Batkhela news.100news Daily Updates News Funny Video Movie Songs Live news pashto tv live tv Malakand
Wednesday, 6 August 2014
سرائیل کے خلاف جنگی جرائم کا مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ
ہوگ: فلسطینی وزیر خارجہ ریاض المالکی نے کہا ہے کہ اسرائیل غزہ میں کیے گئے آپریشن کے دوران متعدد بار جنگی جرائم کا مرتکب ہوا ہے۔
منگل کو انٹرنیشنل کرمنل کورٹ (آئی سی سی) کے پروسیکیوٹر سے ملاقات کے دوران فلسطینی وزیر خارجہ نے اسرائیل کے خلاف تفتیش کا مطالبہ کیا۔
اسرائیل اور حماس کے غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کے نافذ ہونے کے بعد ریاض المالکی نے ہوگ کا دورہ کیا۔
ریاض المالکی نے کہا کہ گزشتہ 28 دنوں میں اسرائیل نے جو کچھ کیا، وہ واضح طور پر جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے اور بنیادی طور پر یہ انسانیت کے خلاف جرم ہے۔
فلسطینی وزیر خارجہ نے صحافیوں کو بتایا کہ 'فلسطینی حکام چاہتے ہیں کہ آئی سی سی غزہ میں ہونے والےجنگی جرائم کی دونوں اطراف سے تفتیش کرے'۔
یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ نے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر شہریوں کی ہلاکت سے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر ایک انکوائری کا آغاز کیا تھا۔
ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں بھی کہا گیا تھا کہ نہتے شہریوں پر حملہ کرنا جنگی جرم ہے۔
ریاض المالکی نے کہا کہ 'فلسطین اس وقت اقوام متحدہ میں ایک مبصر کے طور موجود ہے اور اس حیثیت سے وہ آئی سی سی کا بھی ایک رکن ہے'۔
تاہم انہوں نے کہا کہ یہ تفتیش حماس کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں، جسے مغرب کی جانب سے ایک دہشت گرد گروہ کا درجہ دیا جا چکا ہے اور جو فلسطینی حکومت کا ایک اہم حریف بھی ہے۔
دوسری جانب پوری دنیا کی مسلم کمیونٹی کا مطالبہ ہے کہ غزہ میں قیام امن کے لیے ایک مربوط حکمت عملی ترتیب دی جائے۔
پاکستان میں منگل کو پاکستان علماء کونسل کے زیراہتمام منعقد ہونے والی 'آل پارٹیز فلسطین امن کانفرنس ' سے خطاب کرتے ہوئے علماء اور مقررین نے کہا کہ اسلامی دنیا کو چین اور روس کے تعاون سے اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کا مقدمہ درج کروانا چاہیٔے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اسرائیلی اور فلسطینی حکام تین روزہ جنگ بندی کے معاہدے کے نافذ ہونے کے بعد قاہرہ میں ملاقات کریں گے۔
امریکا کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیلی اور فلسطینی حکام کے مابین قاہرہ میں ہونے والے مذاکرت میں حصہ لے گا تاکہ غزہ میں مستقل بنیادوں پر جنگ بندی کی راہ نکالی جا سکے۔
امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ترجمان جین ساکی نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'امریکا مذاکرات کا حصہ بنے گا، تاہم اس بات کا تعین کیا جائے گا کہ یہ شرکت کتنی اور کس سطح پر ہوگی'۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ابھی تک یہ تعین نہیں کیا گیا ہے کہ تقریباً ایک ماہ پر
منگل کو انٹرنیشنل کرمنل کورٹ (آئی سی سی) کے پروسیکیوٹر سے ملاقات کے دوران فلسطینی وزیر خارجہ نے اسرائیل کے خلاف تفتیش کا مطالبہ کیا۔
اسرائیل اور حماس کے غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کے نافذ ہونے کے بعد ریاض المالکی نے ہوگ کا دورہ کیا۔
ریاض المالکی نے کہا کہ گزشتہ 28 دنوں میں اسرائیل نے جو کچھ کیا، وہ واضح طور پر جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے اور بنیادی طور پر یہ انسانیت کے خلاف جرم ہے۔
فلسطینی وزیر خارجہ نے صحافیوں کو بتایا کہ 'فلسطینی حکام چاہتے ہیں کہ آئی سی سی غزہ میں ہونے والےجنگی جرائم کی دونوں اطراف سے تفتیش کرے'۔
یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ نے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر شہریوں کی ہلاکت سے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر ایک انکوائری کا آغاز کیا تھا۔
ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں بھی کہا گیا تھا کہ نہتے شہریوں پر حملہ کرنا جنگی جرم ہے۔
ریاض المالکی نے کہا کہ 'فلسطین اس وقت اقوام متحدہ میں ایک مبصر کے طور موجود ہے اور اس حیثیت سے وہ آئی سی سی کا بھی ایک رکن ہے'۔
تاہم انہوں نے کہا کہ یہ تفتیش حماس کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں، جسے مغرب کی جانب سے ایک دہشت گرد گروہ کا درجہ دیا جا چکا ہے اور جو فلسطینی حکومت کا ایک اہم حریف بھی ہے۔
دوسری جانب پوری دنیا کی مسلم کمیونٹی کا مطالبہ ہے کہ غزہ میں قیام امن کے لیے ایک مربوط حکمت عملی ترتیب دی جائے۔
پاکستان میں منگل کو پاکستان علماء کونسل کے زیراہتمام منعقد ہونے والی 'آل پارٹیز فلسطین امن کانفرنس ' سے خطاب کرتے ہوئے علماء اور مقررین نے کہا کہ اسلامی دنیا کو چین اور روس کے تعاون سے اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کا مقدمہ درج کروانا چاہیٔے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اسرائیلی اور فلسطینی حکام تین روزہ جنگ بندی کے معاہدے کے نافذ ہونے کے بعد قاہرہ میں ملاقات کریں گے۔
امریکا کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیلی اور فلسطینی حکام کے مابین قاہرہ میں ہونے والے مذاکرت میں حصہ لے گا تاکہ غزہ میں مستقل بنیادوں پر جنگ بندی کی راہ نکالی جا سکے۔
امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ترجمان جین ساکی نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'امریکا مذاکرات کا حصہ بنے گا، تاہم اس بات کا تعین کیا جائے گا کہ یہ شرکت کتنی اور کس سطح پر ہوگی'۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ابھی تک یہ تعین نہیں کیا گیا ہے کہ تقریباً ایک ماہ پر
Breaking:- Imran Khan Reveals the Secret for 14th August Azadi March
Breaking:- Imran Khan
Monday, 4 August 2014
آپ سوچ رہے ہوں گے ٹیکسی کے اندر دھوئیں کا اثر مجھ پر بھی ہو گیا ہے
واشنگٹن میں ایک ٹیکسی میں بیٹھا تو گھستے ہی احساس ہوا کہ ڈرائیور صاحب گانجے کا کش لگا رہے تھے یا لگا چکے تھے۔ دیسی تھے تو میں نے پوچھ لیا کہ چلا تو لیں گے نا؟ زور کا قہقہ لگاتے ہوئے انھوں نے پنجابی میں کہا کہ اگر نہیں لگائی ہوتی تب شاید یہ ڈر ہوتا۔
ان کے مطابق شراب سے ڈرنا چاہیے، گانجے سے نہیں۔ میں سمجھ گیا کہ وہ ان دنوں اخبار کچھ زیادہ پڑھ رہے ہیں کیونکہ ہر دوسرے دن امریکہ میں یہی دلیل دی جا رہی ہے۔ امریکہ کی دو ریاستوں میں اب شوقیہ گانجا پينے والوں کو قانوناً ہری جھنڈی ملی ہوئی ہے، تیسرے میں بھی تیاری کی جا رہی ہے۔
لیکن میں واقعی خوفزدہ ہوں۔ کیونکہ دوسری ریاستوں تک تو کو ئی بات نہیں، لیکن یہاں واشنگٹن ڈی سی میں پورے زور و شور سے شوقیہ استعمال کے لیے گانجے پر قانونی مہر لگائے جانے کی مہم شروع ہو چکی ہے۔
مہم چلانےوالوں کے مطابق چار نومبر کو جب یہاں کانگریس کے انتخابات ہوں گے تو بیلٹ پیپر پر ووٹروں سے گانجے کے حق میں یا اس کے خلاف ووٹ ڈالنے کے لیے کہا جائے گا اور اگر ایسا ہوا تو اس کے منظور ہونے کے پورے آثار ہیں۔
اور میرے خوف کی وجہ یہ ہے کہ جو شہر پہلے ہی کچھ بہکا بہکا سا رہتا ہے، اس پر گانجے کا دھواں کچھ ایسا نہ ہو ایک تو کریلا اس پہ نیم چڑھا۔
اب کانگریس کا حال دیکھیے۔ گذشتہ ہفتے ایک سماعت کے دوران امریکی نائب وزیر خارجہ نشا بسوال اور امریکی وزارت تجارت کے ارون کمار کو سوالات کے جوابات کے لیے بلایا گیا تھا۔ دونوں ہی ہندوستانی نژاد امریکی ہیں۔
اب کانگریس کے ایک رکن پتہ نہیں کس دھن میں تھے۔ دونوں ہی حضرات سے سوال اس طرح داغنے لگے جیسے وہ حکومت ہند کے نمائندوں سے بات کر رہے ہوں۔
کہنے لگے: ’مجھے آپ کا ملک بہت پسند ہے۔ آپ کے لوگ بھی بہت پسند ہیں۔ ہم آپ کی مدد کرنا چاہتے ہیں لیکن ہم اگر آپ کے ملک میں سرمایہ کاری کریں تو ہم چاہتے ہیں کہ آپ بھی ہمارے یہاں سرمایہ لگائیں۔‘
اب بیچارے امریکی اہلکاروں پر کیا گزری ہوگی یہ تو نہ ہی پوچھیں تو بہتر۔
چھ سات ماہ قبل ایک صاحب جو رپبلكن پارٹی کے صدارتي امیدوار بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں، سینیٹ میں اوباما اور اوباما كیئر کے خلاف 21 گھنٹے تک تقریر کرتے رہے۔
لیکن یہ سب تو چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں۔
11 ستمبر کے حملے کے بعد پوری دنیا میں امریکہ کے لیے ہمدردی پیدا ہو گئی تھی۔ افغانستان پر القاعدہ کے خلاف حملے میں پوری دنیا ان کے ساتھ نظر آ رہی تھی۔
لیکن اسی واشنگٹن کے وائٹ ہاؤس میں ایک صاحب رہتے تھے۔ یہ سب دیکھ کر وہ اتنے جوش میں آ گئے کہ سوچا یہی موقع ہے صدام حسین سے پرانا حساب چکانے کا اور عراق پر ہلہ بول دیا۔ اس کے بعد دنیا کی تو ایسی تیسی ہوئی ہی امریکہ کو آج تک ہر کونے سے جلی کٹی سننی پڑتی ہے۔ اربوں ڈالر خرچ کرنے کے بعد بھی دنیا میں انھیں کبھی 17 تو کبھی 20 فی صد ریٹنگ ملتی ہے۔
اور یہ سب تب ہوا ہے یا ہو رہا ہے جب گانجا یہاں غیرقانوني ہے اور جب چاروں طرف دھواں ہی دھواں ہو گا، تب کیا حال ہوگا؟
ان دنوں جو صاحب وائٹ ہاؤس میں رہتے ہیں وہ بھی جوانی کے دنوں میں گانجے کے بہت شوقین تھے۔ ہوائی میں انھیں اور ان کے دوستوں کو ’چوم گینگ‘ کا نام دیا گیا تھا۔ مقامي زبان میں اس کا مطلب ہوتا ہے گانجہ پينے والوں کا گینگ۔
اب ان صاحب نے گانجہ چھوڑ دیا ہے لیکن بظاہر ہے سافٹ كارنر تو ہے ہی۔ دوبارہ اگر ان کے جی میں آ گئی تب ملک کا کیا ہوگا اور دنیا کا کیا ہوگا؟
اگلے سال نیو یارک ٹائمز کی شہ سرخی ہوگی: ’کانگریس نے سی آئی اے کو بند کرنے کا اعلان کیا، خفیہ کام کا کنٹریکٹ پاکستان کے آئی ایس آئی کو ملا۔‘
دوسری خبر: ’امریکی ہوم لینڈ کی حفاظت کی ذمہ داری افغانی فوج دے دی گئی ہے۔‘
تیسری خبر: ’چین کے ہیکر اب چلائیں گے امریکہ کا سائبر سکیورٹی نظام۔‘
آپ سوچ رہے ہوں گے ٹیکسی کے اندر دھوئیں کا اثر مجھ پر بھی ہو گیا ہے اور ہم بھی پنک میں غین ہوئے جاتے ہیں۔
مجھے ٹی وی چینلز پر اقوامِ متحدہ کا پھوٹ پھوٹ کر رونے والا اہل کار کرس گنیس کیوں نظر نہیں آتا۔میں ان چار بچو
مجھے ٹی وی چینلز پر اقوامِ متحدہ کا پھوٹ پھوٹ کر رونے والا اہل کار کرس گنیس کیوں نظر نہیں آتا۔میں ان چار بچوں کا ذکر کیوں نہیں کرتا جو ساحل پر کھیلتے ہوئے کسی اسرائیلی جنگی کشتی کے گولے کا نشانہ بن گئے۔میں کریم ابو زید کی بات کیوں نہیں کرتا جو غزہ کی موجودہ جنگ شروع ہونے سے سولہ روز پہلے پیدا ہوا ۔تئیس روز نہ سمجھ میں آنے والے دھماکوں سے ڈر کر ماں کی چھاتی سے چمٹا رہا اور اب سے تین روز پہلے اپنی عمر کے 40 دن پورے کرکے جسم یہیں پے چھوڑ گیا۔
ایسے سوالات مجھ سے نہیں ان تین 395 امریکی سینیٹروں سے پوچھئے جو پانچ ہفتے کی چھٹی پر جانے سے پہلے اسرائیل کے ’راکٹ روک‘ آئرن ڈوم سسٹم کی مزید ترقی کے لیے دو 225 ملین ڈالر کا بجٹ منظور کرگئے۔خادمِ حرمین و شریفین شاہ عبداللہ سے پوچھئے جنھیں تین ہفتے بعد پتہ چلا کہ غزہ میں کچھ لوگ مرگئے ہیں ۔مصر کے جنرل عبدالفتح السسی اور امیرِ قطر حماد الخلیفہ الثانی سے پوچھئے جو جارح حماس اور بے چارے اسرائیل کے درمیان بروکری کی غیر مشروط کوشش کررہے ہیں۔اردن کے بادشاہ سے پوچھئے جو اب تک اعلانِ مذمت کے لیے موزوں الفاظ کی تلاش میں ہیں۔اور محمود عباس سے پوچھئے جو ہر راہگیر کے سامنے روہانسے ہوئے جا رہے ہیں کہ ’بھائی صاحب میں مانگنے والا نہیں ہوں بس ایک منٹ میری بات سن لیں۔‘
مسلمان دنیا کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ 11000 کلو میٹر پرے جنوبی امریکہ کے ملک وینزویلا نے غزہ کے یتیم اور زخمی فلسطینی بچوں کو گود لینے کی پیش کش کی ہے۔ بھری مساجد میں رقت آمیز دعاؤں سے فرصت ملے تو وینزویلا کو اسلامی کانفرنس کی صدارت پیش کرنے پر غور کیجئے گا۔
join Group batkhela news www.facebook.com
لَا إِلٰهَ إِلَّا الله مُحَمَّدٌ رَسُولُ الله
BISMILLAHIR RAHMANIR RAHEEM.. Assalaamu Alaikum wa Rahmatullahi wa Barakatuh.. Page mission/vision is to share & convey Islamic Knowledge to all Muslims as possible. In Sha ALLAH Welcome to Our Group. And say: My Lord increase me in ...batkhela news ·
join Group batkhela news
batkhelanews@groups.facebook.com
https://www.facebook.com/groups/batkhelanews
BISMILLAHIR RAHMANIR RAHEEM.. Assalaamu Alaikum wa Rahmatullahi wa Barakatuh.. Page mission/vision is to share & convey Islamic Knowledge to all Muslims as possible. In Sha ALLAH Welcome to Our Group. And say: My Lord increase me in ...batkhela news ·
join Group batkhela news
batkhelanews@groups.facebook.com
https://www.facebook.com/groups/batkhelanews
اگر دعاؤں سے فرصت ملے تو۔۔۔
اگر دعاؤں سے فرصت ملے تو۔۔۔
تین روز قبل اسرائیل کے بقول سیکنڈ لیفٹننٹ ہادار گولڈن کو حماس کے چھاپہ مار 72 گھنٹے کی جنگ بندی شروع ہونے کے فوراً بعد اغوا کر کے لے گئے۔ لہٰذا اسرائیل کو جنگ بندی کے صرف چار گھنٹے بعد مجبوراً پھر سے بمباری کرنی پڑی اور 100 کے لگ بھگ مزید فلسطینی بادلِ نخواستہ ہلاک ہوگئے۔باقی دنیا نے حماس کی جانب سے اغوا کی پرزور تردید کے باوجود ہادار گولڈن کے دن دہاڑے اغوا کے اسرائیلی دعوے پر آمنا و صدقنا کہتے ہوئے کہا کہ یہ واردات اس بات کا ثبوت ہے کہ حماس کو جنگ بندی سے کوئی دلچسپی نہیں۔
اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون، امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری اور صدر اوباما نے ہادار گولڈن کی غیر مشروط فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسی گھٹیا حرکتوں سے غزہ میں جنگ بندی کے امکانات کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔غزہ کے عام شہریوں کی ہلاکتیں بھی افسوسناک ہیں لیکن لیفٹننٹ ہادار گولڈن کا اغوا ایک بہیمانہ فعل ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
ہائے بے چارہ ہادار گولڈن !! ابھی23 برس کا ہی تو سن تھا۔چند ہی ہفتے بعد اس کی شادی ہونے والی تھی۔اس کے دادا اور دادی نازیوں کے گیس چیمبر میں دھکیلے جانے سے بال بال بچے اور پھر دونوں نے بطور شکرانہ فلسطین میں آ کر اسرائیل کی جنگِ آزادی میں بھرپور حصہ لیا
لیفٹننٹ ہادار گولڈن کے والد سمبا اور والدہ ہیڈوا کیمبرج یونیورسٹی میں پڑھاتے رہے اور اب پروفیسر سمبا تل ابیب یونیورسٹی میں تاریخ ِ یہود کے استاد ہیں۔ہادار کا جڑواں بھائی زور اسرائیلی فوج میں خدمات انجام دے رہا ہے۔ جبکہ ایک بھائی مینہم اور بہن ایلات زیرِ تعلیم ہیں۔ایسے پڑھے لکھے محبِ وطن امن پسند خاندان کے لیے اپنے جگر گوشے کے اغوا اور پھر اس کی
آزادی مارچ سے قبل پی ٹی آئی ورکرز کو 'دھمکیوں' کا سامنا
اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اسلام آباد ونگ نے الزام لگایا ہے چودہ اگست کو آزادی مارچ کی تیاریوں میں مصروف پارٹی کارکنوں کو قانون نافذ کرنے والوں کی جانب سے دھمکیوں کا سامنا ہے۔
تاہم، اسلام آباد پولیس نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ صرف رابطہ نمبروں کو جمع کرنے اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کی فہرست تیار کررہی ہے جو کہ سیکیورٹی برانچ کا معمول کا طریقہ کار ہے۔
اسلام آباد میں آزادی مارچ کے آرگنائزر علی اعوان نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے گزشتہ چند دنوں سے پی ٹی آئی ورکرز کو دھمکا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا" حکام نہ صرف ورکرز اور مارچ کی تیاریوں کے حوالے سے تفصیلات جمع کررہے ہیں بلکہ وہ انہیں مارچ سے قبل حراست میں لینے کی دھمکیاں بھی دے رہے ہیں"۔
انہوں نے مزید کہا کہ پولیس عہدیدار ہمارے ورکرز کے گھروں میں جارہے ہیں۔
اسلام آباد کے سیکٹر آئی ٹین میں مقیم پی ٹی آئی کے ورکر محمد مظہر کا کہنا تھا کہ شروع میں سبزی منڈی پولیس اسٹیشن کے ایک اہلکار صفدر نے اسے طلب کرکے پی ٹی آئی ورکرز کی فہرست اور ان کے رابطہ نمبر مانگے۔
محمد مظہر نے بتایا" میں نے یہ تفصیلات دینے سے انکار کردیا تو دو اہلکار منیر اور مشہوق میرے گھر جاپہنچے، اس وقت میں وہاں موجود نہیں تھا تو میری بیوی نے مجھے پولیس اہلکاروں کی آمد سے آگاہ کیا، میں نے انہیں اپنے ورکرز میں سے ایک کا رابطہ نمبر دے دیا اور اس کے بعد سے پولیس سے بچنے کی کوشش کررہا ہوں"۔
بری امام سے تعلق رکھنے والے ایک ورکر اویس عباسی کا کہنا تھا کہ سیکرٹریٹ پولیس اسٹیشن کے ایک اہلکار نے اسے طلب کرکے ورکرز کی تفصیلات پوچھی۔
اویس کا کہنا تھا" اس اہلکار نے مجھ سے چودہ اگست کی تیاریوں کے بارے میں بھی پوچھ گچھ کی، جبکہ ایک اور اہلکار عبدالرﺅف نے مجھے طلب کرکے دھمکی دی پولیس نے ورکرز کو پندرہ روز کے لیے پولیس اسٹیشنز میں بند رکھنے کا فیصلہ کرلیا ہے"۔
علی اعوان کا دعویٰ تھا کہ ایسے ورکرز کی فہرست بہت طویل ہے جنھیں پولیس، سپیشل برانچ اور پولیس کے دیگر ونگز کی جانب سے دھمکیاں ملی ہیں۔
علی اعوان نے بتایا" انڈسٹریل ایریا پولیس نے سیکٹر آئی نائن کے ایک ورکر شہزاد کی دھمکایا، جبکہ سیکٹر ایف سکس میں پولیس نے سہیل نامی ایک ورکر کو سڑک پر روک کر مارچ کے لیے اس کے کام کے بارے میں پوچھا، پولیس حکام نے اسے یہ بھی کہا کہ وہ اس کے گھر کے پتے سے واقف ہیں اور اسے کسی بھی وقت حراست میں لیا جاسکتا ہے"۔
اس نے مزید بتایا" پھول گراں کے ایک ورکر سید مراد علی شاہ نے پارٹی کو مطلع کیا کہ بہارہ کہو پولیس نے اسے دھمکیاں دی ہیں، پولیس کو اس طرح کے حربوں سے گریز کرنا چاہئے کیونکہ پارٹی ورکرز ہرصورت میں مارچ میں حصہ لیں گے، ہم نے ایسے پولیس اہلکاروں اور فون نمبرز کی فہرست تیار کرنا شروع کردی ہے جو ہمارے ورکرز کے خلاف استعمال ہورہے ہیں"۔
ایس ایس پی محمد علی نیکوکار نے ڈان سے بات کرتے ہوئے ان الزامات کی تردید کی کہ پولیس پی ٹی آئی ورکرز کو دھمکا رہی ہے۔
انہوں نے کہا"پولیس کسی بھی ورکر کے گھر میں داخل نہیں ہوئی تاہم یہ بات ٹھیک ہے کہ پی ٹی آئی ورکرز کے رابطہ نمبرز جمع کئے جارہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا" یہ سیکیورٹی برانچ کا عام اور پرانا طریقہ ہے، جس کے تحت مذہبی اداروں، تاجروں اور علاقے کی اہم شخصیات کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے، جبکہ پولیس اسٹیشنز میں بھی سیاسی جماعتوں اور دیگر گروپس کے ورکرز کا ریکارڈ مرتب کیا جاتا ہے، رابطہ نمبرز اور فہرست مرتب کرکے اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ ضرورت پڑنے پر ان کارکنوں سے کسی بھی رابطہ کیا جاسکے"۔
