راحت اللہ پاکستانی
اس نے کراچی میں لوکل باڈیز کا انتخاب بھی راحت اللہ پاکستانی کے نام ہی سے لڑا اور ٹھیک ٹھاک شکست کھائی۔ وقت گذرا، تو ہم دوستوں کا گروپ بھی تتر بتر ہوگیا، میں امریکہ چلا آیا، سجاد لاہور چلا گیا، اور عقیل نے بھی امریکہ کی راہ لی
اس تنظیم کے پہلے ہی اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ہم سب اپنے نام کے ساتھ پاکستانی لگائیں گے۔ یاد رہے کہ یہ جنرل ضیاالحق کا دور تھا۔ لہذا، ہم سب کا، آخری نام، پاکستانی ہوگیا۔ میں فیض الرحمن صدیقی کی بجائے فیض الرحمن پاکستانی اور راحت اللہ فاروقی ، راحت اللہ پاکستانی بن گئے۔ اس تنظیم کا ہر پریس ریلیز ہمارے ان نئے ناموں کے ساتھ ،صوبائی عصبیت اور فرقہ واریت کے خلاف جہاد کرنے والی تنظیم ’ہسپاہ‘ سے شروع ہوتا تھا۔
راحت اللہ پاکستانی نے نہ صرف پاکستانی کا لاحقہ اپنے ساتھ برقرار رکھا، بلکہ کئی موقعے ملنے کے باوجود پاکستان چھوڑنے سے انکار کردیا۔ راحت کا جینا مرنا پاکستان تھا۔ ہمیشہ شلوار قمیض زیب تن کی۔
میں نے کبھی بھی اسے کسی اور لباس میں نہیں دیکھا۔ اس نے کراچی میں لوکل باڈیز کا انتخاب بھی راحت اللہ پاکستانی کے ہی نام سے لڑا اور ٹھیک ٹھاک شکست کھائی۔ وقت گذرا تو ہم دوستوں کا گروپ بھی تتر بتر ہوگیا، میں امریکہ چلا آیا، سجاد لاہور چلا گیا، اور عقیل نے بھی امریکہ کی راہ لی۔ لیکن راحت ہم لوگوں کے اصرار کے باوجود اڑا رہا۔ انجمن ترقی علوم و فنون کے امان اللہ خان کے بعد اگر میں نے کسی اور کو بچوں کی اخلاقی اور پیشہ وارانہ تربیت کرتے ہوئے دیکھا ہے تو وہ راحت ہی تھا۔ ہسپاہ بنانے کو بعد کچھ اور دوستوں کی مدد سے ہم نے پاکستان اسٹوڈینٹس اکیڈمی کی بنیاد رکھی جہاں بچوں کو ٹیوشن پڑھائی جاتی تھی، اور تربیتی پروگرامز کیے جاتے تھے۔ راحت نے اس کام کو جاری رکھا۔ اسکی بےنیازی ، بے خودی، اور بے غرضی سےاسکے دوست نالاں ہی رہتے تھے۔ وہ انتہائی ذہین طالب علم تھا۔ قدرت نے اسے مالی آسودگی عطا کی تھی اور وہ خاموشی سے کئی غریب طلباء و طالبات کی مدد کرتا تھا۔ کئی غریب خاندان اسکی خاموش مدد کے لیے اس کے احسان مند تھے۔
راحت لاڈ پیار سے پلا بڑھا تھا ۔ لڑکپن میں ایک حادثے میں اپنی ایک ٹانگ گنوا بیٹھا تو ماں باپ اور بہن بھائیوں نے کچھ زیادہ ہی خیال کرنا شروع کردیا جس سے اسکی طبیعت میں ایک ضد سی آگئی۔ اپنے فیصلوں پر اڑ جانا اسکا معمول تھا اور اپنے نظریات میں معمولی سی لچک اسکے لیے ناقابل غور تھی۔ اسکے دوستوں نے کئی موقعوں پر اسے علاج کے لیے امریکہ آنے کو کہا لیکن اس نے ہمیشہ سختی سے منع کردیا۔ بڑا گھسا پٹا سا جملہ ہے لیکن واقعتا راحت اللہ پاکستانی کا جینا مرنا پاکستان کے لیے تھا۔ مجھ سے اسے ہلکا سا گلہ بھی تھا کہ میں ہسپاہ کا بانی ہونے کا باوجود امریکہ سدھار گیا! لیکن بقول شخصے۔۔اور معمولی تصرف کے ساتھ۔۔ پاکستانیت تو ایک کیفیت کا نام ہے، جسکا شکار تھوڑی کمی بیشی کے ساتھ ہم دونوں ہی رہے۔ راحت تو راحت اللہ پاکستانی بن کر پاکستان میں ہی ڈٹا رہا ، لیکن میں نے امریکہ میں اپنی تعلیم کے دوران ہی لاس اینجلس سے ہفت روزہ پاکستان لنک شروع کردیا۔
راحت اللہ پاکستانی بہت سے لوگوں کے خیال میں پاکستانی ہونے کی وجہ سے مارا گیا۔ کرکٹ کا بے انتہا شوق تھا۔ پاکستان اور آسٹریلیا کا میچ جاری تھا، پاکستان کی کامیابی پر اتنا خوش اور جذباتی ہوگیا کہ معمولی سا اسٹروک ہوگیا ۔ہر چند کہ اسے وقت پر کراچی کے ایک مقامی نجی اسپتال لے جایا گیا لیکن بائیس دن موت و زیست کی کشمکش میں گزار کر یہ بلا کا پاکستانی چل بسا۔ معلوم ہوا کے اسپتال کے شعبہ انتہائی نگہداشت میں انفیکشن کی شرح 68 فی صد تھی۔ یہ ضدی پاکستانی اسٹروک سے تو سنبھل گیا اور ہوش میں آگیا ، لیکن ایک شفا خانے میں موجود انفکشن سے مارا گیا۔ یہ اسکے مرنے کی عمر نہیں تھی! میں اب بھی سوچتا ہوں کہ اگر وہ امریکہ میں ہوتا تو شائد بچ جاتا!
اسکے مرنے کے کچھ ہی دن بعد میرا پاکستان جانا ہوا۔ اسکے بیٹے سے مل کر میرے آنسو رواں تھے۔ میں نے اس سے کہا، بیٹا اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ آجاؤ۔ اس بچے نے بغیر کسی تذبذب کے فوراً جواب دیا: ’فیض چاچو ہم پاکستان نہیں چھوڑیں گے‘۔
No comments:
Post a Comment