ca-app-pub-4820796287277991/7704934546 Batkhela news.100news Daily Updates News Funny Video Movie Songs

Monday, 26 November 2012

’سگریٹ نوشی سے دماغ گل سڑ جاتا ہے‘

برطانوی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ سگریٹ نوشی سے یادداشت، سیکھنے اور استدلال کی قوتیں متاثر ہوتی ہے اور اس کے باعث دماغ گل سڑ جاتا ہے۔
یہ تحقیق لندن کی کنگز کالج نے کی ہے اور یہ ایج اینڈ ایجنگ جرنل میں شائع ہوئی ہے۔
اس تحقیق میں پچاس برس سے زیادہ عمر کے 8800 افراد کا مشاہدہ کیا گیا۔ ان میں سے زیادہ افراد کو بلڈ پریشر کی تکلیف اور موٹاپے سے بھی دماغ متاثر ہونے کے شواہد ملے۔ لیکن یہ اثرات تمباکو نوشی سے ہونے والے اثرات سے کم تھے۔
اس تحقیق میں شامل سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ لوگوں کو خیال رکھنا چاہیے کہ طرزِ زندگی سے بھی جسم کے ساتھ ساتھ دماغ متاثر ہوتا ہے۔
اس تحقیق میں سائنسدانوں نے امراضِ قلب ہونے کے امکانات اور دماغی حالت کے درمیان روابط ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔
تحقیق میں پچاس سال سے زائد عمر کے ایک گروپ کے طرزِ زندگی اور صحت کے باری میں اعداد و شمار لیے گئے۔ ان کا دماغی ٹیسٹ لیا گیا جس میں ان کو نئے الفاظ سیکھنے یا ایک منٹ میں زیادہ سے زیادہ جانوروں کے نام بتانے کا کہا گیا۔
ان افراد کا یہی ٹیسٹ دوبارہ چار سال بعد اور پھر آٹھ سال بعد لیا گیا۔
مجموعی طور پر یہ دیکھا گیا کہ جن افراد کی سمجھ بوجھ کی قوت میں کمی آئی ان میں امراضِ قلب ہونے کے امکانات زیادہ تھے۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ ان ٹیسٹوں میں بری کارکردگی کا تعلق سگریٹ نوشی سے بنتا تھا۔
اس تحقیق میں شامل ایک سائنسدان ڈاکٹر ایلکس ڈریگن کا کہنا ہے ’سمجھ بوجھ کی قوت عمر کے ساتھ ساتھ کم ہوتی جاتی ہے جس کے باعث کئی افراد کو روز مرہ کی زندگی میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ تاہم اس کو روکا جا سکتا ہے اگر لوگ اپنی طرزِ زندگی کو تبدیل کر لیں۔‘
برطانیہ میں الزائمر ریسرچ میں کام کرنے والے ڈاکٹر سائمن رڈلی کا کہنا ہے ’تحقیق میں کئی بار سگریٹ نوشی اور بلڈ پریشر کا تعلق دماغی صلاحیت میں کمی کے ساتھ جوڑا گیا ہے اور یہ نئی تحقیق اس تعلق کو مزید پختہ کرتی ہے۔

حامد میر کی گاڑی کے نیچے سے دھماکہ خیز مواد برآمد

پاکستان کے وزیر داخلہ رحمان ملک کا کہنا ہے کہ صحافی حامد میر کی گاڑی میں دھماکہ خیز مواد نصب کیے جانے کے واقعے کی تحقیقات شروع کی دی گئی ہے۔
اس سے پہلے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں نجی ٹی وی چینل جیو کے اینکر پرسن حامد میر کی گاڑی میں نصب کیا گیا بارودی مواد ناکارہ بنا دیا گیا تھا۔
سرکاری ریڈیو نے انسپکٹر جنرل پولیس اسلام آباد کے حوالے سے بتایا کہ پیر کو حامد میر کی گاڑی کے نیچے نامعلوم افراد نے بارودی مواد نصب کیا تھا۔
ان کے مطابق اطلاع ملنے پر پولیس بم ڈسپوزل سکواڈ نے بارودی مواد کو ناکارہ بنا دیا۔
وزیر داخلہ رحمان ملک نے ملزمان کی گرفتاری میں مدد کے لیے معلومات فراہم کرنے والے کو پانچ کروڑ نقد انعام دینے کا اعلان کیا ہے۔
رحمان ملک کے بقول نصب کیے جانے والا دھماکہ خیز مواد بڑا طاقت ور تھا اور اس کے پھٹنے سے بڑی تباہی پھیل سکتی تھی۔
پیر کو وزیر داخلہ نے صحافی حامد میر کے ہمراہ صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حامد میر کو مکمل سکیورٹی فراہم کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کی طرف سے صحافیوں کو دھمکیاں مل رہی ہیں۔
رحمان ملک کے بقول ملک میں چوکیداری نظام متعارف کرایا جا رہا ہے تاکہ دہشت گردی کی ایسی کارروائیوں کو روکا جا سکے۔
حامد میر نے جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ پیر صبح اپنے ڈرائیور کے ساتھ کسی کام سے مارکیٹ گئے اور گاڑی ایک جگہ پارک کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ دھماکہ خیز مواد ان کی سیٹ کے نیچے نصب کیا گیا تھا۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق اسلام آباد میں حامد میر کی رہائش گاہ پر کھڑی ان کی گاڑی میں نصف کلوگرام دھماکہ خیز مواد نصب کیا گیا تھا۔
حامد میر نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خطرے کے حوالے سے چند دن پہلے وزارتِ داخلہ کو لکھے گئے ایک خط میں ان کا ذکر تھا۔
گزشتہ ماہ اکتوبر میں پاکستان کی وادی سوات میں طالبان کے حملے میں زخمی ہونے والی ملالہ یوسفزئی کی کوریج کرنے کے حوالے سے طالبان نے حامد میر سمیت متعدد صحافیوں کو ٹارگٹ کرنے کی دھمکی دی تھی۔
خیال رہے کہ صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیمیں پاکستان کو صحافیوں کے لیے ایک خطرناک ملک قرار دیتی ہیں۔
اس سے پہلے بھی ملک میں صحافیوں کو دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کئی اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔

لاہور’کھانسی کا شربت‘ پینے سے سولہ افراد ہلاک

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں کھانسی کا شربت پینے سے سولہ افراد ہلاک اور چودہ افراد متاثر ہوئے ہیں۔
لاہور سے  نامہ نگار نے خبر دی ہے کہ متاثرہ افراد کی عمریں بیس سے چالیس سال کے درمیان ہیں۔ متاثرہ افراد کا علاج لاہور کے میو ہسپتال میں کیا جا رہا ہے۔
ہسپتال حکام کے مطابق آٹھ افراد اب بھی میو ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں، جب کہ چھ کو ابتدائی طبی امداد دے کر ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا ہے۔
پولیس نے مقدمہ درج کر لیا ہے جب کہ پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ میاں شہباز شریف نے اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے 72 گھنٹوں کے اندر اندر رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
پولیس اس سلسلے میں جگہ جگہ چھاپے مار رہی ہے اور دوا تقسیم کرنے والوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ جس فیکٹری میں یہ دوائی بنتی ہے اسے بھی سیل کر دیا گیا ہے۔
زیادہ تر اموات جمعہ اور اتوار کے درمیان ہوئیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ اکثر متاثرین کا تعلق لاہور کے علاقے شاہدرہ سے ہے۔
حکام کے مطابق چند افراد کی نعشیں ایک قبرستان میں پائی گئیں اور مقامی پولیس چیف نے خبررساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ بعض نشہ کرنے والے افراد قبرستان میں بیٹھ کر نشہ کرتے تھے جس سے امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ شاید وہ افراد ہی اس کا نشانہ بنے۔

جعلی ادویات

2010 میں پاکستان کے وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے قومی اسمبلی میں انکشاف کیا تھا کہ پاکستان میں فروخت ہونے والی چالیس سے پچاس فیصد ادویات جعلی ہیں۔
میو ہسپتال میں اس شربت سے متاثر ہونے والے ایک نوجوان اشفاق نے  بتایا کہ وہ ایک سال سے یہ شربت استعمال کر رہے ہیں اور ہفتے میں ایک سے دو شیشیاں پی لیتے ہیں۔ لاہور کے علاقے شاد باغ کے رہائشی اشفاق نے کہا کہ ایک بوتل چالیس روپے کی آتی ہے۔
ہسپتال کے ایک ڈاکٹر نے ہمارے نمائندے کو بتایا کہ بہت سے افراد کھانسی کے شربتوں میں موجود خواب آور اجزا کی وجہ سے اسے نشہ آور مواد کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
ڈاکٹر نے کہا کہ ممکن ہے کہ ان افراد نے اس شربت میں کوئی اور نشہ آور چیز بھی ملا لی ہو جس کی وجہ سے یہ ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
پولیس نے تفتیش شروع کر کے متاثرہ افراد کے بیانات قلم بند کر لیے ہیں۔
پاکستان میں جعلی اور ملاوٹ شدہ ادویات کے وجہ سے ہلاکتیں معمول کی بات ہیں۔ اس سال فروری میں دل کے مرض کے لیے ایک دوا میں ملاوٹ کی وجہ سے 119 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
سال 2010 میں پاکستان کے وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے قومی اسمبلی میں انکشاف کیا تھا کہ پاکستان میں فروخت ہونے والی چالیس سے پچاس فیصد ادویات جعلی ہیں

Egypt crisis: Mohammed Mursi reaches out to critics


Egyptian President Mohammed Mursi in Cairo (23 Nov 2012)
Egyptian President Mohammed Mursi says the decree giving him sweeping new powers is temporary and not intended to concentrate power in his hands.
A statement from his office said Mr Mursi was committed to finding "common ground" with other parties. He will meet senior judges on Monday.
The decree was intended to prevent democratically elected bodies from being undermined, the statement said.
A youth was killed on Sunday - the first death since the protests began.
Described as a member of the Muslim Brotherhood, the movement that backs Mr Mursi, 15-year-old Islam Fathy Massoud was killed in the Nile Delta town of Damanhour after its headquarters were attacked. Sixty others were injured.
Clashes continued on Sunday, with police firing tear gas in Cairo's Tahrir Square area.
Large demonstrations are planned by supporters and opponents of Mr Mursi on Tuesday.
On Saturday the Judges Club, which represents judges throughout the country, called for a nationwide strike in protest at the decree.
Protesters affected by tear gas near Tahrir Square Protests have continued in and around Cairo's Tahrir Square
But top judicial body the Supreme Judicial Council appeared not to reject the decree outright, saying it should only apply to "sovereign matters", and urged judges to return to work.
Justice Minister Ahmed Mekky has begun efforts to mediate between the president and the judges.
The minister said he himself had some reservations about the president's decree, Reuters reported.
'Committed to engage' The BBC's Jon Leyne in Cairo says Mr Mursi has begun efforts to reach a compromise after the strong opposition to his decree.
A statement by the presidency attempted to calm opposition concerns that he was becoming increasingly dictatorial in his leadership.
"The presidency reiterates the temporary nature of those measures, which are not intended to concentrate power, but to avoid ... attempts to undermine democratically elected bodies and preserve the impartiality of the judiciary," the statement said.
Mr Mursi said he was committed to dialogue.
"The presidency stresses its firm commitment to engage all political forces in the inclusive democratic dialogue to reach a common ground and bridge the gap in order to reach a national consensus on the constitution which will be the cornerstone of Egyptian modern institutions," the statement added.
Later local media reported that the president would meet the Supreme Judicial Council on Monday to discuss the decree.
But several prominent opposition leaders, including Nobel Peace Prize winner Mohamed elBaradei, have said they will not engage in dialogue with the president until he rescinds the measure, known as the constitutional declaration.
According to President Mursi's decree, no authority can revoke presidential decisions.
There is also a bar on judges dissolving the assembly, which is drawing up a new constitution.
Mr Mursi sacked chief prosecutor Abdel Maguid Mahmoud, who was first appointed by ex-President Hosni Mubarak.
Mr Mahmoud's replacement, Talaat Ibrahim, has been given the job of re-examining all investigations into the deaths of protesters when Mr Mubarak was in power.