ایس ایس پی کا دعویٰ تھا" کسی بھی ورکر کی گرفتاری پر غور نہیں ہورہا اور ان نمبروں کو حکومتی ہدایات پی ٹی آئی کے ورکرز تک پہنچانے کے لیے استعمال کیا جائے گا"۔
تاہم، اسلام آباد پولیس نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ صرف رابطہ نمبروں کو جمع کرنے اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کی فہرست تیار کررہی ہے جو کہ سیکیورٹی برانچ کا معمول کا طریقہ کار ہے۔
اسلام آباد میں آزادی مارچ کے آرگنائزر علی اعوان نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے گزشتہ چند دنوں سے پی ٹی آئی ورکرز کو دھمکا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا" حکام نہ صرف ورکرز اور مارچ کی تیاریوں کے حوالے سے تفصیلات جمع کررہے ہیں بلکہ وہ انہیں مارچ سے قبل حراست میں لینے کی دھمکیاں بھی دے رہے ہیں"۔
انہوں نے مزید کہا کہ پولیس عہدیدار ہمارے ورکرز کے گھروں میں جارہے ہیں۔
اسلام آباد کے سیکٹر آئی ٹین میں مقیم پی ٹی آئی کے ورکر محمد مظہر کا کہنا تھا کہ شروع میں سبزی منڈی پولیس اسٹیشن کے ایک اہلکار صفدر نے اسے طلب کرکے پی ٹی آئی ورکرز کی فہرست اور ان کے رابطہ نمبر مانگے۔
محمد مظہر نے بتایا" میں نے یہ تفصیلات دینے سے انکار کردیا تو دو اہلکار منیر اور مشہوق میرے گھر جاپہنچے، اس وقت میں وہاں موجود نہیں تھا تو میری بیوی نے مجھے پولیس اہلکاروں کی آمد سے آگاہ کیا، میں نے انہیں اپنے ورکرز میں سے ایک کا رابطہ نمبر دے دیا اور اس کے بعد سے پولیس سے بچنے کی کوشش کررہا ہوں"۔
بری امام سے تعلق رکھنے والے ایک ورکر اویس عباسی کا کہنا تھا کہ سیکرٹریٹ پولیس اسٹیشن کے ایک اہلکار نے اسے طلب کرکے ورکرز کی تفصیلات پوچھی۔
اویس کا کہنا تھا" اس اہلکار نے مجھ سے چودہ اگست کی تیاریوں کے بارے میں بھی پوچھ گچھ کی، جبکہ ایک اور اہلکار عبدالرﺅف نے مجھے طلب کرکے دھمکی دی پولیس نے ورکرز کو پندرہ روز کے لیے پولیس اسٹیشنز میں بند رکھنے کا فیصلہ کرلیا ہے"۔
علی اعوان کا دعویٰ تھا کہ ایسے ورکرز کی فہرست بہت طویل ہے جنھیں پولیس، سپیشل برانچ اور پولیس کے دیگر ونگز کی جانب سے دھمکیاں ملی ہیں۔
علی اعوان نے بتایا" انڈسٹریل ایریا پولیس نے سیکٹر آئی نائن کے ایک ورکر شہزاد کی دھمکایا، جبکہ سیکٹر ایف سکس میں پولیس نے سہیل نامی ایک ورکر کو سڑک پر روک کر مارچ کے لیے اس کے کام کے بارے میں پوچھا، پولیس حکام نے اسے یہ بھی کہا کہ وہ اس کے گھر کے پتے سے واقف ہیں اور اسے کسی بھی وقت حراست میں لیا جاسکتا ہے"۔
اس نے مزید بتایا" پھول گراں کے ایک ورکر سید مراد علی شاہ نے پارٹی کو مطلع کیا کہ بہارہ کہو پولیس نے اسے دھمکیاں دی ہیں، پولیس کو اس طرح کے حربوں سے گریز کرنا چاہئے کیونکہ پارٹی ورکرز ہرصورت میں مارچ میں حصہ لیں گے، ہم نے ایسے پولیس اہلکاروں اور فون نمبرز کی فہرست تیار کرنا شروع کردی ہے جو ہمارے ورکرز کے خلاف استعمال ہورہے ہیں"۔
ایس ایس پی محمد علی نیکوکار نے ڈان سے بات کرتے ہوئے ان الزامات کی تردید کی کہ پولیس پی ٹی آئی ورکرز کو دھمکا رہی ہے۔
انہوں نے کہا"پولیس کسی بھی ورکر کے گھر میں داخل نہیں ہوئی تاہم یہ بات ٹھیک ہے کہ پی ٹی آئی ورکرز کے رابطہ نمبرز جمع کئے جارہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا" یہ سیکیورٹی برانچ کا عام اور پرانا طریقہ ہے، جس کے تحت مذہبی اداروں، تاجروں اور علاقے کی اہم شخصیات کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے، جبکہ پولیس اسٹیشنز میں بھی سیاسی جماعتوں اور دیگر گروپس کے ورکرز کا ریکارڈ مرتب کیا جاتا ہے، رابطہ نمبرز اور فہرست مرتب کرکے اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ ضرورت پڑنے پر ان کارکنوں سے کسی بھی رابطہ کیا جاسکے"۔
ایس ایس پی کا دعویٰ تھا" کسی بھی ورکر کی گرفتاری پر غور نہیں ہورہا اور ان نمبروں کو حکومتی ہدایات پی ٹی آئی کے ورکرز تک پہنچانے کے لیے استعمال کیا جائے گا"۔
Sunday, 3 August 2014
امریکی اور امریکی حکومت
امریکہ کے شہری اس بات سے تو آشنا ہیں کے عراق میں کچھ انتہا پسند بغداد پر قبضہ کرنا چاہ رہے ہیں۔ لیکن عراق میں ہونے والی انتہا پسند کاروائیوں کے پیچھے کون ہے۔ اس کا کسی کو اندازہ بھی نہیں۔
دنیا کے کسی بھی ملک میں جو چاہے ہو جائے۔ کسی بھی ملک پر جو مرضی قبضہ کرلے۔ امریکیوں کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ امریکیوں کو صرف اتنا غرض ہے کہ ان کی متعلقہ کاؤنٹی حکومت عوام کے لئے کیا کر رہی ہے۔ امریکیوں کو اس بات کا بھی بے حد علم ہے کے اس ہفتے کے اختتام پر کن دو ٹیموں کے مابین باسکٹ بال کا میچ ہے اور اس ہفتے موسم کتنا سخت رہے گا۔
کچھ دن امریکہ میں گزارنے کے بعد مجھے یہ احساس ہوا ہے کہ امریکی اس بات کو بالکل بھی اہمیت نہیں دیتے کے اِن کے ملک کی حکومت دنیا میں رونما ہوالی تبدیلیوں کے بارے میں کیا اقدامات اٹھا رہی ہے۔
امریکیوں کو اس بات سے ہر گز بھی سروکار نہیں کہ عراق میں آئی ایس آئی ایس نامی انتہا پسند تنظیم نے قبضہ شدہ علاقوں میں اسلامی خلافت کا اعلان کردیا ہے۔ اکثریت کو تو یہ تک بھی پتہ نہیں کہ امریکہ عراق میں مزید فوجی بھجوا رہا ہے۔
لنکاسٹر کے ایک مقامی چینل میں کام کرنے والے ایگزیکٹو پروڈیوسر سے جب میں نے پوچھا کے امریکہ کو کیا ضرورت ہے کے وہ عراق میں ہونے والی انتہا پسند کاروائیوں کو روکنے کے لئے اپنے فوجی دستے بھیجے۔ جواب میں اِس چینل کے اعلیٰ افسر نے آسانی سے کہہ دیا کے مجھے اس بارے میں کوئی معلومات نہیں۔
اس کا یہ جواب سن کر میں یہ سمجھنے میں کامیاب ہوا کے یہاں کے لوگ اپنے آپ کو حکومت کی جانب سے کئے گئے اقدامات سے بالکل علیحدہ سمجھتے ہیں۔ ان کو اس بات کا تو افسوس ہے کہ امریکہ پاکستان میں ڈرون حملوں کے ذریعے لوگوں کو مار رہا ہے۔ مگر ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ ہو سکتا ہے امریکی حکومت کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی حل ہی نا ہو۔
جب میں نے مقامی چینل کے افسر سے یہ پوچھا کے افغانستان سے انہوں نے کیا سبق سیکھا ہے تو ان کا یہ جواب تھا کے امریکہ کے پاس افغانستان پر حملے کے علاوہ کوئی اور حل ہی نہیں تھا۔ اگر القاعدہ ایک مرتبہ امریکہ پر حملہ کر سکتی ہے تو دوبارہ بھی کر سکتی ہے۔ جس کی انہوں نے بے حد کوششیں بھی کی ہیں۔
میرا اگلا سوال تھا کے افغانستان سے انخلا کے بعد کیا امریکہ کو درپیش سیکیورٹی تحفظات ختم ہو جائیں گے؟
جواب میں چینل کے پروگراموں کے ہیڈ نے جواب دیا کے امریکہ پہلے ہی اس جنگ پر بہت پیسہ ضائع کر چکا ہے اور اب ہمارے مالی حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے کے ہم اس جنگ کو مزید لڑیں۔ ویسے ابھی یہ فیصلہ نہیں ہوا کے امریکہ نے اپنی تمام افواج وہاں سے نکالنی ہیں یا کچھ رکھنی ہیں۔ اور ابھی تو نئے منتخب ہونے والے افغان صدر کے ساتھ سیکیورٹی معاہدے پر بھی معاملات چل رہیں ہیں۔
دفتر میں اپنا مقررہ وقت مکمل ہونے کے بعد جب میں ریسٹورنٹ پہنچا تو حلال ریسٹونٹ میں بیٹھے ایک گورے صاحب سے میں نے پوچھا کہ آپ حلال ریسٹورنٹ میں کھانا کیوں کھا رہے ہیں؟
ان کا جواب تھا کہ مجھے حلال حرام سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میں تو اس ریسٹورنٹ میں کھانے اس لئے آتا ہوں کیونکہ یہاں کے کھانے چٹ پٹے ہوتے ہیں۔
پھر میں نے پوچھا کہ کیا آپ واقعی سمجھتے ہیں کے نائن الیون کے پیچھے القاعدہ نہیں بلکہ کوئی اور ہو سکتا ہے؟
ساٹھ سالہ چٹورے امریکی کا جواب تھا کہ ہمیں بعض اوقات حالات اس بارے میں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ہم یہ بھی سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کوئی افغانستان سے اٹھ کر کیسے امریکہ کے سب سے مصروف ترین شہر پر حملہ کر سکتا ہے۔ لیکن جو کچھ ہم نے میڈیا پر دیکھا اور جو کچھ ہماری حکومت کی جانب سے بتایا گیا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کے ان حملوں کے پیچھے القاعدہ ہی تھا۔
میں نے اگلا سوال کیا کہ کیا وجہ ہے کے امریکی حکومت نے اسامہ بن لادن کو مارنے کے بعد کسی بھی قسم کی کوئی ویڈیو یا تصاویر نشر نہیں کیں۔ کیا ایسا کرنے سے امریکی حکومت کے اس دعوے پر سوالات نہیں اٹھتے؟
ہاتھ میں مرغی کی ٹانگ تھامےامریکی نے جواب دیا کے ہاں اس قسم کے شک وشہبات پیدا ہو رہے ہیں۔ مگر اگر ہماری حکومت دعویٰ کر رہی ہے تو اس نے اسامہ کو مارا ہی ہوگا۔ جیسا کہ امریکی حکومت کا ماننا ہے کہ اگر ہم ایسی کوئی تصاویر شائع کرتے ہیں تو اس سے مسلمانوں میں بدلہ لینے کا جذبہ بھڑک سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کے ان کے تحفظات ٹھیک ہوں۔
میں نے اگلا سوال کیا کہ آپ کو نہیں لگتا کے امریکہ پاکستان کے ساتھ زیادتی کر رہا ہے۔ جبکہ پاکستان امریکہ کی اس جنگ میں پاکستان بےحد نقصان برداشت کر رہا ہے؟
زیادہ مرچیں ہونے کے سبب پیپسی پیتے ہوئے امریکی نے جواب دیا کے ہم یہ مانتے ہیں کے امریکیوں کو ڈرون حملے بند کر دینے چاہیئں۔ مگر پاکستان کی حکومت کو بھی چاہیے کے وہ اب بین الاقوامی حالات کو سمجھے اور اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرے۔ کب تک پاکستان امریکہ سے امداد لے کر ملک چلاتا رہیگا۔
ساٹھ سالہ چٹورے گورے کی یہ بات سن کر میرے دل میں فوراً خیال آیا کے ہمارے سیاستدان انتخابات سے قبل تو کشکول توڑنے کے بڑے دعوے کرتے ہیں۔ مگر منتخب ہوتے ساتھ ہی کشکول توڑنے کی بجائے کشکول کا سائز بڑا کر دیتے ہیں اور تو اور قرضے یا امداد کی قسط ملنے وزیر خزانہ کی جانب سے سینہ تان کر اعلان بھی کیا جاتا ہے۔ جیسے کے انہوں نے بہت بڑا تیر مارا ہو۔
خیر اتنے سوالات کے بعد میں نے مناسب نہیں سمجھا کے میں گورے سے مزید سوالات کر کے اس کے کھانے کا مزہ کِرکرا کروں۔ لہزٰا میں نے اپنے بائیں ہاتھ میں لیگ پیس اور دائیں ہاتھ میں زینگر جکڑا اور بھول گیا کے میرے سامنے کون بیٹھا ہے۔
دنیا کے کسی بھی ملک میں جو چاہے ہو جائے۔ کسی بھی ملک پر جو مرضی قبضہ کرلے۔ امریکیوں کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ امریکیوں کو صرف اتنا غرض ہے کہ ان کی متعلقہ کاؤنٹی حکومت عوام کے لئے کیا کر رہی ہے۔ امریکیوں کو اس بات کا بھی بے حد علم ہے کے اس ہفتے کے اختتام پر کن دو ٹیموں کے مابین باسکٹ بال کا میچ ہے اور اس ہفتے موسم کتنا سخت رہے گا۔
کچھ دن امریکہ میں گزارنے کے بعد مجھے یہ احساس ہوا ہے کہ امریکی اس بات کو بالکل بھی اہمیت نہیں دیتے کے اِن کے ملک کی حکومت دنیا میں رونما ہوالی تبدیلیوں کے بارے میں کیا اقدامات اٹھا رہی ہے۔
امریکیوں کو اس بات سے ہر گز بھی سروکار نہیں کہ عراق میں آئی ایس آئی ایس نامی انتہا پسند تنظیم نے قبضہ شدہ علاقوں میں اسلامی خلافت کا اعلان کردیا ہے۔ اکثریت کو تو یہ تک بھی پتہ نہیں کہ امریکہ عراق میں مزید فوجی بھجوا رہا ہے۔
لنکاسٹر کے ایک مقامی چینل میں کام کرنے والے ایگزیکٹو پروڈیوسر سے جب میں نے پوچھا کے امریکہ کو کیا ضرورت ہے کے وہ عراق میں ہونے والی انتہا پسند کاروائیوں کو روکنے کے لئے اپنے فوجی دستے بھیجے۔ جواب میں اِس چینل کے اعلیٰ افسر نے آسانی سے کہہ دیا کے مجھے اس بارے میں کوئی معلومات نہیں۔
اس کا یہ جواب سن کر میں یہ سمجھنے میں کامیاب ہوا کے یہاں کے لوگ اپنے آپ کو حکومت کی جانب سے کئے گئے اقدامات سے بالکل علیحدہ سمجھتے ہیں۔ ان کو اس بات کا تو افسوس ہے کہ امریکہ پاکستان میں ڈرون حملوں کے ذریعے لوگوں کو مار رہا ہے۔ مگر ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ ہو سکتا ہے امریکی حکومت کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی حل ہی نا ہو۔
جب میں نے مقامی چینل کے افسر سے یہ پوچھا کے افغانستان سے انہوں نے کیا سبق سیکھا ہے تو ان کا یہ جواب تھا کے امریکہ کے پاس افغانستان پر حملے کے علاوہ کوئی اور حل ہی نہیں تھا۔ اگر القاعدہ ایک مرتبہ امریکہ پر حملہ کر سکتی ہے تو دوبارہ بھی کر سکتی ہے۔ جس کی انہوں نے بے حد کوششیں بھی کی ہیں۔
میرا اگلا سوال تھا کے افغانستان سے انخلا کے بعد کیا امریکہ کو درپیش سیکیورٹی تحفظات ختم ہو جائیں گے؟
جواب میں چینل کے پروگراموں کے ہیڈ نے جواب دیا کے امریکہ پہلے ہی اس جنگ پر بہت پیسہ ضائع کر چکا ہے اور اب ہمارے مالی حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے کے ہم اس جنگ کو مزید لڑیں۔ ویسے ابھی یہ فیصلہ نہیں ہوا کے امریکہ نے اپنی تمام افواج وہاں سے نکالنی ہیں یا کچھ رکھنی ہیں۔ اور ابھی تو نئے منتخب ہونے والے افغان صدر کے ساتھ سیکیورٹی معاہدے پر بھی معاملات چل رہیں ہیں۔
دفتر میں اپنا مقررہ وقت مکمل ہونے کے بعد جب میں ریسٹورنٹ پہنچا تو حلال ریسٹونٹ میں بیٹھے ایک گورے صاحب سے میں نے پوچھا کہ آپ حلال ریسٹورنٹ میں کھانا کیوں کھا رہے ہیں؟
ان کا جواب تھا کہ مجھے حلال حرام سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میں تو اس ریسٹورنٹ میں کھانے اس لئے آتا ہوں کیونکہ یہاں کے کھانے چٹ پٹے ہوتے ہیں۔
پھر میں نے پوچھا کہ کیا آپ واقعی سمجھتے ہیں کے نائن الیون کے پیچھے القاعدہ نہیں بلکہ کوئی اور ہو سکتا ہے؟
ساٹھ سالہ چٹورے امریکی کا جواب تھا کہ ہمیں بعض اوقات حالات اس بارے میں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ہم یہ بھی سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کوئی افغانستان سے اٹھ کر کیسے امریکہ کے سب سے مصروف ترین شہر پر حملہ کر سکتا ہے۔ لیکن جو کچھ ہم نے میڈیا پر دیکھا اور جو کچھ ہماری حکومت کی جانب سے بتایا گیا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کے ان حملوں کے پیچھے القاعدہ ہی تھا۔
میں نے اگلا سوال کیا کہ کیا وجہ ہے کے امریکی حکومت نے اسامہ بن لادن کو مارنے کے بعد کسی بھی قسم کی کوئی ویڈیو یا تصاویر نشر نہیں کیں۔ کیا ایسا کرنے سے امریکی حکومت کے اس دعوے پر سوالات نہیں اٹھتے؟
ہاتھ میں مرغی کی ٹانگ تھامےامریکی نے جواب دیا کے ہاں اس قسم کے شک وشہبات پیدا ہو رہے ہیں۔ مگر اگر ہماری حکومت دعویٰ کر رہی ہے تو اس نے اسامہ کو مارا ہی ہوگا۔ جیسا کہ امریکی حکومت کا ماننا ہے کہ اگر ہم ایسی کوئی تصاویر شائع کرتے ہیں تو اس سے مسلمانوں میں بدلہ لینے کا جذبہ بھڑک سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کے ان کے تحفظات ٹھیک ہوں۔
میں نے اگلا سوال کیا کہ آپ کو نہیں لگتا کے امریکہ پاکستان کے ساتھ زیادتی کر رہا ہے۔ جبکہ پاکستان امریکہ کی اس جنگ میں پاکستان بےحد نقصان برداشت کر رہا ہے؟
زیادہ مرچیں ہونے کے سبب پیپسی پیتے ہوئے امریکی نے جواب دیا کے ہم یہ مانتے ہیں کے امریکیوں کو ڈرون حملے بند کر دینے چاہیئں۔ مگر پاکستان کی حکومت کو بھی چاہیے کے وہ اب بین الاقوامی حالات کو سمجھے اور اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرے۔ کب تک پاکستان امریکہ سے امداد لے کر ملک چلاتا رہیگا۔
ساٹھ سالہ چٹورے گورے کی یہ بات سن کر میرے دل میں فوراً خیال آیا کے ہمارے سیاستدان انتخابات سے قبل تو کشکول توڑنے کے بڑے دعوے کرتے ہیں۔ مگر منتخب ہوتے ساتھ ہی کشکول توڑنے کی بجائے کشکول کا سائز بڑا کر دیتے ہیں اور تو اور قرضے یا امداد کی قسط ملنے وزیر خزانہ کی جانب سے سینہ تان کر اعلان بھی کیا جاتا ہے۔ جیسے کے انہوں نے بہت بڑا تیر مارا ہو۔
خیر اتنے سوالات کے بعد میں نے مناسب نہیں سمجھا کے میں گورے سے مزید سوالات کر کے اس کے کھانے کا مزہ کِرکرا کروں۔ لہزٰا میں نے اپنے بائیں ہاتھ میں لیگ پیس اور دائیں ہاتھ میں زینگر جکڑا اور بھول گیا کے میرے سامنے کون بیٹھا ہے۔
اوباما کا اسرائیلی فوجی کی رہائی کا مطالبہ
واشنگٹن: امریکا کے صدر باراک اوباما نے کہا ہے کہ حماس کی حراست میں موجود اسرائیل کے فوجی کو غیر مشروط اور فوری طور پر رہا کیا جائے۔
یاد رہے کہ جولائی میں غزہ میں اسرائیل کی جانب سے آپریشن پروٹیکٹیو ایج شروع کیا گیا تھا جس میں حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ نے متعدد اسرائیلی فوجی اغواء کرنے کا دعویٰ کیا تھا ابتداء میں اسرائیل کی جانب سے اس کی تردید کی جاتی رہی ہے۔
باراک اوباما نے مزید کہا ہے کہ جمعہ کے روز اسرائیل اور حماس کے درمیان ختم ہونی والی دوطرفہ جنگ بندی کا دوبارہ قیام اب بہت مشکل ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ جنگ بندی کے لیے کوشش جاری رکھے گا۔
امریکی صدر نے دعویٰ کیا کہ جنگ بندی کے دوران اسرائیل کی جانب سے اس کی پاسداری کی گئی تھی مگر مخالف سمت سے اس کی خلاف ورزی ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ جنگ بندی کے چند منٹوں کے بعد ہی اسرائیل کے دو فوجیوں کو قتل کیا گیا جبکہ تیسرے کو اغواء کر لیا گیا جس کی ذمہ داری حماس اور فلسطین کے دیگر دھڑوں پر عائد ہوتی ہے
ان کا کہنا تھا کہ وہ غزہ کی صورتحال دیکھ کر نہایت ہی دل شکستہ ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ بھر پور کوشش کر رہا ہے کہ وہ تمام اقدامات کیے جائیں جس سے سویلین افراد کی اموات نہ ہوں۔
امریکہ کے صدر نے کہا کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے، حماس کے غیر ذمہ دارانہ روئیے کے باعث عام افراد کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالا جا رہا ہے۔
قبل ازیں جمعہ کے روز اقوم متحدہ اور امریکہ نے غزہ میں جنگ بندی کا اعلان کیا تھا اور 72 گھنٹے کی جنگ بندی پر دونوں فریقین راضی ہوئے تھے مگر اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی صرف دو گھنٹے ہی قائم رہی سکی۔
واضح رہے کہ اس جنگ میں اسرائیلی جارحیت کے باعث 1500سے زائد فلسطینی مارے جا چکے ہیں ان میں ان بچوں اور خواتین کی بڑی تعداد شامل ہے جبکہ دوسری جانب اسرائیل کے 55فوجی مارے گئے ہی
یاد رہے کہ جولائی میں غزہ میں اسرائیل کی جانب سے آپریشن پروٹیکٹیو ایج شروع کیا گیا تھا جس میں حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ نے متعدد اسرائیلی فوجی اغواء کرنے کا دعویٰ کیا تھا ابتداء میں اسرائیل کی جانب سے اس کی تردید کی جاتی رہی ہے۔
