اسلام آباد … نیپرا نے عوام کیلئے ایک اور بری خبر سنادی ہے کہ بجلی کا بحران مزید 8 سال تک جاری رہے گا، رپورٹ کے مطابق موجودہ صورتحال میں 2020ء تک بجلی بحران ختم نہیں ہو سکتا، 40 فیصد بجلی چوری اور لائن لاسز کی نظر ہو جاتی ہے۔ نیپرا نے اسٹیٹ آف انڈسٹری رپورٹ 2012جاری کردی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بجلی کی پیداوار اور تقسیم کے ادارے بری طرح ناکام ہو چکے ہیں، ملک میں بجلی کی پیداوار کی صلاحیت 23 ہزار میگاواٹ ہے لیکن زیادہ سے زیادہ صرف 14 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکی۔ رپورٹ کے مطابق ملک میں بجلی بحران کا کوئی قلیل المدتی حل موجود نہیں، پچھلے 3سال میں بجلی بحران نے معیشت کی کمر توڑ کر رکھ دی، بجلی بحران سے صنعتیں بند ہوگئیں جس کے باعث لاکھوں مزدور بیروزگار ہوئے۔ رپورٹ کے مطابق ڈیزل اور فرنس آئل سے مہنگی بجلی پیدا کر کے بجلی کی قیمت میں غیر معمولی اضافہ کیا گیا جبکہ ملک میں 40 فیصد بجلی لائن لاسز اور چوری کی نذر ہو جاتی ہے، کے ای ایس سی کے لائن لاسز اور بجلی چوری 35 فیصد ہے۔ تقسیم کار کمپنیوں اور سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی کے درمیان بجلی کی خرید و فروخت کے حوالے سے کوئی باقاعدہ معاہدہ تک موجود نہیں۔ نیپرا رپورٹ میں بھارت اور ایران سے بجلی درآمد کرنے اور نئے منصوبے شروع کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔
Batkhela news.100news Daily Updates News Funny Video Movie Songs Live news pashto tv live tv Malakand
Thursday, 29 November 2012
بھارت اسرائیل سے اینٹی ٹینک گائیڈڈ میزائل خریدے گا
نئی دہلی … بھارت اسرائیل سے اینٹی ٹینک گائیڈڈ میزائل خریدے گا، جس کی مالیت ایک ارب ڈالر تک ہوسکتی ہے۔ نئی دلی میں وزارت دفاع کے ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ امریکا کی جانب سے ایف جی ایم 148 جویلین اینٹی ٹینک گائیڈڈ میزائل کی فروخت میں ہچکچاہٹ کے بعد کیا جارہا ہے۔ واشنگٹن نے ان میزائل کے بارے میں مکمل فوجی معلومات، ٹیکنالوجی ٹرانسفر کا لائسنس دینے کی حامی نہیں بھری تھی۔ بھارتی فوج امریکی میزائل کی طرح کے اس میزائل کی مشق کر چکی ہے، یہ میزائل کاندھے پر رکھ کر بھی فائر کیا جاسکتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں اگلے مرحلہ میں خریداری کے معاملات آگے بڑھ رہے ہیں
جنوبی وزیرستان: برمل میں ڈرون حملہ، 3 افراد جاں بحق، 4 زخمی
وانا … جنوبی وزیرستان کے علاقے برمل میں امریکی جاسوس طیارے کے میزائل حملے میں 3 افراد جاں بحق اور 4 زخمی ہوگئے۔ ذرائع کے مطابق امریکی جاسوس طیارے نے جنوبی وزیرستان کے علاقے برمل میں ایک گاڑی پر 2میزائل فائر کئے جس میں 3 افراد جاں بحق اور 4 زخمی ہوگئے۔ |
حامدمیرکی رانامارکیٹ آمد، جیونیوزکو کلوز سرکٹ کیمرہ فوٹیج موصول
اسلام آباد…اسلام آبادکے علاقے ایف سیون کی رانامارکیٹ میں سینئر اینکر پرسن، معروف کالم نگار اور صحافی حامد میر کی آمد اور مشکوک شخص کی کلوز سرکٹ کیمرہ فوٹیج جیونیوزکوموصول ہوگئی ہے۔ فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک مشکوک شخص 10 بج کر 47 منٹ پر رانا مارکیٹ میں داخل ہوتا ہے، اُس کے ہاتھ میں ایک کالابیگ موجودہے، جس میں سے کچھ باہر لٹک رہاہے۔ سینئراینکرحامد میر کی گاڑی میں نصب دھماکہ خیزموادکے ساتھ بھی کچھ ایساہی لٹکتادکھائی دے رہاتھا۔ یہ شخص اُس طرف جا رہا ہے جہاں پانچ منٹ کے بعد حامد میر پہنچے۔ 10 بج کر 52 منٹ پر حامد میر کی گاڑی رانا مارکیٹ میں داخل ہوتی ہے اور 10 بج کر 55 منٹ پر واپسی چلی جاتی ہے۔ یہی گاڑی 11 بج کر 13 منٹ پر پھر داخل ہوتی ہے اور حامد میر یہاں آدھا گھنٹہ رُکتے ہیں۔ فوٹیج دیکھنے سے کئی سوالات ذہن میں آتے ہیں۔ یہ شخص کون ہے؟کیا اسے حامد میر کو ٹارگٹ کرنا تھا اور اُسے حامد میر کی آمد کا پہلے سے علم کیسے تھا۔ اُس کے ہاتھ میں کیا ہیاور یہ کس طرف رواں دواں ہے۔رانا مارکیٹ اور جناح سپر مارکیٹ میں لگے باقی کیمروں کی فوٹیج کہاں گئی۔ پولیس ذرائع کے مطابق جناح سپر مارکیٹ کی فوٹیج میں کوئی مشکوک شخص نظر نہیں آیا۔ |
امن کی آشا اور کا پیغام لئے نصیر الدین شاہ پاکستان پہنچ گئے
لاہور…ممتازبھارتی اداکارنصیرالدین شاہ کاکہناہے کہ پاکستان آ کر ایسے لگتا ہے جیسے اپنے گھر آ گیا ہوں،کھلے دل سے امن اور دوستی کا پیغام لے کر آیا ہوں۔ امن کی آشا نہ ہوتی تو پاکستان آتا ہی کیوں؟نصیرالدین شاہ اپنی فیملی کے ہمراہ بھارت سے لاہورآمدپرعلامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ پرمیڈیا سے گفتگو کررہے تھے،انہوں نے کہاکہ وہ ایک ہفتہ پاکستان میں قیام کریں گے اور یکم اور2 دسمبر کو الحمرا ہال لاہور میں پروگرام کریں گے،نصیرالدین شاہ کاکہناتھاکہ پاکستانیوں نے ہمیشہ بہت پیار دیا ،یہاں انہیں کوئی ڈر،خوف یا خطرہ محسوس نہیں ہوتا، وہ پاکستان میں ملنے والی محبت کو الفاظ میں بیان نہیں کر سکتے۔ |
پاکستان کا بیلسٹک میزائل حتف 5غوری کا کامیاب تجربہ
راولپنڈی…پاکستان نے بیلسٹک میزائل حتف 5غوری کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہغوری میزائل روایتی اور جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے،میزائل1300کلومیٹر تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے،بیلسٹک میزائل حتف5غوری کی درمیانے فاصلے تک مار کی صلاحیت ہے۔کامیاب تجربے پر صدر اور وزیراعظم نے کامیاب تجربے پر آرمی اسٹریٹجک فورس کمانڈ کومبارک باد دی ہے۔ |
وزیر اعظم نے موبائل سم کی کورئیرسروس سے فروخت کی پالیسی مستردکر دی
اسلام آباد…وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے موبائل فون آپریٹرز سے ملاقات کے بعدموبائل سمز کی کورئیرسروس کے ذریعے فروخت کی پالیسی مستردکر دی ،ذرائع کے مطابق موبائل سمز فرنچائز اور آپریٹو سینٹرزکے ذریعے قابل فروخت ہونگی تاہم سمز کے غیر قانونی استعمال کورو کنے کیلئے دیگر آپشن کو زیر غور لایا جائے گا ۔سم خریداری کیلئے دوسری شناختی دستاویز پیش کرنے کی پابندی بھی واپس لے لی گئی ہے۔وزیراعظم راجہ پرویز اشرف سے موبائل فون آپریٹرز کی ملاقات کے دوران موبائل فون نمبرز پورٹیبلیٹی پربھی پابندی ختم کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ۔اس موقع پر وزیر اعظم کا کہنا ہے تھاکہ موبائل آپریٹرز ریٹیلرز2ماہ میں بائیو میٹرک سینٹرز میں نصب کریں،موبائل فون ہینڈ سیٹس کے آئی ایم ای آئی نمبرز کی تصدیق یقینی بنائیں ۔
In pictures: A kingdom of colour
Egypt crisis: Assembly rushes to finish constitution
The assembly writing a new Egyptian constitution says it hopes to vote on a draft version as early as Thursday.
The news came as the constitutional court indicated it would rule on Sunday whether to dissolve the assembly.
Egypt's judiciary is in a stand-off with President Mohammed Mursi and his Islamist supporters, after Mr Mursi last week issued a decree granting himself sweeping new powers.
The decree has sparked huge protests across the country.
As those protests continued on Wednesday, officials at the constituent assembly said it was finishing its draft constitution, even though Mr Mursi had recently extended its deadline to complete the work until February.
A vote was expected on Thursday, state media reported.
The BBC's Jon Leyne, in Cairo, says issuing a constitution in these circumstances would be a deeply inflammatory move.
Opposition figure and former Arab League chief Amr Moussa told Reuters news agency: "This is nonsensical and one of the steps that shouldn't be taken, given the background of anger and resentment to the current constitutional assembly."
'Sacred mission'
The constituent assembly is dominated by the Muslim Brotherhood and other Islamists, who back Mr Mursi.
Liberal, left-wing and Christian members have boycotted the body, accusing the Islamists of trying to impose their vision.
Continue reading the main story
22 November declaration
Re-open investigations into killings of protesters; retrials of those accused
No appeals against constitutional decrees made since Mursi came to power
President to appoint the public prosecutor (must be aged at least 40)
Constituent assembly to get two months extra to draft new constitution
No judicial authority can dissolve the constituent assembly or the upper house of parliament (Shura Council)
President authorised to take any measures to preserve the revolution or safeguard national security
Egypt state TV struggles to shake off old habits
Egyptians on presidential powers
Its latest move appeared to be aimed at dodging a ruling by the constitutional court on Sunday on whether the assembly should be dissolved.