Mystery shrouds ‘rusted missiles of Afghan era’ recovered from Jalozai Camp


PESHAWAR: Nine missiles about two and a half feet long each, were recovered from Afghan Jalozai camp on the outskirts of Nowshera which officials believe might have been used by Afghan Mujahideen during the Soviet war and were dumped at the camp, which once served as a launching pad for the war in Afghanistan, sources said.
intelligence sources however said these missiles might be ‘surface-to-air missiles’ of the Afghan war era – Stingers which were allegedly supplied by the United States to Mujahideen in Afghanistan to fight the Soviet Union in the 1980s.
An internally displaced person (IDP), Hayat Khan son of Mir Haider from Bara, Khyber Agency, was digging the ground near his tent to stop flow of water to coming to his tent when he had found the missile-resembling objects.
In-charge of Jalozai police checkpost, Abdul Malik confirmed that the IDP Hayat Khan found the missiles while digging in Phase 6 of Jalozai Camp and informed the police.
Malik said higher officials were informed about the nine missiles and “we stopped the IDPs from digging further in the vicinity to avert any untoward incident.”
Describing the missiles, Malik said that each was roughly about three feet in length while the diameter for each was about two to three feet along with the casing.
The Station House Officer of Pabbi Police station, Shakeel Khan, speaking to Dawn.com said, “The size of the missiles or rockets found was about two and half feet but we are not sure about their make.”
Regarding a query whether they resemble Stinger missiles, Shakeel Khan said, “They are very old and rusted, covered in a plastic casing and hardly any writing or markings left on them; we could only see the words ‘52 degree’ written on them and only experts can tell the exact make.”
The intelligence sources, however, said that the missiles are believed to be surface-to-air missiles and might be those which were handed over to the Afghan Mujahideen to fight the Soviet troops during the 1980 invasion of Afghanistan – ‘Stingers’ which were the main power fight against Soviets in Afghanistan.
Regarding another query, sources said, “These proved to be a huge income source for the Afghan Mujahideen after the Soviet withdrawal, as the Americans allegedly had to purchase the missiles back from the warlords due to the fear that the technology might slip into others’ hands.”
An elderly local familiar to the Jalozai camp dwellers for many decades, who did not want to be named, said that he had seen such missile-resembling objects being sold by the Afghans living in the camp for lakhs of rupees after the Soviet war ended.
District Police Officer Hussain Khan told Dawn.com, “They are some kind of mortars and are extremely rusted, may be of Afghan war era which might have been dumped by the Afghans who had been living there,” adding, “they often come across such mortar shells, and RPGs in the abandoned camp.”
“I wish they were Stingers, but perhaps they are just mortars of some canon or large gun which are greatly rusted and beyond recognition, but surely they cannot not be stingers at all,” Hussain Khan insisted when asked if they found US Stingers.
The area where these missiles or rockets were found in Jalozai Camp, was reportedly inhabited by Arab fighters belonging to the Abdullah Azam Group. Abdullah Azam was believed to be the founder of the Jihad University in Nowshera and also regarded as the real founder of the Arab fighters group which was later branded as al-Qaeda by the US led coalition.
The Arab fighters also had an office, Baitul Ansar, in the same area where these missiles were found and most likely the objects discovered might have been their property but there was no credible evidence to confirm this.
Former Mujahideen leader and the chief of Ittehad Islami, Abdul Rasool Sayyaf’s house was also in the same area of Jalozai, who supervised the Arab fighters at that time.
A former Afghan Mujahideen fighter, still associated with the Taliban and fighting the US troops in Afghanistan, told Dawn.com, “I believe the objects recovered cannot be Stinger missiles but they might be SAM-7 or Bolo-5, which were supplied by the US to shoot down the Soviet fighter aircraft.”
Regarding a query, he said, “Most of such missiles were supplied by the US-led coalition to the Mujahideen commanders to fight the Soviets, however, the Stingers came very late,” adding “these missiles used to be very costly; about half a million Pakistani rupees during that time, but don’t know how much they would cost today.”

An Insecure and Reluctant Partner

The Obama administration is preparing to implement the first phase of its military drawdown in Afghanistan at a time when nuclear security inside Pakistan is at its most tenuous. That already delicate situation has only become more fragile in the weeks following the killing of Osama bin Laden in May of this year.
Since then, Pakistani officials and international security experts alike have become more concerned about the ability of the Pakistani military to safeguard and secure its nuclear weapons and related facilities from attack. The fundamental question, however, is who would mount such an assault?
U.S. officials and those outside Pakistan are concerned primarily with terrorists: a situation in which a small group of militants execute a coordinated attack on a nuclear facility in Pakistan, gaining access to loosely guarded assembled warheads or weapons-grade fissile material. Those terrorists certainly would not hesitate to use their newly acquired assets to detonate a nuclear weapon over a major city, killing thousands of innocent civilians and forever altering the international security landscape. The world as we know it would never again be the same.
This fear is not unjustified -- the ability of the Pakistani military to defend its fortified bases and installations against militant attack has been brought into question in recent years. Breaches of Pakistani bases by militant groups have occurred most notably in October 2009 in Rawalpindi and in May of this year in Karachi. For many outside Pakistan, a repeat of this type of event -- but with nuclear facilities, weapons and material -- is the ultimate nightmare scenario.
Inside Pakistan, however, the fundamental fear is that the country's nuclear installations would be attacked not by terrorists, but by the United States or India. Military and civilian officials there are afraid American or Indian commandos would sneak into the country -- much like U.S. Navy SEALs did last month -- and launch a coordinated attack on Pakistani nuclear facilities, stripping Pakistan of its most prized possession and what it considers its primary deterrent force.
Certainly, the fear is rooted in a newfound and very palpable sense of humiliation within the ranks of the Pakistani armed forces. In a country where the military is seen as one of the only functional national institutions -- with sole guardianship over the country's most potent weapon and bargaining chip -- the swiftness and success of the bin Laden raid have shaken faith in the military's ability to detect and deflect any threat to its assets. Indeed, both retiring and serving officers are calling for Army chief General Ashfaq Kayani to resign, along with ISI chief Ahmad Shuja Pasha and even President Asif Ali Zardari.
The need for Pakistan to reevaluate its security capabilities has never been more urgent. American troop withdrawals from Afghanistan will force Pakistan to step up its capacity for ensuring internal stability, and this will place additional stress on a military and a national police force that are already stretched thin. At the same time, an erosion of integrity and trust within the ranks of the Pakistani military will make it even more difficult for Kayani to keep his troops in line.
In the meantime, Pakistan's ability to provide a significant degree of confidence in its nuclear security is being increasingly questioned by U.S. policymakers.
All of this is symptomatic of the widening gap of mistrust between Washington and Islamabad. Regrettably, this could not be happening at a more inopportune time. As Toby Dalton and George Perkovich of the Carnegie Endowment wrote last month, "It is impossible to build a strategic relationship when one partner can't be trusted to prevent nuclear terrorism and the other can't be trusted not to exploit its intelligence and military presence to steal or destroy the other's nuclear deterrent."
As the Obama administration prepares to shift responsibility for Afghanistan's security and governance to the Afghan people, it must keep in mind the security concerns of its reluctant ally in Islamabad. The U.S.-Pakistan relationship as it stands now is fraught with mutual mistrust, and is not sustainable. What is needed now more than ever is a realistic and firm reassessment by both countries of their bilateral strategic relationship. Only by asking difficult questions and identifying innovative ways to strengthen that relationship -- even separate from the nuclear security issue -- can Pakistan and the United States make significant and measurable progress towards improving security in the region.

Understanding Pakistan

Whether you are concerned with success in Afghanistan, preventing nuclear terrorism, or any other host of global security issues, the link between the stability of Pakistan and the security of the world is very clear. To better understand this region of the world the Council on Foreign Relations recently released “Crisis Guide: Pakistan” -- an interactive, beautifully edited, and authoritative analysis of the current state of affairs in South Asia.
Last week reports of increased construction at Pakistani nuclear facilities spurred a range of articles on Pakistan’s nuclear program and the security of the regime. Ploughshares Fund President Joe Cirincione was quoted in an AFP article saying, "It's the security of the government that worries me. If the government falls that's when the nightmare comes…American politicians and policymakers live in a constant state of denial about Pakistan. They see a mess and then they look away and pretend it's all going to get better somehow.”
CFR's “Crisis Guide: Pakistan” provides an in-depth and comprehensive look at the country's history and possible futures. The CFR expert interviews feature many prominent Ploughshares Fund grantees and affiliated organizations, including Shija Nawaz of the Atlantic Council, Ashley Tellis of the Carnegie Endowment for International Peace, Pervez Hoodbhoy, and Steve Coll of the New America Foundation. Ploughshares board member Reza Aslan is also featured in the videos.
As Steve Coll explains in the presentation, “Pakistan’s stability is in the world’s interest…As Pakistan has developed, the sources of its instability have acquired global dimension.” Similarly, President Obama rightly acknowledged in his speech on Afghanistan strategy at West Point in 2009, “We will act with the full recognition that our success in Afghanistan is inextricably linked to our partnership with Pakistan.”
Setting the stage for expert analysis, CFR directs its study towards five potential futures for Pakistan: State Adrift, Authoritarian State, Islamist State, Moderate State, and State Collapse. Consensus among the featured panel of experts is that while a collapsed state is unimaginably frightening, the most likely future in the near-term is a "State Adrift", in which Pakistan muddles through its problems until something forces it onto a different path. The United States must, therefore, consider how it can influence Pakistan to become a stable and predictable ally in the region.
Attempting to make sense of a swath of issues that Pakistan faces, the CFR study also focuses on examining seven key areas: Demographic Pressures, Economic Hurdles, Ethnic and Political Factionalism, Governance, Islamic Radicalization, Militancy, and Nuclear Concerns. Each of these challenges will be of great significance to future Pakistan and the effectiveness of cooperation with the United States.

