قدیم دنیا کے سات عجوبے اگر آپ کے مطالعہ سے گزرے ہوں، یا اب بھی اگر آپ ‘seven wonders of the ancient world’ لکھ کر انٹرنٹ پر سرچ کریں۔۔۔ تو عموماً تیسرے نمبر پر آپ کو جو چیز لکھی ہوئی ملے گی وہ کچھ یوں ہے:
زیوس (دیوتا) کا مجسمہ بمقام اولمپیا
یہ وہی ’’اولمپیا‘‘ اور اس کا وہی ’’زیوس‘‘ دیوتا ہے جس کی تاریخ زندہ کرنے کےلیے، دنیا کے سب سے بڑا کھیل میلہ آج آپ کے اخباروں اور سکرینوں کی زینت اور ہر بیٹھک میں سپورٹس کے شائقین کا موضوعِ گفتگو ہے۔۔۔ تاکہ آپ کو اندازہ ہو کہ اس دنیا کے اندر کھیل بھی نرا کھیل نہیں ہوتا؛ اِن بظاہر معمول کی چیزوں کے پیچھے بھی بہت کچھ ہوتا ہے۔۔۔!
ایک تہذیب جب غالب آتی ہے تو وہ ہزارہا رنگ میں اپنا آپ منواتی ہے! ایک فاتح تہذیب آپ سے جو خراج لیتی ہے وہ محض روپے پیسے اور ’آئی ایم ایف‘ کے بھتے کی صورت میں نہیں ہوتا جس کی گنتی آپ کے بجلی بلوں تک کے اندر ہورہی ہوتی ہے! یہ خراج دراصل آپ کو صرف اپنے خون پسینے کی کمائی سے نہیں، اپنے تہذیبی وجود سے بھی ادا کرنا ہوتا ہے؛ ان بےشمار لہجوں اور طریقوں میں اس فاتحِ عالم کی تعظیم اور اُس کی روایات کی توقیر کرنی ہوتی ہے جو اُس نے آپ ’تھرڈ ورلڈ‘ کے لیے جاری کررکھے ہوتے ہیں! اپنے جناح کیپ اور سبز واسکٹ پوش کھلاڑیوں کی وساطت آج آپ قوموں کی جس ڈرِل کے اندر شریک ہیں، وہ اسی عمرانی حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ صرف آپ نہیں، لاالہ الا اللہ کا پرچم بردار ’مکہ مدینہ‘ والا ملک، جس کے باشندے اپنے آپ کو صحابہؓ کی اولاد کہنے میں اتھاہ فخر محسوس کرتے ہیں، اپنی شریف زادیوں کو قوموں کی اس نمائش میں پیچھے رکھنے کا روادار نہیں رہتا! آپ کے خیال میں یہ محض ’کھیل‘ اور ’ورزش‘ کا شوق ہے، یا اس سے بڑھ کر اس کی کوئی نظریاتی و تہذیبی جہت بھی ہے؟ ہماری اِس مختصر تحریر میں یہی سوال زیربحث لایا گیا ہے۔
موجودہ دور میں اولمپیا کے اس قدیمی میلے کا ازسرنو احیاء کیوں ہوا؟ اور سب سے دلچسپ بات، بیچ میں اتنی صدیاں یہ کیوں تاریخ کے قبرستان میں دفن رہا؟ خود یورپ کو یہ طویل زمانہ کیوں بھولا رہا۔۔۔ اور یہ مردہ اتنی صدیوں بعد یک دم انگڑائی لے کر کہاں سے نکل آیا؟ یہ چند دلچسپ سوالات ہیں۔ آئیے ذرا ان پر نظر ڈالتے ہیں۔
