پائلٹ کے بغیر اڑنے والا گلوبل ہاک طیارہ تیل کے ایک ٹینک میں آدھی دنیا کے گرد چکر لگا سکتا ہے اور 60 ہزار فٹ بلندی سے کسی شخص کی نگرانی کر سکتا ہے چاہے اس وقت بادل ہی کیوں نہ چھائے ہوئے ہوں۔
اس کا مطلب ہے کہ یہ بین الاقوامی فضائی حدود میں رہتے ہوئے شام کے کیمیائی ہتھیاروں کی نشاندہی کر سکتا ہے یا شمالی کوریا کے جوہری پروگرام کی نگرانی کر سکتا ہے۔
گرینڈ فوکس فوجی اڈے میں ڈرون آپریشنز کے سربراہ کرنل لارنس سپینٹا کے مطابق ہاک 24 گھنٹے روزانہ کی بنیاد پر اعلیٰ
فیصلہ سازوں کو بہت ہی زبردست انٹیلی جنس معلومات فراہم کر سکتا ہے۔ تاہم ان معلومات کے بارے میں تفصیل نہیں بتائی گئی۔
بعض امریکیوں کو اپنے ملک میں جاسوسی کے لیے ڈرون طیاروں کے استعمال پر تشویش ہے۔ امریکہ میں 17 ریاستوں نے ڈرون طیاروں کے استعمال کو محدود کرنے کے بارے میں قانون سازی کی ہے تاہم کم گنجان آباد ریاست شمالی ڈکوٹا کی پالیسی ڈرون طیاروں کے بارے میں نرم ہے اور یونیورسٹی آف نارتھ ڈکوٹا امریکہ کی پہلی درس گاہ ہے جس نے ڈرون طیاروں کو کنٹرول کرنے کا کورس متعارف کرایا ہے۔
گلوبل ہاک ہتھیاروں سے مسلح نہیں ہے لیکن پھر بھی اس کے استعمال پر بہت راز داری برتری جا رہی ہے۔
اس فوجی اڈے پر بہت ہی کم شواہد ہیں کہ امریکی فوج رازداری کو ختم کرنے والی ہے حتیٰ کہ امریکی فضائیہ کے عملے نے اپنی شناخت پوشیدہ رکھنے کے لیے اپنے نام کے بیج بھی ہٹا دیے۔
ہمیں کہا گیا ہے کہ اپنے ریکارڈنگ آلات، کمیرے، موبائل فون ایک طرف رکھ دیں کیونکہ ہمیں وہ جگہ دکھائی جانی تھی جہاں سے گلوبل ہاک طیارے اڑائے جاتے ہیں۔ باہر سے یہ کسی کنٹینر کی طرح دکھائی دیتی ہے لیکن اندر سے یہ بڑی سکرینز نصب تھیں لیکن ہماری آمد پر ان سکرینز کو بند کر دیا گیا۔
اس آپریشنل روم کے باہر ایک آہنی دروازہ تھا اور اس میں کوڈ کے اندراج کے بعد اندر جا سکتے ہیں۔
تاہم ہمیں ایک مشن کو دیکھنے کی اجازت دی گئی جو ایک پائلٹ اپنے ڈیسک سے سرانجام دے رہا تھا۔
وہاں موجود پائلٹس میں سے ایک نے تسلیم کیا کہ یہاں بیٹھ کر آپ ایسا محسوس نہیں کر سکتے جیسا کہ ایک جہاز میں بیٹھا ہوا پائلٹ کرتا ہے لیکن یہاں بیٹھنے کے دیگر فائدے ہیں۔
فضائی عملے کی اس بارے میں رائے مثبت تھی کہ وہ گھر میں رہنے کی سہولت یا خاندان کو اپنے پیچھے چھوڑے بغیر دنیا میں کسی بھی جگہ سے کوئی مشن اڑا سکتے ہیں۔تاہم اگر کسی پائلٹ کی اپنے مشن پر پوری توجہ ہوتی ہے لیکن پھر بھی وہ کسی حد تک اس سے اپنے آپ کو الگ محسوس کرتے ہیں
نیٹو کے ممبر ممالک ایک ارب ستر کروڑ ڈالر مالیت کے پانچ گلوبل ہاک طیارے خرید رہے ہیں جو دو ہزار سترہ میں یہ امریکہ سے پرواز کرتے ہوئے اٹلی کے جزیرے سسلی پہنچیں گے جہاں ان کو سمندری نگرانی اور زمین پر موجود فوجیوں کی مدد کے لیے استعمال کیا جا سکے گا۔
ڈرون تیار کرنے والے چاہتے ہیں کہ وہ ان خصوصیات کو اجاگر کریں کہ ان ڈرون طیاروں کو میدان جنگ کے علاوہ بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
گلوبل ہاک پروگرام کو چلانے میں مدد فراہم کرنے والے بوب زویسر کے مطابق یہ ڈرون قدرتی آفات کے بعد کے حالات سے نمٹنے میں استعمال ہوا ہے۔
سال دو ہزار دس میں ہیٹی میں آنے والے زلزلے کے بعد ایک طیارے نے علاقے میں نقصان کا جائزہ لیتے ہوئے امدادی سرگرمیوں کی رہنمائی کی تھی۔
’یہ کیلی فورنیا سے پرواز کرتے ہوئے واپس آنے سے پہلے اس ملک کا تین بار جائزہ لینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ابھی حال ہی میں ایک گلوبل ہاک جاپان کے زلزلے اور سونامی سے متاثرہ جوہری بجلی گھر فوکوشیما کا جائزہ لینے کے لیے استعمال کیا گیا‘۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ابھی عوام میں ان ڈرون طیاروں کے استعمال کی حمایت حاصل کرنے کے حوالے سے چیلنجنز درپیش ہیں تاہم ان کے بارے میں منفی رائے پر اس طرح سے قابو پایا جا سکتا ہے کہ لوگوں کو دکھایا جائے کہ ڈرون طیارے محفوظ ہیں اور لوگوں کو نقصان پہنچائے بغیر اچھے کاموں میں استعمال ہو سکتے ہیں۔
تاہم اس بارے میں اب بھی بہت سارے سوالات موجود ہیں کہ ڈرون طیارے کس طرح سے شہری فضائی حدود میں محفوظ طریقے سے کام کر سکتے ہیں اور ہمارے جیسے لوگ کیا محسوس کریں گے کہ آسمان سے ایک نا جھپکنے والی آنکھ آپ کو دیکھ رہی ہے۔
No comments:
Post a Comment