The constitutional court's deputy chairman, Maher Sami, said in a televised speech that the ruling would go ahead.
"The court is determined to rise above its pain and continue its sacred mission until the end, wherever that takes us," he said.
The court has already dissolved the lower house of Egypt's parliament, which was led by the Muslim Brotherhood.
The declaration that sparked protests gave Mr Mursi powers to take any measures to protect the revolution, and stated that no court could overturn his decisions.
It is valid until a new constitution is in place.
Critics accuse Mr Mursi of trying to seize absolute powers.
Supporters say the decrees were needed to protect the gains of the revolution against a judiciary with deep ties to overthrown President Hosni Mubarak.
On Monday, Mr Mursi sought to defuse the crisis by telling senior judges that the decrees would be restricted to "sovereign matters" designed to protect institutions.
But judges who attended the meeting said they were not satisfied and wanted the measure completely withdrawn.
On Wednesday, judges called a strike, saying appeals courts and the court of cassation would halt work until the decree was revoked.
The president was expected to make a televised address to the nation about the decree late on Thursday.
There have been running protests since the decree was issued, often spilling over into violent clashes between protesters and riot police.
The Muslim Brotherhood and the more radical al-Nour party have called for a counter-protest in Cairo on Saturday.
If approved by the constituent assembly, the draft constitution would then be put to a national referendum.
Country of Beggers........!
اژدھے کی کھال کی تجارت سے اژدھوں کو خطرہ
ایک رپورٹ کے مطابق اژدھے یا اس کی نسل کے دوسرے سانپوں کے کھال کی دنیا میں بڑھتی تجارت سے ایسی نسل کے سانپوں کے وجود کو خطرہ لاحق ہے۔
تحقیق کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یورپ میں ان چمڑوں سے بنے بیگ یا دوسری فیشن کی اشیاء کی مانگ میں اضافہ ہورہا ہے اس لیے یورپ میں اسے خوب برآمد بھی کیا جاتا ہے۔
اسی بارے میں
برطانوی وائلڈ لائف فوٹوگرافی ایوارڈز کے فاتح
وائلڈ لائف کیمرے کی نظر سے
ویلز میں جنگلی حیات اور قدرتی مناظر
لیکن یہ تجارت اصول و ضوابط سے اس قدر دور ہے کہ یہ پتہ کرنا بڑا مشکل ہے کہ ایسی کھالیں کہاں سے آئی ہیں۔
اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گيا ہے کہ ان کھالوں کے حصول کے لیے کئی بار بڑی بے رحمی سے ان سانپوں کو مارا جاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سانپ کی کھالوں کی تجارت بڑی فائدے مند ہے اور ایک ارب ڈالر کی تجارت کے تحت جنوب مشرقی ایشیا سے ہر برس تقریباً پانچ لاکھ سانپ کی کھالیں بر آمد کی جاتی ہیں۔
وائلڈ لائف کے تحفظ سے متعلق جو عالمی معاہدہ ہے اس کے تحت ایسی بعض نسلوں کی تجارت کی اجازت بھی ہے لیکن اژدھے سانپوں کے معاملے میں ان قوانین کا بھر پور استحصال کیا جاتا ہے۔
وہ سانپ جنہیں پال کر بڑا کیا جاتا ہے ان کی خرید و فروخت کی اجازت ہے لیکن اس رپورٹ کے مطابق بیشتر وہ سانپ جنہیں پالا ہوا بتایا جاتا ہے دراصل وہ جنگلی سانپ ہوتے ہیں۔
لمبے سانپوں کی کھالوں کی زیادہ مانگ ہے
جو افراد اس کی کھال نکال کر بیچتے ہیں انہیں تو اتنے پیسے نہیں ملتے لیکن یورپ میں پہنچ کر اس کی قیمت زیادہ ہوجاتی ہے۔
مثلا انڈونیشیاء میں اگر گاؤں کے ایک شخص نے تیس ڈالر میں کھال بیچی تو فرانس اور اٹلی میں وہ پندرہ ہزار ڈالر تک قیت کی ہوتی ہے۔
سب سے زیادہ قیمت تین یا چار میٹر لمبی کھال کی ہوتی ہے اور اسی کی زیادہ مانگ بھی رہتی ہے۔
اس رپورٹ کوتیار کرنے والوں میں سے ایک اولور کیلابیٹ کا کہنا ہے کہ زیادہ تر یہ تجارت غیر قانونی طریقے سے ہوتی ہے۔’ یہ مقامی انتظامیہ پر منحصر ہے کہ وہ قانون کو کیسے نافذ کرتے ہیں۔’
ان کا کہنا ہے ’کئی بار تو انہیں اس سے متعلق کچھ پتہ ہی نہیں ہوتا ہے اور بہت بار وہ اس کی پرواہ بھی نہیں کرتے۔‘
اس رپورٹ کے مطابق جس تیز رفتاری سے اژدھے مارے جاتے ہیں اس میں کمی ضروری ہے کیونکہ بہت سے کم عمری میں ہی مار دیے جاتے ہیں۔
لیکن یہ کام آسان بھی نہیں کیونکہ سانپوں کے متعلق اس طرح بیداری پیدا کرنا مشکل کام ہے۔ ان کے بارے میں عوام میں کوئی خاص جذبہ نہیں ابھرتا۔
لیکن محقیقین کا کہنا ہے کہ اس کا حل تجارت پر پابندی عائد کرنا بھی نہیں ہے۔ ان کے مطابق اس کے بارے میں مقامی انتظامیہ کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ کوئي ایسا طریقۂ کار اپنایا جائے جس سے سانپوں کا پتہ رہے کہ وہ کہاں کہاں ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں کہ لوگ اس کا بہت مطالبہ کرتے ہیں بلکہ یورپی ممالک میں تاجر اس کھال کی بنی اشیاء زیادہ سے زیادہ پیش کرنا چاہتے ہیں۔
نے ایسی پر تعیش اشیاء بنانے والوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن کسی نے بھی جواب نہیں دیا۔batkhela-movies.blogspot.com
پولینڈ میں جانوروں کو ذبح کرنے پر پابندی
پولینڈ کی سب سے بڑی عدالت نے ملک میں مذہبی طریقہ سے ذبح کرنے کے طریقہ کو غیر قانونی قرار دیا ہے جبکہ یورپی یونین اس طریقے کو قانونی حیثیت دینے والی ہے۔
عدالت کے ایک آئینی ٹرائبیونل نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ بغیر بے ہوش کیے جانورکی گردن کاٹنے سے خون بہہ کر موت ہونا پولش قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
اسی بارے میں
گوشت کی برآمد پر پابندی کا خیرمقدم
گائے اور خنزیر کے فوڈ فیسٹیول پر پابندی
گائے کا گوشت کھانا ایک سنگین جرم
پولینڈ میں مسلمانوں اور یہودیوں کی آبادی کم ہے جو اپنے مذہبی عقیدے کی بنیاد پر ذبح کا یہ طریقہ اپناتے ہیں۔
لیکن ابھی یہ واضح نہیں کہ یورپی یونین نے ذبحہ کرنے کے طریقہ کو جو قانونی درجہ دینے کا فیصلہ کیا اس سے پولینڈ کا یہ قانون متصادم ہوگا یا اس کا اس پر کوئي اثر نہیں پڑیگا۔
یورپی یونین نے مذہب اور عقیدہ کی بنیاد پر ذبحہ کرنے کے طریقہ کو قانونی حیثیت دینے کا فیصلہ کیا ہے جس کا نفاذ یکم جنوری سے ہوگا۔
پولینڈ کے وزیر ذراعت سٹینسلاء کلیمبا کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کے قوانین ایک مثال ہیں اور اگر اس فیصلے سے کوئي مشکل پیش آئی تو اس سے دور ہو جائیگي۔
ان کی وزارت نے ایسے تقریباً سترہ ذبح خانوں کو لائسنس جاری کیے ہیں جس کے تحت انہیں مذہبی بنیاد پر ذبح کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔
لیکن مویشیوں پر ظلم کے خلاف مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کے قوانین کے تحت ہر ملک کو اپنے انفرادی اصول و ضوابط وضع کرنے کی بھی اجازت ہے۔
ایسی ہی ایک تنظیم کے رکن ڈریز گزریا نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا ’ یہ ہم پر منحصر ہے کہ آيا ہم اس طرح کے قانون اپنائیں یا نہیں جس کے تحت اس طرح کے ذبیحہ کی اجازت دی گئي ہے۔''
یورپ میں پولینڈ حلال گوشت پر پابندی لگانے والا دوسرا ملک ہے
یورپ میں پولینڈ سے پہلے سویڈن نے اس طرح کے ذبیحے پر پابندی عائد کی تھی اور اب ایسا پولینڈ نے کیا ہے۔
پولش ریڈیو کے مطابق ملک میں جانوروں کے لیے کام کرنے والی بعض تنظیموں کی درخواست پر عدالت نے یہ فیصلہ سنایا ہے۔
لیکن اس پر نکتہ چینی کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کی پابندی سے غلط پیغام جائے گا اور یہ تاثر ہوگا کہ ملک میں مذہبی اقلیتوں سے روادی نہیں برتی جاتی۔
صدر برونسلاء کموسوکی نے روایتی ذبحہ کرنے کے طریقہ کا یہ کہہ کر دفاع کیا ہے کہ یہ تو ایک قدیم زمانے سے ہوتا آیا ہے۔
نیدرلینڈ میں گزشتہ برس اسی موضوع پر ایک بحث کے دوران انہوں نے کہا تھا کہ روایتی ذبح کرنے کے طریقہ کے خلاف قانون بنانا یہودیوں اور مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے مترادف ہوگا اور یورپ میں غیر رواداری کے بحران سے تعبیر کیا جائےگا۔
