کرغیزستان کی پارلیمان ملک میں دلہنوں کے اغوا کو روکنے کی لیے جرمانے کی سزا بڑھانے کے لیےملک میں قانون سازی کرنا چاہتی ہے۔
کرغیزستان میں اس بل کے حوالے سے بحث جاری ہے جس
نے ملک کی پارلیمان اور سوسائٹی کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ اس بل کے
حامی افراد کا کہنا ہے کہ کرغیزستان میں دلہن کا اغوا ایک روایت ہے جبکہ اس
کے مخالفین کے مطابق ایسا کرنا جرم ہےواضح رہے کہ کرغیزستان میں دلہن کے اغوا کا رواج بہت دور تک پھیلا ہوا ہے۔
کرغیزستان کے محتسب کے دفتر کی جانب سے جاری ہونے والے اعدادوشمار کے مطابق ملک میں ایک اندازے کے مطابق ہر سال آٹھ ہزار لڑکیوں کو زبردستی شادی کے لیے اغوا کیا جاتا ہے۔
کرغرستان کے دارالحکومت بشکیک میں واقع خواتین کی مدد کرنے والے مرکز نے ہر سال اغوا ہونے والی لڑکیوں کی تعداد بارہ ہزار کےقریب بتائی ہے۔
اس مرکز کے مطابق لڑکیوں کو اغوا کرنے کے واقعات زیادہ تر غریب اور دور دراز علاقوں میں پیش آتے ہیں۔
خواتین کی مدد کرنے والا یہ مرکز کرغیزستان میں دلہنوں کے اغوا کے خلاف سرگرم عمل ہے۔
اڑتیس سالہ زبیلہ متایوا خاندانی جھگڑے کے بعد گزشتہ سال اس مرکز کی رضا کار بنیں۔ زبیلہ کی بہن چولپون متایوا کو ان کے شوہر نے شادی کے لیے اغوا کیا اور وہ انہیں اکثر تشدد کا نشانہ بنایا کرتا تھا۔
جب زبیلہ کی بہن چولپون نے اپنے خاوند سے شادی کے دس برس بعد طلاق کا مطالبہ کیا تو ان کے شوہر نے انہیں چاقو کے وار کر کے ہلاک کر دیا۔ اس جرم کے وجہ سے چولپون کے شوہر کو انیس برس کی قید سنائی گئی۔
چولپون کو جب ان کے شوہر نے انیس برس کی عمر میں شادی کے لیے اغوا کیا تو وہ ان کے بارے میں زیادہ نہیں جانتی تھیں۔ وہ ان کے ساتھ شادی نہیں کرنا چاہتی تھیں تاہم دوسری خواتین کی طرح وہ خوف اور شرم کی وجہ سے ان کو چھوڑنا بھی نہیں چاہتی تھیں۔
زبیلہ کا کہنا ہے کہ کرغیزستان میں یہ ایک قانون کی طرح ہے کہ اگر آپ کو اغوا کر لیا جاتا ہے تو آپ کو اس شخص کے ساتھ ہر صورت میں رہنا پڑتا ہے۔
زبیلہ کے مطابق چولپون کو اپنے شوہر کے رشتہ داروں کی جانب سے بہت زیادہ نفسیاتی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
زبیلہ نے بتایا کہ ان کی بہن کو ان کے شوہر کے رشتے دار بتایا کرتے تھے کہ انہیں بھی ان کی طرح اغوا کیا گیا تھا اور شوہر کے گھر میں آنسووں کے ساتھ داخل ہونا آنے والی زندگی کے لیے خوشی کا باعث ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کی بہن کا خیال تھا کہ اگر انہوں نے اپنے خاوند کا گھر چھوڑ دیا تو ان کی زندگی ختم ہو جائے گی اور ایسا کرنے سے ان کے خاندان کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
کرغیزستان میں اغوا ہونے والی خواتین کو پہلی رات زبردستی رہنے کےلیے مجبور کیا جاتا ہے اور ایک طرح سے یہ عصمت دری ہی ہوتی ہے۔
اس کے بعد متعدد خواتین شادی کے لیے راضی ہو جاتی ہیں کیونکہ دوسری صورت میں انہیں بہت زیادہ بدنامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اگر اغوا ہونے والی خواتین ان مردوں کو چھوڑنے کا فیصلہ کرتی ہیں تو انہیں بد کار تصور کیا جاتا ہے اور ان سے کوئی بھی شادی نہیں کرنا چاہتا۔
کرغیزستان میں خواتین سے تعلق رکھنے والی مختلف تنظیموں نے گزشتہ برس اس جرم کے خلاف ’ون فائیو فائیو‘ نامی مہم شروع کی۔
ان تنظیموں نے کرغیزستان میں حالیہ قانون سازی کے خلاف عوام کی توجہ حاصل کرنے کے لیے موٹر سائیکل جلوسوں، خاکوں اور سیمیناروں کا انعقاد کیا۔
ان تنظیموں نے چولپون کے کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تشدد سے شروع ہونی والی کوئی بھی شادی کامیاب نہیں ہو سکتی۔
کرغیزستان میں ہونے والی ممکنہ قانون سازی کے مطابق ایسے کسی بھی شخص کو جو کسی بھی خاتون کو زبردستی شادی کرنے کے لیے کو اغوا کرے، جرمانہ یا زیادہ سے زیادہ تین برس کی قید کی سزا سنائی جائے گی۔
کرغیزستان کی پارلیمان میں پیش کیے جانے والے نئے بل میں ایسے افراد کو کم سے کم سات سال کی سزا کی بجائے دس برس کی سزا دینے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
خواتین کی مدد کرنے والے مرکز کی رکن رما نے اس بل پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کرغیزستان میں بھینس چوری کرنے کی سزا گیارہ برس ہے جبکہ ایک لڑکی کو اغوا کرنے کی سزا زیادہ سے زیادہ تین سال ہے۔
اس بل کو تیار کرنے والی کرغیزستان کی رکنِ پارلیمان انیرو کا کہنا ہے کہ موجودہ قانون سازی کے تحت ایسے کیسوں کی بہت کم پیروی ہوتی ہے جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ متاثرہ لڑکی یا خاتون کی جانب سے کیس داخل کرانے کے بعد ہی ملوث شخص کے خلاف کارروائی کا آغاز ہوتا ہے۔
کرغیزستان کی ایک دوسری رکن پارلیمان کوجوبک کے مطابق اگر دلہن کے اغوا کاروں کے خلاف سزا کو بڑھا دیا گیا تو اس صورت میں کرغیزستان کے تمام مردوں کو جیل میں ڈالنا پڑے گا۔
No comments:
Post a Comment