Women human rights defenders: activism's front-line

There is growing recognition by the international community that women human rights defenders are best placed to respond to violence against women and a crucial force for peace;  but the international protection framework needs to be made more accessible to those in need, says Jennifer Allsopp.
 “Women human rights defenders are passion holders, speakers, people with a vision, we hold the front-line.” - Betty Makoni
The first time I heard the term Women Human Rights Defender (WHRD) it was a bit of revelation to me. It was at an international conference held by the Association for Women in Development (AWID) on women transforming economic power. A group of women from across the globe were gathered in a workshop convened by Jenni Williams of Women of Zimbabwe Arise (WoZA) to discuss strategies to protect themselves from state violence.
The session was extremely practical. Participants wanted to share concrete answers to challenges they are facing more and more in their day-to-day work: arbitrary detention, police violence and infiltration. I was struck by the commonality of many of the struggles of the women in the room and also by the enormity of their fight: these women are the new freedom fighters; activists holding the front-line in the movement for equality and human rights in the face of multiple forms of gender violence. 
Recent years have seen the increased targeting of WHRD and a corresponding increase in attention given to WHRD as a category by the international community. 1998 saw the establishment of a UN Declaration on Human Rights Defenders and in 2004, EU Guidelines on Human Rights Defenders followed. The EU now mandates all 100 EU diplomatic missions to regularly monitor and assist situation on the ground, including through the provision of temporary shelters for WHRD in need.  The third report of the Special Rapporteur on the situation of human rights defenders, published in December 2010, focused exclusively on the situation of WHRD and all those working on gender issues. WHRD, it stated, are “more at risk of suffering certain forms of violence and other violations, prejudice, exclusion, and repudiation than their male counterparts.”
Partly in response to the visibility of women’s role in defending women’s rights in countries in transition, as witnessed during the Arab Spring, the international community has begun to scale up its work protecting WHRD in the past year, investing in women as a primary force for peace. The protection of WHRD is, for example, fundamental to the commitment made by the UK Department for International Development (DFID) to improve responses to violence against women and girls in humanitarian and emergency situations. Yet work is still to be done. Thousands of women remain at risk.
A recent conference held by Peace Brigades International with the support of GAPS-UK, Womankind and Amnesty International UK and the British All Party Parliamentary Group on Women, Peace and Security, ‘Women Human Rights Defenders: Empowering and Protecting the Change-makers’ invited WHRD from across four continents to share strategies to strengthen the international protection framework and foster an enabling environment on the ground.
In her opening speech, Betty Makoni, Zimbabwean activist and founder of Girl Child Network, was sensitive to the uniqueness of each woman’s struggle. She also acknowledged the commonality of the fight for equality led by WHRD and of the “extraordinary risks” they face on ground, both from state and increasingly non-state actors. Of these, common thematic challenges include stigmatisation, criminalisation and poor access to justice. 
Women spoke first hand of gender specific forms of stigma and abuse in response to their work defending the human rights of men and women, including verbal abuse, rape and sexual abuse. Activists from Iran, Nepal and Kenya reported that accusations of ‘prostitution’ and related forms of sexual torture were especially targeted at women defending reproductive rights. Naomi Barasi, an activist working with Amnesty International to protect women’s rights in the slums of Nairobi, told participants of a friend who is still recovering having even had broken bottles inserted in to her vagina by police.
Shyam Sah, an activist in Eastern Nepal working on cases such as witchcraft accusation, domestic violence, rape, dowry demands and polygamy, cited the lack of trust in the police as the main reason why women have pragmatically positioned themselves to protect women’s human rights. In Nepal, she said, “society has never accepted us”. Most threats to their work come from families, community and illegal armed actors which may be linked to police. When she intervened in a polygamous marriage she was attacked in full view of the police, with one officer commenting, “you deserve what you get, you are doing unnecessary work here.”
In addition to abuses of power at the local level, in recent years, state machinery and legislation has adopted new means of criminalising the work of HRD nationally through the employment of terrorism and national security charges in addition to public morality and blasphemy legislation. In Iran, Shadi Sadr, an Iranian lawyer, HRD and journalist, explained that it has become a criminal offence to simply criticise the regime to an international audience. Two years ago, on their return from the UN Commission on the Status of Women in New York, the border police took the passports of two Iranian women and took them to prison where they were interrogated for 2 hours. They have now been released on bail and are still awaiting a decision, charged with “taking action against national security and espionage”.
Judith Maldonado Mohica, Director of the Lawyers’ Collective Luis Carlos Perez in Northeast Columbia reported how in Columbia, as in Mexico, HRD are increasingly being linked to drug trafficking and guerrilla groups as a “strategy of persecution”.  There is an irony that whilst new charges are being trumped up against WHRD, the law is slow to recognise crimes against women. In Columbia, for example, forced disappearances were only recognised as a crime in 2001, whilst sexual violence was only recognised in 2004. 
It is well-documented that the criminalisation of WHRD is fuelled by judicial impunity for those who abuse women’s human rights and by a parallel lack of state accountability. Shadi drew attention to the situation of female political prisoners in Iran where, despite the fact that almost all female political prisoners report one or more cases of torture or sexual harassment, not a single case of judicial investigation has taken place to date. In Columbia, Judith Maldonado Mohica stressed that it is indigenous women who are most often ignored, especially when seeking to denounce paramilitaries. This is partly due to a lack of awareness of human rights frameworks, she explained, but also due to a lack of courts dealing with such cases – just 3 to cover 120,000 cities and townships. This inability to access justice poses significant challenges to their human rights work in opposition to land grabs and other forms of environmental degradation.  Such work is crucial, but as explained by Dolores Infante Cañibano, human rights officer at the United Nations Office of the High Commissioner for Human Rights, it is heavily repressed worldwide: “environmental defenders are one of the groups most at risk … then you add indigenous, rural, woman and what you have is a multifaceted discrimination”.
The international community seems far from proposing an adequate response to the human rights abuses faced by indigenous women in Columbia. Current attempts to reform the law nationally are being thwarted, says Judith Maldonado Mohica, by a conflict of interest. The last three reforms of the Columbian justice system were funded and commissioned by the World Bank and focused on terrorism, drugs, trafficking and illegal mining with an accent on legal security for foreign investors. As such, they were far from a response to the protection needs of indigenous women. Naomi Barasa cited a similar conflict of interest experienced in her work lobbying against the eviction of 20,000 slum dwellers in Nairobi which could be traced back to EU funding for a new road. Faced with such scenarios, the EU must do more to not just prove the force of its Guidelines but to demonstrate the comprehensiveness of its strategy for protecting human rights on the ground. There is a further need for the international community to develop a comprehensive response to new forms of persecution by non-state actors, including private security companies and Latin American land corporations, as recommended by Margaret Sakaggya, the UN Special Rapporteur in her 2010 report.
More must also be done to ensure that the current international protection framework - which has a crucial role in securing justice and saving lives  - is more accessible to those in need, including access to diplomatic protection and emergency funding in addition to international criminal courts and other justice channels. As it stands, participants lamented that the UN Women system is simply too long: “if you follow that procedure you’ll get killed”, said Samira Hamidi, former country director of the Afghan Women’s Network, “I know a woman who appealed to this system for help - she’s now in India in a very bad situation”.
The issue of reprisals faced by those seeking to access international protection frameworks was also raised as a worrying global trend, with more work needed to remedy the high personal costs of accessing justice, including risk of murder. In Kenya, Naomi reported that a number of people who went to talk to the Special Rapporteur for Extrajudicial Killings were shot dead.
Faced with these numerous challenges we need to think seriously about what a gendered protection system looks like in practical terms, both at the local and international level.
Women human rights defenders are constantly coming up with their own strategies for protection which the international community must be ready to support: forging internal relocation strategies, as in Afghanistan; building professional alliances with doctors, media and lawyers like Naomi and her colleagues in the slums of Nairobi; or establishing satellite projects in neighbouring countries like members of the Girl Child Network who have set up ‘girls empowerment villages’ in Swaziland, South Africa, Uganda and Sierra Leone based on an initial Zimbabwean model: “there is no need to reinvent the wheel”, says Betty Makoni, “the wheels are already moving, we just need to take all the people on board.”
In this context we must we wary of imposing monolithic definitions of WHRD and take full account of their diverse needs in order to offer comprehensive support to their work. In a plea to representatives from the UN, EU, DFID and British Foreign Commonwealth Office present at the Peace Bridges conference, Shyam Sah stressed that WHRD do not simply fit into the standard development paradigm but have specific needs: women may be financially dependent on family, they may not be able to work because of the threats they receive or they may have to work from exile.
The international community is certainly moving in the right direction of travel in its support of WHRD, and crucially, in its recognition that WHRD are best placed to respond to violence against women and girls and a crucial force for peace. This is something to celebrate on 29 November, the 6th annual International Women Human Rights Defenders Day. However only time will tell if states are prepared to take on a facilitator role and let grass-roots women take the lead on the ground. Most WHRD I have met are far from the casques bleus of UN peackeepers or the freedom fighters of old, yet they are working tirelessly for peace at activism’s front-line. In the final address of the conference, Samira Hamidi said the following of her own activism in the warzone of Afghanistan: “please take the issue of WHRD seriously. I don’t want to link my life to international troops, I want to make sure women have a better life in Afghanistan…” If we are able to truly commit to the work of WHRD we have a lot to gain for peace and for the human rights of all: the elevation of an alternative way of addressing violence against women and of forging peace in opposition to militarism.

Afghanistan: No Amnesty for Taliban Crimes

The Afghan government should not grant Taliban representatives amnesty from prosecution for serious crimes as part of talks with the insurgent group, Human Rights Watch said today. On November 17, 2012, the chairman of Afghanistan’s High Peace Council, Salahuddin Rabbani, told journalists that Taliban officials who join peace negotiations with the Afghan government will receive immunity from prosecution and will have their names removed from the United Nations sanctions.

“Future government talks with the Taliban should not hinge upon denying justice to victims of war crimes and other abuses,” said Brad Adams, Asia director. “Afghanistan’s civilians should not be forced to choose between justice and peace.”

Last week, the Pakistani government released nine imprisoned Taliban officials after the High Peace Council requested their release during a visit to Pakistan. More of the estimated 50 Taliban members in prison in Pakistan are expected to be released at the council’s request in the future. Rabbani has described those released as including, “Afghan citizens who expressed their willingness to work for peace.”

Providing immunity from prosecution for genocide, war crimes, crimes against humanity, and other serious human rights abuses violates international law. International treaties, including the 1949 Geneva Conventions, which Afghanistan has ratified, and customary international humanitarian law, require parties to a conflict to ensure alleged perpetrators of serious crimes are prosecuted. Those responsible for war crimes and other serious abuses on both sides should be investigated and prosecuted.

Afghanistan has a troubling history of providing amnesty for war crimes. In 2007 a coalition of powerful warlords and their supporters in the parliament were able to pass the National Stability and Reconciliation Law. This law seeks to prevent the prosecution of individuals responsible for large-scale human rights abuses in the preceding decades. The law states that all those who were engaged in armed conflict before the formation of the Interim Administration in Afghanistan in December 2001 shall “enjoy all their legal rights and shall not be prosecuted.” It provides that those engaged in current hostilities will be granted immunity if they agree to reconciliation with the government, effectively providing amnesty for future crimes.