پولینڈ میں یہودی کمیونٹی کی یونین کے صدر پیؤٹ کاڈلک نے اس کے رد عمل میں کہا کہ مذہی امور سے متعلق ان کی تنظیم اور پولینڈ حکومت کے درمیان سنہ انیس سو ستانوے میں جو معاہدہ ہوا تھا اس کی یہ صریحا خلاف ورزی ہے۔
ان کا کہنا تھا ’ایسا لگتا ہے اس میں قانونی تضاد ہے اور اس کا کیا مطلب ہے اس بارے میں کچھ بھی کہنا جلد بازی ہوگي۔ہم اس پر قانونی صلاح و مشورہ کر رہے ہیں۔‘
یہودیوں کے ذبح کو کوشر کہا جاتا ہے اور چونکہ نازیوں کے زمانے میں پولینڈ میں یہودیوں کو ہلاک کیا گيا تھا اس لیے وہاں اس کی بڑی اہمیت ہے۔
اس دور میں پولینڈ میں تقریباً تیس لاکھ یہودی تھے اور اب ان کی تعداد چھ ہزار ہے۔ مسلمانوں کی تعداد بھی زيادہ نہیں اور وہ بھی چند ہی ہزار ہیں۔
لیکن پولینڈ میں کوشر اور حلال دونوں طرح کےگوشت تیار ہوتے ہیں اور یہاں سے عرب ممالک، ترکی اور اسرائيل کو بر آمد بھی کیے جاتے ہیں۔ یہ بھی ملک کا ایک بڑا بزنس ہے۔
دمشق میں کار بم دھماکے: 34 افراد ہلاک
شام کے سرکاری میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ دارالحکومت دمشق کے جنوب مشرقی علاقے میں دو دھماکے ہوئے ہیں جن میں کم از کم 34 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے ہیں۔
سانا خبررساں ادارے نے کہا ہے کہ اس حملے کے پیچھے ’دہشت گردوں‘ کا ہاتھ ہے۔
اسی بارے میں
ادارے کے مطابق اس علاقے کے بہت سے رہائشی ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں، اور گھروں اور دکانوں کو نقصان پہنچا ہے۔
برطانیہ میں قائم انسانی حقوق کے ادارے ایس او ایچ آر کا کہنا ہے کہ اس حملے میں کم از کم 34 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے ہیں۔
ٹیلی ویژن پر آگ بجھانے والے عملے کو دو جلی ہوئی گاڑیوں کے ڈھانچوں میں آگ بجھاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
جرمانہ میں اسی دوران دو چھوٹے بموں کے دھماکے بھی ہوئے، تاہم ان میں کسی شخص کے ہلاک ہونے کی اطلاع نہیں ملی۔
بی بی سی کے ایک نامہ نگار نے جرمانہ سے بتایا ہے کہ بدھ کے روز سرکاری فوج اور باغیوں کے درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں۔
حالیہ دنوں میں دمشق کے نواحی علاقوں میں شدید جنگ ہوتی رہی ہے۔
جرمانہ میں زیادہ آبادی دروز اور عیسائیوں کی ہے۔ اطلاعات کے مطابق یہاں حکومت کے حامی افراد نے باغیوں کے حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مسلح دھڑے تشکیل دے رکھے ہیں۔
29 اکتوبر کو اسی علاقے میں ایک اور کار بم دھماکے میں 11 افراد مارے گئے تھے۔
ایک حکومت مخالف دھڑے ایل سی سی نے کہا ہے کہ دارالحکومت اور اس کے مضافات میں منگل کے روز 48 افراد مارے گئے تھے، جب کہ ملک بھر میں 131 لوگ ہلاک ہوئے جن میں بچے بھی شامل تھے۔
حکومت مخالف گروپوں کا کہنا ہے کہ مارچ 2011 میں بشار الاسد کے خلاف مزاحمت شروع ہونے کے بعد سے اب تک 40 ہزار سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔
ایل سی سی کے مطابق فری سیرئین آرمی نے دمشق کے جنوب میں ایک فوجی فضائی اڈے پر حملہ کیا اور دمشق کے مضافات میں حکومتی افواج کے کئی حملوں کو روکا۔
بلوچ مزاحمت کاروں کو مراعات کی پیشکش
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کی حکومت نے بلوچ مزاحمت کاروں کو مسلح کاروائیاں ترک کرنے کی صورت میں مراعات دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
بلوچستان کی حکومت نے مسلح مزاحمت کے لیے پہاڑوں پر جانے والوں سے کہا ہے کہ وہ مسلح کاروائیاں ترک کر کے واپس آجائیں تو انہیں روزگار فراہم کیا جائے گا۔
اسی بارے میں
’حکومت بلوچستان مسئلے کے حل کرنے کا عزم نہیں رکھتی‘
بلوچ بنگالی
’بلوچستان کے مسائل معافی سے حل نہیں ہوں گے‘
پاکستان, بلوچستان
اس بات کا فیصلہ گورنر بلوچستان نواب ذوالفقار علی مگسی کی زیر صدارت بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے قائم اعلیٰ سطحی کمیٹی (Apex) کے اجلاس میں کیا گیا۔
یاد رہے کہ Apex کمیٹی کے نام سے یہ اعلیٰ سطحی کمیٹی سپریم کورٹ کے اس عبوری حکم کے بعد قائم کی گئی ہے جس میں یہ قرار دیا گیا تھا کہ بلوچستان کی سویلین حکومت لوگوں کی جان ومال کی تحفظ کے حوالے سے اپنی آئینی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے اور اس نے حکومت کرنے کی اپنی آئینی اتھارٹی کھودی ہے۔
حکومت بلوچستان کی جانب سے جاری ہونے والے ایک اعلامیہ کے مطابق بدھ کو گورنر ہاؤس کوئٹہ میں ہونے والے اس اجلاس میں وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب محمد اسلم خان رئیسانی، کمانڈر سدرن کمانڈمیجر جنرل محمد عالم خٹک، چیف سیکریٹری بلوچستان بابر یعقوب فتح محمد، آئی جی ایف سی میجر جنرل عبیداللہ خان، آئی جی پولیس بلوچستان طارق عمر خطاب، صوبائی سیکریٹری داخلہ کیپٹن (ر) اکبر حسین درانی اور دیگر عسکری حکام نے شرکت کی۔
اجلا س میں صوبے کے مسائل خصوصاً امن و امان کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا اور ان مسائل کے حل کے لیے مختلف تجاویز پر غور کیا گیا اور اہم فیصلے کئے گئے۔ اجلاس نے پہاڑوں پر چلے جانے والوں کی واپسی کی صورت میں ان کے لیے خصوصی رعایت اور مراعات کا اعلان کیا۔
کمیٹی کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ پہاڑوں سے واپس آنے والوں کا نہ صرف خیر مقدم کیا جائے گاکہ بلکہ انہیں باعزت روزگار فراہم کرنے کے علاوہ ان کی فلاح وبہبود کے لیے صوبائی سطح پر امدادی فنڈ بھی قائم کیا جائےگا۔
علاوہ ازیں یہ فیصلہ بھی ہوا کہ قبائلی تنازعات کے حل اور ان کے پر امن تصفیے کے لیے صوبائی حکومت اپنا کردار ادا کرے گی۔
اگرچہ بلوچستان حکومت کی جانب سے پہاڑوں پر جانے والے افراد کے لیے یہ پہلا اعلان ہے لیکن اس سے قبل وفاقی حکومت کی جانب سے اس طرح کے جو اعلان ہوتے رہے ہیں انہیں بلوچ عسکریت پسند تنظیموں نے مسترد کیا تھا۔
Wednesday, 28 November 2012
FUNNY 8 MINUTES COMPILATION OF FAIL
FREE FUNNY VIDEO
www.batkhela-movies.blogspot.com
Tuesday, 27 November 2012
کیوبا میں بھاری بھرکم خاتون کاڈانس
ہوانا…کیوبا کی
بھاری بھرکم خواتین نے ڈانس کی دنیا میں نیا نظریہ متعارف کرادیا ، ڈانس
کرنے کے لیے اسمارٹ ہونا ضروری ہے ، کیوبا کی فربہ خواتین نے اسٹیج پر ڈانس
کیا،8فربہ خواتین کے اس گروپ کو Juan Miguel ڈائریکٹ کررہے ہیں ، گروپ میں
ہر ایک کا ہی وزن 91 کلو ہے ، اور عمریں 35 سے 50 سال کے درمیان ہیں
نائجیریا میں خودکش حملے: گیارہ افراد ہلاک
حکام کے مطابق خودکش حملہ آوروں نے شمالی نائجیریا میں
کادونا ریاست میں ایک فوجی بیرک کے اندر واقع چرچ پر حملہ کر کے 11 افراد
کو ہلاک اور 30 کو زخمی کر دیا ہے۔
ایک فوجی ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ بیرک کے
اندر دو گاڑیاں لے جا کر ٹکرائی گئیں۔ انھوں نے اس حملے کو ’حیرت انگیز اور
خجالت آمیز‘ قرار دیا۔اسی بارے میں
تنظیم حکومت کا تختہ الٹ کر ملک میں اسلامی شریعت نافذ کرنا چاہتی ہے۔
لاگوس میں موجود بی بی سی کے نامہ نگار ول روس کا کہنا ہے کہ اگرچہ عیسائیوں کے چرچ عام نشانہ ہیں، یہ واقعہ براہِ راست فوج پر حملہ لگتا ہے۔
جمعے کے روز نائجیریا کی فوج نے بوکو ہرام کے سربراہ ابوبکر شرکو کو پکڑنے میں مدد دینے پر پانچ کروڑ نائرا (317000 امریکی ڈالر)، اور دوسرے رہنماؤں کی گرفتاری میں مدد دینے پر ایک ایک کروڑ نائرا کے انعام کا اعلان کیا تھا۔
فوج کا کہنا ہے کہ بیرکوں میں ایک بس داخل ہوئی جس نے چرچ کی دیوار کو ٹکر مار دی اور دھماکے سے پھٹ گئی۔
دس منٹ بعد چرچ کے باہر ایک کار میں دھماکا ہوا۔
"پہلے دھماکے سے کوئی ہلاکتیں نہیں ہوئیں، اور متجسس عبادت گزار ملبے کے اردگرد جمع ہو گئے۔ اسی دوران دوسرا دھماکا ہوا۔"
فوجی ترجمان
عینی شاہدین نے کہا کہ جائے وقوعہ پر لاشیں بکھری ہوئی تھیں اور زخمیوں کو سٹریچروں پر ڈال کر وہاں سے لے جایا جا رہا تھا۔
جون میں کدونہ میں ہونے والے دھماکوں اور ان کے جواب میں ہونے والی کارروائیوں میں کم از کم 50 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
لگ بھگ ایک ماہ پہلے اسی ریاست میں ایک رومن کیتھولک چرچ میں ہونے والے بم دھماکے میں سات افراد مارے گئے تھے۔
کادونا ریاست مسلمانوں کی اکثریت والے شمالی نائجیریا اور عیسائیوں کی اکثریت والے جنوبی نائجیریا کے درمیان سرحد کا کام کرتی ہے۔
صدر مرسی کی حمایت میں مجوزہ مظاہرہ منسوخ
