شاور – گومل زام ڈیم پراجیکٹ کے مغوی کارکنوں کے رشتہ داروں نے طالبان سے رحم کی التجائیں کرتے ہوئے اپنے پیاروں کی رہائی کے لیے احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں منعقد کی ہیں۔ دوسری جانب عسکریت پسندوں نے یرغمالیوں کی رہائی کے لیے 15 کروڑ روپے (16 لاکھ ڈالر) تاوان کا مطالبہ کیا ہے۔
دریں اثناء دینی علماء، شعبہ تعلیم سے وابستہ افراد، شہری معاشرے کے کارکنوں اور پاکستانی نوجوانوں نے 15 اگست کو اغوا کی اس کارروائی کو انتہائی قابل مذمت اور غیر انسانی فعل قرار دیا ہے جس کا اسلام میں کوئی جواز نہیں بنتا۔
اسلامی علماء نے اغوا اور تاوان کے مطالبے کی مذمت کرتے ہوئے اسے دہشت گردی کی بدترین مثال قرار دیا ہے جو کہ معاشرے اور اسلام میں ناقابل قبول ہے۔
پاکستانی طالبان نے 27 نومبر کو ایک وڈیو جاری کی تھی جس میں انہوں نے 15 کروڑ روپے تاوان کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ساتھ بعض قید دہشت گردوں کو رہا کرنے کے لیے 3 دسمبر کی مہلت دی تھی۔ انہوں نے دھمکی دی کہ اگر ان کے مطالبات پورے نہ ہوئے تو یرغمالیوں کو قتل کر دیا جائے گا۔
طالبان عسکریت پسندوں نے ڈیم کے آٹھ کارکنوں کو اس وقت اغوا کر لیا تھا جب وہ عید الفطر کی تعطیلات کے لیے گومل زام ڈیم سے ڈیرہ اسماعیل خان جانے کے لیے ٹانک وانا روڈ پر سفر کر رہے تھے۔ ملازمین میں سوات کے رہائشی سب ڈویژنل افسر شاہد علی خان اور سب انجنئیر ثناء اللہ بھی شامل ہیں۔
ستائیس نومبر کو جاری کی جانے والی 46 سیکنڈ دورانیے کی وڈیو میں شاہد علی خان اردو میں بات کرتے ہوئے تحریک طالبان پاکستان کے چنگل سے کارکنوں کی رہائی کی اپیل کر رہے ہیں۔
سیکورٹی فورسز نے یرغمالیوں کی گاڑی بازیاب کر لی ہے مگر کارکن تاحال طالبان کی تحویل میں ہیں اور 3 دسمبر کی حتمی تاریخ بھی قریب پہنچ رہی ہے۔ واپڈا کے چیئرمین راغب شاہ کا کہنا ہے کہ پانی اور بجلی کا ترقیاتی ادارہ ملازمین کو آزاد کرانے کے لیے ہر ممکن کوششیں کر رہا ہے۔
اسلامی، لادین قانون میں اغوا کی ممانعت
اغوا کے اس واقعے پر ہر طرف سے طالبان کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔
خیبر پختونخواہ کے وزیر برائے مذہبی امور نمروز خان نے سینٹرل ایشیا آن لائن سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالٰی نے خود قرآن پاک میں کہا ہے کہ ایک بے گناہ کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے اور یہی اسلام کا بنیادی فلسفہ ہے۔
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ لوگوں کو تاوان کی خاطر اغوا کرنا دہشت گردی کی بدترین شکل ہے اور اسلام میں اس کی سخت مذمت کی گئی ہے۔ اسلام میں اس طرح کی دہشت گردانہ کارروائیوں کی کوئی گنجائش نہیں۔ ان کے مرتکب افراد غالباً بدترین دہشت گرد اور انسانیت کے قاتل ہیں۔
ضلع پشاور کے خطیب اعلٰی اور سابق وزیر برائے مذہبی امور خیبر پختونخواہ قاری روح اللہ مدنی نے کہا کہ قانون شریعت اور پاکستان کے لادین قانون دونوں میں ہی غیر جنگجوؤں کو تاوان کی غرض سے یا اپنے ایجنڈے کی خاطر اغوا کرنے کی ممانعت ہے۔
مدنی نے سینٹرل ایشیا آن لائن سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے ان واقعات میں ملوث افراد نہ صرف معاشرے اور صوبے کے لیے بدنامی کا باعث بن رہے ہیں بلکہ وہ اسلام کے حقیقی تصور کو بھی داغدار کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلام میں بے گناہ انسانوں کے خلاف تشدد جیسے اقدامات کی سختی سے ممانعت ہے۔
اغوا کی کاروائیوں کے نتائج
انہوں نے کہا کہ سرکاری حکام اور تاجروں کے اغوا نے معیشت اور قومی ترقی کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے کیونکہ ان جرائم کے باعث سرمایہ کار اور دیگر ممکنہ کاروباری ادارے ملک میں سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ عناصر انسانیت، ملک اور مجموعی طور پر مسلمانوں کی کوئی خدمت نہیں کر رہے بلکہ وہ انہیں پتھر کے زمانے میں دھکیل رہے ہیں۔
پشاور یونیورسٹی کی ایک طالبہ سائرہ نے سینٹرل ایشیا آن لائن کو بتایا کہ عسکریت پسندوں کے مظالم نے نوجوان نسل کو واقعی دہشت زدہ کر دیا ہے اور مذہبی جنونیوں کے خلاف اس کی نفرت بڑھ رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عسکریت پسند سرکاری حکام اور سماجی و انسانی حقوق کے کارکنوں کو اغوا کرنے کے ذریعے ہمارے معاشرے کو مفلوج کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ معاشرے کو معذور کرنا چاہتے ہیں مگر نوجوان ان کے ایجنڈے سے واقف ہیں۔ وہ اسلام کی کوئی خدمت نہیں کر رہے۔ اس کی بجائے وہ اسلام کے حقیقی اصولوں سے پیٹھ موڑ رہے ہیں۔
سائرہ نے کہا کہ میری دو تجاویز ہیں، حکومت سرکاری حکام کو تحفظ فراہم کرے یا پھر عسکریت پسند عناصر کو سبق سکھایا جائے اور ان کا فوری طور پر خاتمہ کیا جائے۔
پشاور یونیورسٹی کے علاقائی مطالعہ مرکز کے طالب علم وسیم الرحمٰن نے کہا کہ اغوا اور بھتہ خوری کے یہ ہتھکنڈے عسکریت پسندوں کی ذہنیت ظاہر کرنے کا کافی ثبوت ہیں جنہیں انسانی اقدار اور اسلام کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔
رشتہ داروں کی جانب سے رہائی کی اپیلیں
مغوی ملازمین کے رشتہ دار اپنے پیاروں کی رہائی کی اپیلیں کر رہے ہیں۔
چھبیس نومبر کو ایک احتجاجی مظاہرے کے دوران مغوی سب انجنئیر کی والدہ نے حکام سے درخواست کی کہ وہ آٹھوں یرغمالیوں کی رہائی میں مدد کریں۔
ایک یرغمالی کے والد علی مرجان نے کہا کہ مغویوں کے اہل خانہ نے بھی مزید معلومات کے لیے طالبان سے رابطے کی کوششیں کی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ طالبان نے ہمیں کچھ نمبر دیے ہیں مگر جب ہم انہیں ملاتے ہیں تو وہ نہیں ملتے۔ وہ ان کی رہائی کے لیے 15 کروڑ روپے تاوان مانگ رہے ہیں مگر ہم غریب لوگ ہیں۔
عسکریت پسندوں نے اپنی دہشت گردی کی مہم کے لیے مالی وسائل جمع کرنے کی غرض سے حالیہ سالوں میں اغوا برائے تاوان کی کارروائیاں شروع کر دی ہیں۔ سینٹرل ایشیا آن لائن نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ اس طرح کے گروپوں کے لیے تاوان کی رقم آمدنی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
پاکستان نے عسکریت پسندوں کے تاوان کے مطالبات کے آگے گھٹنے نہ ٹیکنے کے لیے مختلف حکمت عملیاں آزمائی ہیں۔ مثال کے طور پر رواں سال کے اوائل میں وفاق ایوانہائے تجارت و صنعت پاکستان نے ایک انسداد دہشت گردی کمیٹی قائم کی تھی جسے تاجروں کے اغوا کے خلاف تحفظ کی حکمت عملی وضع کرنے کا کام سونپا گیا ہے۔ منصوبوں میں ہتھیاروں کی نشاندہی کے بہتر نظام استعمال کرنا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر اغوا کاروں کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے کے لیے زور دینا شامل ہیں۔