President Hamid Karzai, who had previously promised not to sign the National Stability and Reconciliation Law, quietly permitted it to be published in the government’s official gazette and to enter into force in early 2010. Human Rights Watch at that time urged the repeal of the law, calling it “an invitation for future human rights abuses” and expressing concern that its extension to those currently engaged in hostilities “allows insurgent commanders to get away with mass murder.” The official adoption of the law passed largely unremarked by the international community, leading to concerns that Afghanistan’s international partners were prepared to tolerate impunity for war crimes.

“The High Peace Council’s call for immunity shows the dire predictions about the amnesty law coming true,” Adams said. “Amnesty for war crimes does not need to be, and should not be, a precondition for talks between the Afghan government and the Taliban.”

The UN, Human Rights Watch, and others have collected considerable information implicating Taliban members in war crimes, including attacks targeting civilians, indiscriminate attacks by suicide bombers and pressure-plate mines, summary executions, and use of children in combat including as suicide bombers. Commanders who ordered unlawful attacks, or who knew or should have known about serious abuses by their forces but made no effort to stop them, are subject to prosecution for war crimes.

The Taliban has a code of conduct for its fighters, which in some ways reflects international law on armed conflict. It includes provisions for protection of civilians, stating that all Taliban members “with all their power must be careful with regard to the lives of the common people,” and that those who fail to do so shall be punished. It also prohibits use of children as fighters.

Taliban spokesmen frequently deny claims that its members commit violations of international law. For example, the Taliban in October stated that “our Mujahedeen never place live landmines in any part of the country but each mine is controlled by a remote and detonated on military targets only.” On November 6 the Taliban issued a statement saying that it “assures the nation that it will never forgive the civilian slayers whosoever they may be.”

“Why is the High Peace Council rushing to offer amnesty to Taliban officials when even the Taliban’s own code of conduct and statements acknowledge that targeting civilians is illegal?” Adams said. “The High Peace Council cannot ignore the demands of justice.”

شیخوپورہ: نارنگ منڈی میں 8 افراد کی 5 لڑکیوں سے اجتماعی زیادتی

شیخوپورہ … شیخو پورہ کے علاقے نارنگ منڈی میں کھیتوں میں کام کرنے والی 5 لڑکیوں سے 8 افراد نے اجتماعی زیادتی کردی، پولیس نے مقدمہ درج کرکے 2 ملزموں کو گرفتار کرلیا جبکہ 6 ملزم ابھی تک مفرور ہیں۔ پولیس کے مطابق بوٹا چنگڑ کی فیملی 15 دن سے موضع کرنو میں نجیب میر کے ڈیرے پر مونجی کی کٹائی میں مصروف تھیں، جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب ملزمان ظہیر اور تصدق عرف ماڑا جٹ وغیرہ 8 افراد نے خاندان کی خواتین، مردوں اور بچوں کو رسیوں سے جکڑکر ایک کمرے میں بند کردیا اور ان کی 5 لڑکیوں کو دوسرے ڈیرے پر لے جاکر مبینہ طور پر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا، پولیس نے اطلاع ملنے پر لڑکیوں کو طبی معائنے کیلئے اسپتال منتقل کر دیا اور 4 نامزد اور 4 نامعلوم افراد کیخلاف مقدمہ درج کرکے ظہیر اور تصدق عرف ماڑا جٹ کو گرفتار کرلیا ۔ پولیس کا کہنا ہے کہ باقی ملزموں کو بھی جلد گرفتار کرلیا جائے گا ۔

لاہور اورگردو نواح میں36گھنٹے سوئی گیس کی فراہمی معطل رہے گی

لاہور اورگردو نواح کے بیشتر علاقوں میں 26نومبر صبح نوبجے سے منگل کی شب 9بجے تک گیس سپلائی بند رہے گی۔ سوئی ناردرن کے ترجمان کا کہنا ہے کہ صارفین کو گیس فراہمی بڑھانے کیلئے 24 انچ قطر کی مین لائن پر جوڑ لگایا جارہا ہے جسکے باعث گیس سپلائی معطل کرنا پڑرہی ہے۔ ترجمان سوئی ناردرن کے مطابق 24 انچ قطر کی لائن کو سسٹم سے جوڑا جارہا ہے اس لئے لاہور کے بیشترعلاقوں میں گیس فراہمی 26 نومبر کی صبح 9 بجے سے اگلے 36 گھنٹے تک معطل رہے گی۔ لاہور کینٹ ،ٹاؤن شپ ،فیروز پور روڈ ،ماڈل ٹاؤن ،گلبرگ ایریا ،ہربنس پورہ ،بیدیا ں روڈ ،چونگی امرسدھو، سبزہ زار ،ملتان روڈ اور دیگر کئی علاقوں میں گیس بند رہے گی۔ لا ہور کے علاوہ ضلع قصور ،دیپالپور ،مصطفی آباد ،سوئے آصل ، راجہ جنگ ،جمن گاؤں ،بدو ملی ،پانڈو کے اورلدھے کے میں بھی گیس بند رہے گی۔

وینا ملک بوسوں کا ریکارڈ؟

یسا لگتا ہے کہ بالی وڈ کے سب سے بڑے ’سیریل كسر‘ کہے جانے والے اداکار کو اب مقابلہ دینے کے لیے وینا ملک تیار وینا ملکہیں۔
وینا ملک نے حال ہی میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ وہ اپنی جلد ہی آنے والی فلم ’دی سٹی ڈیٹ نیور سلیپس‘ میں اب تک کسی بھی فلم میں دکھائے گئے كسنگ کے مناظر سے بھی زیادہ بوسہ دینے والی ہیں تاکہ ان کا شمار گنیز بک آف ورلڈ ریكارڈز میں شامل کیا جا سکے۔
وینا نے کہا ’میرے خیال میں بوسہ اظہار محبت اور اپنے جذبات کے اظہار کا ایک بہت ہی عمدہ طریقہ ہے‘۔ انھوں نے کہا کہ اس کے ذریعے دنیا کی بڑی سے بڑی تکلیف کو بھی جیتا جا سکتا ہے۔
تو کیا وینا بالی وڈ کی اگلی ’سیریل كسر‘ كہلائے جانے کی تیاری میں ہیں۔ بہر حال ابھی کہنا جلدبازی ہوگی۔

فضا میں گرین ہاؤس گیسوں میں ریکارڈ اضافہ


عالمی موسمیاتی تنظیم کے مطابق فضا میں گرین ہاؤس گیسوں میں دو ہزار گیارہ کی نسبت شدید اضافہ ہوا ہے۔
ڈبلیو ایم او کی سالانہ گرین ہاؤس بلیٹن میں شائع شدہ نئے اعداد و شمار کے مطابق فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح میں دو ہزار گیارہ کی نسبت تین سو اکانوے حصص فی ملین اضافہ ہوا ہے۔
اس جائزے میں یہ بات کی گئی ہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کا پچاسی فیصد تک زمہ دار ہوتا ہے۔
اسی طرح فضا میں دوسری زہریلی گیسوں جیسا کہ میتھین کی تعداد میں بھی غیر معمولی طور پر ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔
صنعتی انقلاب کے بعد سے اب تک فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ میں ہونے والا اضافہ چالیس فیصد تک ہے اور ہر سال اس میں ہونے والا اضافہ فی ملین دو حصص رہا ہے۔
ڈبلیو ایم او کے مطابق سنہ سترہ سو پچاس کے بعد سے تین سو پچھتر بلین ٹن کاربن فضا میں شامل کی جا چکی ہے جس کا پچاس فیصد ابھی تک فضا میں موجود ہے۔
ڈبلیو ایم او کے سیکرٹری جنرل میشل یارو نے کہا ’یہ ٹنوں اضافی کاربن ڈائی اکسائیڈ ہماری فضا میں آنے والی کئی صدیوں تک موجود رہے گا جس کی وجہ سے ہمارا سیارہ مزید گرم ہو گا اور اس پر موجود زندگی پر لازمی اس کا اثر ہو گا۔ اور مستقبل میں ہونے والی گیسز کا اضافہ بھی اس کا حصہ ہوگا۔‘
میتھین کی سطح میں بھی شدید اضافہ ہوا جو کہ ایک ہزار آٹھ سو تیرہ حصص فی بلین ہے جو کہ صنعتی انقلاب کے دو تہائی ہے۔
میشل یارو نے کہا کہ ’سمندر کاربن ڈائی آکسائیڈ جزب کرنے کا ایک بہت بڑا حصہ ہیں لیکن اس کی وجہ سے سمندر بھی بہت زیادہ تیزابی ہو رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے زیر زمین خوراک کے زرائع اور کورل ریفس بھی نقصان کا شکار ہو رہی ہیں۔‘

گنگنم سٹائل: یوٹیوب پر مقبول ترین ویڈیو

جنوبی کوریا کےگلوکار سائی کا گایا ہوا نغمہ ’گنگنم سٹائل’ یوٹیوب پر دیکھا جانے والا سب سے مقبول ترین ویڈیو بن گیا ہے۔
گزشتہ چار ماہ برس قبل یوٹیوب پر پوسٹ کیے جانےو الے اس نغمے کو اب تک اسی کروڑ سے زیادہ لوگوں نے دیکھا ہے۔
ویڈیو میں جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول کے ایک بہت ہی خوشحال علاقے گنگنم میں حاوی ’ کنزیومرازم’ پر طنز کیا گیا ہے۔
’گنگنم سٹائل’ ویڈیو میں گلوکار سائی کچھ اس انداز میں رقص کررہے ہیں گویا کہ وہ گھوڑے پر سوار ہیں اور گھوڑے کی لگام ان کے ہاتھوں میں ہے۔
ان کا یہ ڈانس کچھ ہی وقت میں اتنا مشہور ہو گیا کہ ہر جگہ لوگ اس کی نقل کرتے دکھائی دیے۔
ویڈیو کے کچھ مناظر میں چونتیس سالہ سائی کو گلابی رنگ کے ‘شارٹس’ یعنی چھوٹی پتلون پہن کر دھوپ کا مزا لیتے ہوئے ہوئے، زیر زمین ٹرین میں چھپے کپڑے پہنے ڈانس کرتی ہوئی لڑکی کو محبت بھری نظروں سے دیکھتے اور سمندر کے کنارے ورزش کرتی ہوئی خاتون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
سائی کے دلچسپ انداز کے ہٹ ہوتے ہی اس نغمے کی نقل میں کئی نغمے بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس نغمے کے مداحوں میں فلپائن کے جیل میں قید قیدیوں سے لے کر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان گی مون تک شامل ہیں۔
’گنگنم سٹائل’ کی ویڈیو کو اس سال کا ایم ٹی وی یورپ میوزک اعزاز بھی حاصل ہوا ہے۔ اس کے علاوہ یہ نغمہ اٹھائیس ممالک میں موسیقی کے چارٹ میں نمبر ون رہ چکا ہے۔
اس نغموں کو پچاس لاکھ سے زیادہ لوگوں نے یوٹیوب پر ’لائک’ یعنی پسند کیا ہے جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔ اس ریکارڈ کی وجہ سے گنگنم سٹائل کا نام یوٹیوب پر سب سے زیادہ ’لائک’ کیے جانےوالے نغمے کے طور پر گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج ہوگیا ہے۔
اس سے قبل یہ اعزاز جسٹن بیبر کے دوہزار دس میں ریلیز ہونے والے ’ٹینی بوپر‘ نغمے کو حاصل تھا۔