مصر کے اہم اسلامی اتحاد اخوان المسلمون نے قاہرہ میں
منگل کو مجوزہ مظاہرہ منسوخ کر دیا ہے جبکہ صدر مرسی نے ججوں سے ملاقات میں
اپنے اختیارات میں اضافے کے حوالے سے ان کے خدشات دور کیے ہیں۔
منگل کو حزب مخالف صدر محمد مرسي کی اختیارات میں
اضافے کے حکم کے خلاف مظاہرے کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاہم اخوانِ المسلمون
نے نے صدر مرسی کی حمایت میں مظاہرہ کرنا تھا تاہم اس نے کہا ہے کہ وہ
مظاہرہ نہیں کریں گے تاکہ تصادم سے بچا جا سکے۔اسی بارے میں
ترجمان یاسر علی نے کہا ہے کہ صدر اس حکم کو واپس نہیں لیں گے لیکن انہوں نے ججوں کو یقین دلایا ہے کہ یہ حکم عارضی ہے اور اس کا دائرہ اختیار خود مختاری کے معاملات تک محدود ہے جو کئی اداروں کی حفاظت کے لئے ہے۔
ابھی تک ججوں کی طرف سے کوئی بیان نہیں آیا ہے. قاہرہ میں بی بی سی کے نامہ نگار جان لین کا کہنا ہے کہ یہ ایک فارمولا ہے جس پر شاید جج راضی ہو سکتے ہیں۔
اخوان المسلمون نے قاہرہ یونیورسٹی کے باہر دس لاکھ لوگوں کے مارچ کا اعلان کیا تھا۔ نوبل امن انعام یافتہ محمد البرادی سمیت حزب اختلاف کے کئی رہنماؤں نے کہا ہے کہ وہ صدر کے ساتھ اس وقت تک بات چیت نہیں کریں گے جب تک وہ آئینی اعلان کے نام سے جانے جانے والے اپنے متنازعہ فیصلے کو واپس نہیں لے لیتے۔
یہ فیصلہ گزشتہ ہفتے کیا گیا تھا جس کے بعد سے ہی اس کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔ اس فیصلے کے تحت کوئی بھی قانون صدر کے فیصلوں کو پلٹ نہیں سکتا ہے۔
اس فیصلے کے تحت جج بھی نیا آئین بنانے کے لیے بنی آئین ساز اسمبلی کے ارکان کو معطل نہیں کر سکیں گے۔ اس کے تحت صدر کو اختیار حاصل ہے کہ وہ انقلاب کو بچانے کے لئے اور ملک کی حفاظت کے لئے کوئی بھی فیصلہ کر سکتے ہیں۔
دریں اثناء قاہرہ کی عدالت کا کہنا ہے کہ فرمان کے خلاف وکلاء اور حزب اختلاف کے کیسز کی پہلی سماعت آئندہ ماہ چار دسمبر کو ہو گی۔
واضح رہے کہ منگل کو صدر مرسی کے اس اعلان کے بعد کہ اب کوئی بھی صدر کے بنائے ہوئے قوانین، کیے گئے فیصلوں اور جاری کیے گئے فرمان کو چیلنج نہیں کر سکے گا مصر میں عام عوام، عدلیہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے زبردست احتجاج جاری ہے۔
مصر کے وزیر انصاف احمد مکی نے صدر مرسی اور ججوں کے درمیان ثالثی کی کوششیں شروع کی دی ہیں۔ وزیر انصاف کے بقول انہیں خود فرمان پر چند تحفظات ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق صحافیوں نے جب سوال کیا کہ کونسل کا اصرار ہے کہ فرمان صرف مطلق العنان فرماں روا کے معاملات تک محدود ہونا چاہیے؟ تو اس پر وزیر انصاف نے کہا کہ’ان کے خیال میں صدر یہ چاہتے ہیں۔‘
ملک میں ججوں کی نمائندگی کرنے والے ججز کلب نے صدارتی فرمان کے خلاف ملک گیر ہڑتال کا اعلان کیا تھا جب کہ ملک کی سپریم جوڈیشل کونسل نے صدارتی فرمان کو مکمل طور پر مسترد نہیں کیا اور کہا ہے کہ اس کا اطلاق صرف مطلق العنان فرماں روا کے معاملات پر ہونا چاہیے اور ججوں پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے کام پر واپس آ جائیں۔
دریں اثنا مصر میں صدارتی فرمان پر صدر مرسی کے خلاف جاری احتجاج میں اتوار کو پہلی ہلاکت ہوئی ہے۔
منگل کو تحریر سکوائر پر ایک بڑے احتجاج کا اعلان کیا گیا ہے۔
Monday, 26 November 2012
Geo News’ anchor Hamid Mir escapes car bomb plot
ISLAMABAD: Explosives were found under the vehicle of Geo News’ senior anchor and journalist Hamid Mir in Islamabad Monday, News reported.
According to reports, Hamid Mir went to the nearby market in his car and after returning home, the neighbor’s driver spotted a suspicious bag under his car.
The bomb disposal squad was immediately called in to remove the bag after which it was revealed that the bag contained half kilograms of explosive material that was diffused by the squad.
The material included a battery, a 35 no. detonator and ball bearings.
IG Islamabad assured of registering the case and appropriate investigation of the matter.
Speaking to Geo News Hamid Mir said he would continue to raise his voice for truth and justice.
Mir said he had gone for some work with his driver and parked his car for a little while when the explosives were placed where he sits.
"Its a message to me as well as Geo and the journalist community in Pakistan," Mir said.
Seven killed in Lahore passenger van fire
AHORE:
A passenger van caught fire on Multan road near Manga Mandi on Monday
and seven passengers died after being burnt, News reported.
According to motorway police, a passenger van caught fire after the gas cylinder exploded on Multan road.
The van was coming from Sahiwal when the incident occurred where seven passengers died after receiving burn injuries.
Several other passengers were injured who were shifted to Jinnah Hospital.
According to motorway police, a passenger van caught fire after the gas cylinder exploded on Multan road.
The van was coming from Sahiwal when the incident occurred where seven passengers died after receiving burn injuries.
Several other passengers were injured who were shifted to Jinnah Hospital.
Kiwi paceman Southee jolts Sri Lanka
COLOMBO: Tim Southee rattled Sri Lanka with two wickets off three balls to put New Zealand in command on the second day of the second and final Test at the P. Sara Oval in Colombo on Monday.
The fast bowler removed opener Tillakaratne Dilshan and Kumar Sangakkara in his second over before Sri Lanka struggled to reach 43-3 in their first innings at stumps in reply to New Zealand's 412.
Southee, who also grabbed four quick wickets in the opening Test in Galle, rocked the Sri Lankan top order as he bowled Dilshan (five) and then had Sangakkara caught by Trent Boult at fine-leg after a mistimed pull.
Boult also struck early, having skipper Mahela Jayawardene (four) caught by Kane Williamson at gully to reduce the hosts to 12-3.
Angelo Mathews was unbeaten on 20 with Tharanga Paranavitana nine not out when play was called off due to bad light, with seven overs remaining in the day.
Sri Lanka lead the series 1-0 following their 10-wicket win in the first Test.
New Zealand had been strongly placed at 276-2 before losing their last eight wickets for 136, with left-arm spinner Rangana Herath finishing with 6-103 for his third successive haul of five or more wickets in an innings.
Herath took six of the eight New Zealand wickets that fell in the day, including those of well-set Ross Taylor (142) and Williamson, after the tourists had resumed at 223-2.
New Zealand were 300-6 at one stage but Daniel Flynn (53) helped his team cross the 400-mark with his second half-century of the series. He also completed 1,000 Test runs during his 135-ball knock.
Skipper Taylor and Williamson added 262 for the third wicket before they fell in the space of 14 runs, trapped leg-before while attempting to sweep.
Herath, who dismissed debutant Todd Astle (three) and Southee (15) in the afternoon, finished the innings soon after the tea-break with the wickets of Flynn and Boult in the same over.
Taylor, 119 overnight, cracked 11 fours in his 306-ball knock while Williamson's 305-ball innings included 12 boundaries.
The hosts, who took their second wicket in the fourth over on Sunday, continued to struggle until Herath struck in the second hour of the morning.
Williamson, 95 overnight, reached his third Test century in 18 matches with an edged four off paceman Shaminda Eranga.
