تحریک منہاج القرآن کے سربراہ طاہر القادری نے اسلام آباد میں ہزاروں افراد
کے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ عوام نے حکومت کو ووٹ کی شکل میں جو
مینڈیٹ دیا تھا وہ احتجاج کی شکل میں واپس لے لیا ہے اور اب پارلیمان کے
سامنے عوام کی اسمبلی لگے گی۔
ان کے اس اعلان کے بعد لانگ مارچ میں شامل افراد سکیورٹی حصار توڑنے کے
بعد اسلام آباد میں پارلیمان کے سامنے واقع ڈی چوک میں پہنچ گئے ہیں۔
ادھر وزیرِ داخلہ رحمان ملک نے کہا ہے کہ طاہر
القادری ساتھیوں سمیت جتنے دن چاہیں بیٹھے رہیں لیکن انہیں ریڈ زون میں
داخل ہونے نہیں دیا جائے گا۔
طاہر القادری کا ’جمہوریت مارچ‘ اتوار کی دوپہر
لاہور سے شروع ہوا تھا اور وہ تقریبًا چھتیس گھنٹے کے سفر کے بعد پیر کو
رات گئے مارچ کے ہزاروں شرکا کے ہمراہ اسلام آباد میں پارلیمان کی جانب
جانے والی سڑک جناح ایونیو پر پہنچے جہاں جلسے کا انتظام کیا گیا تھا۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے سٹیج پر آتے ہی کہا کہ وہ
ابھی خطاب نہیں کر رہے بلکہ انتظامیہ کو پانچ منٹ کی مہلت دے رہے ہیں کہ ان
کا سٹیج پارلیمان کے سامنے ڈی چوک میں منتقل کیا جائے اور وہ وہیں خطاب
کریں گے۔
انہوں نے وزیر داخلہ رحمان ملک پر الزام لگایا کہ
انہوں نے جلسے کے لیے شاہراہِ دستور پر ڈی چوک کی جگہ دینے کا وعدہ کیا تھا
جس سے انہوں نے انحراف کیا ہے۔
دی گئی مہلت ختم ہونے کے کچھ دیر بعد مارچ کے
شرکاء نے سعودی پاک ٹاور کے سامنے لگائے گئے کنٹینر زبردستی ہٹا دیے اور ڈی
چوک پر پہنچ گئے۔ مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق انتظامیہ نے طاہرالقادری کو
ڈی چوک سے کچھ پہلے نیا سٹیج بنانے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
وزیرِ داخلہ رحمان ملک نے منگل کی صبح پاکستان کے
نجی ٹی وی جیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت تصادم اور تشدد نہیں
چاہتی اس لیے طاہر القادری اور ان کے حامیوں کو ڈی چوک کے نام سے مشہور چوک
میں جگہ دے دی گئی ہے۔
طاہر القادری نے جلسہ گاہ میں موجود افراد سے مطالبات کی منظوری تک دھرنے پر بیٹھے رہنے کا حلف لیا
انہوں نے کہا کہ انہیں ڈی چوک میں جلسہ کرنے کی تو
اجازت دی گئی ہے لیکن کسی کو ریڈ زون میں داخل ہونے نہیں دیا جائے گا۔ ’وہ
دو دن بیٹھیں یا دس دن ہمیں اس سے مسئلہ نہیں لیکن انہیں ریڈ لائن عبور
نہیں کرنے دی جائے گی۔‘
اس سے قبل طاہر القادری نے پیر کی شب اپنے مختصر خطاب میں کہا کہ لانگ مارچ ختم ہو چکا اور اب ملک میں انقلاب کا آغاز ہوا ہے۔
انہوں نے پاکستان کے صدر، وزیراعظم اور وزرائے
اعلیٰ اور دیگر وزراء کو مخاطب کر کے کہا کہ وہ آ کر دیکھ لیں کہ ان کا
جعلی ووٹوں سے قائم کیا گیا مینڈیٹ ختم ہو چکا ہے اور انہیں ووٹ کی شکل میں