ممبئی ٹیسٹ: مونٹی کی دس وکٹیں، بھارت مشکل میں

ممبئی میں جاری دوسرے ٹیسٹ میچ میں انگلینڈ کے خلاف بھارت کی ٹیم کو مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔ دوسری اننگز میں ایک سو سترہ رن پر بھارت کے سات بلے باز آؤٹ ہو چکے ہیں اور اسے اکتیس رنز کی برتری حاصل ہے۔
میچ کے تیسرے دن انگلینڈ نے الیسٹر کُک اور پیٹرسن کی سنچریوں کی بدولت چھیاسی رنوں کی اہم سبقت حاصل کر لی تھی اور اس کے بعد ان کے گیندبازوں مونٹی پنیسر اور گریم سوان کی بہتر گیند بازی کے سبب بھارت کی دوسری اننگز بری طرح لڑکھڑا گئی۔
اوپنر کھلاڑی گوتم گمبھیر کے علاو بھارت کا کوئی بلے باز انگلینڈ کے بالروں کے سامنے نہ ٹک سکا۔ پنیسر نے اس اننگز میں اب تک پانچ اور سوان نے دو وکٹ حاصل کیے۔ پنیسر نے پہلی اننگز میں بھی پانچ کھلاڑی آؤٹ کیے تھے۔ گمبھیر اور اشون کے علاوہ کوئی بھی بھارتی کھلاڑی دو کے ہندسے میں نہیں پہنچ سکا۔


بھارت کی پہلی وکٹ اپنا سواں ٹیسٹ کھیلنے والے ویریندر سہواگ کی شکل میں گرا۔ انھوں نے نو رنز بنائے اور پنیسر کی گیند پر آؤٹ ہوئے۔
پہلی اننگز میں سنچری بنانے والے چیتیشور پجارا صرف چھ رن پر سوان کا شکار ہو گئے۔ سچن تندولکر جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنے گھریلو میدان پر آخری میچ کھیل رہے ہیں وہ صرف آٹھ رنز بنا سکے اور ایک بار پھر پنیسر کا شکار بنے۔
ویراٹ کوہلی سات، یووراج سنگھ آٹھ اور کپتان مہندر سنگھ دھونی چھ رن پر آؤٹ ہوئے۔ کوہلی کو سوان نے آؤٹ کیا جبکہ باقی دونوں کھلاڑیوں کو پنیسر نے آؤٹ کیا۔
کوک اور پیٹرسن دونوں نے سنچریاں بنائیں
کوک اور پیٹرسن دونوں نے سنچریاں بنائیں اور انگلیند کو اہم سبقت دلائی۔
تیسرے دن کا کھیل ختم ہونے پر گوتم گمبھیر ترپن اور ہر بھجن سنگھ ایک رنز پر کریز پر موجود تھے۔
اس سے قبل انگلینڈ کے بلے باز کیون پیٹرسن نے ایک سو چھیاسی رنوں کی شاندار اننگز کھیلی اور انگلینڈ کی باری چار سو تیرہ رن پر ختم ہوگئی۔ بھارت کی جانب سے پراگیان اوجھا نے پانچ، اشون اور ہر بھجن سنگھ نے دو دو وکٹ لیے۔
جمعے کو بھارت نے ٹاس جیت کر پہلے بلے بازی کا فیصلہ کیا لیکن اس کی شروعات اچھی نہیں رہی کیونکہ اوپنر بلے باز گوتم گمبھیر صرف چار رنز بناکر پہلے ہی اوور میں اینڈرسن کی گیند پر آؤٹ ہو گئے۔
اس کے بعد باون کے سکور پر ویریندر سہواگ بھی آؤٹ ہو گئے۔ پہلے دن کھیل کے اختتام پر بھارت نے چھ وکٹ کے نقصان پر دو سو چھیاسٹھ رنز بنائے تھے۔
جب بھارت کا مجموعی سکور ساٹھ رنز تھا تو بھارت کے مایہ ناز بلے باز سچن تندولکر صرف آٹھ رنز بناکر آؤٹ ہو گئے۔ انھیں بھی پنیسر نے آؤٹ کیا۔ ویرات کوہلی نے انیس رنز بنائے اور پنیسر کا شکار بنے جبکہ یوراج سنگھ کو گریم سوان نے صفر پر آؤٹ کر دیا۔
کپتان مہندر سنگھ دھونی نے پجارا کے ساتھ بھارت کی اننگز کو سنبھالنے کی کوشش کی اور پچاس رنز کی شراکت داری کی۔ وہ انتیس رنز بناکر پنیسر کی گیند پر سوان کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہوئے۔
بھارتی ٹیم اپنی پہلی اننگز میں تین سو ستائیس رنز بنا کر آؤٹ ہو گئي تھی۔

مصر:صدر مرسی کے خلاف احتجاج، حصص بازار میں گراوٹ

مصر میں صدر مرسی کی جانب سے خود کو وسیع اختیارات دینے والے فرمان کے خلاف قاہرہ میں احتجاج جاری ہیں اور اسی دوران ملک کے حصص بازار میں دس فی صد گراوٹ درج کی گئی ہے۔
مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں صدر کے اختیارات میں اضافے کے فیصلے کے بعد مظاہرے جاری ہیں جبکہ اخوان المسلمین نے ان کی حمایت میں ریلیاں نکالنے کا منصوبہ بنايا ہے۔
صدر کے اعلان کے بعد جب حِصص کی قیمتوں میں گراوٹ شروع ہوئی تو تیس منٹ تک خرید و فروخت کو معطل کر دیا گیا۔لیکن جب دوبارہ خرید و فروخت کا معاملہ شروع ہوا اس کے بعد بھی حصص کی قیمتوں میں گراوٹ جاری رہی۔
سکیورٹی اہلکار اور مظاہرین کے درمیان اتوار کی صبح قاہرہ میں ایک بار پھر جھڑپیں شروع ہوئی ہیں۔ تحریر چوک میں آنسو گیس کے گولوں کے نشانات دیکھے جا سکتے ہیں۔
مصر کی خبر رساں ایجنسی مینا کے مطابق قاہرہ میں امریکی سفارتخانے کے پاس پتھر پھینکے گئے ہیں لیکن چونکہ وہاں کنکریٹ کی دیواریں کھڑی کی جا چکی ہیں اس لیے حالات زیادہ خراب نہیں ہوئے۔
خبروں میں بتایا گیا ہے کہ مصر کے اہم مقامات اور سرکاری دفاتر کے ارد گر پولیس کے بیریئر لگائے گئے ہیں۔
اس سے قبل مصر میں بیس سے زائد انسانی حقوق کی تنظیموں نے صدر محمد مرسی کے نام ایک کھلے خط میں کہا ہے کہ وہ اپنے آپ کو وسیع اختیارات دینے والا فرمان واپس لیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے محمد مرسی کے نام لکھے جانے والے اس ’ کھلے خط‘ پر دستخط کیے ہیں اور کہا ہے کہ صدر مُرسی نے اپنے آپ کو جو وسیع اختیارات دینے کا فیصلہ کیا ہے وہ ’مصر کی آزادی پر غیر معمولی حملہ ہے‘۔
وہیں حزب اختلاف کے رہنما محمد البرادعی نے کہا ہے کہ صدر مرسی کے ساتھ تب تک کوئی بات نہیں ہوسکتی ہے جب تک ان کا تازہ فیصلہ واپس نہیں لیا جاتا۔
وہیں مقامی میڈیا نے خبر دی ہے کہ اخوان المسلمین نے بھی صدر کی حمایت میں پورے مصر میں مارچ کا اعلان کیا ہے۔
مصر کی خبر رساں ایجنسی مینا کے مطابق صدر مرسی کی جماعت فریڈیم اینڈ جسٹس پارٹی کی حمایت کرنے والی اسلام پسند جماعت نے اعلان کیا ہے کہ وہ عابدین سکوئر پر دس لاکھ لوگوں کا مارچ کرے گی۔
واضح رہے کہ منگل کے روز صدر مرسی کے اس اعلان کے بعد کہ اب کوئی بھی صدر کے بنائے ہوئے قوانین، کیے گئے فیصلوں اور جاری کیے گئے فرمان کو چیلنج نہیں کر سکے گا مصر میں عام عوام، عدلیہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے زبردست احتجاج جاری ہے۔
صدر مرسی کے فرمان کا مطلب ہے کہ صدارتی اقدامات عدالتی یا دیگر کسی بھی ادارے کی جانب سے نظرِ ثانی سے مبرا ہوں گے۔
محمد مرسی
صدر مرسی کا کہنا ہے کہ وہ مصر کو ’آزادی اور جمہوریت‘ کی راہ پر لے جا رہے ہیں
قاہرہ انسٹی ٹیوٹ فار ہیومن رائٹس کی ویب سائٹ پر وہ خط شائع کیا گیا ہے جو انسانی حقوق کی تنظیموں نے صدر کے نام لکھا ہے۔ اس میں لکھا گیا ہے ’صدر کا یہ حکم ملک کے قانون اور انصاف کوپامال کرتا ہے اور ایک مخصوص سیاسی گروپ کے مفاد کے تحفظ کے لیے صدارتی اختیارات کا غلط استمعال کرتا ہے‘۔
واضح رہے کہ اس سے قبل سنیچر کو مصر میں ججوں نے صدر مرسی کی جانب سے اختیارت حاصل کرنے کے صدراتی حکم کو تنقید کا نشانے بناتے ہوئے ملک گیر ہڑتال کا اعلان کیا تھا۔
ججوں کی یونین نے صدر مرسی پر زور دیا کہ وہ اختیارات میں اضافے کے لیے جاری کیے جانے والے فرمان کو واپس لے لیں کیونکہ یہ عدلیہ کی آزادی پر غیر معمولی حملہ ہے۔
ہڑتال کے دوران عدالتیں اور استغاثہ کے وکلا احتجاجاً کام نہیں کریں گے۔
جس وقت ججوں کا اجلاس جاری تھا اس وقت باہر جمع مظاہرین کو منشتر کرنے کے لیے پولیس نے آنسو گیس کا استعمال کیا۔
سنیچر کو ہی مصر کی اعلیٰ عدلیہ نے صدر مرسی کی جانب سے اختیارت حاصل کرنے کے صدراتی حکم کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
صدراتی حکم نامے میں عدالت کو آئین ساز اسمبلی کو ختم کرنے کے اختیارات پر قدغن لگائی گئی ہے۔ یاد رہے کہ مصر کی آئین ساز اسمبلی ملک کے لیے نیا آئین بنا رہی ہے۔
محمد مرسی کا کہنا ہے کہ وہ مصر کو ’آزادی اور جمہوریت‘ کی راہ پر لے جارہے ہیں۔
واضح رہے کہ آئندہ منگل کو تحریر سکوائر پر ایک بڑے احتجاج کا اعلان کیا گیا ہے۔ سنیچر کی صبح سے ہی تحریر سکوائر پر احتجاجی مظاہرین جمع ہونے لگے ہیں۔
اس سے قبل جمعہ کو ہی صدر محمد مرسی نے قاہرہ میں اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے اپنے اس حکم نامے کا دفاع کیا تھا جس کے تحت ان کو وسیع اختیارات حاصل ہوئے ہیں۔
گزشتہ دو دنوں میں مصر میں سیاسی سطح پر ہونے والی اس پیش رفت پر امریکہ نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔

پاکستان: گوگل سمیت متعدد ویب سائٹس ہیک

پاکستان کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق گوگل پاکستان سمیت ملک کی متعدد سرکاری اور نجی ویب سائٹ کو ہیک کیا گیا۔
سنیچر کو پاکستان کے سرکاری ریڈیو کے مطابق ترکی کے ہیکرز نے گوگل پاکستان کی ویب سائٹ ہیک کرنے کا دعویٰ کیا ہےمتعلقہ عنوانات
صرف گوگل پاکستان ویب سائٹ ہیک کی گئی اور گوگل کا انٹرنیشل پورٹل فعال رہا۔
ریڈیو پاکستان نے ملک میں ٹیلی کیمونیکشن اور انٹرنیٹ کے نگران ادارے پی ٹی اے کے حوالے سے بتایا ہے کہ گوگل پاکستان کی ویب سائٹ کو بحال کر دیا گیا ہے۔
سرکاری ریڈیو نے ایک غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے حوالے سے بتایا کہ پاکستان کی کل دو سو پچاسی ویب سائٹ ہیک کی گئیں۔
ہیک کی جانے والی ویب سائٹ میں اہم سرکاری اداروں کی ویب سائٹ سمیت سرکاری اور نجی دونوں ویب سائٹ شامل ہیں۔
سرکاری ریڈیو نے یہ نہیں بتایا ہے کہ ہیکرز کے حملے میں کون سے سرکاری ویب سائٹس متاثر ہوئیں اور آیا وہ بحال ہو چکی ہیں کہ نہیں۔
خیال رہے کہ پاکستان میں اس سے پہلے بھی سرکاری ویب سائٹس کو ہیک کیا جا چکا ہے۔
ماضی میں انڈین سائبر آرمی نامی بھارتی ہیکرز ان ویب سائٹس کو ہیک کرتے رہے ہیں۔
سال دو ہزار دس میں ہیکرز کے اس گروپ نے پاکستان کی چھتیس سے زیادہ سرکاری ویب سائٹس کو ہیک کیا تھا جن میں وزارتِ خارجہ، پاکستان نیوی، وزارتِ خزانہ، قومی احتساب بیورو، میری ٹائم سکیورٹی ایجنسی اور وزیرِ اعلیٰ سندھ کی ویب سائٹس شامل تھیں۔

Sunday, 25 November 2012

www.facebook.com/groups/BatkhelamalakandPakhtun/ photos











پاکستان سمیت ترقی پزیر ممالک میں10فیصد جعلی ادویات کی فروخت

کراچی…محمد رفیق مانگٹ…پاکستان سمیت ترقی پزیر ممالک کی مارکیٹوں میں فروخت ہونے والی دس فی صد ادویات جعلی یا نقلی ہیں۔انہیں نقلی ادویات کی وجہ سے حالیہ سالوں میں پاکستان اور چین میں ہلاکتوں کی تعداد سو سے زائد ہو ئیں۔ چین اور بھارت نقلی ادویات تیار کرنے میں سرفہرست ہیں۔ ملیریا کی ایک تہائی ادویات نقلی ہیں۔ دنیا بھر میں جعلی ادویات کے کاروبار میں سات سو فی صد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ دنیا بھر میں سب سے زیادہ جنسی ادویات کی نقل تیار کی جاتی ہیں۔ امریکی اخبار’واشنگٹن پوسٹ‘ نے عالمی ادارہ صحت اور یورپی یونین میڈیسن کی رپورٹ کے حوالے سے بتایا کہ ترقی پزیر ممالک میں10 فی صد سے زائد جعلی ادویات تیار کی جاتی ہے اور ان ممالک کی مارکیٹ میں فروخت ہونے والی وہ ادویات اصل نہیں ہوتی ۔سرحدوں پر سب سے زیادہ غیر قانونی طور پر اسمگل شدہ ایشیاء میں جعلی ادویات کی مقدار سب سے زیادہ ہے ۔ 2010سے 2011کے دوران قبضے میں لی گئی جعلی ادویات میں سات سو فی صد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ جعلی ادویات کا کاروبار دنیا بھر میں پھیل چکا ہے اور یہ خاص جرائم پیشہ گروہ یا اوسطاً درجے کی لیبارٹریوں کی ناقص پیداوار کی وجہ سے ایک منافع بخش کاروبار کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے خطرناک نتائج پاکستان اور چین میں دیکھنے میں آئے ۔ رپورٹ کے مطابق رواں برس انہیں جعلی ادویات کی وجہ سے پاکستان میں ایک سو سے زائد افراد موت کے منہ میں چلے گئے جب40ہزار سے زائد دل کے مریضوں کونقلی ادویات دی گئی۔2008میں چین میں خون کو پتلا کرنے والا عنصر ہیپارن سے81اموات ہو گئی۔ماضی کی تحقیق بتاتی ہے کہ ملیریا کی ایک تہائی ادویات جعلی ہیں۔ اس گھمبیر صور ت حال کے باوجود عالمی ادارہ صحت کہتا ہے کہ کئی ممالک میں میڈیسن کے متعلق کوئیقوانین نہیں ۔ زیادہ تر جعلی اور نقلی ادویات بھارت اور چین میں تیار کی جار ہی ہیں۔ جن ادویات کی زیادہ تر نقل تیار کی جا رہی ہے ان میں جینٹورنری37فی صد، انٹی انفیکشن12فیصد اور اعصابی نظام سے متعلقہ ادویات 12فیصد ہیں۔

حضرت عیسی کی تاریخ پیدائش، پو پ کی کتاب نے نیا تنازع کھڑا کردیا

برلن…پوپ بینی ڈکٹ کی نئی کتاب نے حضرت عیسی

علیہ اسلام کی تاریخ پیدائش سے متعلق نیا تنازعہ کھڑا کردیا ہے۔پوپ کا دعویٰ ہے کہ عیسائی کیلنڈر میں دی گئی حضرت عیسی کی پیدائش کا سال درست ہے نہ تاریخ۔حضرت عیسی کی تاریخ پیدائش سے متعلق اس سے پہلے بھی مختلف تحقیق کار اور عیسائی مذہبی رہنما سوال اٹھاتے رہے ہیں ۔لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ کیتھولک چرچ کے بانی نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے۔پوپ The infancy Narratives سلسلے کی اپنی تیسری کتاب میں لکھتے ہیں کہ عیسائی کیلنڈر میں حضرت عیسی علیہ اسلام کی تاریخ پیدائش میں کئی سالوں کی غلطی ہے۔ اور اس اعتبار سے دیکھیں تو ان کی پیدائش کا دن بھی 25دسمبر نہیں ہے۔ کتاب میں پوپ نے حضرت عیسی کی پیدائش اور ان کی ابتدائی زندگی کے بارے میں تفصیل سے بتایا ہے۔پوپ کی کتاب کی لاکھوں کاپیاں چھپ چکی ہیں۔اور بہتر ملکوں میں شائع کرنے کیلیے کتاب کا بیس زبانوں میں ترجمہ کیا جائے گا۔امکان ہے کہ یہ کتاب بھی دیگر دو کتابوں کی طرح مقبول ہوگی۔

گوگل پاکستان کی ویب سائٹ ہیک کرلی گئی





اسلام آباد … غیر ملکی ہیکرز نے گوگل پاکستان کی ویب سائ
ٹ کو ہیک کرلیا، پی ٹی اے ذرائع کا کہنا ہے کہ ویب سائٹ کو ری کنسٹرکٹ کرکے بحال کردیا گیا ہے۔ انٹرنیٹ سروس پرووائیڈرز کے مطابق ای بی او زیڈ نامی غیر ملکی ہیکرز نے گوگل پاکستان ویب سائٹ کو ہیک کیا گیا، صرف گوگل انٹرنیشنل کا سرچ انجن کام کررہا ہے۔ آئی ایس پی کا مزید کہنا ہے کہ صارفین کئی گھنٹوں تک گوگل پاکستان سرچ انجن تک رسائی حاصل نہیں کرسکے۔ جبکہ پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی نے بتایا ہے کہ گوگل پاکستان کی ویب سائٹ کو ری کنسٹرکٹ کرکے بحال کردیا گیا۔

کترینہ کیف اپنی آئندہ فلموں میں خطرناک اسٹنٹس خود کریں گی



ممبئی … بالی ووڈ اسٹار کترینہ کیف نے اپنی حالیہ ریلیز 'ایک تھا ٹائیگر' میں کچھ خطرناک اسٹنٹس خود کرنے کے بعد اپنی اگلی 2 فلموں میں تمام اسٹنٹس خود کرنے کی ٹھان لی ہے۔ کترینہ کیف کی آنے والی فلمز میں دھوم تھری اور ہالی ووڈ فلم نائٹ اینڈ ڈے کی ریمیک شامل ہیں۔ دونوں ہی ایکشن فلمز میں بالی ووڈ باربی اپنے سارے اسٹنٹس خود کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں اور اس سلسلے میں آجکل ٹریننگ لے رہی ہیں۔ فلموں میں اکثر اسٹنٹس ایکٹرز کی جگہ بوڈی ڈبلز پرفارم کرتے ہیں لیکن کیٹ نے ٹھان لی ہے کہ وہ اسٹنٹس خود ہی کریں گی۔ اس سلسلے میں ہالی ووڈ اسٹنٹ کوآرڈی نیٹرز کی خدمات بھی حاصل کی گئی ہیں جو کہ جلد ہی بھارت پہنچ کر کترینہ کی اسٹنٹ ٹریننگ میں حصے لیں گے اور شوٹس کے دوران بھی ان پر نظر رکھیں
گے۔

Ashoura ceremonies tense with threat of violence

Pakistani security officials are seen at the site of a remote control bomb blast targeting a Shi'ite Muslim mourning procession in Dera Ismail Khan, Pakistan, 25 November 2012. The bomb went off near an early morning Muharram procession in Commissionary Bazaar killing four and wounding at least 70. EPA/SAOOD REHMAN +++(c) dpa - Bildfunk+++
The Shiite month of mourning Muharram has reached its climax on the final day, known as Ashoura. While millions of Shiite Muslims peacefully observed the holy day, others were disrupted by violence.
Millions of Shiite Muslims gathered in Karbala, Iraq on Sunday, to visit the shrine central to the observation of Ashoura. It marks the culmination of the 10-day Muharram month of mourning, which is held in remembrance of Imam Hussein, the grandson of the Prophet Muhammad who was killed in the battle of Karbala in 680.

While the religious pilgrims in Iraq enjoyed a peaceful day of observance, an Ashoura procession in Pakistan was the target of a bomb blast on Sunday.

Five people were killed and at least 80 were injured in the blast on Dera Ismail Khan (pictured above), which is in northwest Pakistan. A spokesperson for the Pakistani Taliban claimed responsibility for the attack in an interview with the AFP news agency. The spokesperson said the blast had been carried out by a suicide bomber, but a police spokesman said a bomb had been planted inside a shop.
Sunday's blast was the latest attack to target Shiite Muslims during Muharram. A bomb explosion in the same town on Saturday killed at least eight people, and at least 23 people were killed in a procession in Rawalpindi on Thursday. The Taliban claimed those blasts as well.
Extremist Sunni Muslims had warned that Shiites would be the targets of attacks during Muharram.
On Saturday, Shiite students attempting to conduct an Ashoura ritual at a university in the Afghan capital, Kabul, clashed with Sunni students, resulting in at least one death and around 30 injuries. In response, Afghanistan's higher education ministry announced that university classes would be postponed for ten days. AFP quoted a government spokesperson as saying that this was "a precautionary measure."

Suicide bomber strikes at Nigerian army church

A suicide bomber has struck at a military barracks in Nigeria, detonating a car bomb outside a church within the compound. At least nine people were reported have been killed in the attack.
The bombers struck at the Jaji military barracks in the northern Nigerian state of Kaduna in a coordinated attack, a military source said.Map of Nigeria
Two cars were driven into the barracks, 200 kilometers (125 miles) north of the Nigerian capital Abuja, at about 1.45 p.m local time, an unnamed official told the Reuters news agency. He said nine had been killed and dozens injured.
"A Kia branded car drove into the church premises ... and detonated," said the source. "Then an ash-colored Toyota Camry drove in and exploded while people came to help after the first bomb. Most people died from the second blast."
The bombing was confirmed by Nigeria's National Emergency Management spokesman Yushau Shuaib, who said the explosion took place after a service inside the church. Shuaib gave no casualty figures.
While there was no claim of responsibility, the Islamist sect Boko Haram - which wants to establish Sharia law in northern Nigeria - has claimed responsibility for previous attacks on churches in Kaduna. The region lies along a fault line dividing the country's mainly Muslim north from the south of the country, which is mainly Christian.
The Nigerian army on Saturday offered 290 million naira (1.4 million euros, $1.8million) for information leading to the capture leading members of the group.
Since Boko Haram began an insurgency in 2009, it is believed to have killed at least 2,800 people, according to the group Human Rights Watch.

Clashes reignite between protesters, security forces in Cairo

The latest clashes broke out between protesters and security forces on the outskirts of Tahrir Square, in Cairo, Egypt's state-run Nile TV reported.
The unrest may be a prelude to dueling demonstrations scheduled for later this week.
The sides are divided over Egyptian President Mohamed Morsy and the Islamist movement that he once led. On Thursday, he announced that courts could not overturn any decree or law he has issued since taking office in June and, beyond that, in the six months until a new constitution is finalized, his spokesman said on state-run TV.
Egyptian protesters battle police
Massive protests erupt in Cairo
U.S. raises concerns about Egypt
Massive protests erupt in Cairo
Morsy using "language of a dictator"
The president also fired Egypt's prosecutor general, who has been criticized for the insufficient prosecutions of those suspected in demonstrators' deaths in 2011.
The moves sparked widespread protests.
The opposition has called for an open-ended sit-in at Cairo's central Tahrir Square "to defend the revolution and the Egyptian state," according to state-run EGYNews. It is planning a major protest Tuesday.
Meanwhile, the Muslim Brotherhood, the movement Morsy once led, has said it will stage nationwide demonstrations starting Sunday to back the president's plans. It also announced a "Million Man" demonstration Tuesday at Abdeen Square in Cairo to support Morsy.
Sunday also marked the first day trading resumed on the Egyptian stock market since Morsy's power consolidation.
By midday local time, stocks had plunged by about 10%.
Tahrir Square was the focal point of a popular uprising last year that forced longtime leader Hosni Mubarak out of office.
Just as they did during 2011, white tents dotted Tahrir Square early Sunday. In previous days, clashes between protesters and police were reported in the capital, the port city of Alexandria and elsewhere around the North African nation.
Since Morsy made his announcement Thursday, at least 261 people have been injured in clashes in Cairo and elsewhere, according to EGYNews, which cited the Health Ministry. EGYNews gave no breakdown as to who was hurt.
Interior Ministry spokesman Alaa Mahmoud said 128 police officers were injured in clashes nationwide.
On Saturday, Egypt's highest judicial body joined protesters in lambasting the country's president for issuing a decree disabling the courts and giving him unchecked power.
The Supreme Judicial Council called the decree an "unprecedented attack on the independence of the judicial branch," state-run media reported.
Dozens of protesters, some throwing rocks, faced off in central Cairo with police, who fired tear gas canisters at them.
Egyptian state TV reported clashes outside the judicial building in Cairo between opponents and supporters of the government. Clashes continued between protesters and security forces, with police firing tear gas and warning shots in the air near the Interior Ministry.
Ministry spokesman Mahmoud said hundreds of Morsy supporters and members of the Muslim Brotherhood attempted to storm the building, but riot police stopped them.
The protesters congregated at the entrance of the judicial building. That's where the leadership of the Egypt Judges Club, an association of judges from across the country, was meeting with former Prosecutor General Abdel-Meguid Mahmoud.
The judges and Mahmoud vehemently oppose Morsy's actions.
The general assembly of the judges' club called for a nationwide strike in all courts and prosecution offices to protest the president's move, state-run Nile TV reported.
Judges in Alexandria and Damanhour said they are putting all court hearings on hold until further notice.
Yet other judges offered support for Morsy. The Judges for Egypt movement, a nongovernmental organization, denounced any call for a strike, according to state-run TV.
Calling for calm and dialogue, the U.S. State Department expressed concern Friday about the recent developments in Egypt, saying, "One of the aspirations of the revolution was to ensure that power would not be overly concentrated in the hands of any one person or institution."
Last week, Morsy insisted his actions are in the interests of the Egyptian people.
"I have dedicated myself and my life for democracy and freedom," he told hundreds of supporters outside the presidential palace in Cairo. "The steps I took are meant to achieve political and social stability."
Amid the turmoil in Cairo, a bomb exploded at a Central Security Forces camp in North Sinai province, a security official said.
North Sinai security head Gen. Sameh Bishady said no soldiers were at the camp in el-Arish, and no casualties were reported. But it was the second explosion in the same area in less than 24 hours.

’اس نے تو ابھی مسکرنا ہی سیکھا تھا’