He also completed 1,000 Test runs a few overs later, fluently driving seamer Nuwan Kulasekara through the covers for a boundary. (AFP)
’سگریٹ نوشی سے دماغ گل سڑ جاتا ہے‘
برطانوی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ سگریٹ نوشی سے
یادداشت، سیکھنے اور استدلال کی قوتیں متاثر ہوتی ہے اور اس کے باعث دماغ
گل سڑ جاتا ہے۔
یہ تحقیق لندن کی کنگز کالج نے کی ہے اور یہ ایج اینڈ ایجنگ جرنل میں شائع ہوئی ہے۔اس تحقیق میں شامل سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ لوگوں کو خیال رکھنا چاہیے کہ طرزِ زندگی سے بھی جسم کے ساتھ ساتھ دماغ متاثر ہوتا ہے۔
اس تحقیق میں سائنسدانوں نے امراضِ قلب ہونے کے امکانات اور دماغی حالت کے درمیان روابط ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔
تحقیق میں پچاس سال سے زائد عمر کے ایک گروپ کے طرزِ زندگی اور صحت کے باری میں اعداد و شمار لیے گئے۔ ان کا دماغی ٹیسٹ لیا گیا جس میں ان کو نئے الفاظ سیکھنے یا ایک منٹ میں زیادہ سے زیادہ جانوروں کے نام بتانے کا کہا گیا۔
ان افراد کا یہی ٹیسٹ دوبارہ چار سال بعد اور پھر آٹھ سال بعد لیا گیا۔
مجموعی طور پر یہ دیکھا گیا کہ جن افراد کی سمجھ بوجھ کی قوت میں کمی آئی ان میں امراضِ قلب ہونے کے امکانات زیادہ تھے۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ ان ٹیسٹوں میں بری کارکردگی کا تعلق سگریٹ نوشی سے بنتا تھا۔
اس تحقیق میں شامل ایک سائنسدان ڈاکٹر ایلکس ڈریگن کا کہنا ہے ’سمجھ بوجھ کی قوت عمر کے ساتھ ساتھ کم ہوتی جاتی ہے جس کے باعث کئی افراد کو روز مرہ کی زندگی میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ تاہم اس کو روکا جا سکتا ہے اگر لوگ اپنی طرزِ زندگی کو تبدیل کر لیں۔‘
برطانیہ میں الزائمر ریسرچ میں کام کرنے والے ڈاکٹر سائمن رڈلی کا کہنا ہے ’تحقیق میں کئی بار سگریٹ نوشی اور بلڈ پریشر کا تعلق دماغی صلاحیت میں کمی کے ساتھ جوڑا گیا ہے اور یہ نئی تحقیق اس تعلق کو مزید پختہ کرتی ہے۔
حامد میر کی گاڑی کے نیچے سے دھماکہ خیز مواد برآمد
پاکستان کے وزیر داخلہ رحمان ملک کا کہنا ہے کہ صحافی
حامد میر کی گاڑی میں دھماکہ خیز مواد نصب کیے جانے کے واقعے کی تحقیقات
شروع کی دی گئی ہے۔
اس سے پہلے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں نجی
ٹی وی چینل جیو کے اینکر پرسن حامد میر کی گاڑی میں نصب کیا گیا بارودی
مواد ناکارہ بنا دیا گیا تھا۔ان کے مطابق اطلاع ملنے پر پولیس بم ڈسپوزل سکواڈ نے بارودی مواد کو ناکارہ بنا دیا۔
وزیر داخلہ رحمان ملک نے ملزمان کی گرفتاری میں مدد کے لیے معلومات فراہم کرنے والے کو پانچ کروڑ نقد انعام دینے کا اعلان کیا ہے۔
رحمان ملک کے بقول نصب کیے جانے والا دھماکہ خیز مواد بڑا طاقت ور تھا اور اس کے پھٹنے سے بڑی تباہی پھیل سکتی تھی۔
پیر کو وزیر داخلہ نے صحافی حامد میر کے ہمراہ صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حامد میر کو مکمل سکیورٹی فراہم کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کی طرف سے صحافیوں کو دھمکیاں مل رہی ہیں۔
رحمان ملک کے بقول ملک میں چوکیداری نظام متعارف کرایا جا رہا ہے تاکہ دہشت گردی کی ایسی کارروائیوں کو روکا جا سکے۔
حامد میر نے جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ پیر صبح اپنے ڈرائیور کے ساتھ کسی کام سے مارکیٹ گئے اور گاڑی ایک جگہ پارک کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ دھماکہ خیز مواد ان کی سیٹ کے نیچے نصب کیا گیا تھا۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق اسلام آباد میں حامد میر کی رہائش گاہ پر کھڑی ان کی گاڑی میں نصف کلوگرام دھماکہ خیز مواد نصب کیا گیا تھا۔
حامد میر نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خطرے کے حوالے سے چند دن پہلے وزارتِ داخلہ کو لکھے گئے ایک خط میں ان کا ذکر تھا۔
گزشتہ ماہ اکتوبر میں پاکستان کی وادی سوات میں طالبان کے حملے میں زخمی ہونے والی ملالہ یوسفزئی کی کوریج کرنے کے حوالے سے طالبان نے حامد میر سمیت متعدد صحافیوں کو ٹارگٹ کرنے کی دھمکی دی تھی۔
خیال رہے کہ صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیمیں پاکستان کو صحافیوں کے لیے ایک خطرناک ملک قرار دیتی ہیں۔
اس سے پہلے بھی ملک میں صحافیوں کو دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کئی اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔
لاہور’کھانسی کا شربت‘ پینے سے سولہ افراد ہلاک
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں کھانسی کا شربت پینے سے سولہ افراد ہلاک اور چودہ افراد متاثر ہوئے ہیں۔
لاہور سے نامہ نگار نے خبر دی ہے کہ
متاثرہ افراد کی عمریں بیس سے چالیس سال کے درمیان ہیں۔ متاثرہ افراد کا
علاج لاہور کے میو ہسپتال میں کیا جا رہا ہے۔اسی بارے میں
پولیس نے مقدمہ درج کر لیا ہے جب کہ پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ میاں شہباز شریف نے اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے 72 گھنٹوں کے اندر اندر رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
پولیس اس سلسلے میں جگہ جگہ چھاپے مار رہی ہے اور دوا تقسیم کرنے والوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ جس فیکٹری میں یہ دوائی بنتی ہے اسے بھی سیل کر دیا گیا ہے۔
زیادہ تر اموات جمعہ اور اتوار کے درمیان ہوئیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ اکثر متاثرین کا تعلق لاہور کے علاقے شاہدرہ سے ہے۔
حکام کے مطابق چند افراد کی نعشیں ایک قبرستان میں پائی گئیں اور مقامی پولیس چیف نے خبررساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ بعض نشہ کرنے والے افراد قبرستان میں بیٹھ کر نشہ کرتے تھے جس سے امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ شاید وہ افراد ہی اس کا نشانہ بنے۔
جعلی ادویات
2010 میں پاکستان کے وزیر داخلہ رحمٰن
ملک نے قومی اسمبلی میں انکشاف کیا تھا کہ پاکستان میں فروخت ہونے والی
چالیس سے پچاس فیصد ادویات جعلی ہیں۔
ہسپتال کے ایک ڈاکٹر نے ہمارے نمائندے کو بتایا کہ بہت سے افراد کھانسی کے شربتوں میں موجود خواب آور اجزا کی وجہ سے اسے نشہ آور مواد کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
ڈاکٹر نے کہا کہ ممکن ہے کہ ان افراد نے اس شربت میں کوئی اور نشہ آور چیز بھی ملا لی ہو جس کی وجہ سے یہ ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
پولیس نے تفتیش شروع کر کے متاثرہ افراد کے بیانات قلم بند کر لیے ہیں۔
پاکستان میں جعلی اور ملاوٹ شدہ ادویات کے وجہ سے ہلاکتیں معمول کی بات ہیں۔ اس سال فروری میں دل کے مرض کے لیے ایک دوا میں ملاوٹ کی وجہ سے 119 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
سال 2010 میں پاکستان کے وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے قومی اسمبلی میں انکشاف کیا تھا کہ پاکستان میں فروخت ہونے والی چالیس سے پچاس فیصد ادویات جعلی ہیں
Egypt crisis: Mohammed Mursi reaches out to critics
Egyptian President Mohammed Mursi says the decree giving him sweeping new powers is temporary and not intended to concentrate power in his hands.
The decree was intended to prevent democratically elected bodies from being undermined, the statement said.
A youth was killed on Sunday - the first death since the protests began.
Described as a member of the Muslim Brotherhood, the movement that backs Mr Mursi, 15-year-old Islam Fathy Massoud was killed in the Nile Delta town of Damanhour after its headquarters were attacked. Sixty others were injured.
Clashes continued on Sunday, with police firing tear gas in Cairo's Tahrir Square area.
Large demonstrations are planned by supporters and opponents of Mr Mursi on Tuesday.
On Saturday the Judges Club, which represents judges throughout the country, called for a nationwide strike in protest at the decree.
But top judicial body the Supreme Judicial Council appeared not to reject the decree outright, saying it should only apply to "sovereign matters", and urged judges to return to work.
Justice Minister Ahmed Mekky has begun efforts to mediate between the president and the judges.
The minister said he himself had some reservations about the president's decree, Reuters reported.
'Committed to engage' The BBC's Jon Leyne in Cairo says Mr Mursi has begun efforts to reach a compromise after the strong opposition to his decree.
A statement by the presidency attempted to calm opposition concerns that he was becoming increasingly dictatorial in his leadership.
"The presidency reiterates the temporary nature of those measures, which are not intended to concentrate power, but to avoid ... attempts to undermine democratically elected bodies and preserve the impartiality of the judiciary," the statement said.
Mr Mursi said he was committed to dialogue.
"The presidency stresses its firm commitment to engage all political forces in the inclusive democratic dialogue to reach a common ground and bridge the gap in order to reach a national consensus on the constitution which will be the cornerstone of Egyptian modern institutions," the statement added.
Later local media reported that the president would meet the Supreme Judicial Council on Monday to discuss the decree.
But several prominent opposition leaders, including Nobel Peace Prize winner Mohamed elBaradei, have said they will not engage in dialogue with the president until he rescinds the measure, known as the constitutional declaration.
According to President Mursi's decree, no authority can revoke presidential decisions.
There is also a bar on judges dissolving the assembly, which is drawing up a new constitution.
Mr Mursi sacked chief prosecutor Abdel Maguid Mahmoud, who was first appointed by ex-President Hosni Mubarak.
Mr Mahmoud's replacement, Talaat Ibrahim, has been given the job of re-examining all investigations into the deaths of protesters when Mr Mubarak was in power.
Mystery shrouds ‘rusted missiles of Afghan era’ recovered from Jalozai Camp
PESHAWAR: Nine missiles about two and a half feet long each, were recovered from Afghan Jalozai camp on the outskirts of Nowshera which officials believe might have been used by Afghan Mujahideen during the Soviet war and were dumped at the camp, which once served as a launching pad for the war in Afghanistan, sources said.
intelligence sources however said these missiles might be ‘surface-to-air missiles’ of the Afghan war era – Stingers which were allegedly supplied by the United States to Mujahideen in Afghanistan to fight the Soviet Union in the 1980s.
An internally displaced person (IDP), Hayat Khan son of Mir Haider from Bara, Khyber Agency, was digging the ground near his tent to stop flow of water to coming to his tent when he had found the missile-resembling objects.
In-charge of Jalozai police checkpost, Abdul Malik confirmed that the IDP Hayat Khan found the missiles while digging in Phase 6 of Jalozai Camp and informed the police.