’’اولمپک گیمز‘‘ جن ادوار سے گزر کر آج ہم تک پہنچیں وہ کچھ یوں ہیں:
1۔ اولمپکس کا ظہور:
یونانی دیومالا کو ایک طرف رکھتے ہوئے، اس سلسلہ کی جو قدیم ترین تاریخی شہادت ملتی ہے، اور جوکہ یونانی جغرافیہ وتاریخ دان سٹرابو (63Strabo ق م) کے دم سے تاریخ کے ہاتھ آئی ہے، اسکی رُو سے۔۔۔ اولمپکس میلے کا ظہور بت پرست یونان میں کم از کم سات آٹھ صدیاں قبل مسیح یونان کے ایک خطے ایلیس Elis میں ہوا جس میں اولمپیا نامی یہ بستی واقع ہے۔ سب انسائیکلوپیڈیا آپ کو یہی بتاتے ہیں کہ اولمپیا کے اس مقام پر یونانیوں کا سب سے نامور بت خانہ قائم تھا جو یونانی خدا ’’زیوس‘‘ Zeus اور اس کی بیوی ’’ہیرا‘‘ Hera سے موسوم تھا۔ یہاں زیوس کا ایک دیوہیکل بت تھا جو سرتاسر سونے اور ہاتھی دانت میں روپوش تھا(آسمان میں بارہ میٹر تک جاتا) اور یونانی مہادیو کی صورت پیش کرتا تھا۔ یہی وہ حیرت ناک حجم کا بت ہے (اولمپیا کا زیوس دیوتا) جس کو دنیا کے سات عجوبوں میں شمار کیا گیا۔
بتوں کے میلے منعقد ہونا تاریخ انسانی کا ایک معلوم واقعہ ہے۔ اولمپیا کے حصے میں جتنا بڑا بت، اتنا بڑا اسکا میلہ! رفتہ رفتہ یہاں ایک عظیم اکٹھ منعقد ہونے لگا جو اتنا غیرمعمولی تھا کہ ہر سال نہیں بلکہ ہر چار سال بعد دہرایا جاتا۔۔۔ چار سال اسکی تیاری ہوتی اور پھر ایک عظیم ترین میدان سجتا۔ چار سال کے اس درمیانی عرصہ کو یونان کے لوگ ’’اولمپیاڈ‘‘ کے نام سے ذکر کرتے اور اپنے اوقات کی پیمائش میں اِسی ’’اولمپیاڈ‘‘ سے مدد لیتے۔ پہلوان اور ایتھلیٹ یہاں جیت پاکر جانا اپنی زندگی کا سب سے بڑا خواب جاننے لگے۔
طرح طرح کے شغل، رنگ بازی اور پھر فسق وفجور طبعی طور پر ان شرکیہ میلوں کا ایک قدیمی وصف ہے ۔۔۔ لوگوں سے پیسہ جھاڑنے کا عمل یعنی ’کمرشل ازم‘ کا اپنے عروج پر جاپہنچنا اس کا ایک اور دلچسپ پہلو ہے، جس کے باعث ان سرگرمیوں کی میزبانی کے لیے ہر سرمایہ دار ملک کی رال بہتی ہے۔ یوں ’ساہوکاری‘ اس کی ایک اور جہت بن کر سامنے آتی ہے، جو منجملہ دیگر صورتوں کے ’ملٹی نیشنلز‘ کی صورت میں آج بطورِخاص اپنا ظہور کرنے لگی ہے۔ کھلاڑیوں کی صحت اور پرفارمنس پر پیسہ لٹانے کے لیے سب سے بڑھ کر بےچین یہاں آپ کو شراب کی کمپنیاں نظر آئیں گی!