باراک اوباما نے مزید کہا ہے کہ جمعہ کے روز اسرائیل اور حماس کے درمیان ختم ہونی والی دوطرفہ جنگ بندی کا دوبارہ قیام اب بہت مشکل ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ جنگ بندی کے لیے کوشش جاری رکھے گا۔
امریکی صدر نے دعویٰ کیا کہ جنگ بندی کے دوران اسرائیل کی جانب سے اس کی پاسداری کی گئی تھی مگر مخالف سمت سے اس کی خلاف ورزی ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ جنگ بندی کے چند منٹوں کے بعد ہی اسرائیل کے دو فوجیوں کو قتل کیا گیا جبکہ تیسرے کو اغواء کر لیا گیا جس کی ذمہ داری حماس اور فلسطین کے دیگر دھڑوں پر عائد ہوتی ہے
ان کا کہنا تھا کہ وہ غزہ کی صورتحال دیکھ کر نہایت ہی دل شکستہ ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ بھر پور کوشش کر رہا ہے کہ وہ تمام اقدامات کیے جائیں جس سے سویلین افراد کی اموات نہ ہوں۔
امریکہ کے صدر نے کہا کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے، حماس کے غیر ذمہ دارانہ روئیے کے باعث عام افراد کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالا جا رہا ہے۔
قبل ازیں جمعہ کے روز اقوم متحدہ اور امریکہ نے غزہ میں جنگ بندی کا اعلان کیا تھا اور 72 گھنٹے کی جنگ بندی پر دونوں فریقین راضی ہوئے تھے مگر اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی صرف دو گھنٹے ہی قائم رہی سکی۔
واضح رہے کہ اس جنگ میں اسرائیلی جارحیت کے باعث 1500سے زائد فلسطینی مارے جا چکے ہیں ان میں ان بچوں اور خواتین کی بڑی تعداد شامل ہے جبکہ دوسری جانب اسرائیل کے 55فوجی مارے گئے ہی
کیا یہ بھی پاکستان ہے؟
شمالی وزیرستان کا رہائشی گُل خان زندگی میں پہلی بار بنوں سے ویگنیں بدلتا بدلتا پشاور سے بس پر سوار ہو کر براستہ جی ٹی روڈ لاہور روانہ ہوا۔
گُل خان کے لاہور جانے کا مقصد ایک شیخ صاحب کے ہاں ڈرائیوری کی نوکری کرنا تھا۔ گُل خان اپنے چچا کے کہنے پر لاہور جا رہا تھا۔ جو اِن شیخ صاحب کے ہاں تیس سال ڈرائیوری کرچکے تھے۔
جونہی گُل خان کی بس راولپنڈی، جہلم، وزیر آباد اور گجرانوالہ سے ہوتے ہوئے شاہدرہ پہنچی اور گُل خان نے سڑک کے درمیان میں میٹرو بس کا جنگلہ دیکھا تو اس سے رہا نہیں گیا اور اس نے اپنی ساتھ والی سیٹ پر براجمان لاہوری سے دریافت کیا کہ یہ جنگلہ کس مقصد کے لئے لگایا گیا ہے؟
لاہوری نے بڑے فخر سے جواب دیا۔ یہ میٹرو بس کے لئے ہے۔
گُل خان کی جانب سے میٹرو بس سے متعلق دریافت کیا گیا کہ یہ کیا ہے؟
لاہوری نے کہا یہ شہباز شریف کا لاہوریوں کے لئے تحفہ ہے۔ اس جنگلے میں چلنی والی بسیں بغیر کسی ٹریفک کے سواریوں کو سفر کرواتی ہیں اور اس کا کرایہ صرف 20 روپے ہے۔
گُل خان لاہوری کا یہ جواب سن کر بڑا حیران ہوا، اتنی دیر میں ایک بس جنگلے کے اندر سے گزری جسے گُل خان نے سر باہر نکال کر دیکھا۔
بس دیکھنے کے بعد گُل خان بہت حیران ہوا اور شش و پنج میں مبتلا ہو کر سوچنے لگا کہ میں تو بنوں کے آئی ڈی پی کیمپ سے ذلیل ہوتا ہوا پشاور کے راستے کھچڑا بس پر سوار ہو کر لاہور پہنچا ہوں اور یہاں کے شہریوں کے لئے تو کیا کمال بسیں ہیں۔ واہ کیا بات ہے۔ کیا یہ بھی پاکستان ہی ہے؟
جوں جوں بس آگے بڑھتی گئی۔ گُل خان آتی جاتی بسوں کو دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ اس بس میں سفر کرنے والے کتنے خُوش نصیب ہیں۔
گُل خان کی شکل اور عقل دیکھ کر ساتھ بیٹھے لاہوری نے سوال کیا۔ آپ پشاور سے آئے ہیں؟
جواب میں گُل خان بولا؛
"میرا تعلق شمالی وزیرستان کے علاقے میران شاہ سے ہے۔ جہاں آپریشن جاری ہے اور میں اپنے گھر والوں کو بنوں آئی ڈی پی کیمپ چھوڑ کر لاہور نوکری کے لئے آیا ہوں۔"
یہ جاننے کے بعد لاہوری نے سوال کیا کہ تم یہاں کسی کو جانتے بھی ہو اور تم نے جانا کہاں ہے؟
اس سوال پر گُل خان نے اپنے میلے کپڑوں کی سامنے کی جیب میں سے ایک پرچی نکالی۔ جس پر نشتر کالونی، فیروز پور روڈ کا ایک پتہ درج تھا۔
اتنے میں بس راوی کا پُل کراس کرتے ہوئے آزادی چوک پر نئے تعمیر شدہ پُل پر چڑھنے لگی۔
لاہوری نے پتہ دیکھ کر گُل خان سے کہا کہ تم اگلے سٹاپ پر اترتے ہی اس جنگلے والی بس پر سوار ہوجانا۔ یہ سیدھا تمھیں نشتر کالونی لے جائیگی۔
لاہوری کا یہ جواب سن کر گُل خان بہت خوش ہوا کہ اسے بھی اس بس میں بیٹھنے کا موقعہ ملے گا۔
اتنے میں گُل خان نے محسوس کیا کے بس چڑھائی چڑھ رہی ہے اور بائیں جانب کی عمارتیں نیچے ہوتی جارہی ہیں۔ جونہی اسے مینار پاکستان نظر آیا تو اس نے بڑے جوش سے لاہوری سے پوچھا۔
یہ یادگارِ پاکستان ہے نا؟
لاہوری نے جواب دیا۔ ہاں اور یہ نیا پل بھی شہباز شریف کی حکومت میں ہی بنا ہے۔
گُل خان نے دوبارہ اپنا سر کھڑکی سے باہر نکالا اور اپنے آپ کو سائیڈوں پر واقع عمارات سے اوپر محسوس کرنے لگا اور یہ سوچنے لگا "کیا یہ بھی پاکستان ہے!؟
اتنے میں سٹاپ آگیا اور ساتھ بیٹھے لاہوری نے گُل خان کو کھڑکی میں سے اندر کھینچتے ہوئے کہا کہ تمھارا سٹاپ آگیا ہے۔ یہاں اتر جاؤ اور وہ سامنے سٹاپ ہے میٹرو بس کا۔
جونہی گُل خان بس سے نیچے اترا تو وہ نیا تعمیر ہونے والا پُل دیکھ کر حیران رہ گیا اور سب کچھ ُبھلا کر ادھر اُدھر دیکھنے لگ پڑا اور اپنے آپ سے سوال کرنے لگا کہ ہمارے علاقے میں تو دور دور تک پھیلے ہوئے پہاڑ نظر آتے ہیں اور یہاں حکمرانوں کے شہر میں اترتے ہی جدید ترین تعمیر شدہ پُل اور میٹرو بس کا نظارہ ہوتا ہے۔ یہ بھی سب کچھ اسی ملک میں ہے جہاں ہمارا شمالی وزیرستان ہے۔ "کیا یہ بھی پاکستان ہے"؟
خیر گُل خان لاہوریوں کی ہدایات پر عمل کرتا ہوا میٹرو بس کے سٹاپ کی جانب چل پڑا۔ راستے میں مدد حاصل کرتا گُل خان جب ایکسیلیٹرز تک پہنچا جو خوش قسمتی سے لائٹ ہونے کی وجہ سے چل رہی تھی، تو گُل خان ایک مرتبہ پھر حیران ہوا اور دل میں بولا کہ یہاں تو بندے کو اوپر لیجانے کے لئے بھی انتظامات کئے گئے ہیں۔
اس طرح گُل خان ٹکٹ بوتھ سے بیس روپے کے عوظ ٹکٹ لیتا ہوا پیلٹ فارم تک پہنچا جہاں انتظار گاہ میں پنکھے خالی کرسیوں کو ہوا دے رہے تھے۔
کچھ دیر کرسیوں پر ہوا کھانے کے بعد بس آتے ہی گُل خان بس پر سوار ہوگیا۔
میٹرو بس کے کھچا کھچ بھرے ہونے کی وجہ سے گُل خان کو بیٹھے کی جگہ نا ملی اور وہ داخلی دروازے کے نزدیک ہی کھڑا ہوگیا۔ جہاں ایئر کنڈیشنڈ کی کھڑکی بھی تھی۔
گُل خان نے کچھ دیر بعد محسوس کیا کہ اسے سردی لگنے لگی ہے، غور کیا تو اسے اپنے پر پڑنے والی ٹھنڈی ہوا کا پتہ چلا۔
دائیں ہاتھ سے ٹھنڈی ہوا کو چیک کرتے ہوئے گُل خان نے ساتھ کھڑے مسافر سے پوچھا کہ یہ ہوا کہاں سے آرہی ہے؟
مسافر نے جواب دیا کہ یہ اے سی ہے۔
گُل خان: کیا ہے؟
مسافر: اے سی۔
گُل خان شرمندہ ہوکر چپ ہوگیا اور تپتی گرمی میں ٹھنڈی ہوا کے مزے لینے لگا اور سوچنے لگا "کیا یہ بھی پاکستان ہے"!؟
اتنے میں ایک زنانہ آواز نے پہلے انگلش اور پھر اردو میں اگلے آنے والے سٹاپ کا اعلان کیا۔ جس پر گُل خان حیرانگی سے ادھر اُدھر دیکھنے لگ پڑا کہ یہ آواز کہاں سے آرہی ہے۔
کچھ ہی دیر بعد بس اگلے سٹاپ پر رکی اور دروازہ کھلتے کے ساتھ ہی اخراجی دروازے کی جانب لپکتے ہوئے ایک مسافر نے گُل خان کو کندھا مارا اور معزرت کرتا ہوا آگے چلا گیا۔ مزید مسافر بھی بس پر چڑھ گئے اور خودکار دروازہ بند ہوتے ساتھ ہی بس چل پڑی۔
اس طرح گُل خان ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کھاتا، گمنام زنانہ آواز کے مزے لیتا ہوا اپنی منزل مقصود کی جانب بڑھتا گیا۔
راستے میں اسے یہ دیکھ کر مزید حیرانگی ہوئی کہ اس بس کے لئے علیحدہ سے پُل تعمیر کئے گئے ہیں۔ جہاں سے گُل خان کو ہر عمارت اوپر ہونے کی وجہ سے کلیئر دکھائی دے رہی تھی۔ جو اسے بار بار یہ سوال کرنے پر مجبور کر رہی تھے کہ "کیا یہ بھی پاکستان ہے!!؟؟"
اس طرح گُل خان شاہ جمال، مسلم ٹائون، کلمہ چوک اور چونگی امرسدھو کے اوور ہیڈ برجز سے ہوتا ہوا غازی چوک پہنچا۔ جس کے قریب ہی اسے ایک اور عجیب و غریب سا گھومتا ہوا برج تعمیر ہوتا دکھائی دیا۔ ساتھ کھڑے مسافر سے دریافت کیا کہ یہ پُل کس مقصد کے لئے تعمیر کیا جا رہا ہے؟
جواب ملا کہ یہ پُل پیدل سڑک پار کرنے والوں اور موٹر سائیکل سواروں کے لئے تعمیر کیا جارہا ہے۔
پہلے سے حیران گُل خان یہ سن کر مزید اضطراب کا شکار ہوگیا اور سوچنے لگا کہ اس شہر میں تو حکمرانوں کو سب کا خیال ہے۔ ہم ہی بد قسمت ہیں جو لاکھوں کی تعداد میں اپنا گھر بار چھوڑ کر اس پورے ملک میں امن کے قیام کے لئے لاوارثوں کی طرح آئی ڈی پیز کیمپس منتقل ہورہے ہیں۔ جہاں ہمیں حکومت سے امداد لینے کے لئے نت نئے طریقے بتائے جاتے ہیں۔ کبھی رجسٹریشن اور کبھی سمارٹ کارڈ جیسی نامعلوم چیزوں کا اعلان کیا جاتا ہے۔ اس شہر میں کئے جانے والے کاموں سے تو لگتا ہی نہیں کہ یہ وہی ملک ہے جس کے ہم بھی شہری ہیں؟
اس دوران چلتی بس سے گُل خان یہ دیکھ کر اور بھی حیران ہوتا رہا کہ سڑک پر چلنے والی ٹریفک تو رش میں پھنسی ہے اور میٹرو بس بنا کسی روک ٹوک کے چلتی ہی جارہی ہے۔ یہ دیکھ کر گُل خان کو یہ احساس بھی ہوا کہ اس شہر میں تو غریبوں کو بھی بڑے حقوق حاصل ہیں جبکہ گاڑیوں والے اپنی ایئر کنڈیشنڈ گاڑیوں میں رش میں پھنسے کھڑے ہیں۔
اپنی منزل کی طرف گامزن میران شاہ کا رہائشی دوران سفر یہی سوچ سوچ کر حیران ہوتا رہا کہ "کیا یہ بھی پاکستان ہے؟"
کچھ ہی دیر بعد انجانی گمنام زنانہ آواز نے نشتر ٹاؤن کے سٹاپ کا اعلان کیا۔ جس کے بعد گُل خان اترنے کے لئے چوکنا ہوگیا اور خود کار دروازوں کے کھلنے پر نشتر ٹاؤن کے بس سٹاپ پر اُتر گیا۔
گُل خان سٹاپ سے باہر نکلنے کے بعد وہاں پہلے سے موجود رکشے کے پاس گیا اور سامنے کی جیب سے پرچی نکال کر رکشے والے کو دکھائی۔
خوش قسمتی سے رکشے کا ڈرائیور بھی پٹھان ہی تھا۔ جس کو دیکھتے ہی گُل خان مسکرا اٹھا اور پشتو میں درخواست کی کہ اسے اس پرچی پر درج پتے پر پہنچا دے۔
مطلوبہ پتے پر پہنچنے پر گُل خان نے اپنے پٹھان بھائی کا شکریہ ادا کیا اور سیدھا ہاتھ پیسے نکالنے کے لئے اپنی جیب میں ڈالا۔
جیب میں ہاتھ ڈالتے ہی گُل خان کو احساس ہوا کہ اس کی جیب کٹ چکی ہے اور جتنے پیسے لیکر وہ بنوں سے لاہور لایا تھا اب اس کے پاس نہیں رہے۔
بلآخر اسے یقین آ ہی گیا کہ؛
"یہ پاکستان ہی ہے!"
گُل خان کے لاہور جانے کا مقصد ایک شیخ صاحب کے ہاں ڈرائیوری کی نوکری کرنا تھا۔ گُل خان اپنے چچا کے کہنے پر لاہور جا رہا تھا۔ جو اِن شیخ صاحب کے ہاں تیس سال ڈرائیوری کرچکے تھے۔
جونہی گُل خان کی بس راولپنڈی، جہلم، وزیر آباد اور گجرانوالہ سے ہوتے ہوئے شاہدرہ پہنچی اور گُل خان نے سڑک کے درمیان میں میٹرو بس کا جنگلہ دیکھا تو اس سے رہا نہیں گیا اور اس نے اپنی ساتھ والی سیٹ پر براجمان لاہوری سے دریافت کیا کہ یہ جنگلہ کس مقصد کے لئے لگایا گیا ہے؟
لاہوری نے بڑے فخر سے جواب دیا۔ یہ میٹرو بس کے لئے ہے۔
گُل خان کی جانب سے میٹرو بس سے متعلق دریافت کیا گیا کہ یہ کیا ہے؟
لاہوری نے کہا یہ شہباز شریف کا لاہوریوں کے لئے تحفہ ہے۔ اس جنگلے میں چلنی والی بسیں بغیر کسی ٹریفک کے سواریوں کو سفر کرواتی ہیں اور اس کا کرایہ صرف 20 روپے ہے۔
گُل خان لاہوری کا یہ جواب سن کر بڑا حیران ہوا، اتنی دیر میں ایک بس جنگلے کے اندر سے گزری جسے گُل خان نے سر باہر نکال کر دیکھا۔
بس دیکھنے کے بعد گُل خان بہت حیران ہوا اور شش و پنج میں مبتلا ہو کر سوچنے لگا کہ میں تو بنوں کے آئی ڈی پی کیمپ سے ذلیل ہوتا ہوا پشاور کے راستے کھچڑا بس پر سوار ہو کر لاہور پہنچا ہوں اور یہاں کے شہریوں کے لئے تو کیا کمال بسیں ہیں۔ واہ کیا بات ہے۔ کیا یہ بھی پاکستان ہی ہے؟
جوں جوں بس آگے بڑھتی گئی۔ گُل خان آتی جاتی بسوں کو دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ اس بس میں سفر کرنے والے کتنے خُوش نصیب ہیں۔
گُل خان کی شکل اور عقل دیکھ کر ساتھ بیٹھے لاہوری نے سوال کیا۔ آپ پشاور سے آئے ہیں؟
جواب میں گُل خان بولا؛
"میرا تعلق شمالی وزیرستان کے علاقے میران شاہ سے ہے۔ جہاں آپریشن جاری ہے اور میں اپنے گھر والوں کو بنوں آئی ڈی پی کیمپ چھوڑ کر لاہور نوکری کے لئے آیا ہوں۔"
یہ جاننے کے بعد لاہوری نے سوال کیا کہ تم یہاں کسی کو جانتے بھی ہو اور تم نے جانا کہاں ہے؟
اس سوال پر گُل خان نے اپنے میلے کپڑوں کی سامنے کی جیب میں سے ایک پرچی نکالی۔ جس پر نشتر کالونی، فیروز پور روڈ کا ایک پتہ درج تھا۔
اتنے میں بس راوی کا پُل کراس کرتے ہوئے آزادی چوک پر نئے تعمیر شدہ پُل پر چڑھنے لگی۔
لاہوری نے پتہ دیکھ کر گُل خان سے کہا کہ تم اگلے سٹاپ پر اترتے ہی اس جنگلے والی بس پر سوار ہوجانا۔ یہ سیدھا تمھیں نشتر کالونی لے جائیگی۔
لاہوری کا یہ جواب سن کر گُل خان بہت خوش ہوا کہ اسے بھی اس بس میں بیٹھنے کا موقعہ ملے گا۔
اتنے میں گُل خان نے محسوس کیا کے بس چڑھائی چڑھ رہی ہے اور بائیں جانب کی عمارتیں نیچے ہوتی جارہی ہیں۔ جونہی اسے مینار پاکستان نظر آیا تو اس نے بڑے جوش سے لاہوری سے پوچھا۔
یہ یادگارِ پاکستان ہے نا؟
لاہوری نے جواب دیا۔ ہاں اور یہ نیا پل بھی شہباز شریف کی حکومت میں ہی بنا ہے۔
گُل خان نے دوبارہ اپنا سر کھڑکی سے باہر نکالا اور اپنے آپ کو سائیڈوں پر واقع عمارات سے اوپر محسوس کرنے لگا اور یہ سوچنے لگا "کیا یہ بھی پاکستان ہے!؟
اتنے میں سٹاپ آگیا اور ساتھ بیٹھے لاہوری نے گُل خان کو کھڑکی میں سے اندر کھینچتے ہوئے کہا کہ تمھارا سٹاپ آگیا ہے۔ یہاں اتر جاؤ اور وہ سامنے سٹاپ ہے میٹرو بس کا۔
جونہی گُل خان بس سے نیچے اترا تو وہ نیا تعمیر ہونے والا پُل دیکھ کر حیران رہ گیا اور سب کچھ ُبھلا کر ادھر اُدھر دیکھنے لگ پڑا اور اپنے آپ سے سوال کرنے لگا کہ ہمارے علاقے میں تو دور دور تک پھیلے ہوئے پہاڑ نظر آتے ہیں اور یہاں حکمرانوں کے شہر میں اترتے ہی جدید ترین تعمیر شدہ پُل اور میٹرو بس کا نظارہ ہوتا ہے۔ یہ بھی سب کچھ اسی ملک میں ہے جہاں ہمارا شمالی وزیرستان ہے۔ "کیا یہ بھی پاکستان ہے"؟
خیر گُل خان لاہوریوں کی ہدایات پر عمل کرتا ہوا میٹرو بس کے سٹاپ کی جانب چل پڑا۔ راستے میں مدد حاصل کرتا گُل خان جب ایکسیلیٹرز تک پہنچا جو خوش قسمتی سے لائٹ ہونے کی وجہ سے چل رہی تھی، تو گُل خان ایک مرتبہ پھر حیران ہوا اور دل میں بولا کہ یہاں تو بندے کو اوپر لیجانے کے لئے بھی انتظامات کئے گئے ہیں۔
اس طرح گُل خان ٹکٹ بوتھ سے بیس روپے کے عوظ ٹکٹ لیتا ہوا پیلٹ فارم تک پہنچا جہاں انتظار گاہ میں پنکھے خالی کرسیوں کو ہوا دے رہے تھے۔
کچھ دیر کرسیوں پر ہوا کھانے کے بعد بس آتے ہی گُل خان بس پر سوار ہوگیا۔
میٹرو بس کے کھچا کھچ بھرے ہونے کی وجہ سے گُل خان کو بیٹھے کی جگہ نا ملی اور وہ داخلی دروازے کے نزدیک ہی کھڑا ہوگیا۔ جہاں ایئر کنڈیشنڈ کی کھڑکی بھی تھی۔
گُل خان نے کچھ دیر بعد محسوس کیا کہ اسے سردی لگنے لگی ہے، غور کیا تو اسے اپنے پر پڑنے والی ٹھنڈی ہوا کا پتہ چلا۔
دائیں ہاتھ سے ٹھنڈی ہوا کو چیک کرتے ہوئے گُل خان نے ساتھ کھڑے مسافر سے پوچھا کہ یہ ہوا کہاں سے آرہی ہے؟
مسافر نے جواب دیا کہ یہ اے سی ہے۔
گُل خان: کیا ہے؟
مسافر: اے سی۔
گُل خان شرمندہ ہوکر چپ ہوگیا اور تپتی گرمی میں ٹھنڈی ہوا کے مزے لینے لگا اور سوچنے لگا "کیا یہ بھی پاکستان ہے"!؟
اتنے میں ایک زنانہ آواز نے پہلے انگلش اور پھر اردو میں اگلے آنے والے سٹاپ کا اعلان کیا۔ جس پر گُل خان حیرانگی سے ادھر اُدھر دیکھنے لگ پڑا کہ یہ آواز کہاں سے آرہی ہے۔
کچھ ہی دیر بعد بس اگلے سٹاپ پر رکی اور دروازہ کھلتے کے ساتھ ہی اخراجی دروازے کی جانب لپکتے ہوئے ایک مسافر نے گُل خان کو کندھا مارا اور معزرت کرتا ہوا آگے چلا گیا۔ مزید مسافر بھی بس پر چڑھ گئے اور خودکار دروازہ بند ہوتے ساتھ ہی بس چل پڑی۔
اس طرح گُل خان ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کھاتا، گمنام زنانہ آواز کے مزے لیتا ہوا اپنی منزل مقصود کی جانب بڑھتا گیا۔
راستے میں اسے یہ دیکھ کر مزید حیرانگی ہوئی کہ اس بس کے لئے علیحدہ سے پُل تعمیر کئے گئے ہیں۔ جہاں سے گُل خان کو ہر عمارت اوپر ہونے کی وجہ سے کلیئر دکھائی دے رہی تھی۔ جو اسے بار بار یہ سوال کرنے پر مجبور کر رہی تھے کہ "کیا یہ بھی پاکستان ہے!!؟؟"
اس طرح گُل خان شاہ جمال، مسلم ٹائون، کلمہ چوک اور چونگی امرسدھو کے اوور ہیڈ برجز سے ہوتا ہوا غازی چوک پہنچا۔ جس کے قریب ہی اسے ایک اور عجیب و غریب سا گھومتا ہوا برج تعمیر ہوتا دکھائی دیا۔ ساتھ کھڑے مسافر سے دریافت کیا کہ یہ پُل کس مقصد کے لئے تعمیر کیا جا رہا ہے؟
جواب ملا کہ یہ پُل پیدل سڑک پار کرنے والوں اور موٹر سائیکل سواروں کے لئے تعمیر کیا جارہا ہے۔
پہلے سے حیران گُل خان یہ سن کر مزید اضطراب کا شکار ہوگیا اور سوچنے لگا کہ اس شہر میں تو حکمرانوں کو سب کا خیال ہے۔ ہم ہی بد قسمت ہیں جو لاکھوں کی تعداد میں اپنا گھر بار چھوڑ کر اس پورے ملک میں امن کے قیام کے لئے لاوارثوں کی طرح آئی ڈی پیز کیمپس منتقل ہورہے ہیں۔ جہاں ہمیں حکومت سے امداد لینے کے لئے نت نئے طریقے بتائے جاتے ہیں۔ کبھی رجسٹریشن اور کبھی سمارٹ کارڈ جیسی نامعلوم چیزوں کا اعلان کیا جاتا ہے۔ اس شہر میں کئے جانے والے کاموں سے تو لگتا ہی نہیں کہ یہ وہی ملک ہے جس کے ہم بھی شہری ہیں؟
اس دوران چلتی بس سے گُل خان یہ دیکھ کر اور بھی حیران ہوتا رہا کہ سڑک پر چلنے والی ٹریفک تو رش میں پھنسی ہے اور میٹرو بس بنا کسی روک ٹوک کے چلتی ہی جارہی ہے۔ یہ دیکھ کر گُل خان کو یہ احساس بھی ہوا کہ اس شہر میں تو غریبوں کو بھی بڑے حقوق حاصل ہیں جبکہ گاڑیوں والے اپنی ایئر کنڈیشنڈ گاڑیوں میں رش میں پھنسے کھڑے ہیں۔
اپنی منزل کی طرف گامزن میران شاہ کا رہائشی دوران سفر یہی سوچ سوچ کر حیران ہوتا رہا کہ "کیا یہ بھی پاکستان ہے؟"
کچھ ہی دیر بعد انجانی گمنام زنانہ آواز نے نشتر ٹاؤن کے سٹاپ کا اعلان کیا۔ جس کے بعد گُل خان اترنے کے لئے چوکنا ہوگیا اور خود کار دروازوں کے کھلنے پر نشتر ٹاؤن کے بس سٹاپ پر اُتر گیا۔
گُل خان سٹاپ سے باہر نکلنے کے بعد وہاں پہلے سے موجود رکشے کے پاس گیا اور سامنے کی جیب سے پرچی نکال کر رکشے والے کو دکھائی۔
خوش قسمتی سے رکشے کا ڈرائیور بھی پٹھان ہی تھا۔ جس کو دیکھتے ہی گُل خان مسکرا اٹھا اور پشتو میں درخواست کی کہ اسے اس پرچی پر درج پتے پر پہنچا دے۔
مطلوبہ پتے پر پہنچنے پر گُل خان نے اپنے پٹھان بھائی کا شکریہ ادا کیا اور سیدھا ہاتھ پیسے نکالنے کے لئے اپنی جیب میں ڈالا۔
جیب میں ہاتھ ڈالتے ہی گُل خان کو احساس ہوا کہ اس کی جیب کٹ چکی ہے اور جتنے پیسے لیکر وہ بنوں سے لاہور لایا تھا اب اس کے پاس نہیں رہے۔
بلآخر اسے یقین آ ہی گیا کہ؛
"یہ پاکستان ہی ہے!"
انڈین فاسٹ باؤلر ناپسندیدہ عالمی ریکارڈ کے مالک
ساؤتھ ہمٹن: انڈیا کے سیم باؤلر پنکھج سنگھ ایک ایسے ریکارڈ کے مالک بن گئے ہیں جن کے وہ ہرگز خواہش مند نہیں تھے۔
سنگھ نے اپنے ٹیسٹ ڈیبیو میں کوئی وکٹ حاصل کئے بغیر سب سے مہنگے باؤلر بننے کا عالمی ریکارڈر بنا دیا۔
انتیس سالہ سیمر نے انگلینڈ کے خلاف ساؤتھ ہمٹن میں جاری تیسرے ٹیسٹ میچ کی دونوں اننگز میں بغیر کوئی وکٹ گرائے مجموعی طور پر 179 رنز دئے ۔
سنگھ سے پہلے یہ ریکارڈ پاکستان کے سہیل خان کے پاس تھا جنہوں نے 2009 میں اپنے ٹیسٹ ڈیبیو پر سری لنکا کے خلاف بغیر کسی وکٹ کے 164 رنز دیے تھے۔
ایسا نہیں کہ زخمی ایشانت شرما کی جگہ ٹیم میں جگہ پانے والے سنگھ نے میچ میں اچھی باؤلنگ نہیں۔ ان کو وکٹ حاصل کرنے کے دو موقع ملے تاہم وہ کامیاب نہ ہو سکے۔
پہلی اننگ میں37 اوورز میں 146 رنز دینے والے سنگھ اس وقت بدقسمت رہے جب راوندر جڈیجا نے سلپ میں انگلش کپتان ایلسٹر کک کا پندرہ رنز پر کیچ ڈراپ کر دیا۔
کک نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے 95 رنز بنا ڈالے۔
اس کے بعد بھی بدقسمتی نے راجھستان سے تعلق رکھنے سنگھ کا پیچھا نہ چھوڑا۔
صفر پر کھیلنے والے این بیل وکٹ کے سامنے سنگھ کی لیٹ سوئنگ کو بالکل نہ سمجھ سکے لیکن ایمپائر نے سیمر کی ایل بی ڈبلیو کی پر اعتماد اپیل مسترد کر دی۔
بیل نے اس کے بعد انتہائی پر اعتماد 156 رنز بنا ڈالے۔
انگلینڈ نے بیل کی بیس ٹیسٹ میچوں کے بعد پہلی سنچری کی بدولت 569 سکور پر اپنی پہلی اننگ ڈیکلیئر کر دی تھی۔
تاہم ، سنگھ کے لیئے راحت کی ایک خبر یہ ہے کہ سب سے خراب ٹیسٹ ڈیبیو کا ریکارڈ اب بھی آسٹریلیا کے لیگ سپنر برائس مک گین کے پاس ہے۔
مک گین کا 2009 کیپ ٹاؤن میں جنوبی افریقہ کے خلاف ڈیبیو ہی ان کا آخری ٹیسٹ بھی ثابت ہوا۔
اس میچ میں میزبان ٹیم نے ان کے اٹھارہ اوورز میں جارحانہ 149 رنز بناتے ہوئے ایک اننگز اور بیس رنز سے کامیابی حاصل کی تھی۔
سنگھ نے اپنے ٹیسٹ ڈیبیو میں کوئی وکٹ حاصل کئے بغیر سب سے مہنگے باؤلر بننے کا عالمی ریکارڈر بنا دیا۔
انتیس سالہ سیمر نے انگلینڈ کے خلاف ساؤتھ ہمٹن میں جاری تیسرے ٹیسٹ میچ کی دونوں اننگز میں بغیر کوئی وکٹ گرائے مجموعی طور پر 179 رنز دئے ۔
سنگھ سے پہلے یہ ریکارڈ پاکستان کے سہیل خان کے پاس تھا جنہوں نے 2009 میں اپنے ٹیسٹ ڈیبیو پر سری لنکا کے خلاف بغیر کسی وکٹ کے 164 رنز دیے تھے۔
ایسا نہیں کہ زخمی ایشانت شرما کی جگہ ٹیم میں جگہ پانے والے سنگھ نے میچ میں اچھی باؤلنگ نہیں۔ ان کو وکٹ حاصل کرنے کے دو موقع ملے تاہم وہ کامیاب نہ ہو سکے۔
پہلی اننگ میں37 اوورز میں 146 رنز دینے والے سنگھ اس وقت بدقسمت رہے جب راوندر جڈیجا نے سلپ میں انگلش کپتان ایلسٹر کک کا پندرہ رنز پر کیچ ڈراپ کر دیا۔
کک نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے 95 رنز بنا ڈالے۔
اس کے بعد بھی بدقسمتی نے راجھستان سے تعلق رکھنے سنگھ کا پیچھا نہ چھوڑا۔
صفر پر کھیلنے والے این بیل وکٹ کے سامنے سنگھ کی لیٹ سوئنگ کو بالکل نہ سمجھ سکے لیکن ایمپائر نے سیمر کی ایل بی ڈبلیو کی پر اعتماد اپیل مسترد کر دی۔
بیل نے اس کے بعد انتہائی پر اعتماد 156 رنز بنا ڈالے۔
انگلینڈ نے بیل کی بیس ٹیسٹ میچوں کے بعد پہلی سنچری کی بدولت 569 سکور پر اپنی پہلی اننگ ڈیکلیئر کر دی تھی۔
تاہم ، سنگھ کے لیئے راحت کی ایک خبر یہ ہے کہ سب سے خراب ٹیسٹ ڈیبیو کا ریکارڈ اب بھی آسٹریلیا کے لیگ سپنر برائس مک گین کے پاس ہے۔
مک گین کا 2009 کیپ ٹاؤن میں جنوبی افریقہ کے خلاف ڈیبیو ہی ان کا آخری ٹیسٹ بھی ثابت ہوا۔
اس میچ میں میزبان ٹیم نے ان کے اٹھارہ اوورز میں جارحانہ 149 رنز بناتے ہوئے ایک اننگز اور بیس رنز سے کامیابی حاصل کی تھی۔
آئی فون کے باعث چین میں لڑکی ہلاک
چین میں ایک نوجوان لڑکی سوتے ہوئے کرنٹ لگنے سے ہلاک ہوگئی جس کے بستر کے سرہانے ایک آئی فون چارجنگ پر لگا ہوا تھا۔
ڈیلی میل کی رپورٹ کے مطابق اٹھارہ سالہ چینی لڑکی کے ساتھ یہ واقعہ 24 جولائی کو ژنجیانگ شہر میں پیش آیا۔ ان کے پاس آئی فون فور تھا۔
ہلاک ہونے والی لڑکی کی بہن کا کہنا ہے کہ انہیں اپنی بہن کے کمرے سے جلنے کے بدبو آئی جس کے بعد وہ ان کے کمرے میں داخل ہوئیں اور انہیں مردہ پایا۔
انہوں نے بتایا کہ ان کی بہن کے پورے جسم پر جلنے کے نشانات موجود تھے اور ان کے ساتھ ایک ٹوٹا ہوا آئی فون بھی رکھا ہوا تھا۔
یہ بات واضح نہیں ہے کہ یہ لڑکی مستند آئی فون چارجر استعمال کررہی تھی یا پھر جعلی چارجر ان کے زیر استعمال تھا جس کے باعث ماضی میں بھی ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔
فورنسک ایسوسی ایشن آف چائنہ نے پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کہا کہ لڑکی کرنٹ لگنے سے ہلاک ہوئی۔
گزشتہ سال جولائی میں 23 سالہ ایئر ہوسٹس ما ایلن اپنے آئی فون 5 کے ذریعے ایک کال کا جواب دیتے ہوئے الیکٹرک شاک لگنے سے چل بسی تھیں۔ تحقیقات کے بعد یہ بات سامنے آئی کے 23 سالہ لڑکی جعلی چارجر استعمال کررہی تھیں۔
خیال رہے کہ 2011 میں چینی شہر کنمنگ سے 22 جعلی ایپل اسٹورز کا انکشاف ہوا تھا۔
ڈیلی میل کی رپورٹ کے مطابق اٹھارہ سالہ چینی لڑکی کے ساتھ یہ واقعہ 24 جولائی کو ژنجیانگ شہر میں پیش آیا۔ ان کے پاس آئی فون فور تھا۔
ہلاک ہونے والی لڑکی کی بہن کا کہنا ہے کہ انہیں اپنی بہن کے کمرے سے جلنے کے بدبو آئی جس کے بعد وہ ان کے کمرے میں داخل ہوئیں اور انہیں مردہ پایا۔
انہوں نے بتایا کہ ان کی بہن کے پورے جسم پر جلنے کے نشانات موجود تھے اور ان کے ساتھ ایک ٹوٹا ہوا آئی فون بھی رکھا ہوا تھا۔
یہ بات واضح نہیں ہے کہ یہ لڑکی مستند آئی فون چارجر استعمال کررہی تھی یا پھر جعلی چارجر ان کے زیر استعمال تھا جس کے باعث ماضی میں بھی ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔
فورنسک ایسوسی ایشن آف چائنہ نے پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کہا کہ لڑکی کرنٹ لگنے سے ہلاک ہوئی۔
گزشتہ سال جولائی میں 23 سالہ ایئر ہوسٹس ما ایلن اپنے آئی فون 5 کے ذریعے ایک کال کا جواب دیتے ہوئے الیکٹرک شاک لگنے سے چل بسی تھیں۔ تحقیقات کے بعد یہ بات سامنے آئی کے 23 سالہ لڑکی جعلی چارجر استعمال کررہی تھیں۔
خیال رہے کہ 2011 میں چینی شہر کنمنگ سے 22 جعلی ایپل اسٹورز کا انکشاف ہوا تھا۔
اسرائیلی فوجی مارا گیا ہو گا، حماس
غزہ: حماس کی جانب سے اسرائیلی فوجی کے اغوا سے اظہار لا تعلقی کے بعد غزہ شہر ایک بار پھر اسرائیلی بمباری کی زد میں ہے، جبکہ اقوام متحدہ اور امریکہ کی اپیل کے بعد فریقین کی جانب سے اعلان کردہ 72 گھنٹے کی جنگ بندی کا معاہدہ شروعاتی کچھ گھنٹوں میں ہی ٹوٹ گیا ہے۔
جنگ بندی کا معاہدہ اس وقت ٹوٹ گیا جب اسرائیل کی جانب سے الزام لگایا گیا کے حماس نے رفاہ سے اس کے ایک فوجی کو اغوا اور دو کو ہلاک کر دیا ہے۔
جنگ بندی کے خاتمے کے بعد ہونے والی بمباری میں تقریباً 107 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ کل رات ہونے والی بمباری میں 35 فلسطینی شہریوں کے مارے جانے کی اطلاعات ہیں۔
اسرائیلی وزیر انصاف اور کابینہ کی کمیٹی برائے دفاع کی ممبر زپی لیونی نے اسرائیلی فوجی کی گمشدگی کا ذمہ دار حماس کو ٹھہراتے ہوئے کہا ہے کہ حماس کو اس کی قیمت چکانا پڑے گی۔
ادھر امریکی صدر بارک اوباما نے بھی حماس پر زور دیا ہے کے وہ اسرائیلی فوجی کو غیر مشروط طور پر رہا کر دے، اور ساتھ ہی فلسطینی شہریوں کی جانوں کے تحفظ پر بھی زور دیا۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کے اگر حماس حالیہ تنازعہ کے دیرپا حل کے لئے سنجیدہ ہے، تو اسے اسرائیلی فوجی کو جلد از جلد غیر مشروط طور پر رہا کر دینا چاہئے۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کے امریکہ کو غزہ میں شہریوں کی ہلاکت پر تشویش ہے۔
دوسری طرف حماس کا کہنا ہے کے وہ کسی اسرائیلی فوجی کے اغوا کے بارے میں کوئی علم نہیں رکھتی اور نہ ہی کوئی اسرائیلی فوجی اس کے قبضے میں ہے۔
حماس کے ازدیں القسام بریگیڈ کا کہنا ہے کے جس جگہ سے اسرائیلی فوجی کے گم ہونے کی اطلاعات ہیں، وہاں پر موجود حماس کے ایک جنگجو گروہ سے بھی تنظیم کا رابطہ منقطع ہے، جس کی وجہ سے خدشہ ہے کے جنگجو اور فوجی مارے گئے ہیں۔
اے ایف پی کے مطابق ہفتے کے روز اسرائیلی افواج نے جبلیہ کے علاقے میں ایک مسجد کو نشانہ بنایا، جب کے شمالی غزہ کے ساحلی علاقے میں کچھ گھروں کو منہدم کر دیا گیا۔
ادھر اسرائیلی افواج کے مطابق اس کے ایئر ڈیفینس سسٹم نے غزہ سے داغے گئے دو راکٹس کو تل ابیب کے اوپر نشانہ بنایا، جب کے ایک راکٹ کو بیرشیبا کے شہر کے اوپر نشانہ بنایا۔ القصام بریگیڈ کے مطابق تل ابیب کی جانب تین راکٹ اس نے داغے تھے۔
فلسطین کے وزیر برائے ایمرجنسی سروسز اشرف القدرا کے مطابق اعلان کردہ تین روزہ جنگ بندی کے خاتمے کے بعد جمعہ کے روز 5 بجے سے اب تک 107 فلسطینی شہری جاں بحق ہو چکے ہیں۔
القدرا کے مطابق 8 جولائی سے جاری مسلّح تنازعہ میں اب تک 1650 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں غالب اکثریت شہریوں کی ہے۔
دوسری جانب اسرائیل کے صرف 63 فوجی اور تین شہری ہلاک ہوئے ہیں۔
اسرائیلی افواج کے مطابق حال ہی میں اسکے دو فوجیوں کی اموات اسی واقعے میں ہوئیں جس کے بعد سے ایک فوجی گمشدہ ہے۔ اسرائیل کی جانب سے شبہ ظاہر کیا جارہا ہے کے اس گمشدگی میں حماس کا ہاتھ ہے۔
یاد رہے کے 2006 میں حماس نے غزہ سے اسرائیلی افواج کے ایک رکن کو اغوا کیا تھا، اور اسرائیل نے اسکی رہائی کے بدلے ایک ہزار فلسطینیوں کو رہا کیا تھا۔
جنگ بندی کا معاہدہ اس وقت ٹوٹ گیا جب اسرائیل کی جانب سے الزام لگایا گیا کے حماس نے رفاہ سے اس کے ایک فوجی کو اغوا اور دو کو ہلاک کر دیا ہے۔
جنگ بندی کے خاتمے کے بعد ہونے والی بمباری میں تقریباً 107 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ کل رات ہونے والی بمباری میں 35 فلسطینی شہریوں کے مارے جانے کی اطلاعات ہیں۔
اسرائیلی وزیر انصاف اور کابینہ کی کمیٹی برائے دفاع کی ممبر زپی لیونی نے اسرائیلی فوجی کی گمشدگی کا ذمہ دار حماس کو ٹھہراتے ہوئے کہا ہے کہ حماس کو اس کی قیمت چکانا پڑے گی۔
ادھر امریکی صدر بارک اوباما نے بھی حماس پر زور دیا ہے کے وہ اسرائیلی فوجی کو غیر مشروط طور پر رہا کر دے، اور ساتھ ہی فلسطینی شہریوں کی جانوں کے تحفظ پر بھی زور دیا۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کے اگر حماس حالیہ تنازعہ کے دیرپا حل کے لئے سنجیدہ ہے، تو اسے اسرائیلی فوجی کو جلد از جلد غیر مشروط طور پر رہا کر دینا چاہئے۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کے امریکہ کو غزہ میں شہریوں کی ہلاکت پر تشویش ہے۔
دوسری طرف حماس کا کہنا ہے کے وہ کسی اسرائیلی فوجی کے اغوا کے بارے میں کوئی علم نہیں رکھتی اور نہ ہی کوئی اسرائیلی فوجی اس کے قبضے میں ہے۔
حماس کے ازدیں القسام بریگیڈ کا کہنا ہے کے جس جگہ سے اسرائیلی فوجی کے گم ہونے کی اطلاعات ہیں، وہاں پر موجود حماس کے ایک جنگجو گروہ سے بھی تنظیم کا رابطہ منقطع ہے، جس کی وجہ سے خدشہ ہے کے جنگجو اور فوجی مارے گئے ہیں۔
اے ایف پی کے مطابق ہفتے کے روز اسرائیلی افواج نے جبلیہ کے علاقے میں ایک مسجد کو نشانہ بنایا، جب کے شمالی غزہ کے ساحلی علاقے میں کچھ گھروں کو منہدم کر دیا گیا۔
ادھر اسرائیلی افواج کے مطابق اس کے ایئر ڈیفینس سسٹم نے غزہ سے داغے گئے دو راکٹس کو تل ابیب کے اوپر نشانہ بنایا، جب کے ایک راکٹ کو بیرشیبا کے شہر کے اوپر نشانہ بنایا۔ القصام بریگیڈ کے مطابق تل ابیب کی جانب تین راکٹ اس نے داغے تھے۔
فلسطین کے وزیر برائے ایمرجنسی سروسز اشرف القدرا کے مطابق اعلان کردہ تین روزہ جنگ بندی کے خاتمے کے بعد جمعہ کے روز 5 بجے سے اب تک 107 فلسطینی شہری جاں بحق ہو چکے ہیں۔
القدرا کے مطابق 8 جولائی سے جاری مسلّح تنازعہ میں اب تک 1650 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں غالب اکثریت شہریوں کی ہے۔
دوسری جانب اسرائیل کے صرف 63 فوجی اور تین شہری ہلاک ہوئے ہیں۔
اسرائیلی افواج کے مطابق حال ہی میں اسکے دو فوجیوں کی اموات اسی واقعے میں ہوئیں جس کے بعد سے ایک فوجی گمشدہ ہے۔ اسرائیل کی جانب سے شبہ ظاہر کیا جارہا ہے کے اس گمشدگی میں حماس کا ہاتھ ہے۔
یاد رہے کے 2006 میں حماس نے غزہ سے اسرائیلی افواج کے ایک رکن کو اغوا کیا تھا، اور اسرائیل نے اسکی رہائی کے بدلے ایک ہزار فلسطینیوں کو رہا کیا تھا۔
غزہ: اسرائیل کا اقوامِ متحدہ کے اسکول پر حملہ، دس ہلاکتیں
غزہ: اسرائیل کی جانب سے فلسطینوں پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے اور آج اتوار کو جنوبی غزہ میں واقع اقوامِ متحدہ کے ایک اسکول پر بمبماری میں کم سے کم دس افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ جس اسکول پر بمباری کی گئی وہاں پر بے گھر فلسطینوں نے پناہ لی ہوئی تھی۔
غزہ میں ایمرجنسی سروسز کے ترجمان اشرف القدرہ کا کہنا ہے کہ اس حملے میں متعدد افراد زخمی بھی ہوئے۔
فلسطین میں اقوامِ متحدہ کی ایجنسی برائے پناہ گزین کے ترجمان کرس گننس کا کہنا ہے کہ اس اسکول میں ہزاروں کی تعداد میں نقلِ مکانی کرنے والے افراد موجود تھے۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے جس وقت یہ حملہ ہوا لوگوں غذائی اشیاء کے لیے لائنوں میں کھڑے تھے۔
اس حملے کے بعد اسرائیلی فوج نے فوری طور پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ دس روز میں اسرائیل کی جانب سے تیسری مرتبہ غزہ میں اقوامِ متحدہ کے اسکول کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
یاد رہے کہ غزہ میں آٹھ جولائی سے شروع ہونے والے اسرائیلی حملوں میں اب تک 1,740 فلسطینی ہلاک اور 9,080 زخمی ہو چکے ہیں۔
اس سے پہلے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے کہا تھا کہ حماس کی سرنگوں کا نیٹ ورک تباہ ہونے کے بعد بھی اسرائیلی سیکیورٹی ضروریات کے مطابق غزہ میں آپریشن جاری رہے گا۔
حکام کا کہنا ہے کہ جس اسکول پر بمباری کی گئی وہاں پر بے گھر فلسطینوں نے پناہ لی ہوئی تھی۔
غزہ میں ایمرجنسی سروسز کے ترجمان اشرف القدرہ کا کہنا ہے کہ اس حملے میں متعدد افراد زخمی بھی ہوئے۔
فلسطین میں اقوامِ متحدہ کی ایجنسی برائے پناہ گزین کے ترجمان کرس گننس کا کہنا ہے کہ اس اسکول میں ہزاروں کی تعداد میں نقلِ مکانی کرنے والے افراد موجود تھے۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے جس وقت یہ حملہ ہوا لوگوں غذائی اشیاء کے لیے لائنوں میں کھڑے تھے۔
اس حملے کے بعد اسرائیلی فوج نے فوری طور پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ دس روز میں اسرائیل کی جانب سے تیسری مرتبہ غزہ میں اقوامِ متحدہ کے اسکول کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
یاد رہے کہ غزہ میں آٹھ جولائی سے شروع ہونے والے اسرائیلی حملوں میں اب تک 1,740 فلسطینی ہلاک اور 9,080 زخمی ہو چکے ہیں۔
اس سے پہلے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے کہا تھا کہ حماس کی سرنگوں کا نیٹ ورک تباہ ہونے کے بعد بھی اسرائیلی سیکیورٹی ضروریات کے مطابق غزہ میں آپریشن جاری رہے گا۔
لے کر ہم دیوانہ دل' شائقین میں مقبول
لے کر ہم دیوانہ دل' شائقین میں مقبول'
بولی وڈ کی نئی رومانوی فلم 'لے کر ہم دیوانہ دل' کا ٹریلر انٹرنیٹ پر سپرہٹ ہو گیا۔
بولی وڈ ہیرو سیف علی خان کی پروڈیوس کردہ اس فلم میں راج کپور کے نواسے اور کرینا کپور کے کزن ارمان جین کو متعارف کرایا گیا ہے اور ان کی ہیروئن ہیں دکشا سیٹھ۔
فلم کی کہانی دو ایسے دوستوں کی ہے جن کی زندگی شرارتوں سے بھرپور ہوتی ہے۔
اپنی زندگی انجوائے کرتے دونوں دوست مذاق مذاق میں گھر سے بھاگ کر شادی کا فیصلہ کرلیتے ہیں۔
اور یہیں سے ان کی زندگی میں تبدیلی کا سفر شروع ہو جاتا ہے لیکن وہ زندگی کی سچائیوں اور اپنی غلطیوں سے سبق بھی سیکھتے ہیں۔
فلم کا میوزک آسکر ایوارڈ یافتہ سٹار اے آر رحمان نے ترتیب دیا ہے۔
ہدایت کار عارف علی کی یہ فلم چار جولائی کو سینما گھروں کی زینت بنے گی۔
بولی وڈ کی نئی رومانوی فلم 'لے کر ہم دیوانہ دل' کا ٹریلر انٹرنیٹ پر سپرہٹ ہو گیا۔
بولی وڈ ہیرو سیف علی خان کی پروڈیوس کردہ اس فلم میں راج کپور کے نواسے اور کرینا کپور کے کزن ارمان جین کو متعارف کرایا گیا ہے اور ان کی ہیروئن ہیں دکشا سیٹھ۔
فلم کی کہانی دو ایسے دوستوں کی ہے جن کی زندگی شرارتوں سے بھرپور ہوتی ہے۔
اپنی زندگی انجوائے کرتے دونوں دوست مذاق مذاق میں گھر سے بھاگ کر شادی کا فیصلہ کرلیتے ہیں۔
اور یہیں سے ان کی زندگی میں تبدیلی کا سفر شروع ہو جاتا ہے لیکن وہ زندگی کی سچائیوں اور اپنی غلطیوں سے سبق بھی سیکھتے ہیں۔
فلم کا میوزک آسکر ایوارڈ یافتہ سٹار اے آر رحمان نے ترتیب دیا ہے۔
ہدایت کار عارف علی کی یہ فلم چار جولائی کو سینما گھروں کی زینت بنے گی۔
رکشہ پروجیکٹ: تبدیلی کی طرف ایک سفر
رکشہ پروجیکٹ: تبدیلی کی طرف ایک سفر
