اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ بین الاقوامی دباؤ میں آ کر مشرقی یروشلم اور غرب اردن میں آباد کاروں کے لیے تین ہزار نئے گھر بنانے کے منصوبے کو ترک نہیں کرے گا۔
وزیرِ اعظم بنیامین نتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل ہمیشہ اپنے ’اہم مفادات‘ سامنے رکھے گا اور اپنا فیصلہ نہیں بدلے گا۔
برطانیہ، فرانس، سپین، ڈنمارک اور سویڈن نے تعمیرات کے اس منصوبے پر اپنے اپنے ملک میں موجود اسرائیلی سفیروں کو طلب کر کے ان سے احتجاج کیا ہے۔
امریکہ نے بھی اسرائیل سے کہا ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر ازسرِ نو غور کرے۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنے نے کہا کہ ’ہم اسرائیلی رہنماؤں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے ان یکطرفہ فیصلوں پر ازسرِ نو غور کریں اور ضبط کا مظاہرہ کریں، کیونکہ اس طرح کے عوامل سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا، اور براہ راست مذاکرات شروع کرنے میں دشواری ہوتی ہے۔‘
روس، جرمنی اور اقوامِ متحدہ نے بھی اسرائیلی منصوبے پر اعتراض کیا ہے۔
برطانیہ، فرانس، سپین، ڈنمارک اور سویڈن نے تعمیرات کے اس منصوبے پر اپنے اپنے ملک میں موجود اسرائیلی سفیروں کو طلب کر کے ان سے احتجاج کیا ہے۔
امریکہ نے بھی اسرائیل سے کہا ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر ازسرِ نو غور کرے۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنے نے کہا کہ ’ہم اسرائیلی رہنماؤں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے ان یکطرفہ فیصلوں پر ازسرِ نو غور کریں اور ضبط کا مظاہرہ کریں، کیونکہ اس طرح کے عوامل سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا، اور براہ راست مذاکرات شروع کرنے میں دشواری ہوتی ہے۔‘
روس، جرمنی اور اقوامِ متحدہ نے بھی اسرائیلی منصوبے پر اعتراض کیا ہے۔
برطانیہ کے مطابق یہ اقدام اسرائیل کی جانب سے ’امن کے لیے دی گئی یقین دہانیوں‘ کو مشتبہ کر رہا ہے۔
اسرائیلی حکام نے مقبوضہ مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے پر مزید تین ہزار رہائشی یونٹ تعمیر کرنے کی منظوری دی ہے۔
واضح رہے کہ اسرائیل کی جانب سے یہ اعلان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے فلسطین کو غیر رکن مبصر ریاست کا درجہ ملنے کے بعد سامنے آیا۔
اس سے پہلے اقوام متحدہ کے سیکٹری جنرل بان کی مون نے خبردار کیا تھا کہ اسرائیل کا مشرقی یروشلم کے مقبوضہ علاقوں میں مزید مکانات تعمیر کرنے کا اعلان امن کی کوششوں کے لیے ایک تباہ کن دھچکا ثابت ہوگا۔
برطانوی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ’برطانیہ اسرائیل کا تین ہزار مکانات اور ای
1
بلاک میں تعمیرات کے اعلان پر افسوس کا اظہار کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ دو ریاستی منصوبے کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔‘
بان گی مون کا کہنا تھا کہ ان مکانات کی تعمیر کے بعد مشرقی یروشلم کے فلسطینیوں کے مغربی کنارے سے روابط مکمل طور پر منقطع ہو جائیں گے۔
بان گی مون نے اسرائیلی اعلان کے بارے میں شدید تشویش اور مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’اس اعلان سے مشرقِ وسطیٰ میں دو ریاستی حل کی کوششوں کو شدید نقصان پہنچے گا۔‘
اس سے قبل امریکہ نے بھی اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ علاقوں پر مکانات تعمیر کرنے کے اعلان پر تنقید کی تھی۔ امریکی وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن کا کہنا تھا کہ اسرائیل کا اعلان مذاکرت کے لیے ایک ’دھچکا‘ ہے۔
یورپی یونین کی خارجہ امور کی ذمہ دار کیتھرین ایشٹن کا بھی کہنا تھا کہ بڑے پیمانے پر تعمیرات کا اعلان پریشانی کا باعث ہے۔
مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے پر قبضے کے بعد سے تعمیر کی گئی ایک سو اسرائیلی آبادیوں میں پانچ لاکھ کے قریب یہودی رہائشی ہیں۔
ان آبادیوں کو بین الاقوامی قوانین کے تحت غیر قانونی مانا جاتا ہے تاہم اسرائیل اس کی تردید کرتا ہے۔
فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے مابین دو دہائیوں سے جاری مذاکرات کسی حتمی حل پر نہیں پہنچ سکے ہیں۔
No comments:
Post a Comment