Malik said higher officials were informed about the nine missiles and “we stopped the IDPs from digging further in the vicinity to avert any untoward incident.”
Describing the missiles, Malik said that each was roughly about three feet in length while the diameter for each was about two to three feet along with the casing.
The Station House Officer of Pabbi Police station, Shakeel Khan, speaking to Dawn.com said, “The size of the missiles or rockets found was about two and half feet but we are not sure about their make.”
Regarding a query whether they resemble Stinger missiles, Shakeel Khan said, “They are very old and rusted, covered in a plastic casing and hardly any writing or markings left on them; we could only see the words ‘52 degree’ written on them and only experts can tell the exact make.”
The intelligence sources, however, said that the missiles are believed to be surface-to-air missiles and might be those which were handed over to the Afghan Mujahideen to fight the Soviet troops during the 1980 invasion of Afghanistan – ‘Stingers’ which were the main power fight against Soviets in Afghanistan.
Regarding another query, sources said, “These proved to be a huge income source for the Afghan Mujahideen after the Soviet withdrawal, as the Americans allegedly had to purchase the missiles back from the warlords due to the fear that the technology might slip into others’ hands.”
An elderly local familiar to the Jalozai camp dwellers for many decades, who did not want to be named, said that he had seen such missile-resembling objects being sold by the Afghans living in the camp for lakhs of rupees after the Soviet war ended.
District Police Officer Hussain Khan told Dawn.com, “They are some kind of mortars and are extremely rusted, may be of Afghan war era which might have been dumped by the Afghans who had been living there,” adding, “they often come across such mortar shells, and RPGs in the abandoned camp.”
“I wish they were Stingers, but perhaps they are just mortars of some canon or large gun which are greatly rusted and beyond recognition, but surely they cannot not be stingers at all,” Hussain Khan insisted when asked if they found US Stingers.
The area where these missiles or rockets were found in Jalozai Camp, was reportedly inhabited by Arab fighters belonging to the Abdullah Azam Group. Abdullah Azam was believed to be the founder of the Jihad University in Nowshera and also regarded as the real founder of the Arab fighters group which was later branded as al-Qaeda by the US led coalition.
The Arab fighters also had an office, Baitul Ansar, in the same area where these missiles were found and most likely the objects discovered might have been their property but there was no credible evidence to confirm this.
Former Mujahideen leader and the chief of Ittehad Islami, Abdul Rasool Sayyaf’s house was also in the same area of Jalozai, who supervised the Arab fighters at that time.
A former Afghan Mujahideen fighter, still associated with the Taliban and fighting the US troops in Afghanistan, told Dawn.com, “I believe the objects recovered cannot be Stinger missiles but they might be SAM-7 or Bolo-5, which were supplied by the US to shoot down the Soviet fighter aircraft.”
Regarding a query, he said, “Most of such missiles were supplied by the US-led coalition to the Mujahideen commanders to fight the Soviets, however, the Stingers came very late,” adding “these missiles used to be very costly; about half a million Pakistani rupees during that time, but don’t know how much they would cost today.”
An Insecure and Reluctant Partner
The Obama administration is preparing to implement the first phase of its military drawdown
in Afghanistan at a time when nuclear security inside Pakistan is at
its most tenuous. That already delicate situation has only become more
fragile in the weeks following the killing of Osama bin Laden in May of
this year.
Since then, Pakistani officials and international security experts alike have become more concerned about the ability of the Pakistani military to safeguard and secure its nuclear weapons and related facilities from attack. The fundamental question, however, is who would mount such an assault?
U.S. officials and those outside Pakistan are concerned primarily with terrorists: a situation in which a small group of militants execute a coordinated attack on a nuclear facility in Pakistan, gaining access to loosely guarded assembled warheads or weapons-grade fissile material. Those terrorists certainly would not hesitate to use their newly acquired assets to detonate a nuclear weapon over a major city, killing thousands of innocent civilians and forever altering the international security landscape. The world as we know it would never again be the same.
This fear is not unjustified -- the ability of the Pakistani military to defend its fortified bases and installations against militant attack has been brought into question in recent years. Breaches of Pakistani bases by militant groups have occurred most notably in October 2009 in Rawalpindi and in May of this year in Karachi. For many outside Pakistan, a repeat of this type of event -- but with nuclear facilities, weapons and material -- is the ultimate nightmare scenario.
Inside Pakistan, however, the fundamental fear is that the country's nuclear installations would be attacked not by terrorists, but by the United States or India. Military and civilian officials there are afraid American or Indian commandos would sneak into the country -- much like U.S. Navy SEALs did last month -- and launch a coordinated attack on Pakistani nuclear facilities, stripping Pakistan of its most prized possession and what it considers its primary deterrent force.
Certainly, the fear is rooted in a newfound and very palpable sense of humiliation within the ranks of the Pakistani armed forces. In a country where the military is seen as one of the only functional national institutions -- with sole guardianship over the country's most potent weapon and bargaining chip -- the swiftness and success of the bin Laden raid have shaken faith in the military's ability to detect and deflect any threat to its assets. Indeed, both retiring and serving officers are calling for Army chief General Ashfaq Kayani to resign, along with ISI chief Ahmad Shuja Pasha and even President Asif Ali Zardari.
The need for Pakistan to reevaluate its security capabilities has never been more urgent. American troop withdrawals from Afghanistan will force Pakistan to step up its capacity for ensuring internal stability, and this will place additional stress on a military and a national police force that are already stretched thin. At the same time, an erosion of integrity and trust within the ranks of the Pakistani military will make it even more difficult for Kayani to keep his troops in line.
In the meantime, Pakistan's ability to provide a significant degree of confidence in its nuclear security is being increasingly questioned by U.S. policymakers.
All of this is symptomatic of the widening gap of mistrust between Washington and Islamabad. Regrettably, this could not be happening at a more inopportune time. As Toby Dalton and George Perkovich of the Carnegie Endowment wrote last month, "It is impossible to build a strategic relationship when one partner can't be trusted to prevent nuclear terrorism and the other can't be trusted not to exploit its intelligence and military presence to steal or destroy the other's nuclear deterrent."
As the Obama administration prepares to shift responsibility for Afghanistan's security and governance to the Afghan people, it must keep in mind the security concerns of its reluctant ally in Islamabad. The U.S.-Pakistan relationship as it stands now is fraught with mutual mistrust, and is not sustainable. What is needed now more than ever is a realistic and firm reassessment by both countries of their bilateral strategic relationship. Only by asking difficult questions and identifying innovative ways to strengthen that relationship -- even separate from the nuclear security issue -- can Pakistan and the United States make significant and measurable progress towards improving security in the region.
Since then, Pakistani officials and international security experts alike have become more concerned about the ability of the Pakistani military to safeguard and secure its nuclear weapons and related facilities from attack. The fundamental question, however, is who would mount such an assault?
U.S. officials and those outside Pakistan are concerned primarily with terrorists: a situation in which a small group of militants execute a coordinated attack on a nuclear facility in Pakistan, gaining access to loosely guarded assembled warheads or weapons-grade fissile material. Those terrorists certainly would not hesitate to use their newly acquired assets to detonate a nuclear weapon over a major city, killing thousands of innocent civilians and forever altering the international security landscape. The world as we know it would never again be the same.
This fear is not unjustified -- the ability of the Pakistani military to defend its fortified bases and installations against militant attack has been brought into question in recent years. Breaches of Pakistani bases by militant groups have occurred most notably in October 2009 in Rawalpindi and in May of this year in Karachi. For many outside Pakistan, a repeat of this type of event -- but with nuclear facilities, weapons and material -- is the ultimate nightmare scenario.
Inside Pakistan, however, the fundamental fear is that the country's nuclear installations would be attacked not by terrorists, but by the United States or India. Military and civilian officials there are afraid American or Indian commandos would sneak into the country -- much like U.S. Navy SEALs did last month -- and launch a coordinated attack on Pakistani nuclear facilities, stripping Pakistan of its most prized possession and what it considers its primary deterrent force.
Certainly, the fear is rooted in a newfound and very palpable sense of humiliation within the ranks of the Pakistani armed forces. In a country where the military is seen as one of the only functional national institutions -- with sole guardianship over the country's most potent weapon and bargaining chip -- the swiftness and success of the bin Laden raid have shaken faith in the military's ability to detect and deflect any threat to its assets. Indeed, both retiring and serving officers are calling for Army chief General Ashfaq Kayani to resign, along with ISI chief Ahmad Shuja Pasha and even President Asif Ali Zardari.
The need for Pakistan to reevaluate its security capabilities has never been more urgent. American troop withdrawals from Afghanistan will force Pakistan to step up its capacity for ensuring internal stability, and this will place additional stress on a military and a national police force that are already stretched thin. At the same time, an erosion of integrity and trust within the ranks of the Pakistani military will make it even more difficult for Kayani to keep his troops in line.
In the meantime, Pakistan's ability to provide a significant degree of confidence in its nuclear security is being increasingly questioned by U.S. policymakers.
All of this is symptomatic of the widening gap of mistrust between Washington and Islamabad. Regrettably, this could not be happening at a more inopportune time. As Toby Dalton and George Perkovich of the Carnegie Endowment wrote last month, "It is impossible to build a strategic relationship when one partner can't be trusted to prevent nuclear terrorism and the other can't be trusted not to exploit its intelligence and military presence to steal or destroy the other's nuclear deterrent."
As the Obama administration prepares to shift responsibility for Afghanistan's security and governance to the Afghan people, it must keep in mind the security concerns of its reluctant ally in Islamabad. The U.S.-Pakistan relationship as it stands now is fraught with mutual mistrust, and is not sustainable. What is needed now more than ever is a realistic and firm reassessment by both countries of their bilateral strategic relationship. Only by asking difficult questions and identifying innovative ways to strengthen that relationship -- even separate from the nuclear security issue -- can Pakistan and the United States make significant and measurable progress towards improving security in the region.
Understanding Pakistan
Whether you are concerned with success in Afghanistan, preventing
nuclear terrorism, or any other host of global security issues, the link
between the stability of Pakistan and the security of the world is very
clear. To better understand this region of the world the Council on
Foreign Relations recently released “Crisis Guide: Pakistan” -- an interactive, beautifully edited, and authoritative analysis of the current state of affairs in South Asia.