المختصر، اولمپیا کا یہ وہ قدیمی بت خانہ ہے، جس کے نام کا میلہ رفتہ رفتہ یونان میں سب سے زیادہ پذیرائی اختیار کرگیا۔ گریک عہد میں یہ میلہ پورے تسلسل اور تقدس کے ساتھ جاری رہا، یونانیوں کے اپنے مابین کبھی جنگی سلسلے چھڑ جاتے تو زیوس دیوتا کا یہ میلہ کچھ دیر کےلیے موقوف ہوتا ورنہ اس کا پورا اہتمام رہا۔ سن 146 ق م میں یونان رومیوں کے ہاتھوں مفتوح ہوا تو اِس رومن عہد میں بھی اولمپیا کے اس قدیمی بت کدے اور اس کے میلے کی رونقوں کو کچھ فرق نہ آیا۔ رومی شہنشاہ نیرو 67 ق م میں بنفس نفیس اولمپیا یاترا کے لیے گیا اور یہاں کے میلے میں جو اس کے اعزاز میں دو سال ملتوی کرکے رکھا گیا، شرکت کرکے روم لوٹا۔ رومیوں کے ہاتھوں اولمپیا کے اس بت کدے اور اس کے میلے کو اور بھی چار چاند لگے۔ میلے کے انعقاد کے لیے رومیوں نے یہاں اور بھی اعلیٰ تعمیرات کیں اور ’’زیوس‘‘ دیوتا کے اعزاز میں لوگوں کو اور بھی سہولتوں سے نوازا۔
2۔ ڈیڑھ ہزار سال کا تعطل:
عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ اولمپیا کے اس یونانی میلے پر رومیوں کے ہاتھوں برا وقت آیا، جس کے نتیجے میں اس کو کوئی دو ہزار سال کے لگ بھگ عرصہ تاریخ کے ملبے تلے دفن ہوجانا پڑا۔ اولمپیا میلے کے اجڑنے کا یہ واقعہ بےشک رومیوں کے ہاتھوں ہوا، لیکن اصل دلچسپ بات پوچھنے کی یہ ہے کہ رومیوں کے ہاتھوں یہ کب جاکر واقع ہوا اور اس کے واضح محرکات کیا تھے؟ جبکہ ہم پیچھے دیکھ آئے، رومی شہنشاہ تو بڑی صدیاں اولمپیا کے اس بت کدے اور اس کے میلے کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی ہی فرماتے رہے تھے! وجہ یہ تھی کہ تب تک رومی خود بھی یونانیوں کی طرح بت پرست تھے۔ البتہ یہ تبدیلی جو اولمپیا کے اِس چراغ کو لگ بھگ دو ہزار سال تک گل کررکھنے کا موجب بنی۔۔۔ عالم مغرب میں یہ حیرت انگیز تبدیلی آتی ہے شہنشاہ قسطنطین کے قبولِ عیسائیت کےساتھ اور اس کے مابعد شہنشاہوں کے ہاتھوں۔ یعنی رومی اب ’رومی‘ ہونے کے ساتھ ساتھ ’’عیسائی‘‘ بھی ہوگئے تھے۔ رومنز اب (ایک درجے میں) دین انبیاء کے ساتھ نسبت اختیار کرگئے تھے اور بت پرستانہ شعائر سے (ایک گونہ) بیزار ہونے لگے تھے۔ 393 عیسوی تک آتے آتے معاملہ یہاں پہنچاکہ رومی شہنشاہ تھیوڈوسیوس اول Theodosius I نے پروانہ جاری کیا کہ ملک کے طول و عرض میں تمام بت پرستانہ اعمال اور روایات کالعدم کردی جائیں۔ اس شہنشاہ کے جانشین شہنشاہ تھیوڈوسیوس دوم Theodosius II نے تو اور بھی کمال کردیا۔ اس نے عیسائی مبلغین کی تحریک پر 426 عیسوی میں یہ پروانہ جاری کردیا کہ سب یونانی بت کدے ڈھادیے جائیں، جس کی براہِ راست زد اولمپیا اور اس کے زیوس دیوتا کے میلے پر بھی پڑی۔ ہاں اب اولمپیا اجڑنا شروع ہوا۔ رہی سہی کسر پھر 522ءاور پھر 551ءمیں خطے کے اندر آنے والے کچھ نہایت زوردار زلزلوں نے پوری کردی اور یہاں کی دیوہیکل تعمیرات قصۂ پارینہ ہوئیں۔ اولمپیا اور اس کا یہ بت خانہ نہ صرف کھنڈرات میں تبدیل ہوا، بلکہ تہِ خاک ہوتا ہوتا مکمل روپوش ہوگیا، یہاں تک کہ تاریخ کے قبرستان میں جا دفن ہوا۔ ڈیڑھ ہزار سال سے زائد عرصہ عالمِ مغرب پر یوں گزرا کہ نہ کہیں اولمپیا اور نہ اولمپک گیمز؛ کیونکہ اِس دوران یورپ دین مسیح کا دم بھرنے لگا تھا، اور دین ابراہیمؑ سے جیسی کیسی ایک وابستگی رکھنے لگا تھا، جس کا اتنا تقاضا وہ کم ازکم جاننے لگا تھا کہ اِن بت پرستانہ شعائر اور تہواروں کا اُس آسمانی دین کے ساتھ کچھ تصادم ضرور ہے جس کا اب وہ مسیح اور انبیائے عہدِقدیم کی وساطت دم بھرنے لگا ہے۔ اولمپک میلہ یونانی تہذیب کے ساتھ ہی دفن رہا۔۔۔ تاآنکہ ’جدید یورپ‘ کی تشکیل کا وقت آیا جس کو آگے چل کر ’جدید دنیا‘ کی تشکیل کرنا تھی! اب اِس موقع پر؛ یورپ کے ہاں آسمانی شرائع کے ساتھ اپنی وہ رہی سہی وابستگی ختم کرلینے کا فیصلہ ہوا۔ چرچ کے خلاف بغاوت تو ہو ہی چکی تھی۔ عیسائیت کو اپنی خصوصی شناخت نہ رہنے دینے کے لیے۔۔۔ ضروری ٹھہرا کہ یورپ اپنی ماقبل عیسائیت تاریخ (انبیاء پر ایمان لانے سے ماقبل تاریخ) کا ایک بھرپور احیاء کرے۔ یوں انیسویں صدی کے اواخر میں جاکر یہ ہوا کہ اولمپک میلہ تاریخ کے قبرستان سے نکل کر پھر سے نہ صرف یورپ بلکہ دنیا بھر کے اندر ایک چلتی پھرتی مخلوق کی صورت دیکھا جانے لگا۔
3۔ زمانہ جدید میں اولمپکس کا احیاء:
اولمپیا کے ان مدفون یونانی شعائر کا احیاء جو انیسویں صدی کے اواخر میں جاکر ہوا، اس کے پیچھے جلی طور پر ہمیں یہ مقاصد کارفرما نظر آتے ہیں:
1۔ عیسائیت کو اپنی واضح پہچان نہ رہنے دینا۔۔۔ جدید یورپ کے صورت گروں کی نظر میں بہت ضروری ہوگیا تھا، جس کے لیے ان گنت اقدامات کیے گئے۔ ان کلچرل اقدامات میں سے ہی ایک ’’اولمپکس‘‘ کا احیاء تھا۔ محض ’کھیل‘ مقصود ہوتا تو آپ جانتے ہیں اس کی ہزاروں صورتیں تھیں۔ مگر یہ ماہرین سماجیات واقف تھے کہ کھیل، سیاحت، گیت، ادب اور فن وغیرہ ہی کسی سوسائٹی کو اپنی مرضی کی صورت دینے کے لیے ایک غیرمعمولی اہمیت کی حامل چیز ہیں۔ خود ہماری تہذیب میں یہ معروف ہے کہ مائیں روزمرہ لوریوں کے ذریعے سے ہی اپنے نونہالوں کے اندر توحید کے بیج راسخ کرلیا کرتی تھیں: ’’الله ربي لا أشرك به شيئاً‘‘، یا ایک اور مشہور لوری: ’’حسبي ربي جل الله، ما في قلبي إلا الله‘‘۔
