غزہ: اسرائیل کی جانب سے پہلی بار غزہ میں آپریشن بند کرنے کے اشارے ملے ہیں البتہ جنگ بندی کے لیے ایک بار پھر ہونے والی کوششوں کے دوران بھی بمباری جاری رکھی گئی۔
ایک جانب فلسطینیوں کا ایک وفد جنگ بندی کی کوششوں کے حوالے سے مصر پہنچا تو دوسری جانب اسرائیل کی جانب سے شمالی غزہ کے مکینوں کو واپس اپنے گھروں کو جانے کا پیغام دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اس علاقے کے مکین اب ’’محفوظ‘‘ ہیں۔
اسرائیل کے ایک ترجمان نے غیر ملکی خبر رساں ادارے کو بتایا ہے کہ بیت الہیہ اور الاتاتارا کے رہائشی اپنے گھروں کو واپس آ سکتے ہیں، اس علاقے میں آپریشن روک دیا گیا ہے۔
مقامی افراد نے بھی اسرائیلی فوج کو علاقے سے نکلتے ہوئے دیکھنے کی تصدیق کی ہے۔
واضح رہے کہ 26 روز سے جاری جنگ کے دوران یہ پہلا موقع ہے کہ کسی علاقے سے اسرائیلی فوج واپس روانہ ہوئی ہے البتہ اس آپریشن کے دوران 1660 سے زائد فلسطینی ہلاک ہوئے ہیں جبکہ آبادی کا ایک چوتھائی حصہ نقل مکانی پر مجبور ہوا ہے۔
اسرائیلی فوجی ترجمان نے یہ بھی بتایا ہے کہ فورسز اپنے اہداف کے حصول کے بہت قریب ہیں، زمینی آپریشن کا بنیادی مقصد زیر زمین سرنگوں کو تباہ کرنا تھا، ان سرنگوں سے جنوبی اسرائیل میں حملے کیے جا رہے تھے۔
جذوی طور پر فوج کی واپسی سے قطع نظر اسرائیل کی جنگی کابینہ نے قاہرہ میں جنگ بندی کے حوالے سے وفد بھیجنے کی مخالفت میں فیصلہ کیا ہے۔
فوجی ریڈیو پر ایک سینئر اسرائیلی اہلکار کا کہنا تھا کہ حماس کو حالیہ کیے جانے والے جنگ بندی کے انتظامات میں دلچسپی نہیں ہے۔
بعض مبصرین کا خیال فوجیوں کی واپسی یک طرفہ انخلاء بھی ہو سکتا ہے۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے واضح امکانات بہت کم ہیں کیوں کہ اسرائیل کا خیال ہے کہ اس کا ایک 23 سالہ فوجی حماس کی حراست میں ہے۔
غزہ میں رفاہ کے علاقے پر گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کی جانے والی بمباری میں 114 افراد ہلکا ہو چکے ہیں جس سے غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد برھ کر 1670 ہو گئی ہے جس کی تصدیق طبی امداد کے ادارے کے ترجمان اشرف القدرا نے بھی کی ہے ان کے مطابق 9000افراد زخمی ہوئے۔
یاد رہے کہ اسرائیل کے سیکنڈ لیفٹیننٹ حدر گولڈین کو مبینہ طور پر مغوی بنائے جانے کی اقوام متحدہ اور امریکہ نے سخت مذمت کی ہے کیونکہ اس سے اسرائیل اور حماس کے درمیان 72گھنٹے کی جنگ بندی کا معاہدہ چند گھنٹوں میں ٹوٹ گیا تھا۔
اسرائیل کا الزام تھا کہ حماس نے اس کے دو فوجی ہلاک کیے ہیں جبکہ ایک فوجی کو یرغمال بنا لیا گیا ہے۔
حماس کے عسکری ونگ نے حملے میں فوجیوں کی ہلاکت کی تو تصدیق کی تھی البتہ اس نے کسی فوجی ہو حراست میں لینے کی تردید کی ہے۔
اسرائیل کی جانب سے اپنے لاپتہ فوجی کی تلاش کے لیے رفاہ اور اس کے نواحی علاقوں میں تلاش کی جارہی ہے، اس علاقے میں 21ہزار سے زائد فلسطینی آباد ہیں۔ یروشلم کو خدشہ ہے کہ اس کے یرغمال فوجی کو زیر حراست افراد کے تبادلے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ 2006 میں غزہ میں اسرائیلی فوجی گلیڈ شالیت کو یرغمال بنایا گیا تھا اور اس جو 5 سال تک قید میں رکھا گیا تھا اس کی رہائی کے بدلے میں 1000 فلسطینی قیدیوں کی رہائی ممکن بنائی گئی تھی۔
شالیت کو یرغمال بنائے جانے کے چند دن بعد اسرائیل نے لبنان میں عسکری تنظیم حزب اللہ کے خلاف آپریشن شروع کیا تھا اس 34 روزہ آپریشن میں بھی اسرائیل کے دو فوجی یرغمال بنا لیے گئے تھے جس کے بعد اسرائیل نے نہ صرف آپریشن ختم کر دیا تھا بلکہ ان دو فوجیوں کی رہائی کے بدلے میں مبینہ طور پر سیکڑوں قیدیوں کو بھی رہا کیا تھا۔
علاوہ ازیں مصر کے صدر عبدالفتح السیسی کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کے لیے منصوبے سے بڑھتے ہوئے تشدد کا خاتمہ ممکن ہو گا۔
فلسطین کی جانب سے مصر جانے والے وفد میں انٹیلی جنس چیف ماجد فراج، حماس کے اعلیٰ عہدیدار موسی ابو مرزق اور اسلامک جہاد کے رہنما زید النخلے شامل ہیں۔
