بھوک ہڑتا ل کا یہ سلسلہ گذشتہ ماہ اُس وقت شروع ہوا جب حراستی مرکز کے محافظوں نے، اہل کاروں کے بقول، قیدیوں کے سامان کی عام تلاشی کا کام انجام دیا، جس پر قیدیوں نے یہ الزام لگایا کہ محافظوں نے قرآن کو چھو کر مسلمانوں کی متبرک کتاب کی بے حرمتی کی ہے۔
واشنگٹن — کیوبا کے گوانتانامو بے میں قائم امریکی فوج کی حراستی تنصیب سے وابستہ اہل کاروں کا کہنا ہے کہ بھوک ہڑتال کرنے والے قیدیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔اِس وقت بھوک ہڑتال کرنے والوں کی تعداد 31ہے۔ امریکی فوج کا کہنا ہے کہ اُنھوں نے کم از کم 11قیدیوں کو زبردستی کھانا کھلانا شروع کیا ہے۔
وائس آف امریکہ کے پینٹگان سے متعلق نامہ نگار، لوئی رمریز نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ گوانتانامو کے حراستی مرکز میں ’جوائنٹ ٹاسک فورس‘ سے وابستہ حکام نے بتایا ہے کہ ہر ماہ قیدخانے میں چھ سے 12قیدی بھوک ہڑتا ل پر رہتے ہیں، لیکن کھانے سے انکار کرنے والے قیدیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
بھوک ہڑتا ل کا یہ سلسلہ گذشتہ ماہ اُس وقت شروع ہوا جب حراستی مرکز کے محافظوں نے، اہل کاروں کے بقول، قیدیوں کے سامان کی عام تلاشی کا کام انجام دیا، جس پر قیدیوں نے یہ الزام لگایا کہ محافظوں نے قرآن کو
چھو کر مسلمانوں کی متبرک کتاب کی بے حرمتی کی ہے۔
اس سلسلے میں جب قیدیوں کے وکلاٴ نے شکایت درج کی تو یہ معاملہ بین الاقوامی میڈیا میں شائع ہوا۔
تنصیب کے ایک ترجمان، بحریہ کے کپتان رابرٹ ڈُرانڈ کا کہنا ہے کہ یہ احتجاج چھ قیدیوں سے شروع ہوا جس کی تعداد اب 30تک پہنچ چکی ہے۔
حراستی تنصیب سے وابستہ اہل کاروں نے بتایا ہے کہ فروری میں ہونے والا یہ تلاشی کا کام، ضابطوں کے مطابق عمل میں لایا گیا، اور محافظوں نے مسلمانوں کی متبرک کتاب کو ہاتھ نہیں لگایا۔
قیدیوں کےمطالبات میں حراستی مرکز کےحکام کی طرف سےمعذرت کرنا اور نئےقوانیں نافذ کرنا شامل ہے، جن کی مددسے قرآن کی تلاشی کو استثنیٰ دیا جائے۔
ڈُرانڈ کا کہنا ہے کہ یہ ایسے مطالبات ہیں جنھیں حراستی تنصیب کے اہل کار نہیں مان سکتے۔
قیدیوں کے وکلا کا کہنا ہے کہ اُن کے خیال میں بھوک ہڑتال میں شریک قیدیوں کی تعداد اُس سے کہیں زیادہ ہےجو امریکی فوجی اہل کار بتا رہے ہیں۔
گوانتانامو بے پر قائم امریکی بحریہ کی اِس تنصیب پر بغیر مقدمہ چلائے ’لڑاکا دشمن‘ کےزمرے میں 166قیدی زیرِ حراست ہیں۔
امریکہ اور بین الاقوامی انسانی حقوق سےوابستہ سرگرم کارکن ایک طویل عرصے سے اِس تنصیب کے معاملے پر احتجاج کرتے آئے ہیں۔
No comments:
Post a Comment