Last week reports of increased construction at Pakistani nuclear facilities spurred a range of articles on Pakistan’s nuclear program and the security of the regime. Ploughshares Fund President Joe Cirincione was quoted in an AFP article saying, "It's the security of the government that worries me. If the government falls that's when the nightmare comes…American politicians and policymakers live in a constant state of denial about Pakistan. They see a mess and then they look away and pretend it's all going to get better somehow.”
CFR's “Crisis Guide: Pakistan” provides an in-depth and comprehensive look at the country's history and possible futures. The CFR expert interviews feature many prominent Ploughshares Fund grantees and affiliated organizations, including Shija Nawaz of the Atlantic Council, Ashley Tellis of the Carnegie Endowment for International Peace, Pervez Hoodbhoy, and Steve Coll of the New America Foundation. Ploughshares board member Reza Aslan is also featured in the videos.
As Steve Coll explains in the presentation, “Pakistan’s stability is in the world’s interest…As Pakistan has developed, the sources of its instability have acquired global dimension.” Similarly, President Obama rightly acknowledged in his speech on Afghanistan strategy at West Point in 2009, “We will act with the full recognition that our success in Afghanistan is inextricably linked to our partnership with Pakistan.”
Setting the stage for expert analysis, CFR directs its study towards five potential futures for Pakistan: State Adrift, Authoritarian State, Islamist State, Moderate State, and State Collapse. Consensus among the featured panel of experts is that while a collapsed state is unimaginably frightening, the most likely future in the near-term is a "State Adrift", in which Pakistan muddles through its problems until something forces it onto a different path. The United States must, therefore, consider how it can influence Pakistan to become a stable and predictable ally in the region.
Attempting to make sense of a swath of issues that Pakistan faces, the CFR study also focuses on examining seven key areas: Demographic Pressures, Economic Hurdles, Ethnic and Political Factionalism, Governance, Islamic Radicalization, Militancy, and Nuclear Concerns. Each of these challenges will be of great significance to future Pakistan and the effectiveness of cooperation with the United States.
Last week reports of increased construction at Pakistani nuclear facilities spurred a range of articles on Pakistan’s nuclear program and the security of the regime. Ploughshares Fund President Joe Cirincione was quoted in an AFP article saying, "It's the security of the government that worries me. If the government falls that's when the nightmare comes…American politicians and policymakers live in a constant state of denial about Pakistan. They see a mess and then they look away and pretend it's all going to get better somehow.”
CFR's “Crisis Guide: Pakistan” provides an in-depth and comprehensive look at the country's history and possible futures. The CFR expert interviews feature many prominent Ploughshares Fund grantees and affiliated organizations, including Shija Nawaz of the Atlantic Council, Ashley Tellis of the Carnegie Endowment for International Peace, Pervez Hoodbhoy, and Steve Coll of the New America Foundation. Ploughshares board member Reza Aslan is also featured in the videos.
As Steve Coll explains in the presentation, “Pakistan’s stability is in the world’s interest…As Pakistan has developed, the sources of its instability have acquired global dimension.” Similarly, President Obama rightly acknowledged in his speech on Afghanistan strategy at West Point in 2009, “We will act with the full recognition that our success in Afghanistan is inextricably linked to our partnership with Pakistan.”
Setting the stage for expert analysis, CFR directs its study towards five potential futures for Pakistan: State Adrift, Authoritarian State, Islamist State, Moderate State, and State Collapse. Consensus among the featured panel of experts is that while a collapsed state is unimaginably frightening, the most likely future in the near-term is a "State Adrift", in which Pakistan muddles through its problems until something forces it onto a different path. The United States must, therefore, consider how it can influence Pakistan to become a stable and predictable ally in the region.
Attempting to make sense of a swath of issues that Pakistan faces, the CFR study also focuses on examining seven key areas: Demographic Pressures, Economic Hurdles, Ethnic and Political Factionalism, Governance, Islamic Radicalization, Militancy, and Nuclear Concerns. Each of these challenges will be of great significance to future Pakistan and the effectiveness of cooperation with the United States.
Women human rights defenders: activism's front-line
There is growing
recognition by the international community that women human rights defenders
are best placed to respond to violence against women and a crucial force for
peace; but the international protection
framework needs to be made more accessible to those in need, says Jennifer
Allsopp.
“Women
human rights defenders are passion holders, speakers, people with a vision, we
hold the front-line.” - Betty MakoniThe first time I heard the term Women Human Rights Defender (WHRD) it was a bit of revelation to me. It was at an international conference held by the Association for Women in Development (AWID) on women transforming economic power. A group of women from across the globe were gathered in a workshop convened by Jenni Williams of Women of Zimbabwe Arise (WoZA) to discuss strategies to protect themselves from state violence.
The session was extremely practical. Participants wanted to share concrete answers to challenges they are facing more and more in their day-to-day work: arbitrary detention, police violence and infiltration. I was struck by the commonality of many of the struggles of the women in the room and also by the enormity of their fight: these women are the new freedom fighters; activists holding the front-line in the movement for equality and human rights in the face of multiple forms of gender violence.
Recent years have seen the increased targeting of WHRD and a corresponding increase in attention given to WHRD as a category by the international community. 1998 saw the establishment of a UN Declaration on Human Rights Defenders and in 2004, EU Guidelines on Human Rights Defenders followed. The EU now mandates all 100 EU diplomatic missions to regularly monitor and assist situation on the ground, including through the provision of temporary shelters for WHRD in need. The third report of the Special Rapporteur on the situation of human rights defenders, published in December 2010, focused exclusively on the situation of WHRD and all those working on gender issues. WHRD, it stated, are “more at risk of suffering certain forms of violence and other violations, prejudice, exclusion, and repudiation than their male counterparts.”
Partly in response to the visibility of women’s role in defending women’s rights in countries in transition, as witnessed during the Arab Spring, the international community has begun to scale up its work protecting WHRD in the past year, investing in women as a primary force for peace. The protection of WHRD is, for example, fundamental to the commitment made by the UK Department for International Development (DFID) to improve responses to violence against women and girls in humanitarian and emergency situations. Yet work is still to be done. Thousands of women remain at risk.
A recent conference held by Peace Brigades International with the support of GAPS-UK, Womankind and Amnesty International UK and the British All Party Parliamentary Group on Women, Peace and Security, ‘Women Human Rights Defenders: Empowering and Protecting the Change-makers’ invited WHRD from across four continents to share strategies to strengthen the international protection framework and foster an enabling environment on the ground.
In her opening speech, Betty Makoni, Zimbabwean activist and founder of Girl Child Network, was sensitive to the uniqueness of each woman’s struggle. She also acknowledged the commonality of the fight for equality led by WHRD and of the “extraordinary risks” they face on ground, both from state and increasingly non-state actors. Of these, common thematic challenges include stigmatisation, criminalisation and poor access to justice.
Women spoke first hand of gender specific forms of stigma and abuse in response to their work defending the human rights of men and women, including verbal abuse, rape and sexual abuse. Activists from Iran, Nepal and Kenya reported that accusations of ‘prostitution’ and related forms of sexual torture were especially targeted at women defending reproductive rights. Naomi Barasi, an activist working with Amnesty International to protect women’s rights in the slums of Nairobi, told participants of a friend who is still recovering having even had broken bottles inserted in to her vagina by police.
Shyam Sah, an activist in Eastern Nepal working on cases such as witchcraft accusation, domestic violence, rape, dowry demands and polygamy, cited the lack of trust in the police as the main reason why women have pragmatically positioned themselves to protect women’s human rights. In Nepal, she said, “society has never accepted us”. Most threats to their work come from families, community and illegal armed actors which may be linked to police. When she intervened in a polygamous marriage she was attacked in full view of the police, with one officer commenting, “you deserve what you get, you are doing unnecessary work here.”
In addition to abuses of power at the local level, in recent years, state machinery and legislation has adopted new means of criminalising the work of HRD nationally through the employment of terrorism and national security charges in addition to public morality and blasphemy legislation. In Iran, Shadi Sadr, an Iranian lawyer, HRD and journalist, explained that it has become a criminal offence to simply criticise the regime to an international audience. Two years ago, on their return from the UN Commission on the Status of Women in New York, the border police took the passports of two Iranian women and took them to prison where they were interrogated for 2 hours. They have now been released on bail and are still awaiting a decision, charged with “taking action against national security and espionage”.
Judith Maldonado Mohica, Director of the Lawyers’ Collective Luis Carlos Perez in Northeast Columbia reported how in Columbia, as in Mexico, HRD are increasingly being linked to drug trafficking and guerrilla groups as a “strategy of persecution”. There is an irony that whilst new charges are being trumped up against WHRD, the law is slow to recognise crimes against women. In Columbia, for example, forced disappearances were only recognised as a crime in 2001, whilst sexual violence was only recognised in 2004.
It is well-documented that the criminalisation of WHRD is fuelled by judicial impunity for those who abuse women’s human rights and by a parallel lack of state accountability. Shadi drew attention to the situation of female political prisoners in Iran where, despite the fact that almost all female political prisoners report one or more cases of torture or sexual harassment, not a single case of judicial investigation has taken place to date. In Columbia, Judith Maldonado Mohica stressed that it is indigenous women who are most often ignored, especially when seeking to denounce paramilitaries. This is partly due to a lack of awareness of human rights frameworks, she explained, but also due to a lack of courts dealing with such cases – just 3 to cover 120,000 cities and townships. This inability to access justice poses significant challenges to their human rights work in opposition to land grabs and other forms of environmental degradation. Such work is crucial, but as explained by Dolores Infante Cañibano, human rights officer at the United Nations Office of the High Commissioner for Human Rights, it is heavily repressed worldwide: “environmental defenders are one of the groups most at risk … then you add indigenous, rural, woman and what you have is a multifaceted discrimination”.
The international community seems far from proposing an adequate response to the human rights abuses faced by indigenous women in Columbia. Current attempts to reform the law nationally are being thwarted, says Judith Maldonado Mohica, by a conflict of interest. The last three reforms of the Columbian justice system were funded and commissioned by the World Bank and focused on terrorism, drugs, trafficking and illegal mining with an accent on legal security for foreign investors. As such, they were far from a response to the protection needs of indigenous women. Naomi Barasa cited a similar conflict of interest experienced in her work lobbying against the eviction of 20,000 slum dwellers in Nairobi which could be traced back to EU funding for a new road. Faced with such scenarios, the EU must do more to not just prove the force of its Guidelines but to demonstrate the comprehensiveness of its strategy for protecting human rights on the ground. There is a further need for the international community to develop a comprehensive response to new forms of persecution by non-state actors, including private security companies and Latin American land corporations, as recommended by Margaret Sakaggya, the UN Special Rapporteur in her 2010 report.