غزہ اور اسرائیل کے درمیان جنگ میں سرحد کے دونوں جانب شہریوں کی ہلاکت انتہائی افسوس ناک بات ہے بطور خاص جب ہلاک ہونے والوں میں معصوم بچے بھی شامل ہوں۔
غزہ میں بی بی سی کے نامہ نگار جان ڈونیسن نے بہت ہی قریب سے ایک ایسے ہی اندوہ ناک واقعے کو دیکھا۔
میرے ایک ساتھی جہاد مشراوی عام طور پر غزہ بیورو میں سب سے آخر میں گھر جانے والوں میں ہوتے ہیں۔ وہ انتہائی محنتی اور نرم گفتار ہیں اور دفتر میں دیر تک رکتے اور لیپ ٹاپ پر کام کرتے رہتے ہیں جو کہ ان سے ایک ہاتھ کے فاصلے پر رکھا ہوتا ہے۔
وہ ٹھنڈے دل و دماغ کے مالک ہیں اور جب ہم جیسے لوگ ان کے سامنے بھاگ دوڑ رہے ہوتے ہیں یا چھیڑ چھاڑ کر رہے ہوتے ہیں تو اس وقت بھی وہ سنجیدہ ہوتے ہیں۔ وہ ویڈیوایڈیٹر ہیں اور بی بی سی عربی سروس کے ایک مقامی سٹاف ہیں جن کی وجہ سے آفس کا کام چلتا رہتا ہے۔
اندازاً دو ہفتے قبل جب غزہ میں لڑائی شروع ہو ئی تھی اور اسرائیل کے ساتھ لڑائی میں حماس کے فوجی کمانڈر احمد الجعبری مارے گئے تھے تو اس وقت جہاد اپنے ایڈیٹنگ کے کمرے سے چیختے ہوئے باہر نکلے تھے۔
وہ اپنے سر کو دونوں ہاتھوں سے پکڑتے ہوئے زینے سے نیچے اترے اور ان کے چہرے پر فکر اور صدمے کے اثرات واضح تھے۔
کسی نے انھیں تھوڑی دیر پہلے فون پر بتایا تھا کہ اسرائیلی فوج نے ان کے گھر پر بمباری کی تھی اور ان کا گیارہ ماہ کا لڑکا عمر اس میں جاں بحق ہو گیا تھا۔
جہاد کا گیارہ ماہ کا بچہ عمر
جہاد کا گیارہ ماہ کے لڑکے عمر نے تو ابھی صرف مسکرانا ہی سیکھا تھا۔
کسی بھی باپ سے آپ پوچھیں تو وہ یہی کہے گا کہ اس کے بچے خوبصورت ہیں لیکن عمر تو ’پوسٹر بے بی‘ یعنی تصویروں کی کتاب میں شائع ہونے والے بچوں جیسا تھا۔
اپنے مکان کے ملبے پر کھڑے ہوکر جہاد نے مجھے اپنے موبائل پر کچھ دن قبل لی گئی اپنے بچے کی تصویر دکھائی، ایک گول مٹول بچے کی جو کہ ڈینم کی نیلی ڈانگری میں ملبوس پرام میں لیٹا تھا، کالی آنکھیں، چوڑی پیشانی، نفیس بھورے بال جو اس کی پیشانی پر آ رہے تھے۔
جہاد نے مجھ سے کہا ’اس نے ابھی صرف مسکرانا سیکھا تھا‘ اور پھر ہم دونوں اپنے آنسوؤں کو روکنے کی کوشش کر نے لگے جو امڈ رہے تھے۔
جہاد نے کہا ’عمر کو ابھی صرف دو الفاظ بابا اور ماما کہنے آتے تھے۔‘
جہاد کے فون میں دوسری تصویر بھی تھی جو کہ ایک دلدوز چھوٹی سی جلی ہوئی مسخ شدہ لاش کی تھی، جس میں عمر کا مسکراتا پھول سا چہرہ جو تقریبا جل چکا ہے اور وہ بال جو اس کی پیشانی پر جھوما کرتے تھے وہ اس جلے سر سے چپک ہوئے ہیں۔
اس حملے میں جہاد کی سالی حبہ بھی ہلاک ہوگئی ہیں۔ جہاد نے کہا کہ ’ہمیں ابھی تک ان کا سر نہیں ملا ہے‘۔ اور اس کا بھائی بری طرح جلی ہوئی حالت میں ابھی بھی ہسپتال میں ہے اور اس کے بچنے کی موہوم سی امید ہے۔
جہاد کا ایک بیٹا علی بھی ہے جو چار سال کا ہے اور وہ بھی معمولی زخمی ہے۔ وہ پوچھتا رہتا ہے کہ اس کا چھوٹا بھائی کہاں چلا گیا ہے۔
گیارہ افراد پر مشتمل یہ مشراوی خاندان غزہ کے شبرہ ضلعے کے ایک چھوٹے سے مکان میں رہتا تھا۔ ایک کمرے میں پانچ افراد سویا کرتے تھے۔
اور اب اس کے بستر صرف تارکول کے لیے ہیں اور الماریاں ملبے اور بچوں کے گرد میں اٹے کپڑوں سے بھری ہیں۔
"جہاد کے فون میں دوسری تصویر بھی ہے۔ ایک دلدوز چھوٹی سی لاش، عمر کا مسکراتا پھول سا چہرہ تقریبا جل چکا ہے اور وہ بال جو اس کی پیشانی پر جھوما کرتا تھا وہ اس جلے سر سے چپک چکا ہے۔"
باورچی خانے کے سلیب پر پلاسٹک کے پگھلی ہوئی بوتلیں ہیں جس میں فلسطینی مسالے ہوا کرتے تھے ان کی شکل بگڑ چکی ہے جیسا کہ نیچے ٹوٹے ہوئے شیشوں سے نظر آرہا تھا۔
داخل ہوتے ہی ملنے والے ہال کی آہنی چھت میں دو فٹ چوڑا سوراخ ہے جہاں میزائل آکر لگا تھا۔
ہرچند کہ تمام شواہد یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ اسرائیلی حملہ ہے تاہم کچھ بلاگ لکھنے والوں نے کہا ہے کہ یہ حماس کے راکٹ سے ہوا ہے جو کہ غلطی سے ادھر چلا گیا ہوگا۔
لیکن اسرائیل آپریشن کے بعد اسرائیل فوج نے کہا تھا کہ غزہ سے مارٹر داغے گئے ہیں اور بہت کم راکٹ برسائے گئے۔ جہاد کے گھر میں مارٹر سے اتنی تباہی نہیں ہو سکتی تھی۔
دوسرے بلاگروں نے لکھا ہے کہ جہاد کے گھر پر ہونے والا حملہ اسرائیل کا معمول کا حملہ نہیں ہے لیکن بی بی سی نے اس ہفتے ان مقامات کا دورہ کیا جہاں اسرائیل نے قبول کیا ہے کہ وہ ان کے ’سرجیکل حملے‘ کے نشانے تھے اور دونوں میں کافی مماثلت ہے۔
جہاد کے گھر پر ہونے والے حملے میں تعمیرات کو تو کم نقصان ہوا ہے لیکن لوگوں کو شدید طور پر جلی ہوئی اور زخمی حالت میں باہر نکالا گیا ہے۔
زیادہ قرین قیاس یہ ہے کہ عمر کی موت ان بیس حملوں میں ہوئی ہوگی جو اسرائیل نے شروع میں غزہ پر کیے تھے۔
ابراہیم دالو
ابراہیم دالو کی عمر بھی گیارہ ماہ ہی تھی۔
عمر دہشت گرد نہیں تھا۔ پھر بھی سرحد کے دونوں جانب عام شہریوں کی ہلاکت قابل افسوس ہے۔ اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ ابتدا سے کی گئی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہلاک ہونے والے ایک سو اٹھاون لوگوں میں ایک سو تین عام شہری ہیں۔
ان میں سے تیس بچے ہیں اور ان میں سے بارہ بچے دس سال سے کم عمر کے ہیں۔ اس کے علاوہ ان حملوں میں ایک ہزار افراد زخمی ہوئے ہیں۔
جہاد کا بچہ ابتدائی حملے میں ہلاک ہونے والا شاید پہلا بچہ تھا۔ اور آخری بچہ چھ سال کا عبدالرحمان نعیم تھا جو امن معاہدے سے قبل اسرائیلی حملے میں ہلاک ہوا تھا۔
عبدالرحمٰن کے والد ڈاکٹر مجدی غزہ شہر کے شفا ہسپتال میں سپیشلسٹ ڈاکٹر ہیں۔
انہیں اپنے بچے کی موت کا اس وقت علم ہوا جب وہ ایک مریض کا علاج کرنے کے لیے گئے تھے وہاں انھوں نے دیکھا کہ وہ انہی کا لخت جگر تھا۔
بظاہر ڈاکٹر مجدی نے کئی دنوں سے اپنے بچے کو نہیں دیکھا تھا، زخمیوں کے علاج کے سے انہیں فرصت ہی نہیں ملی تھی۔
جہاد کا گھر چھوڑنے سے قبل جہاں وہ ایک الاؤ کے پاس دوسرے غمزدہ افراد کے ساتھ بیٹھے تھے میں نے ان سے ایک احمقانہ سوال پوچھا کہ ’کیا انھیں عمر کی موت پر غصہ ہے؟‘
اپنے بچے کی تصویر پر نظر ڈالتے ہوئے ان کے جبڑے سخت ہو گئے اور انھوں نے کہا، ’ہاں، بہت زیادہ غصہ ہے؟‘
یہ اس شخص نے کہا جس نے کبھی بھی غصے میں اونچی آواز میں بات نہیں کی تھی۔۔۔
مجھے خدا حافظ کہنے سے پہلے جہاد نہ مجھ سے گلے ملتے ہوئے کہا کہ ’میں بہت شرمندہ ہوں جون کہ مجھے رکنا ہو گا اور جب آپ کو میری ضرورت ہے میں آپ کے پاس نہیں ہوں گا۔‘

بنگلہ دیش: فیکٹری میں آگ سے 112 افراد ہلاک

بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ کے قریب ایک فیکٹری میں لگنے والی آگ کے نتیجے میں حکام کے مطابق ایک سو بارہ افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے ہیں۔
آگ سنیچر کی رات کو نو منزلہ فیکٹری میں لگی جس کا نام تزرین فیشن بتایا گیا ہے جو کہ ڈھاکہ کے نواح میں اشولیا کے علاقے میں واقع ہے۔
بعض افراد کی ہلاکت انچائی سے گرنے کی وجہ سے ہوئی جب انہوں نے آگ سے بچنے کے لیے چھلانگ لگائی۔
ابھی تک یہ نہیں معلوم ہو سکا ہے کہ آگ کیسے لگی جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ فیکٹری کی دوسری منزل پر لگی اور اس نے جلد پوری عمارت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جس کے وجہ سے اوپر کی منزلوں میں موجود عملے کے بہت سارے افراد اس کی لپیٹ میں آگئے۔
ابتدائی اطلاعات کے مطابق اس آگ کے نتیجے آٹھ افراد ہلاک ہوئے لیکن تباہی کا منظر اس وقت سامنے آیا جب اتوار کی صبح امدادی کارکن آگ بجھنے کے بعد عمارت کے اندر داخل ہوئے۔
ڈھاکہ فائر بریگیڈ کے برگیڈئیر جنرل ابو نعیم محمد شاہداللہ نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کب بتایا کہ ’ہم نے اتوار کی صبح تلاش دوبارہ شروع کی اور فیکٹری کی مخلتف منزلوں پر ہمیں لاشیں ملیں۔‘
بنگلہ دیش جو کے ملبوسات تیار کرنے والے بڑے ملکوں میں سے ایک ہے میں آگ لگنے سے انسانی جانوں کا ضیاع اکثر ہوتا رہتا ہے۔
بنگلہ دیش جو کے ملبوسات تیار کرنے والے بڑے ملکوں میں سے ایک ہے میں آگ لگنے سے انسانی جانوں کا ضیاع اکثر ہوتا رہتا ہے۔
ان حادثات کی بڑی وجہ حفاظت کے غیر معیاری انتظامات اور بجلی کی خستہ وائرنگ کے علاوہ چھوٹی عمارتوں میں بڑی تعداد میں لوگوں کو جمع کر کے کام کروانا شامل ہے۔
دو ہزار دس میں ایک اور ملبوسات کی فیکٹری میں لگنے والی آگ کے نتیجے میں پچیس افراد ہلاک ہو گئے تھے جس ک وجہ ناقص بجلی کی تاریں تھیں۔
بنگلہ دیش میں چار ہزار پانچ سو کے قریب مختلف فیکٹریاں ہیں جن میں کم از کم بیس لاکھ افراد کام کرتے ہیں۔
ملبوسات بنگلہ دیش کی برامدات کا اسی فیصد ہیں جن سے بنگلہ دیش سالانہ چوبیس بلین ڈالر کماتا ہے۔

Sunday, 18 November 2012

Israel Bombards Gaza As Hamas Rocket Fire


Israeli warplanes blasted Hamas government buildings in the Gaza Strip Saturday in response to continuing Palestinian rocket fire. Israeli air defenses also shot down a Palestinian rocket fired at Tel Aviv, as Israel's Cabinet authorized the call up of 75,000 reservists for a possible ground invasion.
Television footage showed a mound of rubble after Israeli strikes leveled the Gaza office of Hamas Prime Minister Ismail Haniyeh and his Cabinet. Haniyeh was not there at the time. Israeli missiles also hit rocket launching sites and weapons smuggling tunnels.
As a fourth day of fighting raged, U.S. President Barack Obama continued to press Egypt, Turkey and other nations capable of influencing Hamas to help bring about a cease-fire.
Speaking to reporters accompanying the president to Southeast Asia, Deputy National Security Adviser Ben Rhodes repeated the U.S. position that Israel has a right to defend itself against rocket fire from Gaza. He said the president has spoken to Israeli Prime Minister Benjamin Netanyahu by phone as well as Egyptian President Mohamad Morsi and Turkish President Recep Tayyip Erdogan.
Late Saturday, foreign ministers from the Cairo-based Arab League were meeting in emergency session to discuss an Arab response to the fighting. Separately, Egypt's President Morsi hosted meetings Saturday with Turkish and Qatari leaders to coordinate the delivery of emergency aid to Gaza.
More than 100 Hamas rockets rained down on Israel Saturday, reaching far north as Tel Aviv, where sirens wailed early in the day.
Israel's military says its new “Iron Dome” missile defense system shot down an incoming rocket bound for Tel Aviv — one of several Hamas has fired at Israel's commercial center since fighting erupted Wednesday.
Israel says “Iron Dome” has intercepted nearly 250 Hamas rockets fired this week..
Palestinian officials say at least 42 people have died in Gaza, including militants and civilians, since the Israelis began their air strikes Wednesday. Hamas rockets have killed three Israeli civilians. About 10 Israelis including some soldiers were injured by rocket fire on Saturd






Friday, 16 November 2012

کیا آپ نے غزہ کی اس ویڈیو کے بارے میں سنا ہے جو بار بار یو ٹیوب اور فیس بک سے ہٹا دی جاتی ہے



کیا آپ نے غزہ کی اس ویڈیو کے بارے میں سنا ہے جو بار بار یو ٹیوب اور فیس بک سے ہٹا دی جاتی ہے اور پھر کوئی نا کوئی سر پھرا اسے نئے نام سے پوسٹ کردیتا ہے؟ اگر نہیں سنا تو اسے اب دیکھ لیں۔ اسے دنیا کی سب سے المناک ویڈیو قرار دیا جاتا ہے اور دیکھنے والا اپنے آنسو نہیں روک سکتا۔..



Power Rangers video

Adi Shankar Presents a Mighty Morphin' Power Rangers Bootleg Film By Joseph Kahn.

To Learn More About Why This Bootleg Exists Click Here: http://tinyurl.com/mw9qd79