معذور افراد کو ہمارے معاشرے میں ہمیشہ سے ایک بوجھ سمجھا جاتا ہے اور انھیں معاشرتی دھارے میں لانے کے لیے کبھی پُر خلوص کوششیں نہیں کی گئیں۔ اگر کچھ لوگ ان افراد کی مدد کرنا بھی چاہیں تو براہِ راست اس کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔
لیکن اب پاکستان میں معذور افراد کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والی تنظیم نیٹ ورک آف آرگنائزیشن ورکنگ فار پیپل وِد ڈس ایبیلٹیز، پاکستان (ناؤ پی ڈی پی) کی جانب سے شروع کیے گئے 'رکشہ پروجیکٹ' کو معاشرے میں مثبت تبدیلی کی ایک علامت سمجھا جارہا ہے۔
ڈان سے بات کرتے ہوئے پروجیکٹ مینیجر ذوالقرنین اصغر نے رکشہ پروجیکٹ شروع کرنے کے بنیادی مقصد کے حوالے سے بتایا۔
ذوالقرنین اصغر کے مطابق رکشہ پروجیکٹ کا آغاز 2012 میں کیا گیا، جس کا مقصد معاشرے کے معذور افراد کو ملازمت کے مواقع فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ انھیں ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کرنا تھا، جہاں انھیں برابری کی سطح پر لایا جا سکے۔
پروجیکٹ کا ایک مقصد معذور افراد کے حوالے سے معاشرے میں رائج منفی سوچ کو ایک چیلنج سمجھ کر تبدیل کرنا بھی تھا۔
مخیر حضرات کی جانب سے مالی معاونت اور مدد کے باعث اس پروجیکٹ کے پاس جی پی ایس ٹریکر کے حامل پانچ رکشے اور تین ماہر اور لائسنس یافتہ ڈرائیورز موجود ہیں۔
رکشہ پروجیکٹ کے ڈرائیور عمران اور سراج نے رکشہ کی ساخت اور اپنے ذاتی تجربات بتاتے ہوئے کہا کہ یہ رکشے اس انداز میں بنائے گئے ہیں کہ انھیں ہاتھوں کی مدد سے باآسانی کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔
رکشہ پروجیکٹ عوام کے لیے بہت فائدہ مند اور دوستانہ ہے، جس میں کوئی بھی فرد پروجیکٹ کے کال سینٹر فون کرکے رکشہ کی بکنگ کروا سکتا ہے اور رکشہ انھیں اُن کی مطلوبہ منزل سے پک کر سکتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ اس پروجیکٹ کو چلانے والی ٹیم نے مختلف مقامات پر ایسے پروگرام بھی شروع کیے ہیں، جن کے سیشنز میں عوام کو معذور افراد کو معاشرتی دھارے میں لانے کے حوالے سے آگہی فراہم کی جائے گی۔
سوشل میڈیا کرسکتا ہے آپ کی ذہنی حالت مزید بدتر
نیویارک : سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر اچھی کے ساتھ بری خبروں کا شیئر کرنا آج کی نسل کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے مگر یہ عادت آپ کی حالت کو بدترین بنانے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔
یہ دلچسپ دعویٰ ایک نئی تحقیق میں سامنے آیا ہے۔
امریکہ کی وسکنسن یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ فیس بک یا ٹوئٹر پر اکثر لوگ تعلق ٹوٹنے، ملازمت کے خاتمے یا بیماری جیسی بری اطلاعات کو شیئر کرتے ہیں جس سے خود ہمارے اوپر زیادہ منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ بری خبر ہماری حالت بدترین بنادیتی ہے جبکہ اچھی خبروں کو دوستوں تک پہنچانے سے ہم زیادہ بہتر محسوس کرنے لگتے ہیں۔
محققین کا کہنا ہے کہ 70 فیصد سماجی معلومات کو سوشل میڈیا، ای ایم ایس اور فون کالز کے ذریعے شیئر کیا جاتا ہے، جس میں سے اچھی خبروں کی اطلاعات تیزی سے پھیلتی ہیں اور اس کا ردعمل بھی فوری آتا ہے۔
مگر جب بات بُری خبروں کی ہو تو لوگ سوشل میڈیا کے بجائے روایتی ایس ایم ایس یا فون کالز کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ اپنے جذبات کو فیس بک یا ٹوئیٹر پر پوسٹ کرنے سے ان کی حالت زیادہ خراب ہوجاتی ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ یہ اپنی اطلاعات کو شیئر کرنے سے سب سے پہلے ہمارے اوپر ہی اثرات مرتب ہوتے ہیں، کسی اچھی خبر کو بتانے سے آپ پہلے سے زیادہ خوشی محسوس کرتے ہیں، جبکہ بری خبر آپ کی ذہنی حالت کو مزید مایوسی کی جانب دھکیل دیتی ہے، تاہم ٹیلیفون پر منفی اثر سب سے کم مرتب ہوتا ہے۔
یہ دلچسپ دعویٰ ایک نئی تحقیق میں سامنے آیا ہے۔
امریکہ کی وسکنسن یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ فیس بک یا ٹوئٹر پر اکثر لوگ تعلق ٹوٹنے، ملازمت کے خاتمے یا بیماری جیسی بری اطلاعات کو شیئر کرتے ہیں جس سے خود ہمارے اوپر زیادہ منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ بری خبر ہماری حالت بدترین بنادیتی ہے جبکہ اچھی خبروں کو دوستوں تک پہنچانے سے ہم زیادہ بہتر محسوس کرنے لگتے ہیں۔
محققین کا کہنا ہے کہ 70 فیصد سماجی معلومات کو سوشل میڈیا، ای ایم ایس اور فون کالز کے ذریعے شیئر کیا جاتا ہے، جس میں سے اچھی خبروں کی اطلاعات تیزی سے پھیلتی ہیں اور اس کا ردعمل بھی فوری آتا ہے۔
مگر جب بات بُری خبروں کی ہو تو لوگ سوشل میڈیا کے بجائے روایتی ایس ایم ایس یا فون کالز کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ اپنے جذبات کو فیس بک یا ٹوئیٹر پر پوسٹ کرنے سے ان کی حالت زیادہ خراب ہوجاتی ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ یہ اپنی اطلاعات کو شیئر کرنے سے سب سے پہلے ہمارے اوپر ہی اثرات مرتب ہوتے ہیں، کسی اچھی خبر کو بتانے سے آپ پہلے سے زیادہ خوشی محسوس کرتے ہیں، جبکہ بری خبر آپ کی ذہنی حالت کو مزید مایوسی کی جانب دھکیل دیتی ہے، تاہم ٹیلیفون پر منفی اثر سب سے کم مرتب ہوتا ہے۔
لیاری کے باسی پاکستان کو ورلڈکپ میں دیکھنے کیلئے پُرامید
ہر بار جب برازیل کے کھلاڑی گیند کو لیکر دوڑتے ہیں روایتی بلوچی موسیقی لیاری کے گبول پارک کے آس پاس کے علاقے میں گونجنے لگتی ہے۔
نیمار کو تو یہاں کے سینکڑوں افراد کو بے خود کرنے کیلئے گول تک کرنے کی ضرورت نہیں، بلکہ اس نوجوان برازیلین فاروڈ کی جھلک ہی یہاں کے مردوں کو بڑی اسکرین پر بٹھا دینے کیلئے کافی ہے، جو کہ سامبا بوائز (برازیل) کے میکسیکو کے خلاف میچ کیلئے لیاری کی گلیوں میں درجنوں کی تعداد میں لگائی گئیں۔
بہت کم افراد فٹبال کیلئے کراچی کے اس تشدد سے متاثرہ علاقے کے باسیوں جیسے جوش کا مظاہرہ کرسکتے ہیں، مگر یہاں کے رہنے والوں کا کہنا ہے کہ اس کا مقابلہ ان جذبات سے نہیں ہوسکتا جن کا اظہار ایک دن پاکستان کے ورلڈکپ میں جگہ بنانے کی صورت میں ہوگا۔
نمبرون ٹیسٹ ٹیم بننا پاکستانی ہدف قرار
پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے کپتان مصباح الحق اور ہیڈ کوچ وقار یونس نے ٹیسٹ رینکنگ میں نمبرون پوزیشن کو اپنا ہدف قرار دے دیا۔
پاکستان اس وقت آئی سی سی ٹیسٹ رینکنگ میں تیسرے نمبر پر موجود ہے جبکہ 2006ءمیں کچھ عرصے کے لیے دوسری پوزیشن پر تو قابض رہا تاہم آج تک نمبرون کہلانے کا اعزاز اسے حاصل نہیں ہوسکا ہے۔
تاہم اب مصباح الحق نے عزم ظاہر کیا ہے کہ سری لنکا اور اس کے بعد اکتوبر میں آسٹریلیا کے خلاف سیریز جیت کر پاکستان ٹیسٹ رینکنگ میں ٹاپ پوزیشن حاصل کرسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ہمارے پاس بہت اچھا موقع بھی ہے اور ٹاپ ٹیسٹ ٹیم بننے کا خیال کافی جوش دلانے والا ہے'۔
پاکستان اور سری لنکا کے درمیان دو ٹیسٹ میچز کی سیریز کا آغاز چھ اگست سے ہوگا جبکہ تین ون ڈے بھی کھیلے جائیں گے۔
مصباح الحق کا کہنا تھا کہ ہمیں ایک اچھا موقع ملا ہے اور نمبرون پوزیشن کے حصول کے لیے ہم اپنی ہرممکن بہترین کوشش کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ سری لنکا کے خلاف سیریز سخت ثابت ہوگی کیونکہ دونوں ٹیمیں ایک دوسرے سے بخوبی واقف ہیں۔
کوچ وقار یونس نے بھی سری لنکا اور آسٹریلیا کے خلاف میچز آئندہ سال شیڈول ورلڈکپ کے لیے اہم قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ ہماری اصل ہدف ورلڈکپ ہے مگر سری لنکا اور دیگر سیریز بھی بہت اہمیت رکھتے ہیں اور ہماری پوری توجہ ان میں کامیابی پر مرکوز ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے اپنی آخری ٹیسٹ سیریز میں سری لنکا کو شکست دی تھی اور شارجہ میں ملنے والی یہ کامیابی ہمارے لیے بہت اہم تھی کیونکہ اس میں ہم نے ہدف حاصل کرنے کی صلاحیت کا اظہار کیا تھا۔
پاکستان اس وقت آئی سی سی ٹیسٹ رینکنگ میں تیسرے نمبر پر موجود ہے جبکہ 2006ءمیں کچھ عرصے کے لیے دوسری پوزیشن پر تو قابض رہا تاہم آج تک نمبرون کہلانے کا اعزاز اسے حاصل نہیں ہوسکا ہے۔
تاہم اب مصباح الحق نے عزم ظاہر کیا ہے کہ سری لنکا اور اس کے بعد اکتوبر میں آسٹریلیا کے خلاف سیریز جیت کر پاکستان ٹیسٹ رینکنگ میں ٹاپ پوزیشن حاصل کرسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ہمارے پاس بہت اچھا موقع بھی ہے اور ٹاپ ٹیسٹ ٹیم بننے کا خیال کافی جوش دلانے والا ہے'۔
پاکستان اور سری لنکا کے درمیان دو ٹیسٹ میچز کی سیریز کا آغاز چھ اگست سے ہوگا جبکہ تین ون ڈے بھی کھیلے جائیں گے۔
مصباح الحق کا کہنا تھا کہ ہمیں ایک اچھا موقع ملا ہے اور نمبرون پوزیشن کے حصول کے لیے ہم اپنی ہرممکن بہترین کوشش کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ سری لنکا کے خلاف سیریز سخت ثابت ہوگی کیونکہ دونوں ٹیمیں ایک دوسرے سے بخوبی واقف ہیں۔
کوچ وقار یونس نے بھی سری لنکا اور آسٹریلیا کے خلاف میچز آئندہ سال شیڈول ورلڈکپ کے لیے اہم قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ ہماری اصل ہدف ورلڈکپ ہے مگر سری لنکا اور دیگر سیریز بھی بہت اہمیت رکھتے ہیں اور ہماری پوری توجہ ان میں کامیابی پر مرکوز ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے اپنی آخری ٹیسٹ سیریز میں سری لنکا کو شکست دی تھی اور شارجہ میں ملنے والی یہ کامیابی ہمارے لیے بہت اہم تھی کیونکہ اس میں ہم نے ہدف حاصل کرنے کی صلاحیت کا اظہار کیا تھا۔
محمد عامر جلد میدان میں اترنے کے لیے پرامید
کراچی: پابندی کے شکار پاکستانی کرکٹر محمد عامر نے امید ظاہر کی ہے کہ کرکٹ کی عالمی کونسل نے اگر انسداد بدعنوانی کے قوانین میں ترمیم کی تو وہ پانچ سال مکمل ہونے سے قبل ہی آئندہ سال کھیل کا مظاہرہ کر سکیں گے۔
محمد عامر پر اسپاٹ فکسنگ کے الزامات پر پانچ سال کی پابندی عائد کی گئی تھی جو کہ ستمبر 2015 تک مکمل ہوگی، پاکستانی کرکٹ حکام نے آئی سی سی سے اسے کم کرنے کی درخواست کی ہے، امکان ہے کہ یہ معاملہ اکتوبر تک حل ہو جائے گا۔
22 سالہ محمد عامر نے کہا ہے کہ یہ ایک بہت طویل انتظار تھا میں ہر روز گن کر گزرتا رہا ہوں۔
یاد رہے کہ محمد عامر 2010 میں لارڈز میں کھیلے جانے والے ٹیسٹ کے دوران دیگر دو ساتھی کھلاڑیوں کے ہمراہ اسپاٹ فکسنگ کے الزامات ثابت ہوئے تھے جس کے بعد انہوں نے 3 ماہ برطانیہ کی جیل میں سزا بھی کاٹی تھی، انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے 2011 میں ان پر 5سال تک کرکٹ کھیلنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔
محمد عامر کا کہنا تھا کہ میں اکتوبر سے قبل اپنے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ اب یہ معاملہ آئی سی سی کے پاس ہے اس کے فیصلے کے بعد ہی معلوم ہو سکے گا کہ میں بین الاقوامی کرکٹ کھیل سکوں گا یا مجھے ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے کی اجازت ملے گی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ(پی سی بی) ان کا معاملہ آئی سی سی میں بھر پور انداز سے اٹھا رہی ہے۔
پاکستانی پیسر کا مزید کہنا تھا کہ ورلڈ کپ 2015 میں شرکت کرنا میرے اختیار میں نہیں ہے البتہ میرے بغیر بھی پاکستان کی ٹیم کافی مضبوط ہے اور اس میں اچھے کھلاڑی شامل ہیں جبکہ عوام کی نیک خواہشات بھی ان کے ساتھ ہیں۔
پی سی بی کی جانب سے گزشتہ سال آئی سی سی سے درخواست کی گئی تھی کہ محمد عامر پر لگائی جانے والی پابندی میں نرمی کر کے ان کو ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے کی اجازت دی جائے۔
اس کے بعد آئی سی سی نے ایک کمیٹی تشکیل دی جو کہ انسداد بد عنوانی کی 5 سالہ پابندی کے حوالے جائزہ لے رہی ہے۔
محمد عامر نے بتایا کہ میں کبھی بھی مایوس نہیں ہوا تھا، مجھے ہمیشہ امید تھی اسی لیے میں سخت محنت کرتا رہا ہوں، رمضان کے وقفے کے بعد میں دوبارہ چند دن میں پریکٹس شروع کر دوں گا، اس لیے جب بھی مجھے بلایا جائے گا تو میری جانب سے تمام تیاری مکمل ہے۔
بائیں ہاتھ سے بالنگ کروانے والے محمد عامر ٹیسٹ کرکٹ میں 50 وکٹیں حاصل کرنے والے دنیا کے کم عمر ترین کھلاڑی ہیں، جون 2010 میں انگلینڈ میں آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں محمد عامر کی کارکردگی سے ہی پاکستان اسے 1-1 سے ڈرا کرنے میں کامیاب ہوا تھا۔
محمد عامر پر اسپاٹ فکسنگ کے الزامات پر پانچ سال کی پابندی عائد کی گئی تھی جو کہ ستمبر 2015 تک مکمل ہوگی، پاکستانی کرکٹ حکام نے آئی سی سی سے اسے کم کرنے کی درخواست کی ہے، امکان ہے کہ یہ معاملہ اکتوبر تک حل ہو جائے گا۔
22 سالہ محمد عامر نے کہا ہے کہ یہ ایک بہت طویل انتظار تھا میں ہر روز گن کر گزرتا رہا ہوں۔
یاد رہے کہ محمد عامر 2010 میں لارڈز میں کھیلے جانے والے ٹیسٹ کے دوران دیگر دو ساتھی کھلاڑیوں کے ہمراہ اسپاٹ فکسنگ کے الزامات ثابت ہوئے تھے جس کے بعد انہوں نے 3 ماہ برطانیہ کی جیل میں سزا بھی کاٹی تھی، انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے 2011 میں ان پر 5سال تک کرکٹ کھیلنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔
محمد عامر کا کہنا تھا کہ میں اکتوبر سے قبل اپنے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ اب یہ معاملہ آئی سی سی کے پاس ہے اس کے فیصلے کے بعد ہی معلوم ہو سکے گا کہ میں بین الاقوامی کرکٹ کھیل سکوں گا یا مجھے ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے کی اجازت ملے گی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ(پی سی بی) ان کا معاملہ آئی سی سی میں بھر پور انداز سے اٹھا رہی ہے۔
پاکستانی پیسر کا مزید کہنا تھا کہ ورلڈ کپ 2015 میں شرکت کرنا میرے اختیار میں نہیں ہے البتہ میرے بغیر بھی پاکستان کی ٹیم کافی مضبوط ہے اور اس میں اچھے کھلاڑی شامل ہیں جبکہ عوام کی نیک خواہشات بھی ان کے ساتھ ہیں۔
پی سی بی کی جانب سے گزشتہ سال آئی سی سی سے درخواست کی گئی تھی کہ محمد عامر پر لگائی جانے والی پابندی میں نرمی کر کے ان کو ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے کی اجازت دی جائے۔
اس کے بعد آئی سی سی نے ایک کمیٹی تشکیل دی جو کہ انسداد بد عنوانی کی 5 سالہ پابندی کے حوالے جائزہ لے رہی ہے۔
محمد عامر نے بتایا کہ میں کبھی بھی مایوس نہیں ہوا تھا، مجھے ہمیشہ امید تھی اسی لیے میں سخت محنت کرتا رہا ہوں، رمضان کے وقفے کے بعد میں دوبارہ چند دن میں پریکٹس شروع کر دوں گا، اس لیے جب بھی مجھے بلایا جائے گا تو میری جانب سے تمام تیاری مکمل ہے۔
بائیں ہاتھ سے بالنگ کروانے والے محمد عامر ٹیسٹ کرکٹ میں 50 وکٹیں حاصل کرنے والے دنیا کے کم عمر ترین کھلاڑی ہیں، جون 2010 میں انگلینڈ میں آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں محمد عامر کی کارکردگی سے ہی پاکستان اسے 1-1 سے ڈرا کرنے میں کامیاب ہوا تھا۔
کامن ویلتھ گیمز: ایک اور چاندی کا تمغہ پاکستان کے نام
گلاسگو: کامن ویلتھ گیمز 2014 میں پاکستان ایک اور چاندی کا تمغہ جیت گیا۔
باکسنگ کے 52کلو گرام کے مقابلے کے فائنل میں پاکستان کے محمد وسیم کو آسٹریلیا کے انڈریو ملونے نے شکست دے دی جس سے آسٹریلیا کے تمغوں میں ایک اور سونے کے تمغے کا اضافہ ہو گیا ہے۔
محمد وسیم نے چاندی کا تمغہ پاکستان کے نام کیا ہے جس سے پاکستان کی کامن ویلتھ گیمز میں تمغوں کی تعداد چار ہو گئی ہے جن میں تین چاندی اور ایک کانسی کا تمغہ شامل ہے، پاکستان اب تک کوئی بھی سونے کا تمغہ نہیں جیت سکا ہے۔
باکسنگ کے 52کلو گرام کے مقابلے کے فائنل میں آسٹریلیا کے انڈریو ملونے نے پاکستان کے محمد وسیم کو 28-29 ، 28-29 اور 28-29 سے شکست دی۔
انڈریو ملونے کی کامیابی کے بعد میڈل ٹیبل پر آسٹریلیا کےسونے کے تمغوں کی تعداد 42 ہو گئی ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان 4 تمغوں کے ساتھ 22ویں پوزیشن پر آ گیا ہے۔
کامن ویلتھ گیمز میں انگلینڈ سرفہرست ہے جس نے 50 سونے، 51چاندی اور 46 کانسی کے تمغوں کے ساتھ مجموعی طور پر 147 تمغے جیتے ہیں۔
دوسرے نمبر پر آسٹریلیا ہے جس نے 42 سونے، 40 چاندی اور 44 کانسی کے تمغے جیتے ہیں اور اس کے مجموعی تمغوں کی تعداد 126 ہے۔
کینیڈا 75 تمغوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے جس نے 30 سونے، 14 چاندی اور 31 کانسی کے تمغے اپنے نام کیے ہیں۔
باکسنگ کے 52کلو گرام کے مقابلے کے فائنل میں پاکستان کے محمد وسیم کو آسٹریلیا کے انڈریو ملونے نے شکست دے دی جس سے آسٹریلیا کے تمغوں میں ایک اور سونے کے تمغے کا اضافہ ہو گیا ہے۔
محمد وسیم نے چاندی کا تمغہ پاکستان کے نام کیا ہے جس سے پاکستان کی کامن ویلتھ گیمز میں تمغوں کی تعداد چار ہو گئی ہے جن میں تین چاندی اور ایک کانسی کا تمغہ شامل ہے، پاکستان اب تک کوئی بھی سونے کا تمغہ نہیں جیت سکا ہے۔
باکسنگ کے 52کلو گرام کے مقابلے کے فائنل میں آسٹریلیا کے انڈریو ملونے نے پاکستان کے محمد وسیم کو 28-29 ، 28-29 اور 28-29 سے شکست دی۔
