واشنگٹن میں ایک ٹیکسی میں بیٹھا تو گھستے ہی احساس ہوا کہ ڈرائیور صاحب گانجے کا کش لگا رہے تھے یا لگا چکے تھے۔ دیسی تھے تو میں نے پوچھ لیا کہ چلا تو لیں گے نا؟ زور کا قہقہ لگاتے ہوئے انھوں نے پنجابی میں کہا کہ اگر نہیں لگائی ہوتی تب شاید یہ ڈر ہوتا۔
ان کے مطابق شراب سے ڈرنا چاہیے، گانجے سے نہیں۔ میں سمجھ گیا کہ وہ ان دنوں اخبار کچھ زیادہ پڑھ رہے ہیں کیونکہ ہر دوسرے دن امریکہ میں یہی دلیل دی جا رہی ہے۔ امریکہ کی دو ریاستوں میں اب شوقیہ گانجا پينے والوں کو قانوناً ہری جھنڈی ملی ہوئی ہے، تیسرے میں بھی تیاری کی جا رہی ہے۔
لیکن میں واقعی خوفزدہ ہوں۔ کیونکہ دوسری ریاستوں تک تو کو ئی بات نہیں، لیکن یہاں واشنگٹن ڈی سی میں پورے زور و شور سے شوقیہ استعمال کے لیے گانجے پر قانونی مہر لگائے جانے کی مہم شروع ہو چکی ہے۔
مہم چلانےوالوں کے مطابق چار نومبر کو جب یہاں کانگریس کے انتخابات ہوں گے تو بیلٹ پیپر پر ووٹروں سے گانجے کے حق میں یا اس کے خلاف ووٹ ڈالنے کے لیے کہا جائے گا اور اگر ایسا ہوا تو اس کے منظور ہونے کے پورے آثار ہیں۔
اور میرے خوف کی وجہ یہ ہے کہ جو شہر پہلے ہی کچھ بہکا بہکا سا رہتا ہے، اس پر گانجے کا دھواں کچھ ایسا نہ ہو ایک تو کریلا اس پہ نیم چڑھا۔
اب کانگریس کا حال دیکھیے۔ گذشتہ ہفتے ایک سماعت کے دوران امریکی نائب وزیر خارجہ نشا بسوال اور امریکی وزارت تجارت کے ارون کمار کو سوالات کے جوابات کے لیے بلایا گیا تھا۔ دونوں ہی ہندوستانی نژاد امریکی ہیں۔
اب کانگریس کے ایک رکن پتہ نہیں کس دھن میں تھے۔ دونوں ہی حضرات سے سوال اس طرح داغنے لگے جیسے وہ حکومت ہند کے نمائندوں سے بات کر رہے ہوں۔
کہنے لگے: ’مجھے آپ کا ملک بہت پسند ہے۔ آپ کے لوگ بھی بہت پسند ہیں۔ ہم آپ کی مدد کرنا چاہتے ہیں لیکن ہم اگر آپ کے ملک میں سرمایہ کاری کریں تو ہم چاہتے ہیں کہ آپ بھی ہمارے یہاں سرمایہ لگائیں۔‘
اب بیچارے امریکی اہلکاروں پر کیا گزری ہوگی یہ تو نہ ہی پوچھیں تو بہتر۔
چھ سات ماہ قبل ایک صاحب جو رپبلكن پارٹی کے صدارتي امیدوار بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں، سینیٹ میں اوباما اور اوباما كیئر کے خلاف 21 گھنٹے تک تقریر کرتے رہے۔
لیکن یہ سب تو چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں۔
11 ستمبر کے حملے کے بعد پوری دنیا میں امریکہ کے لیے ہمدردی پیدا ہو گئی تھی۔ افغانستان پر القاعدہ کے خلاف حملے میں پوری دنیا ان کے ساتھ نظر آ رہی تھی۔
لیکن اسی واشنگٹن کے وائٹ ہاؤس میں ایک صاحب رہتے تھے۔ یہ سب دیکھ کر وہ اتنے جوش میں آ گئے کہ سوچا یہی موقع ہے صدام حسین سے پرانا حساب چکانے کا اور عراق پر ہلہ بول دیا۔ اس کے بعد دنیا کی تو ایسی تیسی ہوئی ہی امریکہ کو آج تک ہر کونے سے جلی کٹی سننی پڑتی ہے۔ اربوں ڈالر خرچ کرنے کے بعد بھی دنیا میں انھیں کبھی 17 تو کبھی 20 فی صد ریٹنگ ملتی ہے۔
اور یہ سب تب ہوا ہے یا ہو رہا ہے جب گانجا یہاں غیرقانوني ہے اور جب چاروں طرف دھواں ہی دھواں ہو گا، تب کیا حال ہوگا؟
ان دنوں جو صاحب وائٹ ہاؤس میں رہتے ہیں وہ بھی جوانی کے دنوں میں گانجے کے بہت شوقین تھے۔ ہوائی میں انھیں اور ان کے دوستوں کو ’چوم گینگ‘ کا نام دیا گیا تھا۔ مقامي زبان میں اس کا مطلب ہوتا ہے گانجہ پينے والوں کا گینگ۔
اب ان صاحب نے گانجہ چھوڑ دیا ہے لیکن بظاہر ہے سافٹ كارنر تو ہے ہی۔ دوبارہ اگر ان کے جی میں آ گئی تب ملک کا کیا ہوگا اور دنیا کا کیا ہوگا؟
اگلے سال نیو یارک ٹائمز کی شہ سرخی ہوگی: ’کانگریس نے سی آئی اے کو بند کرنے کا اعلان کیا، خفیہ کام کا کنٹریکٹ پاکستان کے آئی ایس آئی کو ملا۔‘
دوسری خبر: ’امریکی ہوم لینڈ کی حفاظت کی ذمہ داری افغانی فوج دے دی گئی ہے۔‘
تیسری خبر: ’چین کے ہیکر اب چلائیں گے امریکہ کا سائبر سکیورٹی نظام۔‘
آپ سوچ رہے ہوں گے ٹیکسی کے اندر دھوئیں کا اثر مجھ پر بھی ہو گیا ہے اور ہم بھی پنک میں غین ہوئے جاتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment