نگاہیں جھکی رہیں اور میں سوچتا رہا کہ ان جیسی شرمیلی اور خاموش طبع خاتون کے لیے اپنے آس پاس والوں کی یہ بے حسی جھیلنا کتنا کرب ناک ہوگا؟
حنا کی عمر 32 سال ہے اور وہ گزشتہ سات سالوں سے ایڈز کا شکار ہیں۔ انہیں یہ مرض اپنے شوہر محمد مہتاب سے لگا ۔ یہ جوڑا اپنے چار بچوں کے ساتھ نارتھ کراچی میں رہائش پذیر ہے۔ ان میاں بیوی سے ہماری ملاقات کا اہتمام 'سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام' نے کیا تھا جو گزشتہ کئی برسوں سے ان دونوں کے علاج معالجے کی نگرانی کر رہا ہے۔
حنا کے شوہر مہتاب 1998ء میں ملازمت کے لیے دبئی گئے تھے جہاں وہ ایک ہوٹل میں ملازم رہے
۔ چالیس سالہ محمد مہتاب کے بقول، "میں پاکستان آتا جاتا رہتا تھا۔ اس دوران میں ہمارے ہاں چار بچے ہوئے۔ 2005ء میں میری طبیعت خراب رہنے لگی تو میں مستقل پاکستان آگیا۔ یہاں ڈاکٹروں کو دکھایا تو پتا چلا کہ مجھے ایڈز ہے اور میری لاعلمی میں میری بیوی بھی اس مرض کا شکار ہوچکی ہے"۔
لیکن خوش قسمتی سے اس جوڑے کے چاروں بچے اس موذی مرض سے محفوظ ہیں۔ محمد مہتاب تسلیم کرتے ہیں کہ انہیں یہ مرض دبئی میں قائم کیے گئے غیر ازدواجی تعلقات کے نتیجے میں لاحق ہوا اور انہیں اس حقیقت کا بھی بخوبی ادراک ہے کہ چند لمحوں کی غلط روی کی سزا اب انہیں پوری عمر بھگتنی ہے۔
حنا مہتاب کے بقول، "ہم نے بہت مشکلوں کا سامنا کیا۔ یہاں تک کہ جب ہم علاج کے لیے اسپتال جاتے تھے تو وہاں بھی عملہ اور دیگر مریض ہمارے نزدیک آنے سے خوفزدہ رہتے تھے"۔
"نرسیں کہتی تھیں کہ یہ ایڈز کے مریض ہیں، انہیں دستانے پہن کر ہاتھ لگائو۔ بہت مشکل ہوتی تھی۔ سب یوں دیکھتے تھے اور دور بھاگتے تھے جیسے ہم انسان نہ ہوں"۔
لیکن ان کے بقول اب حالات تبدیل ہوئے ہیں۔ ان کی بیماری کے سامنے آنے کے بعد انہوں نے خود کو علاج کے لیے سرکاری پروگرام میں رجسٹرڈ کرایا جس کے تعاون سے بعض غیر سرکاری تنظیموں نے ان سے رابطے کیے۔
"یہ ڈاکٹر لوگ ہمارے محلے میں آئے، انہوں نے ہمارے رشتے داروں اور پڑوسیوں کے ساتھ کئی ملاقاتیں کیں، انہیں سمجھایا کہ انہیں ہم سے یہ مرض نہیں لگےگا۔ اب ماحول بدل گیا ہے۔ لوگ ہم سے ملتے بھی ہیں اور ہمارے بچے ان کے بچوں کے ساتھ کھیلتے ہیں۔ لیکن زندگی اب بھی مشکل ہے"۔
ایڈز کا شکار ایسا ہی ایک جوڑا 48 سالہ محمد اکرام اور ان کی بیوی مسرت شاہین ہیں جو کراچی کی شاہ فیصل کالونی میں رہائش پذیر ہیں۔
محمد اکرام کہتے ہیں کہ وہ گھر والوں سے چھپ کر ہیروئن کا نشہ کیا کرتے تھے۔ پھر ساتھیوں کی شہ پر سرنج کے ذریعے یہ زہر اپنی رگوں میں اتارنے لگے اور اس دوران میں دوسروں کے زیرِ استعمال رہنے والی کسی سرنج سے یہ مرض انہیں لگا۔
لیکن پہلے اس بیماری کی تشخیص ان کی بیوی میں ہوئی جو بالائی سندھ کے علاقے کندھ کوٹ سے تعلق رکھتی ہیں۔
مسرت شاہین نے بتایا کہ انہیں 2008ء میں پتا چلا کہ وہ 'ایڈز' کا شکار ہوچکی ہیں۔ "میں مسلسل بیمار چلی آرہی تھی۔ میرے خاندان میں کئی ڈاکٹر ہیں۔ انہوں نے 'ایچ آئی وی' کا ٹیسٹ کرانے کا مشورہ دیا۔ نتیجہ آیا تو پتا چلا کہ مجھے ایڈز ہے۔ پھر خاندان والوں نے شوہر سے کہا کہ وہ بھی اپنا ٹیسٹ کرائیں تو علم ہوا کہ مجھے یہ مرض انہی سے لگا ہے"۔
