افغان صدر ایک طویل عرصے سے اس بات پر زور دیتے آئے ہیں کہ طالبان کے ساتھ امن عمل افغانوں کی قیادت میں ہونا چاہیے اور قبل ازیں وہ شدت پسندوں کے ساتھ ملک سے باہر مذاکرات کرنے کی مخالفت بھی کرتے رہے ہیں۔
فغانستان کے صدر حامد کرزئی طالبان کے دفتر کے ممکنہ قیام پر بات چیت کے لیے قطر پہنچے ہیں۔
اس سرکاری دورے پر وزیر خارجہ زلمے رسول اور اعلیٰ افغان امن کونسل کے چیئرمین صلاح الدین ربانی بھی صدر کرزئی کے ہمراہ ہیں۔ اب تک ان کی قطر کے امیر شیخ حامد بن خلیفہ التھانی کے علاوہ متعدد اعلیٰ قطری عہدیداروں سے ملاقاتیں ہوچکی ہیں۔
افغان صدر ایک طویل عرصے سے اس بات پر زور دیتے آئے ہیں کہ طالبان کے ساتھ امن عمل افغانوں کی قیادت میں ہونا چاہیے اور قبل ازیں وہ شدت پسندوں کے ساتھ ملک سے باہر مذاکرات کرنے کی مخالفت بھی کرتے رہے ہیں۔
اقوام متحدہ نے رواں ہفتے صدر کرزئی کے دورہ قطر کو سراہتے ہوئے طالبان سے مذاکرات کی میز پر آنے کا مطالبہ کیا تھا۔
جناب کرزئی مُصر ہیں کہ وہ طالبان سے صرف اسی صورت میں بات چیت کا آغاز کریں گے کہ وہ القاعدہ سے تمام روابط ختم کریں اور ہتھیار پھینک دیں۔ لیکن طالبان تواتر کے ساتھ کرزئی انتظامیہ سے یہ کہہ کر مذاکرات کے انکار کرتے رہے ہیں کہ یہ امریکی اتحاد کی ایک ’’کٹھ پتلی حکومت‘‘ ہے۔
فرانسیسی نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے طالبان کے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ ان کہ قطر میں کسی بھی دفتر کھولنے کا افغان صدر سے کوئی تعلق نہیں ہوگا بلکہ یہ طالبان اور قطر کی حکومت کے مابین معاملہ ہوگا۔ ترجمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ قطر میں پہلے سے موجود کسی بھی نمائندے کی حامد کرزئی سے نہ تو ملاقات ہوگی نہ ہی بات۔
افغانستان میں تعینات امریکہ اور اس کی اتحادی افواج آئندہ سال کے اواخر تک یہاں سے واپس چلی جائیں گے اور اس سے قبل سلامتی کی ذمہ داریاں مقامی سکیورٹی فورسز کو سونپی جارہی ہیں۔ اسی تناظر میں ملک میں امن و امان کے قیام اور مصالحتی عمل کے تحت طالبان سے بات چیت پر بھی سنجیدگی سے غور کیا جارہا ہے۔
اس سرکاری دورے پر وزیر خارجہ زلمے رسول اور اعلیٰ افغان امن کونسل کے چیئرمین صلاح الدین ربانی بھی صدر کرزئی کے ہمراہ ہیں۔ اب تک ان کی قطر کے امیر شیخ حامد بن خلیفہ التھانی کے علاوہ متعدد اعلیٰ قطری عہدیداروں سے ملاقاتیں ہوچکی ہیں۔
افغان صدر ایک طویل عرصے سے اس بات پر زور دیتے آئے ہیں کہ طالبان کے ساتھ امن عمل افغانوں کی قیادت میں ہونا چاہیے اور قبل ازیں وہ شدت پسندوں کے ساتھ ملک سے باہر مذاکرات کرنے کی مخالفت بھی کرتے رہے ہیں۔
اقوام متحدہ نے رواں ہفتے صدر کرزئی کے دورہ قطر کو سراہتے ہوئے طالبان سے مذاکرات کی میز پر آنے کا مطالبہ کیا تھا۔
جناب کرزئی مُصر ہیں کہ وہ طالبان سے صرف اسی صورت میں بات چیت کا آغاز کریں گے کہ وہ القاعدہ سے تمام روابط ختم کریں اور ہتھیار پھینک دیں۔ لیکن طالبان تواتر کے ساتھ کرزئی انتظامیہ سے یہ کہہ کر مذاکرات کے انکار کرتے رہے ہیں کہ یہ امریکی اتحاد کی ایک ’’کٹھ پتلی حکومت‘‘ ہے۔
فرانسیسی نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے طالبان کے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ ان کہ قطر میں کسی بھی دفتر کھولنے کا افغان صدر سے کوئی تعلق نہیں ہوگا بلکہ یہ طالبان اور قطر کی حکومت کے مابین معاملہ ہوگا۔ ترجمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ قطر میں پہلے سے موجود کسی بھی نمائندے کی حامد کرزئی سے نہ تو ملاقات ہوگی نہ ہی بات۔
افغانستان میں تعینات امریکہ اور اس کی اتحادی افواج آئندہ سال کے اواخر تک یہاں سے واپس چلی جائیں گے اور اس سے قبل سلامتی کی ذمہ داریاں مقامی سکیورٹی فورسز کو سونپی جارہی ہیں۔ اسی تناظر میں ملک میں امن و امان کے قیام اور مصالحتی عمل کے تحت طالبان سے بات چیت پر بھی سنجیدگی سے غور کیا جارہا ہے۔
No comments:
Post a Comment