انڈریو ملونے کی کامیابی کے بعد میڈل ٹیبل پر آسٹریلیا کےسونے کے تمغوں کی تعداد 42 ہو گئی ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان 4 تمغوں کے ساتھ 22ویں پوزیشن پر آ گیا ہے۔
کامن ویلتھ گیمز میں انگلینڈ سرفہرست ہے جس نے 50 سونے، 51چاندی اور 46 کانسی کے تمغوں کے ساتھ مجموعی طور پر 147 تمغے جیتے ہیں۔
دوسرے نمبر پر آسٹریلیا ہے جس نے 42 سونے، 40 چاندی اور 44 کانسی کے تمغے جیتے ہیں اور اس کے مجموعی تمغوں کی تعداد 126 ہے۔
کینیڈا 75 تمغوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے جس نے 30 سونے، 14 چاندی اور 31 کانسی کے تمغے اپنے نام کیے ہیں۔
شہری انتظامیہ سانحہ سی ویو کی ذمہ دار قرار
کراچی: کراچی پولیس نے سانحہ سی ویو کی ذمہ داری شہری انتظامیہ پر ڈال دی ہے۔
پولیس کی جانب سے قائم کی جانے والی تحقیقاتی کمیٹی نے رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ سانحہ کے وقت ساحل پر دفعہ 144 نافذ ہی نہیں تھی۔
ایڈیشنل انسپکٹر جنرل(اے آئی جی) غلام قادر تھیبو نے انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ غلام حیدر جمالی کو رپورٹ پیش کی جس میں کہا گیا ہے کہ دفعہ 144 کے عدم نفاذ کے باعث پولیس کے پاس لوگوں کو سمندر میں جانے سے روکنے کا اختیار نہیں تھا۔
آئی جی سندھ نے سانحہ سی ویو کی تحقیقات کے لیے قائم کمیٹی کے اجلاس میں رپورٹ پیش کر دی ہے۔
رپورٹ میں واقعہ کی ذمہ دار شہری انتظامیہ کو قراردیتے ہوئے انکشاف کیا گیا ہے کہ جس وقت یہ سانحہ پیش آیا ساحل پر دفعہ 144 کا نافد نہیں تھا بلکہ واقعہ کے فوری بعد اس قانون کے اطلاق کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔
تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق واقعہ کے وقت سمندر کی لہریں زیادہ تیز نہیں تھیں، ہاکس بے پر تین افراد ڈوبے تھے جبکہ زیادہ تر افراد ہائپر اسٹار کے پیچھے ساحل پر ڈوب کر ہلاک ہوئے۔
پولیس رپورٹ میں جائے حادثہ پر پڑنے والے گڑھوں کی تحقیقات کرانے کی بھی سفارش کی گئی ہے۔
آئندہ اجلاس میں کمیشن نے ڈی ایچ اے اور کنٹونمنٹ بورڈ کے حکام کو بھی طلب کر لیا ہے جبکہ پاک بحریہ کے حکام کو بھی اجلاس میں مدعو کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ عید کے روز سمندر میں ڈوب کر 39 افراد ہلاک ہو گئے تھے یہ افراد عید کی چھٹیوں میں ساحل پر تفریح کی غرض سے آئے تھے۔
پولیس کی جانب سے قائم کی جانے والی تحقیقاتی کمیٹی نے رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ سانحہ کے وقت ساحل پر دفعہ 144 نافذ ہی نہیں تھی۔
ایڈیشنل انسپکٹر جنرل(اے آئی جی) غلام قادر تھیبو نے انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ غلام حیدر جمالی کو رپورٹ پیش کی جس میں کہا گیا ہے کہ دفعہ 144 کے عدم نفاذ کے باعث پولیس کے پاس لوگوں کو سمندر میں جانے سے روکنے کا اختیار نہیں تھا۔
آئی جی سندھ نے سانحہ سی ویو کی تحقیقات کے لیے قائم کمیٹی کے اجلاس میں رپورٹ پیش کر دی ہے۔
رپورٹ میں واقعہ کی ذمہ دار شہری انتظامیہ کو قراردیتے ہوئے انکشاف کیا گیا ہے کہ جس وقت یہ سانحہ پیش آیا ساحل پر دفعہ 144 کا نافد نہیں تھا بلکہ واقعہ کے فوری بعد اس قانون کے اطلاق کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔
تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق واقعہ کے وقت سمندر کی لہریں زیادہ تیز نہیں تھیں، ہاکس بے پر تین افراد ڈوبے تھے جبکہ زیادہ تر افراد ہائپر اسٹار کے پیچھے ساحل پر ڈوب کر ہلاک ہوئے۔
پولیس رپورٹ میں جائے حادثہ پر پڑنے والے گڑھوں کی تحقیقات کرانے کی بھی سفارش کی گئی ہے۔
آئندہ اجلاس میں کمیشن نے ڈی ایچ اے اور کنٹونمنٹ بورڈ کے حکام کو بھی طلب کر لیا ہے جبکہ پاک بحریہ کے حکام کو بھی اجلاس میں مدعو کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ عید کے روز سمندر میں ڈوب کر 39 افراد ہلاک ہو گئے تھے یہ افراد عید کی چھٹیوں میں ساحل پر تفریح کی غرض سے آئے تھے۔
طاہر القادری کا 10 اگست کو یومِ شہداء منانے کا اعلان
لاہور: پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر علامہ طاہر القادری نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے خلاف دس اگست کو یومِ شہداء منانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ انقلاب مارچ سے پہلے سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ہلاک ہونے والے افراد کے خون کا حساب ہوگا۔
لاہور میں اپنی طویل پریس کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت نے کسی قسم کی بھی روکاوٹ پیدا کی تو اگست کا مہینہ ختم ہونے سے قبل ہی حکومت ختم ہوجائے گی۔
طاہر القادری کا کہنا تھا کہ تمام افرادنےسانحہ ماڈل ٹاؤن کی ذمہ داری حکومت پنجاب پرڈالی ہے۔
"وزیراعظم نواز شریف اب خود یہ فیصلہ کریں کہ وہ خود پہلے جائیں گے یا ان کے بھائی"۔
انہوں نے کہا کہ 17 جون کو ماڈل ٹاؤن میں براہ راست فائرنگ سے14 افراد ہلاک اور 90 کے قریب زخمی ہوئے۔
طاہر القادری نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ پولیس کی جانب سے نہتے بزرگوں اور خواتین کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ جیسا پولیس ہمارے کارکنوں کے ساتھ کرے گی، ویسا ہی ان کے ساتھ بھی ہوگا اور یومِ شہداء کو روکا گیا تو دمادم مست قلندر ہوگا۔
طاہر القادری نے اپیل کی کہ عوام دس اگست کے یومِ شہداء میں بھرپور انداز میں شرکت کریں۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب پولیس حکمرانوں کی فریق نہ بننے اور کسی قسم کے غیر قانونی احکامات کو ماننے سے انکار کردے۔
انہوں نے اس موقع پر یہ بھی دعویٰ کیا کہ ان کی اسلام آباد آمدپر عوامی تحریک کے تقریباً 1400 کارکنوں کو حراست میں لیا گیا۔
یاد رہے کہ 17 جون کو لاہور میں منہاج القرآن سیکریٹریٹ کے اطراف پولیس اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کے درمیان ہونے والی جھڑپ میں کم سے کم 8 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔
طاہر القادری کا کہنا تھا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ثبوت موجود ہیں اور وقت آنے پر انہیں پیش کریں گے۔
لاہور میں اپنی طویل پریس کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت نے کسی قسم کی بھی روکاوٹ پیدا کی تو اگست کا مہینہ ختم ہونے سے قبل ہی حکومت ختم ہوجائے گی۔
طاہر القادری کا کہنا تھا کہ تمام افرادنےسانحہ ماڈل ٹاؤن کی ذمہ داری حکومت پنجاب پرڈالی ہے۔
"وزیراعظم نواز شریف اب خود یہ فیصلہ کریں کہ وہ خود پہلے جائیں گے یا ان کے بھائی"۔
انہوں نے کہا کہ 17 جون کو ماڈل ٹاؤن میں براہ راست فائرنگ سے14 افراد ہلاک اور 90 کے قریب زخمی ہوئے۔
طاہر القادری نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ پولیس کی جانب سے نہتے بزرگوں اور خواتین کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ جیسا پولیس ہمارے کارکنوں کے ساتھ کرے گی، ویسا ہی ان کے ساتھ بھی ہوگا اور یومِ شہداء کو روکا گیا تو دمادم مست قلندر ہوگا۔
طاہر القادری نے اپیل کی کہ عوام دس اگست کے یومِ شہداء میں بھرپور انداز میں شرکت کریں۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب پولیس حکمرانوں کی فریق نہ بننے اور کسی قسم کے غیر قانونی احکامات کو ماننے سے انکار کردے۔
انہوں نے اس موقع پر یہ بھی دعویٰ کیا کہ ان کی اسلام آباد آمدپر عوامی تحریک کے تقریباً 1400 کارکنوں کو حراست میں لیا گیا۔
یاد رہے کہ 17 جون کو لاہور میں منہاج القرآن سیکریٹریٹ کے اطراف پولیس اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کے درمیان ہونے والی جھڑپ میں کم سے کم 8 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔
طاہر القادری کا کہنا تھا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ثبوت موجود ہیں اور وقت آنے پر انہیں پیش کریں گے۔
پاکستانی ٹیم دورہ سری لنکا پر روانہ
کراچی: پاکستان کرکٹ ٹیم سری لنکا کے خلاف دو ٹیسٹ اور تین ایک روزہ میچز کھیلنے کے لئے سری لنکا روانہ ہوگئی۔
ڈان نیوز کے مطابق کراچی کے ہوٹل میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مصباح الحق کا کہنا تھا کہ سری لنکا کی ٹیم اپنی ہوم کنڈیشنز میں بے حد خطرناک ثابت ہوتی ہے لیکن پاکستان ٹیم کے تمام کھلاڑیوں نے بھرپور تیاری کی ہے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ میں پاکستانی کپتان کے حوالے سے کہا گیا کہ مخالف ٹیم کے بلے بازوں خاص طور پر جے وردھنے کو کم رنز کے اندر ہی آؤٹ کرنا ہوگا۔
انہوں نے اس موقع پر جے وردھنے کی صلاحیتوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ وہ سری لنکن بلے باز کی بہت عزت کرتے ہیں تاہم اس دورے پر ان کا مقصد سیریز جیتنا ہے جس کے لیے انہیں مخالف ٹیم کے سینئر بلے بازوں کو زیادہ اسکور کرنے سے روکنا ہوگا۔
ان کے مطابق سعید اجمل، محمد طلحہ، جنید خان سب ہی فارم میں ہیں جبکہ بیٹسمین بھی لنکن باؤلرز کے خلاف اچھی کارکردگی کے لئے پرعزم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے اسپن باؤلروں نے عام طور پر سری لنکا میں اچھا پرفارم کیا ہے تاہم ہم فاسٹ باؤلرز پر بھی انحصار کررہے ہیں۔
اس موقع پر کوچ وقار یونس نے بھی قومی ٹیم کی تیاریوں پر اطمینان کا اظہار کیا۔
دوسری جانب قومی ٹیم ائیر پورٹ روانہ ہوتے وقت کپتان مصباح الحق کو ساتھ لینا ہی بھول گئی تاہم بعد میں کسی کھلاڑی کے یاد دلانے پر مصباح الحق بھی بس میں سوار ہوگئے۔
ڈان نیوز کے مطابق کراچی کے ہوٹل میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مصباح الحق کا کہنا تھا کہ سری لنکا کی ٹیم اپنی ہوم کنڈیشنز میں بے حد خطرناک ثابت ہوتی ہے لیکن پاکستان ٹیم کے تمام کھلاڑیوں نے بھرپور تیاری کی ہے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ میں پاکستانی کپتان کے حوالے سے کہا گیا کہ مخالف ٹیم کے بلے بازوں خاص طور پر جے وردھنے کو کم رنز کے اندر ہی آؤٹ کرنا ہوگا۔
انہوں نے اس موقع پر جے وردھنے کی صلاحیتوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ وہ سری لنکن بلے باز کی بہت عزت کرتے ہیں تاہم اس دورے پر ان کا مقصد سیریز جیتنا ہے جس کے لیے انہیں مخالف ٹیم کے سینئر بلے بازوں کو زیادہ اسکور کرنے سے روکنا ہوگا۔
ان کے مطابق سعید اجمل، محمد طلحہ، جنید خان سب ہی فارم میں ہیں جبکہ بیٹسمین بھی لنکن باؤلرز کے خلاف اچھی کارکردگی کے لئے پرعزم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے اسپن باؤلروں نے عام طور پر سری لنکا میں اچھا پرفارم کیا ہے تاہم ہم فاسٹ باؤلرز پر بھی انحصار کررہے ہیں۔
اس موقع پر کوچ وقار یونس نے بھی قومی ٹیم کی تیاریوں پر اطمینان کا اظہار کیا۔
دوسری جانب قومی ٹیم ائیر پورٹ روانہ ہوتے وقت کپتان مصباح الحق کو ساتھ لینا ہی بھول گئی تاہم بعد میں کسی کھلاڑی کے یاد دلانے پر مصباح الحق بھی بس میں سوار ہوگئے۔
آن لائن سائبر کرائم کے قوانین کی عدم موجودگی خواتین کے لیے خطرہ
اسلام آباد : مناسب قانونی فریم ورک کی عدم موجودگی کے باعث آن لائن ہراساں کرنے، سائبر حملوں یا نجی مواد افشا کرنے والے بچ نکلنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
حال ہی میں اسلام آباد ہائیکورٹ (آئی ایچ سی) نے اپنی سابقہ منگیتر کی تصاویر اپ لوڈ کرنے کے الزام میں گرفتار ایک نوجوان کو ضمانت پر رہا کردیا، کیونکہ پراسیکیوشن اسے ملزم ثابت کرنے کے لیے شواہد پیش کرنے میں ناکام رہا تھا۔
عدالت سے موصول اطلاعات کے مطابق ملزم راولپنڈی کی رہائشی ایک لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوگیا اور ان دونوں کی منگنی لگ بھگ چار سال چلی۔
ملزم کے بھائی کے مطابق منگنی دونوں خاندانوں کے لیے خوشگوار ثابت ہوئی مگر رواں برس مارچ میں یہ تعلق ٹوٹ گیا۔
ملزم کے بھائی نے ڈان کو بتایا کہ یہ منگنی اس وقت ٹوٹی جب اس لڑکی کی چند نازیبا تصاویر سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر اپ لوڈ کردی گئیں۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم سرکل میں درج کرائی گئی شکایت میں لڑکی نے تصاویر اپ لوڈ کرنے کا الزام اپنے سابقہ منگیتر پر لگایا۔
اپنی درخواست میں اس لڑکی نے شکایت کی کہ وہ لڑکا اسے سوشل میڈیا پر بلیک میل کررہا تھا اور اس نے یہ تصاویر اس کے ایک کزن کو بھی ارسال کی تھیں۔
اس لڑکی کا مزید کہنا تھا کہ ملزم نے اس کے فیس بک اکاﺅنٹ کو ہیک کرکے خود اس کے بجائے رشتے داروں اور دوستوں سے بات چیت کرتا رہا۔
ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل نے ملزم نوجوان کو گیارہ جون کو حراست میں لیا اور اس کے خلاف مقدمہ درج کرلیا۔
ایف آئی آر میں لکھا گیا تھا "تحقیقات کے دوران یہ بات ظاہر ہوئی ہے کہ ملزم نے شکایت کنندہ کی اجازت کے بغیر اس کی فیس بک پروفائل تک رسائی حاصل کی اور غیرمہذب کمنٹس پوسٹ کیے، جبکہ اس نے فیس بک پیج پر لڑکی کی نازیبا تصاویر بھی اپ لوڈ کیں"۔
پاکستان میں سائبرکرائم سے نمٹنے کا کوئی مخصوص قانون موجود نہیں، خاص طور پر سائبر اسٹاکنگ کے حوالے سے، اس قانون یا آرڈنینس کی عدم موجودگی کے باعث ایف آئی اے متعدد معاملات کو ہاتھ لگانے سے قاصر رہتی ہے۔
حکومتی عہدیداران پہلے 2007ء میں پیش کیے گئے الیکٹرونکس کرائم آرڈنینس پر گزارہ کررہے تھے، تاہم نومبر 2009ء میں اس کی مدت ختم ہونے کے بعد سے پرانے الیکٹرونک ٹرانزیکشن آرڈنینس 2002ء (ای ٹی او) کو استعمال کرنا پڑرہا ہے، اس قانون کے تحت سائبرکرائم پر زیادہ سے زیادہ سزا سات سال قید سنائی جاسکتی ہے۔
یہ قانون دستاویزات، ریکارڈ، اطلاعات اور کمیونیکشن کے دیگر ذرائع کے الیکٹرونکس ٹرانزیکشن پر لاگو ہوتا ہے، تاہم اس میں مخصوص معاملات جیسے آن لائن ہراساں کیا جانا یا نازیبا تصاویر و وڈیوز کی اشاعت کے حوالے سے کچھ بھی صراحت موجود نہیں۔
ای ٹی او کا مسودہ اس وقت تیار ہوا تھا جب انفارمیشن ٹیکنالوجی موجودہ دور کی مقابلے میں اس قدر ترقی یافتہ نہیں تھی۔
آئی ٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس قانون کو ہیکرز یا اسلام آباد کے نوجوان جیسے سائبر ملزمان کے خلاف استعمال نہیں کیا جاسکتا، جس نے اپنی منگیتر کی نجی زندگی کو تباہ کرکے رکھ دیا۔
اگرچہ نوجوان کے خلاف مقدمہ بدستور عدالت میں زیرسماعت ہے، مگر مناسب قوانین کی عدم موجودگی کی بناء پر اسے سخت سزا ملنے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس نورالحق قریشی نے ناکافی شواہد کی بناء پر اس کی ضمانت کی درخواست منظور کرلی تھی، اور عام عدالتی حقیقت بھی یہی ہے کہ ضمانتیں ان مقدمات میں ہی دی جاتی ہے جس میں عدالت کو محسوس ہو کہ ملزم کے خلاف شواہد بہت کمزور ہیں۔
انٹرنیٹ سروسز پروائیڈر ایسوسی ایشن آف پاکستان (آئی ایس پی اے کے) کے کنویئنر وہاج السراج کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا ویب سائٹس کے غلط استعمال کے حوالے سے کوئی قوانین موجود نہیں۔
انہوں نے کہا "قانون نافذ کرنے والے ادارے تاحال ملزمان کے خلاف موجودہ عہد کے تقاضے پورا نہ کر پانے والے قانون ای ٹی او اور پاکستان پینل کوڈ کی مخصوص شقوں پر انحصار کررہے ہیں۔ مختلف مقدمات میں لوگوں خاص طور پر خواتین کے لیے اپنے وقار اور پرائیویسی کا تحفظ کرپانا کافی مشکل ہوجاتا ہے"۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نئے سائبر کرائم بل پر کام کررہی ہے "مگر وہ ابھی تک پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا گیا اور نہ ہی وفاقی کابینہ میں اس پر بحث ہوئی ہے"۔
وزارت اطلاعات و نشریات کے ترجمان صغیر وٹو نے بھی تسلیم کیا کہ اس وقت نازیبا مواد کی روک تھام کے لیے قوانین موجود نہیں جس سے عام افراد خاص طور پر خواتین کی زندگیاں اور عزت خطرے کی زد میں ہیں۔
انہیں نے کہا کہ سائبر کرائمز بل 2014ء کو حتمی شکل دے دی گئی ہے اور عید کے بعد اسے وفاقی کابینہ کے سامنے پیش کردیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا "یہ بل انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزیر انوشہ رحمان نے تیار کیا ہے اور انہوں نے اس قانون میں خواتین کے تحفظ کے لیے مناسب شقیں شامل کی ہیں"۔
حال ہی میں اسلام آباد ہائیکورٹ (آئی ایچ سی) نے اپنی سابقہ منگیتر کی تصاویر اپ لوڈ کرنے کے الزام میں گرفتار ایک نوجوان کو ضمانت پر رہا کردیا، کیونکہ پراسیکیوشن اسے ملزم ثابت کرنے کے لیے شواہد پیش کرنے میں ناکام رہا تھا۔
عدالت سے موصول اطلاعات کے مطابق ملزم راولپنڈی کی رہائشی ایک لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوگیا اور ان دونوں کی منگنی لگ بھگ چار سال چلی۔
ملزم کے بھائی کے مطابق منگنی دونوں خاندانوں کے لیے خوشگوار ثابت ہوئی مگر رواں برس مارچ میں یہ تعلق ٹوٹ گیا۔
