جرمنی یورپ کا وہ پہلا ملک بن گیا ہے جس نے نر اور مادہ دونوں طرح کی جنسی خصوصیات کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں کو مخصوص جنس کے طور پر رجسٹر ہونے کی پابندی سے آزاد کر دیا ہے۔
اب جرمنی میں ایسے بچوں کے والدین کو اختیار ہے کہ وہ پیدائش کے سرٹیفیکیٹ پر جنس کا خانے خالی چھوڑ سکتے ہیں۔
اب اس کے لیے’ غیر معین جنس‘ کے نام سے ایک الگ خانہ ہوگا۔
اس اقدام کا مقصد ایسے نو مولود بچوں کے والدین پر بچے کی جنس کا فیصلہ کرنے کے لیے دباؤ کو ختم کرنا ہے۔
جرمنی میں اس وقت کم سے کم دو ہزار لوگ ایسے ہیں جن میں دونوں جنسی خصوصیات ہیں۔
ایسے افراد کو’بین الصنفی‘ لوگ کہا جاتا ہے کیونکہ ان میں مرد اور عورت دونوں کے کروموسومز ہوتے ہیں۔ حتیٰ کے ان کا نظامِ تناسل بھی دونوں جنسوں کی خصوصیات کا
حامل ہوتا ہے۔
برلن میں بی بی سی کے نامہ نگار سٹیو ایونز کا کہنا ہے کہ والدین کے لیے سب سے مشکل بچے کے لیے جنس کا فوری چناؤ ہوتا ہے تاکہ اس کو رجسٹر کروایا جا سکے۔
بعض دفعہ بچے کی کسی ایک جنسی خصوصیت کے تعین کے لیے سرجری کی جاتی ہے۔ جرمنی کے قانون میں یہ تبدیلی بعض ناخوشگوار واقعات کے بعد کی گئی ہے۔
ایک واقعے میں ایک شخص کی سرجری کی گئی جس کے اعضائے تناسل واضح نہیں تھے۔ کئی برس بعد اس نے بتایا ’ میں نہ مرد ہوں اور نہ عورت۔ میں صرف ڈاکٹروں کی ایک پیوند کاری ہوں گا، زخمی اور کھرچا ہوا‘۔
جرمنی کی وزیراتِ داخلہ کا کہنا ہے کہ جرمن پاسپورٹ جس پر اس وقت جنس کے خانے میں مرد کے لیے ’ایم‘ اور عورت کے لیے ’ایف‘ ہے جلد ہی تیسری اصطلاح ’ایکس‘ درج کی جائے گی جو ’بین الصنفی‘ افراد کے لیے ہوگی۔
ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ اس تبدیلی کا جرمنی کے شادی اور پارٹنرشپ قوانین پر کیا اثر پڑےگا۔
فی الوقت جرمنی کے قانون کے مطابق ’شادی‘ ایک مرد اور عورت کے ملن کا نام ہے جبکہ ’سول پارٹنر شپ‘ کو ہم جنس جوڑوں کے لیے مختص کیا گیا ہے۔
No comments:
Post a Comment