2۔ آپ جانتے ہیں، جدید یورپ کی اٹھان چرچ کے خلاف بغاوت پر ہوئی ہے۔ رومنز کی بت پرست تاریخ سے (کسی حد تک) جو ایک ناطہ توڑرکھا گیا تھا اس کا تمام سہرا عیسائی راہبوں اور احبار و اساقفہ کو ہی جاتا ہے۔ رومی شہنشاہوں نے بت پرستانہ شعائر کو کالعدم ٹھہرایا تو اِن عیسائی مبلغین کی ہی تحریک پر۔ لہٰذا چرچ کی حاکمیت کو ختم ٹھہرانے نیز چرچ (اور اس کے ذریعے سے ’’دین‘‘) کو اس کی اوقات یاد دلانے کے لیے ضروری تھا کہ مغرب میں اب وہ بہت کچھ بحال کروا دیا جائے جو یورپ کے عیسائی ہونے سے ماقبل ادوار میں یہاں پر پایا جاتا تھا۔ چنانچہ صرف اولمپکس نہیں بلکہ ویلنٹائن ڈے valentine's day اور ہیلوئین Halloween وغیرہ ایسے دیگر بت پرست رومن تہواروں کو بڑے زوروشور کے ساتھ ان اہل کتاب معاشروں میں عام کرایا گیا، اور جوکہ اب ہمارے ’پڑھے لکھوں‘ کے ہاں پذیرائی پارہے ہیں۔ اس لحاظ سے آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ’’عیسائی یورپ‘‘ جو دین ابراہیم سے اپنی وابستگی کا یہ کم از کم تقاضا جانتا تھا کہ بتوں سے منسوب اِن میلوں ٹھیلوں کو اپنے یہاں معدوم کررکھے۔۔۔ وہ قدیم ’’عیسائی یورپ‘‘ ہمارے آج کے اُن بہت سے نام نہاد ’’مسلمانوں‘‘ کی نسبت جو اِن چیزوں میں ہرگز کوئی عیب نہیں دیکھتے، توحید سے کچھ بہتر واقفیت رکھتا تھا!
3۔ انبیاء اور ان کے دیے ہوئے آسمانی شرائع سے لوگوں کی (جیسی کیسی) ایک وابستگی تھی، اسے ختم کرانے کے لیے ’کھنڈرپرستی‘ کو ایک باقاعدہ متبادل بلکہ باقاعدہ ایک مذہب کے طور پر متعارف کرانا بھی جدید ’انتھروپالوجسٹ‘ تحریک کا نمایاں مشن رہا ہے۔ آپ جانتے ہیں، یورپ اور ایشیا میں پائی جانے والی بیشتر قومیں اہل کتاب رہی ہیں یا مسلمان، جو اپنی اجتماعی شناخت ’دھرتی‘ کی بجائے ’’آسمان‘‘ میں دیکھنے لگی تھیں بلکہ اپنی ’ماقبل نبی‘ تاریخ اور اپنے آبائے جاہلیت سے بیزاری بھی کرنے لگی تھیں، جیساکہ ہم رومنز تک کی تاریخ میں اس کی کچھ نہ کچھ جھلک پاتے ہیں (اپنے اسی عیسائی پس منظر کے باعث، بڑی صدیاں، یورپ سرزمینِ انبیاء – فلسطین – کو یونان سے بڑھ کر مقدس جانتا رہا ہے)۔ آسمان سے ان اقوام کا رشتہ توڑنے کے لیے ضروری تھا کہ مختلف عنوانات کے تحت کھنڈرات سے ان کی وابستگی کرائی جائے اور مدفون تہذیبوں سے عبرت لینے کی بجائے (جوکہ اسلامی زاویہ نگاہ ہے) کھدائیوں تلے سے نکلنے والی ان تہذیبوں کی تعظیم اور پرستش کروائی جائے اور ان کے لیے عقیدت اور سپاس کا ایک سے بڑھ کر ایک جذبہ پیدا کرایا جائے۔ اسی وجہ سے ہمارے مسلم مفکرین ’آثارِ قدیمہ‘ کی اس عالمی تحریک کے پیچھے کارفرما بہت سے فری میسنری اہداف کی نشاندہی کرتے چلے آئے ہیں۔ خود ہمارے مابین مغربی ماہرین نے خاصی کوشش کی ہے کہ کسی طرح ہم بھی ان مٹی میں دفن تہذیبوں (مانند موہنجودڑو، ٹیکسلا، ہڑپہ) کو ہی اون کرنے لگیں اور رفتہ رفتہ انہی کے اندر اپنے فخر و انتساب کی جڑیں ڈھونڈنے لگیں، جس میں اللہ کا شکر ہے اب تک اُنہوں نے منہ کی کھائی ہے۔ (راجہ داہر کی جے اور محمد بن قاسم پر طعن و تشنیع وغیرہ بھی اسی لانگ ٹرم پراجیکٹ کا حصہ ہے)۔ مصر میں فراعنہ کی تہذیب اور آثار کا احیاء کرانا اور مصریوں کے اندر فراعنہ کے ساتھ ایک تجدیدِ نسبت کرانا باقاعدہ ایک تحریک کے طور پر وہاں بڑی دیر سرگرم رہی ہے۔ ایسی ہی کوشش عراق میں بابل کے کھنڈرات کے حوالے سے کی جاتی رہی ہے، تاکہ یہ قومیں اپنی وابستگی کے لیے اپنے نبی کے سوا بھی کسی نہ کسی چیز کو درخورِاعتناء جانیں اور اپنے ماقبل اسلام آباء پر بھی ’کچھ نہ کچھ‘ فریفتہ ہونا سیکھیں۔ تاکہ ایک بار یہ سلسلہ چل نکلے تو پھر ان ماقبل اسلام رشتوں کو ہی بڑھاتے اور نمایاں سے نمایاں تر کرتے چلے جائیں اور نبی والی وابستگی کو زیادہ سے زیادہ برائے نام کرتے چلے جائیں۔ اس لحاظ سے اولمپیا کے یہ کھنڈرات کم از کم ابنائے یورپ کے حق میں ایسا انمول خزانہ جانا گیا جو آباء پرستی اور مردہ پرستی کے اِس مذہب کو فروغ دلوانے کے لیے غیرمعمولی حیثیت رکھتا ہے۔
انسائیکلوپیڈیاز بتاتے ہیں کہ اولمپیا کے اس قدیمی مقام کا کوئی نام ونشان تک باقی نہ رہ گیا تھا، یہاں تک کہ 1766 ء میں ایک انگریز ماہر آثارقدیمہ رچرڈ چینڈلر Richard Chandler نے یہاں آکر عرق ریزی کرنا شروع کی اور آخر یہ نشان لگانے میں کامیابی حاصل کی کہ اولمپیا کا وہ قدیمی بت خانہ یہیں واقع تھا۔ بعدازاں فرانسیسی آثارِ قدیمہ کی ایک جماعت نے اُس وقت یہاں آ کر ڈیرے ڈال دیے (1821ء تا 1829ء) جب یونانی باغیوں نے عثمانی خلافت کے خلاف جنگِ آزادی کا علم اٹھا رکھا ہوا تھا۔ اس جماعت نے مختصر سی کھدائیاں کرکے زیوس ٹیمپل کے کچھ آثار برآمد کردیے۔ کھدائیوں کا اصل سلسلہ 1875ء میں جرمنی کے ایک آرکیالوجیکل انسٹیٹیوٹ کے زیرنگرانی عمل میں آیا۔
بعض مصادر نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ اولمپک گیمز کے احیاء کی بحالی کا خیال زیادہ تر اس عرصے کے دوران پروان چڑھا جب خلافت عثمانیہ کے زیرتسلط یونانی خطوں میں آزادی کی بغاوت جاری تھی:
Greek interest in reviving the Olympic Games began with the Greek War of Independence from the Ottoman Empire in 1821. It was first proposed by poet and newspaper editor Panagiotis Soutsos in his poem "Dialogue of the Dead", published in 1833.[28] Evangelos Zappas, a wealthy Greek-Romanian philanthropist, first wrote to King Otto of Greece, in 1856, offering to fund a permanent revival of the Olympic Games.[29] Zappas sponsored the first Olympic Games in 1859, which was held in an Athens city square.