More must also be done to ensure that the current international protection framework - which has a crucial role in securing justice and saving lives - is more accessible to those in need, including access to diplomatic protection and emergency funding in addition to international criminal courts and other justice channels. As it stands, participants lamented that the UN Women system is simply too long: “if you follow that procedure you’ll get killed”, said Samira Hamidi, former country director of the Afghan Women’s Network, “I know a woman who appealed to this system for help - she’s now in India in a very bad situation”.
The issue of reprisals faced by those seeking to access international protection frameworks was also raised as a worrying global trend, with more work needed to remedy the high personal costs of accessing justice, including risk of murder. In Kenya, Naomi reported that a number of people who went to talk to the Special Rapporteur for Extrajudicial Killings were shot dead.
Faced with these numerous challenges we need to think seriously about what a gendered protection system looks like in practical terms, both at the local and international level.
Women human rights defenders are constantly coming up with their own strategies for protection which the international community must be ready to support: forging internal relocation strategies, as in Afghanistan; building professional alliances with doctors, media and lawyers like Naomi and her colleagues in the slums of Nairobi; or establishing satellite projects in neighbouring countries like members of the Girl Child Network who have set up ‘girls empowerment villages’ in Swaziland, South Africa, Uganda and Sierra Leone based on an initial Zimbabwean model: “there is no need to reinvent the wheel”, says Betty Makoni, “the wheels are already moving, we just need to take all the people on board.”
In this context we must we wary of imposing monolithic definitions of WHRD and take full account of their diverse needs in order to offer comprehensive support to their work. In a plea to representatives from the UN, EU, DFID and British Foreign Commonwealth Office present at the Peace Bridges conference, Shyam Sah stressed that WHRD do not simply fit into the standard development paradigm but have specific needs: women may be financially dependent on family, they may not be able to work because of the threats they receive or they may have to work from exile.
The international community is certainly moving in the right direction of travel in its support of WHRD, and crucially, in its recognition that WHRD are best placed to respond to violence against women and girls and a crucial force for peace. This is something to celebrate on 29 November, the 6th annual International Women Human Rights Defenders Day. However only time will tell if states are prepared to take on a facilitator role and let grass-roots women take the lead on the ground. Most WHRD I have met are far from the casques bleus of UN peackeepers or the freedom fighters of old, yet they are working tirelessly for peace at activism’s front-line. In the final address of the conference, Samira Hamidi said the following of her own activism in the warzone of Afghanistan: “please take the issue of WHRD seriously. I don’t want to link my life to international troops, I want to make sure women have a better life in Afghanistan…” If we are able to truly commit to the work of WHRD we have a lot to gain for peace and for the human rights of all: the elevation of an alternative way of addressing violence against women and of forging peace in opposition to militarism.
Afghanistan: No Amnesty for Taliban Crimes
The Afghan government should not grant Taliban representatives amnesty from prosecution for serious crimes as part of talks with the insurgent group, Human Rights Watch said today. On November 17, 2012, the chairman of Afghanistan’s High Peace Council, Salahuddin Rabbani, told journalists that Taliban officials who join peace negotiations with the Afghan government will receive immunity from prosecution and will have their names removed from the United Nations sanctions.
“Future government talks with the Taliban should not hinge upon denying justice to victims of war crimes and other abuses,” said Brad Adams, Asia director. “Afghanistan’s civilians should not be forced to choose between justice and peace.”Last week, the Pakistani government released nine imprisoned Taliban officials after the High Peace Council requested their release during a visit to Pakistan. More of the estimated 50 Taliban members in prison in Pakistan are expected to be released at the council’s request in the future. Rabbani has described those released as including, “Afghan citizens who expressed their willingness to work for peace.”
Providing immunity from prosecution for genocide, war crimes, crimes against humanity, and other serious human rights abuses violates international law. International treaties, including the 1949 Geneva Conventions, which Afghanistan has ratified, and customary international humanitarian law, require parties to a conflict to ensure alleged perpetrators of serious crimes are prosecuted. Those responsible for war crimes and other serious abuses on both sides should be investigated and prosecuted.
Afghanistan has a troubling history of providing amnesty for war crimes. In 2007 a coalition of powerful warlords and their supporters in the parliament were able to pass the National Stability and Reconciliation Law. This law seeks to prevent the prosecution of individuals responsible for large-scale human rights abuses in the preceding decades. The law states that all those who were engaged in armed conflict before the formation of the Interim Administration in Afghanistan in December 2001 shall “enjoy all their legal rights and shall not be prosecuted.” It provides that those engaged in current hostilities will be granted immunity if they agree to reconciliation with the government, effectively providing amnesty for future crimes.
President Hamid Karzai, who had previously promised not to sign the National Stability and Reconciliation Law, quietly permitted it to be published in the government’s official gazette and to enter into force in early 2010. Human Rights Watch at that time urged the repeal of the law, calling it “an invitation for future human rights abuses” and expressing concern that its extension to those currently engaged in hostilities “allows insurgent commanders to get away with mass murder.” The official adoption of the law passed largely unremarked by the international community, leading to concerns that Afghanistan’s international partners were prepared to tolerate impunity for war crimes.
“The High Peace Council’s call for immunity shows the dire predictions about the amnesty law coming true,” Adams said. “Amnesty for war crimes does not need to be, and should not be, a precondition for talks between the Afghan government and the Taliban.”
The UN, Human Rights Watch, and others have collected considerable information implicating Taliban members in war crimes, including attacks targeting civilians, indiscriminate attacks by suicide bombers and pressure-plate mines, summary executions, and use of children in combat including as suicide bombers. Commanders who ordered unlawful attacks, or who knew or should have known about serious abuses by their forces but made no effort to stop them, are subject to prosecution for war crimes.
The Taliban has a code of conduct for its fighters, which in some ways reflects international law on armed conflict. It includes provisions for protection of civilians, stating that all Taliban members “with all their power must be careful with regard to the lives of the common people,” and that those who fail to do so shall be punished. It also prohibits use of children as fighters.
Taliban spokesmen frequently deny claims that its members commit violations of international law. For example, the Taliban in October stated that “our Mujahedeen never place live landmines in any part of the country but each mine is controlled by a remote and detonated on military targets only.” On November 6 the Taliban issued a statement saying that it “assures the nation that it will never forgive the civilian slayers whosoever they may be.”
“Why is the High Peace Council rushing to offer amnesty to Taliban officials when even the Taliban’s own code of conduct and statements acknowledge that targeting civilians is illegal?” Adams said. “The High Peace Council cannot ignore the demands of justice.”
شیخوپورہ: نارنگ منڈی میں 8 افراد کی 5 لڑکیوں سے اجتماعی زیادتی
شیخوپورہ … شیخو پورہ کے علاقے نارنگ منڈی میں کھیتوں میں کام کرنے والی 5 لڑکیوں سے 8 افراد نے اجتماعی زیادتی کردی، پولیس نے مقدمہ درج کرکے 2 ملزموں کو گرفتار کرلیا جبکہ 6 ملزم ابھی تک مفرور ہیں۔ پولیس کے مطابق بوٹا چنگڑ کی فیملی 15 دن سے موضع کرنو میں نجیب میر کے ڈیرے پر مونجی کی کٹائی میں مصروف تھیں، جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب ملزمان ظہیر اور تصدق عرف ماڑا جٹ وغیرہ 8 افراد نے خاندان کی خواتین، مردوں اور بچوں کو رسیوں سے جکڑکر ایک کمرے میں بند کردیا اور ان کی 5 لڑکیوں کو دوسرے ڈیرے پر لے جاکر مبینہ طور پر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا، پولیس نے اطلاع ملنے پر لڑکیوں کو طبی معائنے کیلئے اسپتال منتقل کر دیا اور 4 نامزد اور 4 نامعلوم افراد کیخلاف مقدمہ درج کرکے ظہیر اور تصدق عرف ماڑا جٹ کو گرفتار کرلیا ۔ پولیس کا کہنا ہے کہ باقی ملزموں کو بھی جلد گرفتار کرلیا جائے گا ۔
لاہور اورگردو نواح میں36گھنٹے سوئی گیس کی فراہمی معطل رہے گی
لاہور اورگردو نواح کے بیشتر علاقوں میں 26نومبر صبح نوبجے سے منگل کی شب 9بجے تک گیس سپلائی بند رہے گی۔ سوئی ناردرن کے ترجمان کا کہنا ہے کہ صارفین کو گیس فراہمی بڑھانے کیلئے 24 انچ قطر کی مین لائن پر جوڑ لگایا جارہا ہے جسکے باعث گیس سپلائی معطل کرنا پڑرہی ہے۔ ترجمان سوئی ناردرن کے مطابق 24 انچ قطر کی لائن کو سسٹم سے جوڑا جارہا ہے اس لئے لاہور کے بیشترعلاقوں میں گیس فراہمی 26 نومبر کی صبح 9 بجے سے اگلے 36 گھنٹے تک معطل رہے گی۔ لاہور کینٹ ،ٹاؤن شپ ،فیروز پور روڈ ،ماڈل ٹاؤن ،گلبرگ ایریا ،ہربنس پورہ ،بیدیا ں روڈ ،چونگی امرسدھو، سبزہ زار ،ملتان روڈ اور دیگر کئی علاقوں میں گیس بند رہے گی۔ لا ہور کے علاوہ ضلع قصور ،دیپالپور ،مصطفی آباد ،سوئے آصل ، راجہ جنگ ،جمن گاؤں ،بدو ملی ،پانڈو کے اورلدھے کے میں بھی گیس بند رہے گی۔
Subscribe to:
Posts (Atom)
Power Rangers video
Adi Shankar Presents a Mighty Morphin' Power Rangers Bootleg Film By Joseph Kahn.
To Learn More About Why This Bootleg Exists Click Here: http://tinyurl.com/mw9qd79
To Learn More About Why This Bootleg Exists Click Here: http://tinyurl.com/mw9qd79