ملزم کے بھائی نے ڈان کو بتایا کہ یہ منگنی اس وقت ٹوٹی جب اس لڑکی کی چند نازیبا تصاویر سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر اپ لوڈ کردی گئیں۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم سرکل میں درج کرائی گئی شکایت میں لڑکی نے تصاویر اپ لوڈ کرنے کا الزام اپنے سابقہ منگیتر پر لگایا۔
اپنی درخواست میں اس لڑکی نے شکایت کی کہ وہ لڑکا اسے سوشل میڈیا پر بلیک میل کررہا تھا اور اس نے یہ تصاویر اس کے ایک کزن کو بھی ارسال کی تھیں۔
اس لڑکی کا مزید کہنا تھا کہ ملزم نے اس کے فیس بک اکاﺅنٹ کو ہیک کرکے خود اس کے بجائے رشتے داروں اور دوستوں سے بات چیت کرتا رہا۔
ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل نے ملزم نوجوان کو گیارہ جون کو حراست میں لیا اور اس کے خلاف مقدمہ درج کرلیا۔
ایف آئی آر میں لکھا گیا تھا "تحقیقات کے دوران یہ بات ظاہر ہوئی ہے کہ ملزم نے شکایت کنندہ کی اجازت کے بغیر اس کی فیس بک پروفائل تک رسائی حاصل کی اور غیرمہذب کمنٹس پوسٹ کیے، جبکہ اس نے فیس بک پیج پر لڑکی کی نازیبا تصاویر بھی اپ لوڈ کیں"۔
پاکستان میں سائبرکرائم سے نمٹنے کا کوئی مخصوص قانون موجود نہیں، خاص طور پر سائبر اسٹاکنگ کے حوالے سے، اس قانون یا آرڈنینس کی عدم موجودگی کے باعث ایف آئی اے متعدد معاملات کو ہاتھ لگانے سے قاصر رہتی ہے۔
حکومتی عہدیداران پہلے 2007ء میں پیش کیے گئے الیکٹرونکس کرائم آرڈنینس پر گزارہ کررہے تھے، تاہم نومبر 2009ء میں اس کی مدت ختم ہونے کے بعد سے پرانے الیکٹرونک ٹرانزیکشن آرڈنینس 2002ء (ای ٹی او) کو استعمال کرنا پڑرہا ہے، اس قانون کے تحت سائبرکرائم پر زیادہ سے زیادہ سزا سات سال قید سنائی جاسکتی ہے۔
یہ قانون دستاویزات، ریکارڈ، اطلاعات اور کمیونیکشن کے دیگر ذرائع کے الیکٹرونکس ٹرانزیکشن پر لاگو ہوتا ہے، تاہم اس میں مخصوص معاملات جیسے آن لائن ہراساں کیا جانا یا نازیبا تصاویر و وڈیوز کی اشاعت کے حوالے سے کچھ بھی صراحت موجود نہیں۔
ای ٹی او کا مسودہ اس وقت تیار ہوا تھا جب انفارمیشن ٹیکنالوجی موجودہ دور کی مقابلے میں اس قدر ترقی یافتہ نہیں تھی۔
آئی ٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس قانون کو ہیکرز یا اسلام آباد کے نوجوان جیسے سائبر ملزمان کے خلاف استعمال نہیں کیا جاسکتا، جس نے اپنی منگیتر کی نجی زندگی کو تباہ کرکے رکھ دیا۔
اگرچہ نوجوان کے خلاف مقدمہ بدستور عدالت میں زیرسماعت ہے، مگر مناسب قوانین کی عدم موجودگی کی بناء پر اسے سخت سزا ملنے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس نورالحق قریشی نے ناکافی شواہد کی بناء پر اس کی ضمانت کی درخواست منظور کرلی تھی، اور عام عدالتی حقیقت بھی یہی ہے کہ ضمانتیں ان مقدمات میں ہی دی جاتی ہے جس میں عدالت کو محسوس ہو کہ ملزم کے خلاف شواہد بہت کمزور ہیں۔
انٹرنیٹ سروسز پروائیڈر ایسوسی ایشن آف پاکستان (آئی ایس پی اے کے) کے کنویئنر وہاج السراج کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا ویب سائٹس کے غلط استعمال کے حوالے سے کوئی قوانین موجود نہیں۔
انہوں نے کہا "قانون نافذ کرنے والے ادارے تاحال ملزمان کے خلاف موجودہ عہد کے تقاضے پورا نہ کر پانے والے قانون ای ٹی او اور پاکستان پینل کوڈ کی مخصوص شقوں پر انحصار کررہے ہیں۔ مختلف مقدمات میں لوگوں خاص طور پر خواتین کے لیے اپنے وقار اور پرائیویسی کا تحفظ کرپانا کافی مشکل ہوجاتا ہے"۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نئے سائبر کرائم بل پر کام کررہی ہے "مگر وہ ابھی تک پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا گیا اور نہ ہی وفاقی کابینہ میں اس پر بحث ہوئی ہے"۔
وزارت اطلاعات و نشریات کے ترجمان صغیر وٹو نے بھی تسلیم کیا کہ اس وقت نازیبا مواد کی روک تھام کے لیے قوانین موجود نہیں جس سے عام افراد خاص طور پر خواتین کی زندگیاں اور عزت خطرے کی زد میں ہیں۔
انہیں نے کہا کہ سائبر کرائمز بل 2014ء کو حتمی شکل دے دی گئی ہے اور عید کے بعد اسے وفاقی کابینہ کے سامنے پیش کردیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا "یہ بل انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزیر انوشہ رحمان نے تیار کیا ہے اور انہوں نے اس قانون میں خواتین کے تحفظ کے لیے مناسب شقیں شامل کی ہیں"۔
سلمان نے مانا شاہ رخ کو بولی وڈ کنگ
سلمان خان نے شاہ رخ خان کی بولی وڈ پر بادشاہت تسلیم کرلی، سلو بھائی کہتے ہیں شاہ رخ بادشاہ ہیں تو انہیں بادشاہ ہی رہنا چاہئیے۔
سلمان خان کی حالیہ فلم 'کِک' باکس آفس پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہی ہے، ہندوستانی اخبار ٹائمز آف انڈیا کے مطابق جب سلمان خان سے یہ سوال پوچھا گیا کہ اب وہ بولی وڈ کے بادشاہ ہیں کیونکہ ان کی فلم باکس آفس پر ہٹ ہوگئی ہے۔
تو جواب میں سلمان نے برجستہ جواب دیا کہ بولی وڈ میں پہلے سے ایک بادشاہ شاہ رخ خان کی شکل میں موجود ہے اور انہیں ہی بادشاہ رہنے دینا چاہیے ، مجھے انکی رعایا ہی رہنے دیں، میں اسی میں خوش ہوں اور انکی بادشاہت قبول کرتا ہوں۔
سلمان نے کہا کہ انہیں سیاست اور فلمسازی سے دلچسپی نہیں، میں اداکاری کرتا رہوں گا جبکہ مجھے شاہ رخ خان کی بادشاہت سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
حال ہی میں سلمان اور شاہ رخ نے ایک افطار پارٹی میں گلے مل کر ماضی کے گلے شکوے دور کئے تھے۔
دبنگ خان نے مزید کہا کہ میں کبھی شادی نہیں کروں گا، اپنے سوشل ورک سے بھی مطمئن ہوں۔
سلمان خان کہتے ہیں کہ لوگ مجھ سے خوف کھاتے ہیں لیکن مجھے اس کی وجہ کبھی سمجھ نہیں آئی، شاید وہ میری بڑی بڑی آنکھوں سے خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مجھے اس وقت غصہ ضرور آتا ہے جب کوئی ماحول خراب کرنے کی کوشش کرتا ہے ، ویسے بھی ہر وقت مسکرایا نہیں جا سکتا۔
اس کے علاوہ مجھے اپنی فلم کی پروموشن کرنا اچھا نہیں لگتا کیونکہ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں اپنی سٹار پاور کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو فلم دیکھنے کیلئے مجبور کر رہا ہوں۔
سلمان نے امید ظاہر کی کہ ان کی فلم 'کِک' پانچ سو کروڑ کا بزنس کرنے میں کامیاب ہوگی۔
سلمان خان کی حالیہ فلم 'کِک' باکس آفس پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہی ہے، ہندوستانی اخبار ٹائمز آف انڈیا کے مطابق جب سلمان خان سے یہ سوال پوچھا گیا کہ اب وہ بولی وڈ کے بادشاہ ہیں کیونکہ ان کی فلم باکس آفس پر ہٹ ہوگئی ہے۔
تو جواب میں سلمان نے برجستہ جواب دیا کہ بولی وڈ میں پہلے سے ایک بادشاہ شاہ رخ خان کی شکل میں موجود ہے اور انہیں ہی بادشاہ رہنے دینا چاہیے ، مجھے انکی رعایا ہی رہنے دیں، میں اسی میں خوش ہوں اور انکی بادشاہت قبول کرتا ہوں۔
سلمان نے کہا کہ انہیں سیاست اور فلمسازی سے دلچسپی نہیں، میں اداکاری کرتا رہوں گا جبکہ مجھے شاہ رخ خان کی بادشاہت سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
حال ہی میں سلمان اور شاہ رخ نے ایک افطار پارٹی میں گلے مل کر ماضی کے گلے شکوے دور کئے تھے۔
دبنگ خان نے مزید کہا کہ میں کبھی شادی نہیں کروں گا، اپنے سوشل ورک سے بھی مطمئن ہوں۔
سلمان خان کہتے ہیں کہ لوگ مجھ سے خوف کھاتے ہیں لیکن مجھے اس کی وجہ کبھی سمجھ نہیں آئی، شاید وہ میری بڑی بڑی آنکھوں سے خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مجھے اس وقت غصہ ضرور آتا ہے جب کوئی ماحول خراب کرنے کی کوشش کرتا ہے ، ویسے بھی ہر وقت مسکرایا نہیں جا سکتا۔
اس کے علاوہ مجھے اپنی فلم کی پروموشن کرنا اچھا نہیں لگتا کیونکہ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں اپنی سٹار پاور کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو فلم دیکھنے کیلئے مجبور کر رہا ہوں۔
سلمان نے امید ظاہر کی کہ ان کی فلم 'کِک' پانچ سو کروڑ کا بزنس کرنے میں کامیاب ہوگی۔
عامر خان کیخلاف 'فحاشی' کی شکایت
معروف بولی وڈ سٹار عامر خان کی نئی فلم پی کے کے پوسٹر کی ریلیز کے فوراً بعد ہی ان کے خلاف ایک انڈین عدالت میں فحاشی پھیلانے کی شکایت درج کرا دی گئی ہے۔
ہندوستانی اخبار ٹائمز آف انڈیا کے مطابق یہ شکایت انڈور کی عدالت میں ایل ایل بی کے طالبعلم ابھیشیک بھارگوا نے درج کرائی ہے۔
طالبعلم کا کہنا ہے کہ "دسمبر 19 کو ریلیز ہونے والی فلم پی کے پوسٹر میں عامر خان کو برہنہ دکھایا گیا ہے جو کہ معاشرے میں فحاشی کے فروغ کا باعث بنے گا اسلئے متعلقہ دفعات کے تحت کیس کا اندراج کرے۔
ہندوستان ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق، ایڈووکیٹ منوج کمار نے بھی کانپور کورٹ میں عامر خان اور فلم کے پروڈیوسر ودھو ونود چوپڑا اور راج کمار ہیرانی کے خلاف کیس کی درخواست کی ہے۔
فلم کے پوسٹر کو فحش قرار دیتے ہوئے کمار کا کہنا تھا کہ اس سے احساسات کو نقصان پہنچا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'جب مجھے اخبار کی کاپی موصول ہوئی تو مجھے پوسٹر دیکھ کر شدید دھچکا لگ کیونکہ اخبار بچوں اور بڑوں سمیت کروڑوں لوگوں تک پہنچتا ہے'۔
ہندوستانی اخبار ٹائمز آف انڈیا کے مطابق یہ شکایت انڈور کی عدالت میں ایل ایل بی کے طالبعلم ابھیشیک بھارگوا نے درج کرائی ہے۔
طالبعلم کا کہنا ہے کہ "دسمبر 19 کو ریلیز ہونے والی فلم پی کے پوسٹر میں عامر خان کو برہنہ دکھایا گیا ہے جو کہ معاشرے میں فحاشی کے فروغ کا باعث بنے گا اسلئے متعلقہ دفعات کے تحت کیس کا اندراج کرے۔
ہندوستان ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق، ایڈووکیٹ منوج کمار نے بھی کانپور کورٹ میں عامر خان اور فلم کے پروڈیوسر ودھو ونود چوپڑا اور راج کمار ہیرانی کے خلاف کیس کی درخواست کی ہے۔
فلم کے پوسٹر کو فحش قرار دیتے ہوئے کمار کا کہنا تھا کہ اس سے احساسات کو نقصان پہنچا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'جب مجھے اخبار کی کاپی موصول ہوئی تو مجھے پوسٹر دیکھ کر شدید دھچکا لگ کیونکہ اخبار بچوں اور بڑوں سمیت کروڑوں لوگوں تک پہنچتا ہے'۔
اسرائیل نے فوجی انخلاء شروع کر دیا
غزہ: اسرائیل کی جانب سے پہلی بار غزہ میں آپریشن بند کرنے کے اشارے ملے ہیں البتہ جنگ بندی کے لیے ایک بار پھر ہونے والی کوششوں کے دوران بھی بمباری جاری رکھی گئی۔
ایک جانب فلسطینیوں کا ایک وفد جنگ بندی کی کوششوں کے حوالے سے مصر پہنچا تو دوسری جانب اسرائیل کی جانب سے شمالی غزہ کے مکینوں کو واپس اپنے گھروں کو جانے کا پیغام دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اس علاقے کے مکین اب ’’محفوظ‘‘ ہیں۔
اسرائیل کے ایک ترجمان نے غیر ملکی خبر رساں ادارے کو بتایا ہے کہ بیت الہیہ اور الاتاتارا کے رہائشی اپنے گھروں کو واپس آ سکتے ہیں، اس علاقے میں آپریشن روک دیا گیا ہے۔
مقامی افراد نے بھی اسرائیلی فوج کو علاقے سے نکلتے ہوئے دیکھنے کی تصدیق کی ہے۔
واضح رہے کہ 26 روز سے جاری جنگ کے دوران یہ پہلا موقع ہے کہ کسی علاقے سے اسرائیلی فوج واپس روانہ ہوئی ہے البتہ اس آپریشن کے دوران 1660 سے زائد فلسطینی ہلاک ہوئے ہیں جبکہ آبادی کا ایک چوتھائی حصہ نقل مکانی پر مجبور ہوا ہے۔
اسرائیلی فوجی ترجمان نے یہ بھی بتایا ہے کہ فورسز اپنے اہداف کے حصول کے بہت قریب ہیں، زمینی آپریشن کا بنیادی مقصد زیر زمین سرنگوں کو تباہ کرنا تھا، ان سرنگوں سے جنوبی اسرائیل میں حملے کیے جا رہے تھے۔
جذوی طور پر فوج کی واپسی سے قطع نظر اسرائیل کی جنگی کابینہ نے قاہرہ میں جنگ بندی کے حوالے سے وفد بھیجنے کی مخالفت میں فیصلہ کیا ہے۔
فوجی ریڈیو پر ایک سینئر اسرائیلی اہلکار کا کہنا تھا کہ حماس کو حالیہ کیے جانے والے جنگ بندی کے انتظامات میں دلچسپی نہیں ہے۔
بعض مبصرین کا خیال فوجیوں کی واپسی یک طرفہ انخلاء بھی ہو سکتا ہے۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے واضح امکانات بہت کم ہیں کیوں کہ اسرائیل کا خیال ہے کہ اس کا ایک 23 سالہ فوجی حماس کی حراست میں ہے۔
غزہ میں رفاہ کے علاقے پر گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کی جانے والی بمباری میں 114 افراد ہلکا ہو چکے ہیں جس سے غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد برھ کر 1670 ہو گئی ہے جس کی تصدیق طبی امداد کے ادارے کے ترجمان اشرف القدرا نے بھی کی ہے ان کے مطابق 9000افراد زخمی ہوئے۔
یاد رہے کہ اسرائیل کے سیکنڈ لیفٹیننٹ حدر گولڈین کو مبینہ طور پر مغوی بنائے جانے کی اقوام متحدہ اور امریکہ نے سخت مذمت کی ہے کیونکہ اس سے اسرائیل اور حماس کے درمیان 72گھنٹے کی جنگ بندی کا معاہدہ چند گھنٹوں میں ٹوٹ گیا تھا۔
اسرائیل کا الزام تھا کہ حماس نے اس کے دو فوجی ہلاک کیے ہیں جبکہ ایک فوجی کو یرغمال بنا لیا گیا ہے۔
حماس کے عسکری ونگ نے حملے میں فوجیوں کی ہلاکت کی تو تصدیق کی تھی البتہ اس نے کسی فوجی ہو حراست میں لینے کی تردید کی ہے۔
اسرائیل کی جانب سے اپنے لاپتہ فوجی کی تلاش کے لیے رفاہ اور اس کے نواحی علاقوں میں تلاش کی جارہی ہے، اس علاقے میں 21ہزار سے زائد فلسطینی آباد ہیں۔ یروشلم کو خدشہ ہے کہ اس کے یرغمال فوجی کو زیر حراست افراد کے تبادلے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ 2006 میں غزہ میں اسرائیلی فوجی گلیڈ شالیت کو یرغمال بنایا گیا تھا اور اس جو 5 سال تک قید میں رکھا گیا تھا اس کی رہائی کے بدلے میں 1000 فلسطینی قیدیوں کی رہائی ممکن بنائی گئی تھی۔
شالیت کو یرغمال بنائے جانے کے چند دن بعد اسرائیل نے لبنان میں عسکری تنظیم حزب اللہ کے خلاف آپریشن شروع کیا تھا اس 34 روزہ آپریشن میں بھی اسرائیل کے دو فوجی یرغمال بنا لیے گئے تھے جس کے بعد اسرائیل نے نہ صرف آپریشن ختم کر دیا تھا بلکہ ان دو فوجیوں کی رہائی کے بدلے میں مبینہ طور پر سیکڑوں قیدیوں کو بھی رہا کیا تھا۔
علاوہ ازیں مصر کے صدر عبدالفتح السیسی کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کے لیے منصوبے سے بڑھتے ہوئے تشدد کا خاتمہ ممکن ہو گا۔
فلسطین کی جانب سے مصر جانے والے وفد میں انٹیلی جنس چیف ماجد فراج، حماس کے اعلیٰ عہدیدار موسی ابو مرزق اور اسلامک جہاد کے رہنما زید النخلے شامل ہیں۔
ایک جانب فلسطینیوں کا ایک وفد جنگ بندی کی کوششوں کے حوالے سے مصر پہنچا تو دوسری جانب اسرائیل کی جانب سے شمالی غزہ کے مکینوں کو واپس اپنے گھروں کو جانے کا پیغام دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اس علاقے کے مکین اب ’’محفوظ‘‘ ہیں۔
اسرائیل کے ایک ترجمان نے غیر ملکی خبر رساں ادارے کو بتایا ہے کہ بیت الہیہ اور الاتاتارا کے رہائشی اپنے گھروں کو واپس آ سکتے ہیں، اس علاقے میں آپریشن روک دیا گیا ہے۔
مقامی افراد نے بھی اسرائیلی فوج کو علاقے سے نکلتے ہوئے دیکھنے کی تصدیق کی ہے۔
واضح رہے کہ 26 روز سے جاری جنگ کے دوران یہ پہلا موقع ہے کہ کسی علاقے سے اسرائیلی فوج واپس روانہ ہوئی ہے البتہ اس آپریشن کے دوران 1660 سے زائد فلسطینی ہلاک ہوئے ہیں جبکہ آبادی کا ایک چوتھائی حصہ نقل مکانی پر مجبور ہوا ہے۔
اسرائیلی فوجی ترجمان نے یہ بھی بتایا ہے کہ فورسز اپنے اہداف کے حصول کے بہت قریب ہیں، زمینی آپریشن کا بنیادی مقصد زیر زمین سرنگوں کو تباہ کرنا تھا، ان سرنگوں سے جنوبی اسرائیل میں حملے کیے جا رہے تھے۔
جذوی طور پر فوج کی واپسی سے قطع نظر اسرائیل کی جنگی کابینہ نے قاہرہ میں جنگ بندی کے حوالے سے وفد بھیجنے کی مخالفت میں فیصلہ کیا ہے۔
فوجی ریڈیو پر ایک سینئر اسرائیلی اہلکار کا کہنا تھا کہ حماس کو حالیہ کیے جانے والے جنگ بندی کے انتظامات میں دلچسپی نہیں ہے۔
بعض مبصرین کا خیال فوجیوں کی واپسی یک طرفہ انخلاء بھی ہو سکتا ہے۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے واضح امکانات بہت کم ہیں کیوں کہ اسرائیل کا خیال ہے کہ اس کا ایک 23 سالہ فوجی حماس کی حراست میں ہے۔
غزہ میں رفاہ کے علاقے پر گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کی جانے والی بمباری میں 114 افراد ہلکا ہو چکے ہیں جس سے غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد برھ کر 1670 ہو گئی ہے جس کی تصدیق طبی امداد کے ادارے کے ترجمان اشرف القدرا نے بھی کی ہے ان کے مطابق 9000افراد زخمی ہوئے۔
یاد رہے کہ اسرائیل کے سیکنڈ لیفٹیننٹ حدر گولڈین کو مبینہ طور پر مغوی بنائے جانے کی اقوام متحدہ اور امریکہ نے سخت مذمت کی ہے کیونکہ اس سے اسرائیل اور حماس کے درمیان 72گھنٹے کی جنگ بندی کا معاہدہ چند گھنٹوں میں ٹوٹ گیا تھا۔
اسرائیل کا الزام تھا کہ حماس نے اس کے دو فوجی ہلاک کیے ہیں جبکہ ایک فوجی کو یرغمال بنا لیا گیا ہے۔
حماس کے عسکری ونگ نے حملے میں فوجیوں کی ہلاکت کی تو تصدیق کی تھی البتہ اس نے کسی فوجی ہو حراست میں لینے کی تردید کی ہے۔
اسرائیل کی جانب سے اپنے لاپتہ فوجی کی تلاش کے لیے رفاہ اور اس کے نواحی علاقوں میں تلاش کی جارہی ہے، اس علاقے میں 21ہزار سے زائد فلسطینی آباد ہیں۔ یروشلم کو خدشہ ہے کہ اس کے یرغمال فوجی کو زیر حراست افراد کے تبادلے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ 2006 میں غزہ میں اسرائیلی فوجی گلیڈ شالیت کو یرغمال بنایا گیا تھا اور اس جو 5 سال تک قید میں رکھا گیا تھا اس کی رہائی کے بدلے میں 1000 فلسطینی قیدیوں کی رہائی ممکن بنائی گئی تھی۔
شالیت کو یرغمال بنائے جانے کے چند دن بعد اسرائیل نے لبنان میں عسکری تنظیم حزب اللہ کے خلاف آپریشن شروع کیا تھا اس 34 روزہ آپریشن میں بھی اسرائیل کے دو فوجی یرغمال بنا لیے گئے تھے جس کے بعد اسرائیل نے نہ صرف آپریشن ختم کر دیا تھا بلکہ ان دو فوجیوں کی رہائی کے بدلے میں مبینہ طور پر سیکڑوں قیدیوں کو بھی رہا کیا تھا۔
علاوہ ازیں مصر کے صدر عبدالفتح السیسی کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کے لیے منصوبے سے بڑھتے ہوئے تشدد کا خاتمہ ممکن ہو گا۔
فلسطین کی جانب سے مصر جانے والے وفد میں انٹیلی جنس چیف ماجد فراج، حماس کے اعلیٰ عہدیدار موسی ابو مرزق اور اسلامک جہاد کے رہنما زید النخلے شامل ہیں۔
تجزیہ : پاکستان میں فیس بک کا مسئلہ
پاکستان بھر میں اس وقت فیس بک استعمال کرنے والے افراد کی تعداد لگ بھگ ایک کروڑ 54 لاکھ کے قریب ہے جو کہ مجموعی آبادی کا 8.5 حصہ بنتا ہے، یا کراچی کے برابر کا ایک ورچوئل شہر، اور بلاشبہ فیس بک پاکستان کی سب سے بڑی سماجی رابطے کی ویب سائٹ ہے، تاہم کچھ حلقوں کی جانب سے دلیل دی جارہی ہے کہ یہ ویب سائٹ وقت کا ضیاع یا معاشرے کے اعلیٰ طبقے کے لیے ہے۔
پاکستان تحریک انصاف نے مئی 2013ءکے عام انتخابات میں فیس بک کی سیاسی اہمیت ثابت کردی تھی، جبکہ متعدد کمپنیاں، کاروبار، بڑی و چھوٹی صنعتیں بھی اپنے روزمرہ کے کام کے لیے سوشل میڈیا پر انحصار کررہی ہیں، کیونکہ اس طرح ان کی پہنچ معاشرے کے ہر طبقے کے فرد تک ہوجاتی ہے، یعنی شہری سے لے کر دیہی آبادی تک جوکہ رابطے، شیئرنگ، رشتے بنانے، رائے بنانے اور یقیناً صرف تفریحی مقاصد کے لیے اس کا استعمال کرتی ہے۔
تھری جی کے متعارف ہونے اور مارکیٹ میں سستے ترین اسمارٹ فونز کی بھرمار کی مدد سے ٹیلی کمپنیاں فیس بک اور ٹوئیٹر تک اشتہارات کی رسائی سے لاکھوں کمارہی ہیں، صارفین ان ویب سائٹس تک مفت رسائی حاصل کرپاتے ہیں جبکہ فیس بک نے ایک منفرد حیثیت دسمبر 2013ءمیں اس وقت حاصل کرلی جب اس نے اپنی آفیشل زبانوں میں اردو کو بھی شامل کرلیا۔
پاکستانی معاشرے میں فیس بک کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں اور 2013ءکے اعدادوشمار میں یہ بات سامنے آچکی ہے کہ اس ویب سائٹ پر کسی چیز کو پوسٹ کرنے سے ایک مقامی صارف تک وہ معلومات تک بارہ سیکنڈ تک پہنچ جاتی ہے اور یہ بات یقینی ہے کہ مارک زیوکربرگ کا یہ نیٹ ورک پاکستان میں طویل عرصے تک راج کرنے والا ہے۔
فیس بک کا مستقبل روشن نظر آتا ہے کیونکہ اس پلیٹ فارم پر کسی اچانک اور مستقل پابندی کا امکان نظر نہیں آتا۔
تاہم فیس بک غلطیوں سے پاک بھی نہیں، اور چند انتہائی سنجیدہ معاملات سامنے آئے ہیں جن کی وجہ سے یہ سوالات اٹھے ہیں کہ کس طرح حکومت اور معاشرے کو اس ویب سائٹ کے غلط استعمال کو روکنے کی ضرورت ہے ۔
فیس بک پر دھمکیوں، بلیک میل اور ہراساں کئے جانے کی شکلوں میں خواتین کے خلاف تشدد کی اقسام، کسی فرد کی نجی تفصیلات کا ہیکنگ کے ذریعے غلط استعمال بہت عام ہوگیا ہے جس کا نتیجہ حقیقی دنیا میں سنگین خطرات کی صورت میں نکل رہا ہے۔
فیس بک پر نفرت انگیز تحریریں بھی عام ہوچکی ہیں اور اس طرح کے مواد کا بڑا حصہ اردو یا رومن اردو رسم الخط میں ہے، جن کے خلاف فیس بک پر شکایت درج کرانے کا میکنزم ناکارہ ثابت ہوتا ہے۔
کسی پوسٹ کے شیئر ، لائک یا بس کسی دوسرے فرد کی نیوز فیڈ پر آنے سے بھی مذہب کی توہین کے الزامات پر گرفتاریاں بھی ہوجاتی ہیں، جس کی مثال ملتان کی بہاولدین ذکریہ یونیورسٹی کے وزٹنگ لیکچرر جنید حفیظ کیس ہمارے سامنے ہے ۔
فیس بک پر ہی اس طرح کے الزامات پر گجرانوالہ میں حال ہی میں فسادات پھوٹ پڑے تھے جس کے نتیجے میں احمدی برادری کی دوبچیاں اور ایک خاتون ہلاک ہوگئی تھیں۔
اسی طرح کالعدم گروپس جیسے سپاہ صحابہ سے لے کر تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے فیس بک کو رابطوں، نظم اور بھرتیوں کے لیے استعمال کرنا ایک بہت بڑا حقیقی خطرہ ہے۔
ان ابھرتے مسائل پر انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے رضاکاروں اور انٹرنیٹ اسٹیک ہولڈرز کو یوٹیوب جیسی مکمل پابندی جیسے ردعمل کا خدشہ ہے۔
اس وقت ملک میں سائبر کرائمز کے حوالے سے قوانین موجود نہیں اور پرانا و دقیانوسی الیکٹرونک ٹرانزیکشن آرڈنینس(ای ٹی او) 2002ءکو استعمال کیا جارہا ہے، جس کے تحت فیس بک پر مجرمانہ سرگرمیوں کے خلاف قانون نافذ کرنے والے ادارے کچھ زیادہ کرنہیں سکتے۔
سائبر کرائمز پر نیا قانون ایک سال سے اسمبلیوں سسے منظوری کا منتظر ہے، جس میں بھی ان مسائل پر کچھ زیادہ توجہ نہیں دی گئی ہے۔
اراکین پارلیمنٹ بھی فیس بک کے مسائل کو حل کرنے میں کچھ زیادہ سنجیدہ نہیں، ان قوانین کے استعمال(یا غلط استعمال) کو کیسے ممکن بنایا جائے، اس سے کس کو فائدہ ہوگا اور کون ہدف بنے گا، کیا بائیں بازو کی جانب جھکاﺅ رکھنے والے، سیکیولر گروپس، مذہبی اقلیتوں اور ریاست کے ناقدین سمیت دیگر کو ہی بلاک اور آن لائن پابندیوں کا سامنا ہوگا؟ فیس بک کی سرگرمیوں پر تحقیقات کے لیے کیا میکنزم اپنایا جائے گا؟ کیا ان ہی افراد کو ریاست کی جانب سے سوشل نیٹ ورک کے ورکنگ ریلیشن شپ کا اختیار دیا جائے گا جنھوں نے عوام کو یوٹیوب سے دور کررکھا ہے؟ سوشل میڈیا پر مذہب کی توہین کے الزامات پر دھمکیوں کا سامنا کرنے والوں کے لیے کیا کچھ کیا جائے گا؟
فیس بک متعدد خوبیوں کی حامل سائٹ ہے جو سوشل نیٹ ورک کی دنیا پر راج کرنے کی اہلیت رکھتی ہے جیسے اطلاعات تک عام رسائی، اطلاعات کے پھیلنے کی رفتار اور دیگر تاہم ان خوبیوں کا پاکستانی معاشرے کے حکمران طبقوں سے براہ راست تصادم ہوگیا ہے، جیسے مذہبی خیالات کی آزادی اور ان کے اظہار وغیرہ نمایاں مثالیں ہیں، پاکستانی معاشرے میں اس پلیٹ فارم سے واقفیت نہ ہونے کے برابر ہے خاص طور پر پرائیویسی اور سیکیورٹی معاملات میں۔
جب تک ہر ادارے کلاس روم سے لے کر پارلیمنٹ، دفاتر سے عدالتیں اور دیگر تک فیس بک کے مسائل کو ہرسطح پر اٹھایا نہیں جاتا اور ان کی روک تھام نہیں ہوتی اس وقت تک یہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ہماری قوم کے لیے نقصان کا ہی باعث بنے گی۔
یہ نقصان سخت گیر قوانین، ذاتی فوائد اور نظر انداز کئے جانے کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے یا اس سے بھی برا یعنی قومی سطح پر اس نیٹ ورک پر پابندی کی صورت میں بھی، تاہم اس طرح کی پابندی کے منفی اثرات کا اندازہ صرف اس ناقابلیت سے لگایا جا سکتا ہے جو کہ اس کی وجہ سے پیدا ہو گی۔
یہ تجزیہ ڈان اخبار کے تین اگست کے شمارے میں شائع ہوا ہے
پاکستان تحریک انصاف نے مئی 2013ءکے عام انتخابات میں فیس بک کی سیاسی اہمیت ثابت کردی تھی، جبکہ متعدد کمپنیاں، کاروبار، بڑی و چھوٹی صنعتیں بھی اپنے روزمرہ کے کام کے لیے سوشل میڈیا پر انحصار کررہی ہیں، کیونکہ اس طرح ان کی پہنچ معاشرے کے ہر طبقے کے فرد تک ہوجاتی ہے، یعنی شہری سے لے کر دیہی آبادی تک جوکہ رابطے، شیئرنگ، رشتے بنانے، رائے بنانے اور یقیناً صرف تفریحی مقاصد کے لیے اس کا استعمال کرتی ہے۔
تھری جی کے متعارف ہونے اور مارکیٹ میں سستے ترین اسمارٹ فونز کی بھرمار کی مدد سے ٹیلی کمپنیاں فیس بک اور ٹوئیٹر تک اشتہارات کی رسائی سے لاکھوں کمارہی ہیں، صارفین ان ویب سائٹس تک مفت رسائی حاصل کرپاتے ہیں جبکہ فیس بک نے ایک منفرد حیثیت دسمبر 2013ءمیں اس وقت حاصل کرلی جب اس نے اپنی آفیشل زبانوں میں اردو کو بھی شامل کرلیا۔
پاکستانی معاشرے میں فیس بک کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں اور 2013ءکے اعدادوشمار میں یہ بات سامنے آچکی ہے کہ اس ویب سائٹ پر کسی چیز کو پوسٹ کرنے سے ایک مقامی صارف تک وہ معلومات تک بارہ سیکنڈ تک پہنچ جاتی ہے اور یہ بات یقینی ہے کہ مارک زیوکربرگ کا یہ نیٹ ورک پاکستان میں طویل عرصے تک راج کرنے والا ہے۔
فیس بک کا مستقبل روشن نظر آتا ہے کیونکہ اس پلیٹ فارم پر کسی اچانک اور مستقل پابندی کا امکان نظر نہیں آتا۔
تاہم فیس بک غلطیوں سے پاک بھی نہیں، اور چند انتہائی سنجیدہ معاملات سامنے آئے ہیں جن کی وجہ سے یہ سوالات اٹھے ہیں کہ کس طرح حکومت اور معاشرے کو اس ویب سائٹ کے غلط استعمال کو روکنے کی ضرورت ہے ۔
فیس بک پر دھمکیوں، بلیک میل اور ہراساں کئے جانے کی شکلوں میں خواتین کے خلاف تشدد کی اقسام، کسی فرد کی نجی تفصیلات کا ہیکنگ کے ذریعے غلط استعمال بہت عام ہوگیا ہے جس کا نتیجہ حقیقی دنیا میں سنگین خطرات کی صورت میں نکل رہا ہے۔
فیس بک پر نفرت انگیز تحریریں بھی عام ہوچکی ہیں اور اس طرح کے مواد کا بڑا حصہ اردو یا رومن اردو رسم الخط میں ہے، جن کے خلاف فیس بک پر شکایت درج کرانے کا میکنزم ناکارہ ثابت ہوتا ہے۔
کسی پوسٹ کے شیئر ، لائک یا بس کسی دوسرے فرد کی نیوز فیڈ پر آنے سے بھی مذہب کی توہین کے الزامات پر گرفتاریاں بھی ہوجاتی ہیں، جس کی مثال ملتان کی بہاولدین ذکریہ یونیورسٹی کے وزٹنگ لیکچرر جنید حفیظ کیس ہمارے سامنے ہے ۔
فیس بک پر ہی اس طرح کے الزامات پر گجرانوالہ میں حال ہی میں فسادات پھوٹ پڑے تھے جس کے نتیجے میں احمدی برادری کی دوبچیاں اور ایک خاتون ہلاک ہوگئی تھیں۔
اسی طرح کالعدم گروپس جیسے سپاہ صحابہ سے لے کر تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے فیس بک کو رابطوں، نظم اور بھرتیوں کے لیے استعمال کرنا ایک بہت بڑا حقیقی خطرہ ہے۔
ان ابھرتے مسائل پر انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے رضاکاروں اور انٹرنیٹ اسٹیک ہولڈرز کو یوٹیوب جیسی مکمل پابندی جیسے ردعمل کا خدشہ ہے۔
اس وقت ملک میں سائبر کرائمز کے حوالے سے قوانین موجود نہیں اور پرانا و دقیانوسی الیکٹرونک ٹرانزیکشن آرڈنینس(ای ٹی او) 2002ءکو استعمال کیا جارہا ہے، جس کے تحت فیس بک پر مجرمانہ سرگرمیوں کے خلاف قانون نافذ کرنے والے ادارے کچھ زیادہ کرنہیں سکتے۔
سائبر کرائمز پر نیا قانون ایک سال سے اسمبلیوں سسے منظوری کا منتظر ہے، جس میں بھی ان مسائل پر کچھ زیادہ توجہ نہیں دی گئی ہے۔
اراکین پارلیمنٹ بھی فیس بک کے مسائل کو حل کرنے میں کچھ زیادہ سنجیدہ نہیں، ان قوانین کے استعمال(یا غلط استعمال) کو کیسے ممکن بنایا جائے، اس سے کس کو فائدہ ہوگا اور کون ہدف بنے گا، کیا بائیں بازو کی جانب جھکاﺅ رکھنے والے، سیکیولر گروپس، مذہبی اقلیتوں اور ریاست کے ناقدین سمیت دیگر کو ہی بلاک اور آن لائن پابندیوں کا سامنا ہوگا؟ فیس بک کی سرگرمیوں پر تحقیقات کے لیے کیا میکنزم اپنایا جائے گا؟ کیا ان ہی افراد کو ریاست کی جانب سے سوشل نیٹ ورک کے ورکنگ ریلیشن شپ کا اختیار دیا جائے گا جنھوں نے عوام کو یوٹیوب سے دور کررکھا ہے؟ سوشل میڈیا پر مذہب کی توہین کے الزامات پر دھمکیوں کا سامنا کرنے والوں کے لیے کیا کچھ کیا جائے گا؟
فیس بک متعدد خوبیوں کی حامل سائٹ ہے جو سوشل نیٹ ورک کی دنیا پر راج کرنے کی اہلیت رکھتی ہے جیسے اطلاعات تک عام رسائی، اطلاعات کے پھیلنے کی رفتار اور دیگر تاہم ان خوبیوں کا پاکستانی معاشرے کے حکمران طبقوں سے براہ راست تصادم ہوگیا ہے، جیسے مذہبی خیالات کی آزادی اور ان کے اظہار وغیرہ نمایاں مثالیں ہیں، پاکستانی معاشرے میں اس پلیٹ فارم سے واقفیت نہ ہونے کے برابر ہے خاص طور پر پرائیویسی اور سیکیورٹی معاملات میں۔
جب تک ہر ادارے کلاس روم سے لے کر پارلیمنٹ، دفاتر سے عدالتیں اور دیگر تک فیس بک کے مسائل کو ہرسطح پر اٹھایا نہیں جاتا اور ان کی روک تھام نہیں ہوتی اس وقت تک یہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ہماری قوم کے لیے نقصان کا ہی باعث بنے گی۔
یہ نقصان سخت گیر قوانین، ذاتی فوائد اور نظر انداز کئے جانے کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے یا اس سے بھی برا یعنی قومی سطح پر اس نیٹ ورک پر پابندی کی صورت میں بھی، تاہم اس طرح کی پابندی کے منفی اثرات کا اندازہ صرف اس ناقابلیت سے لگایا جا سکتا ہے جو کہ اس کی وجہ سے پیدا ہو گی۔
یہ تجزیہ ڈان اخبار کے تین اگست کے شمارے میں شائع ہوا ہے
Friday, 1 August 2014
صحت کی 7 علامات جنھیں نظرانداز کرنا پڑسکتا ہے بھاری
نیویارک : ہر انسان بچپن سے لڑکپن، نوجوانی، درمیانی عمر یا اڈھیر عمری سے ہوتا ہوا بڑھاپے کی عمر تک پہنچتا ہے مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ اس سفر کے دوران کچھ خاص جسمانی کیفیات کو نظرانداز کرنے کا نتیجہ قبل ازوقت موت کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے؟
جی ہاں اڈھیرعمری یا درمیانی عمر (چالیس سال کے بعد سے) میں ان طبی علامات کو نظرانداز کرنا کافی بھاری بھی ثابت ہوسکتا ہے۔
سینے میں درد
سینے میں چبھتا درد ہوسکتا ہے کہ دل کا دورہ ہو جیسا آپ ٹی وی پر دیکھتے ہی رہتے ہیں یا عام تکلیف بھی ہوسکتی ہے، تاہم یہ بات اہمیت رکھتی ہے جب بھی آپ کو سینے میںگھٹن اور تکلیف محسوس ہو تو طبی امداد کے لیے فون ضرور کریں اور کوئی گولی کھا کر اطمینان سے نہ بیٹھ جائے۔
ہوسکتا ہے کہ درد زیادہ شدید نہ ہو مگر یہ نہ بھولیں کہ ضروری نہیں کہ دل کے دورے کا احساس ہمیشہ سینے میں ہی ہوتا ہے، کئی بار یہ کمر درد، جبڑے میں درد یا دیگر تکالیف کی صورت اظہار کرتا ہے کہ آپ کا دل تکلیف میں ہے، اگر آپ ایسے درد کا احساس ہو تو طبی امداد لینے سے ہچکچائیں مت۔
سر کا شدید درد
اگر آپ کو اچانک ہی سر میں درد کا احساس ہو اور آپ کو ایسا لگے کہ یہ زندگی کا سب سے بدترین درد ہے تو فوری طور پر طبی امداد حاصل کریں، کیونکہ یہ ہوسکتا ہے کہ دماغ کو خون پہنچانے والی شریان میں کسی کمزوری یا رکاوٹ کا نتیجہ ہو، یہ درد اس شریان کو دماغ کو پھیلانے کا سبب بن سکتا ہے اور اگر یہ برقرار رہے تو اس کا نتیجہ فالج یا برین ہیمبرج کی شکل میں موت کی صورت میں نکل سکتا ہے، تو طبی امداد لینے گریز مت کریں۔
تاہم یہ ذہن میں رہے کہ یہ درد آدھے سر کے درد یا مائیگرین سے مختلف ہوتا ہے اور اگر وہ اچانک ہی آپ کو شکار کرتا ہو اور یہ سب معمول کا حصہ بن جائے تو یہ کسی خرابی ہوسکتا ہے۔
پیٹ کا درد
اگر آپ کے پیٹ میں اکثر درد رہتا ہو، پھولتا ہوا محسوس ہوتا ہے، کھانے سے رغبت ختم ہوجائے یا اجابت کے نظام میں کوئی تبدیلی محسوس ہو تو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہئے کیونکہ یہ کسی سنگین بیماری کی ابتدائی علامات بھی ہوسکتی ہیں۔
ہاتھوں یا پیروں کا سن ہوجانا
اگر آپ کو ہاتھوں یا پیروں میں کمزوری، سن ہوجانے کی شکایت یا جھنجھناہٹ محسوس ہو یا ان کی مضبوطی ختم ہوجائے(جیسے آپ کو سیڑھیاں چڑھنے میں مسئلہ ہو وغیرہ) تو یہ ممکنہ طور پر ریڑھ کی ہڈی میں کسی قسم کا مسئلہ ہوتا ہے جو آپ کے اعصاب کو دبا رہا ہوتا ہے۔
اگر آپ اس دباﺅ سے اپنے عصبی نظام کو نجات نہیں دلاتے تو آپ مستقل دماغی تبدیلیوں یا نقسان کا شکار ہوسکتے ہیں، اگرچہ ڈاکٹر اس کا علاج علامات ظاہر ہونے کے بعد ہی کرتے ہیں مگر اس صورت اگر آپ مناسب غذا اور ادویات کا استعمال کریں اور دیگر احتیاطی تدابیر کو اختیار کریں تو آپ کو مستقبل میں پریشانی کا سامان نہیں ہوگا۔
ٹانگ میں سوجن کے ساتھ درد
اگر آپ پنڈلی پر ورم اور درد کو محسوس کریں تو یہ وہ علامت ہے جس کو فوری توجہ کی ضرورت ہوتی ہے اور انتظار کرنا نقصان دہ بھی ثابت ہوسکتا ہے۔
یہ علامات اس بات کا عندیہ دے رہی ہوتی ہیں کہ آپ کی ٹانگ میں بلڈ کلوٹ یا لوتھڑا موجود ہوسکتا ہے اور یہ ایک خطرناک حالت ہے کیونکہ یہ جما ہوا خون اگر سفر کرتا ہوا پھیپھڑوں میں پہنچ گیا تو یہ جان لیوا بھی ہوسکتا ہے، ایک اندازے کے مطابق اس کیفیت کے نتیجے میں صرف امریکہ میں ہی ہر سال دو لاکھ افراد ہلاک ہوجاتے ہیں کیونکہ بلڈ کلوٹ سے پھیپھڑوں میں آکسیجن کی سپلائی رک جاتی ہے۔
تاہم اگر اس کا فوری علاج کرلیا جائے تو موت کا خطرہ دس فیصد سے کم رہ جاتا ہے۔
مسلسل کھانسی
اگر آپ کی کھانسی کی شدت میں کوئی کمی نہیں آرہی تو ڈاکٹر سے رجوع زیادہ بہتر طریقہ کار ہوگا، کیونکہ کھانسی مختلف امراض جیسے انفیکشن، کسی قسم کے کینسر، خوراک کی نالی میں تکلیف، پھیپھڑوں کے مسائل اور دیگر کا سبب ہوسکتی ہے۔
بہت زیادہ تھکاوٹ
ہر شخص کے توانائی کا لیول مختلف ہوتا ہے، خاص طور پر عمر کے حساب سے، تاہم اگر آپ خود اپنی زندگی میں یہ محسوس کرتے ہیں کہ آپ کا جسم ہر وقت تھکاوٹ کا شکار رہتا ہے اور آرام کا مطالبہ کرتا رہتا ہے تو یہ خون کی کمی کی علامت ہوسکتا ہے، یا آپ کے ہارمون عدم توازن کا شکار ہوسکتے ہیں ، یہ دل کے دورے کی بھی ایک علامت ہوسکتی ہے۔ کسی بھی حالت میں اسے نطر انداز مت کریں اور اپنے ڈاکٹر سے فوری طبعی معائنہ ضرور کرائیں۔
Subscribe to:
Posts (Atom)
Power Rangers video
Adi Shankar Presents a Mighty Morphin' Power Rangers Bootleg Film By Joseph Kahn.
To Learn More About Why This Bootleg Exists Click Here: http://tinyurl.com/mw9qd79
To Learn More About Why This Bootleg Exists Click Here: http://tinyurl.com/mw9qd79