آخر ایک عظیم فرانسیسی ماہر تعلیم و مورخ Baron Pierre de Coubertin نے اس مہم کا بیڑا اٹھایا اور انیسویں صدی کا آخری ’اولمپیاڈ‘ یونان کے اسی قدیمی مقام پر اس کھیل میلے کا انعقاد کروانے میں کامیابی پائی۔ ابتداء میں حکومتوں کی طرف سے اس عمل کو جو فنڈ ملے وہ کافی نہ ہونے کے باعث یورپ کی عوامی انجمنوں نے اس کی مالی ضروریات پوری کرنے کے لیے عوام سے پیسہ اکٹھا کرکے دیا۔ جس کے بعد یہ دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتا چلا گیا اور اس میں سوائے عالمی جنگوں والے عشروں کے کوئی تعطل نہ آنے دیا گیا۔
اولمپیا کے چند شعائر rituals اس کھیل میلے میں اب تک قائم ہیں۔ یونانی بت پرستی میں آگ کے تقدس کا باقاعدہ اعتقاد رہا ہے جس کی شمع اسی زیوس دیوتا کے چرنوں سے حاصل کی جاتی ہے اور پھر ایک بڑا قافلہ اس مقدس آگ کو لے کر اولمپیا سے کھیلوں کے میدان میں لے کر پہنچتا ہے۔ اس میلے کے انعقاد کیلئے ابتدائی طور پر اُنہی تاریخوں کی پابندی کی جاتی ہے جن میں یہ قدیم اولمپیا کے اندر منعقد کرایا جاتا تھا۔ اولمپیا میلے کی قدیمی حیثیت یاد دلانے کے لیے آج بھی یونانی کھلاڑی سب سے پہلے میدان میں اترتے ہیں اور پھر باقی کھلاڑی ان کی پیروی کرتے ہیں، جس کے بعد اولمپکس کا ترانہ گایا جاتا ہے اور اولمپکس کے علم بلند کیے جاتے ہیں۔
جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ ایک مسلمان اس میلے کو کس نظر سے دیکھے، تو یہ کچھ مشکل نہیں۔ اس سوال کو ہم یوں رکھ لیتے ہیں کہ۔۔۔: کیا خیال ہے اگر آج کوئی رفاہی انجمن کھیلوں کی ترقی اور حوصلہ افزائی کے لیے نیز ’ورزش‘ اور ’تن درستی‘ کو فروغ دینے اور ’لوک ورثے‘ کو محفوظ کرنے کے لیے عرب کے قدیمی بتوں لات یا منات یا عزیٰ یا ہبل کے مقام پہ جاکر یا کسی طریقے سے ان کو برآمد کرکے وہاں لگنے والے میلوں کی عین اُنہی تاریخوں کی پابندی کرکے اور اُس کے کئی ایک شعائر کا باقاعدہ اعادہ کرکے ان میلوں کو بحال کروائے۔۔۔؟ آج اگر کہیں لات یا منات یا عزیٰ یا ہبل کا میلہ لگے تو دنیا میں ’کھیل اور ورزش‘ کے فروغ کی خاطر ایسے کسی میلے کے ہم پر کیا کیا ’حقوق‘ ہوں گے، ایک مسلمان پر یہ بات کچھ ایسی روپوش نہیں!
No comments:
Post a Comment