جو مینڈیٹ دیا گیا تھا وہ عوام نے اس احتجاج کی شکل میں واپس لے لیا ہے
اور اب ان کی حکومتوں کا کوئی اخلاقی جواز باقی نہیں رہا۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ ملک کی قومی اور صوبائی
اسمبلیاں حسبِ ضابطہ تحلیل کرنے کے لیے منگل کی صبح گیارہ بجے تک کی مہلت
دے رہے ہیں اور اگر ایسا نہ ہوا تو پھر عوام خود فیصلہ کریں گے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب تک ان کے مطالبات
پورے نہیں ہوتے وہ یہیں موجود رہیں گے۔ انہوں نے جلسے کے شرکاء سے حلف لیا
کہ وہ بھی دھرنا دیں گے اور واپس نہیں جائیں گے۔
سخت سردی کے باوجود جلسہ گاہ میں ہزاروں لوگ موجود
تھے جن میں بڑی تعداد خواتین کی تھی۔ جلسے میں موجود بیشتر افراد نے
ہاتھوں میں پاکستانی پرچم اٹھا رکھے تھے۔
ابتدائی جلسہ گاہ میں سٹیج شرکا سے تقریبًا دو سو
میٹر کی دوری پر بنایا گیا تھا اور مقررین کی حفاظت کے لیے بلٹ پروف شیشے
بھی نصب کیے گئے تھے۔
اس جلسے کے لیے سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے
ہیں اور ریڈ زون کو سِیل کرنے کے علاوہ شہر میں پندرہ ہزار سکیورٹی اہلکار
تعینات کیے گئے ہیں۔
جلسہ گاہ کے گرد بلیو ایریا کی عمارتوں کی چھتوں
پر بھی سکیورٹی اہلکار تعینات ہیں جبکہ جلسہ گاہ کے آس پاس منہاج القرآن کی
اپنی سکیورٹی نے انتظامات سنبھالے ہوئے ہیں۔
لوگ کمبلوں اور رضائیوں کے ہمراہ جلسہ گاہ میں پہنچے ہیں
لانگ مارچ میں طاہرالقادری کے ہمراہ آنے والے
افراد کے علاوہ جناح ایونیو پر لوگوں کی آمد کا سلسلہ پیر کی صبح سے ہی
شروع ہو گیا تھا اور جلسہ گاہ میں سب سے پہلے پہنچنے والے افراد میں سے
زیادہ تر کا تعلق بھکر، خوشاب، میانوالی کے علاقوں سے تھا۔
وہ اپنے ساتھ شب بسری کے لیے بستر اور کھانے پینے
کی اشیا بھی وافر مقدار میں لائے ہیں جس سے تاثر ملتا ہے کہ کہ وہ لمبے
عرصے تک رکنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ جلسے کے مقام پر مرکزی شاہراہ کے ساتھ
شامیانے لگا کر آنے والے افراد کو بٹھانے کا انتظام کیا گیا ہے اور لوگ گرم
کمبلوں اور رضائیوں کے ہمراہ جلسہ گاہ میں پہنچے ہیں۔
طاہر القادری کا لانگ مارچ پیر کو علی الصبح لالہ
موسیٰ پہنچا تھا جہاں چار گھنٹے کے قریب قیام کے بعد یہ پھر اسلام آباد کی
جانب روانہ ہوا۔
لالہ موسیٰ سے روانگی سے پہلے ڈاکٹر طاہر القادری
نے پریس کانفرنس سے خطاب میں دعوٰی کیا کہ آئین میں اراکینِ پارلیمنٹ کے
لیے ترقیاتی فنڈز کی کوئی اجازت نہیں ہے اور یہ ایک سیاسی رشوت ہے۔ انہوں
نے مزید کہا کہ افواج پاکستان اور پولیس عوامی مارچ سے نہیں ٹکرائیں گے اور
یہ کہ انہیں جلسے کے لیے چار جگہوں کی پیش کش کی گئی تھی جن میں سے تین کو
انہوں نے رد کر دیا تھا۔
انہوں نے لانگ مارچ کے راستے پر واقع شہروں میں موبائل فون کی بندش کی بھی مذمت کی۔