ایک جانب فلسطینیوں کا ایک وفد جنگ بندی کی کوششوں کے حوالے سے مصر پہنچا تو دوسری جانب اسرائیل کی جانب سے شمالی غزہ کے مکینوں کو واپس اپنے گھروں کو جانے کا پیغام دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اس علاقے کے مکین اب ’’محفوظ‘‘ ہیں۔
اسرائیل کے ایک ترجمان نے غیر ملکی خبر رساں ادارے کو بتایا ہے کہ بیت الہیہ اور الاتاتارا کے رہائشی اپنے گھروں کو واپس آ سکتے ہیں، اس علاقے میں آپریشن روک دیا گیا ہے۔
مقامی افراد نے بھی اسرائیلی فوج کو علاقے سے نکلتے ہوئے دیکھنے کی تصدیق کی ہے۔
واضح رہے کہ 26 روز سے جاری جنگ کے دوران یہ پہلا موقع ہے کہ کسی علاقے سے اسرائیلی فوج واپس روانہ ہوئی ہے البتہ اس آپریشن کے دوران 1660 سے زائد فلسطینی ہلاک ہوئے ہیں جبکہ آبادی کا ایک چوتھائی حصہ نقل مکانی پر مجبور ہوا ہے۔
اسرائیلی فوجی ترجمان نے یہ بھی بتایا ہے کہ فورسز اپنے اہداف کے حصول کے بہت قریب ہیں، زمینی آپریشن کا بنیادی مقصد زیر زمین سرنگوں کو تباہ کرنا تھا، ان سرنگوں سے جنوبی اسرائیل میں حملے کیے جا رہے تھے۔
جذوی طور پر فوج کی واپسی سے قطع نظر اسرائیل کی جنگی کابینہ نے قاہرہ میں جنگ بندی کے حوالے سے وفد بھیجنے کی مخالفت میں فیصلہ کیا ہے۔
فوجی ریڈیو پر ایک سینئر اسرائیلی اہلکار کا کہنا تھا کہ حماس کو حالیہ کیے جانے والے جنگ بندی کے انتظامات میں دلچسپی نہیں ہے۔
بعض مبصرین کا خیال فوجیوں کی واپسی یک طرفہ انخلاء بھی ہو سکتا ہے۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے واضح امکانات بہت کم ہیں کیوں کہ اسرائیل کا خیال ہے کہ اس کا ایک 23 سالہ فوجی حماس کی حراست میں ہے۔
غزہ میں رفاہ کے علاقے پر گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کی جانے والی بمباری میں 114 افراد ہلکا ہو چکے ہیں جس سے غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد برھ کر 1670 ہو گئی ہے جس کی تصدیق طبی امداد کے ادارے کے ترجمان اشرف القدرا نے بھی کی ہے ان کے مطابق 9000افراد زخمی ہوئے۔
یاد رہے کہ اسرائیل کے سیکنڈ لیفٹیننٹ حدر گولڈین کو مبینہ طور پر مغوی بنائے جانے کی اقوام متحدہ اور امریکہ نے سخت مذمت کی ہے کیونکہ اس سے اسرائیل اور حماس کے درمیان 72گھنٹے کی جنگ بندی کا معاہدہ چند گھنٹوں میں ٹوٹ گیا تھا۔
اسرائیل کا الزام تھا کہ حماس نے اس کے دو فوجی ہلاک کیے ہیں جبکہ ایک فوجی کو یرغمال بنا لیا گیا ہے۔
حماس کے عسکری ونگ نے حملے میں فوجیوں کی ہلاکت کی تو تصدیق کی تھی البتہ اس نے کسی فوجی ہو حراست میں لینے کی تردید کی ہے۔
اسرائیل کی جانب سے اپنے لاپتہ فوجی کی تلاش کے لیے رفاہ اور اس کے نواحی علاقوں میں تلاش کی جارہی ہے، اس علاقے میں 21ہزار سے زائد فلسطینی آباد ہیں۔ یروشلم کو خدشہ ہے کہ اس کے یرغمال فوجی کو زیر حراست افراد کے تبادلے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ 2006 میں غزہ میں اسرائیلی فوجی گلیڈ شالیت کو یرغمال بنایا گیا تھا اور اس جو 5 سال تک قید میں رکھا گیا تھا اس کی رہائی کے بدلے میں 1000 فلسطینی قیدیوں کی رہائی ممکن بنائی گئی تھی۔
شالیت کو یرغمال بنائے جانے کے چند دن بعد اسرائیل نے لبنان میں عسکری تنظیم حزب اللہ کے خلاف آپریشن شروع کیا تھا اس 34 روزہ آپریشن میں بھی اسرائیل کے دو فوجی یرغمال بنا لیے گئے تھے جس کے بعد اسرائیل نے نہ صرف آپریشن ختم کر دیا تھا بلکہ ان دو فوجیوں کی رہائی کے بدلے میں مبینہ طور پر سیکڑوں قیدیوں کو بھی رہا کیا تھا۔
علاوہ ازیں مصر کے صدر عبدالفتح السیسی کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کے لیے منصوبے سے بڑھتے ہوئے تشدد کا خاتمہ ممکن ہو گا۔
فلسطین کی جانب سے مصر جانے والے وفد میں انٹیلی جنس چیف ماجد فراج، حماس کے اعلیٰ عہدیدار موسی ابو مرزق اور اسلامک جہاد کے رہنما زید النخلے شامل ہیں۔
No comments:
Post a Comment