مسرت چھ بھائیوں کی اکلوتی بہن ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ان کے خاندان کے لیے یہ خبر بم سے کم نہیں تھی۔ لیکن چوں کہ سب پڑھے لکھے تھے لہذا معاملات سنبھلے رہے اور رشتے داروں نے ان کی بہت مدد کی۔
"میرے شوہر کی حالت مجھ سے زیادہ خراب تھی۔ مہینوں تک وہ بستر سے لگے رہے۔ بہت مشکل وقت تھا۔ لیکن کسی طور کاٹ ہی لیا۔ اب بہتر ہیں۔ دوائیں لیتے ہیں۔ لیکن بہت احتیاط کرنی پڑتی ہے۔ اور آئے روز کی بیماری تو اب عمر بھر ساتھ ہی چلنی ہے"۔
سندھ میں 5182 'ایچ آئی وی پازیٹو' مریض موجود ہیں۔ 2012ء میں جنوری سے ستمبر تک 635 افراد میں اس مرض کی تصدیق ہوئی
یہ دونوں جوڑے 'ایڈز' کے تدارک اور علاج معالجے سے متعلق صوبائی حکومت کے منصوبے 'سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام' کے پاس رجسٹرڈ ہیں جو ان کے علاج معالجے کی نگرانی کرتا ہے۔
پروگرام کے ڈپٹی منیجر ڈاکٹر قمر عباس کہتے ہیں کہ حکومت اور غیر سرکاری تنظیموں کی مسلسل کوششوں کے باعث 'ایڈز' کے متعلق عوام میں خاصی آگہی پیدا ہوئی ہے لیکن اب بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
"معاشرہ اب بھی اس مرض کو قبول کرنے پر تیار نہیں جس کے باعث لوگ اپنا 'ایچ آئی وی' ٹیسٹ کراتے ہوئے ڈرتے ہیں اور کئی مریض اپنی بیماری چھپاتے ہیں"۔
ڈاکٹر قمر عباس کے بقول اس خوف کی بنیادی وجہ یہ عمومی تاثر ہے کہ 'ایڈز' صرف غیر ازدوجی تعلقات کے نتیجے ہی میں لگتا ہے۔ "جسے ایڈز ہو اس کےبارے میں پہلا تاثر یہی ابھرتا ہے کہ ضرور اس کا کسی سے ناجائز تعلق رہا ہوگا۔ حالاں کہ یہ دیگر وجوہات میں سے ایک وجہ ہے"۔
ڈاکٹر قمر کے مطابق ابتداً سندھ میں 'ایچ آئی وی' کے جو کیسز رپورٹ ہورہے تھے ان میں سے بیشتر کی وجہ غیر ازدواجی تعلقات تھے۔ لیکن ان کے بقول 2003ء کے بعد سے صوبے میں 'سرنج انفیکشن' کے کیسز بڑھ گئے ہیں اور اب سندھ میں ایڈز پھیلنے کی سب سے بڑی وجہ 'استعمال شدہ' سرنج ہے جو نشے کی لت میں گرفتار افراد میں عام ہے۔
'سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام' کے مطابق اس وقت صوبے میں 'ایچ آئی وی-پازیٹو' 5182 مریض موجود ہیں جن میں سے 1953 کے علاج معالجے کی نگرانی پروگرام کر رہا ہے۔
اس پروگرام سے فیضیاب ہونے والوں میں محمد مہتاب اور حنا مہتاب اور اکرام اور مسرت شاہین بھی شامل ہیں۔ کئی مہینوں تک تکالیف اور مشکل وقت کاٹنے کے بعد اب یہ دونوں جوڑے تقریباً اپنی معمول کی زندگی کی جانب لوٹ آئے ہیں۔
مہتاب نارتھ کراچی میں اپنا ایک 'اسنوکر کلب' چلا کر گزر بسر کر رہے ہیں جب کہ محمد اکرام 'اسکریپ' کا کاروبار کرتے ہیں۔ مہتاب کے بقول، "زندگی مشکل تو ہے، بیماری بھی چلتی رہتی ہے لیکن اپنے بچوں کو دیکھتا ہوں تو حوصلہ ملتا ہے کہ ان کے مستقبل کے لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہے
No comments:
Post a Comment