امریکہ کے شہری اس بات سے تو آشنا ہیں کے عراق میں کچھ انتہا پسند بغداد پر قبضہ کرنا چاہ رہے ہیں۔ لیکن عراق میں ہونے والی انتہا پسند کاروائیوں کے پیچھے کون ہے۔ اس کا کسی کو اندازہ بھی نہیں۔
دنیا کے کسی بھی ملک میں جو چاہے ہو جائے۔ کسی بھی ملک پر جو مرضی قبضہ کرلے۔ امریکیوں کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ امریکیوں کو صرف اتنا غرض ہے کہ ان کی متعلقہ کاؤنٹی حکومت عوام کے لئے کیا کر رہی ہے۔ امریکیوں کو اس بات کا بھی بے حد علم ہے کے اس ہفتے کے اختتام پر کن دو ٹیموں کے مابین باسکٹ بال کا میچ ہے اور اس ہفتے موسم کتنا سخت رہے گا۔
کچھ دن امریکہ میں گزارنے کے بعد مجھے یہ احساس ہوا ہے کہ امریکی اس بات کو بالکل بھی اہمیت نہیں دیتے کے اِن کے ملک کی حکومت دنیا میں رونما ہوالی تبدیلیوں کے بارے میں کیا اقدامات اٹھا رہی ہے۔
امریکیوں کو اس بات سے ہر گز بھی سروکار نہیں کہ عراق میں آئی ایس آئی ایس نامی انتہا پسند تنظیم نے قبضہ شدہ علاقوں میں اسلامی خلافت کا اعلان کردیا ہے۔ اکثریت کو تو یہ تک بھی پتہ نہیں کہ امریکہ عراق میں مزید فوجی بھجوا رہا ہے۔
لنکاسٹر کے ایک مقامی چینل میں کام کرنے والے ایگزیکٹو پروڈیوسر سے جب میں نے پوچھا کے امریکہ کو کیا ضرورت ہے کے وہ عراق میں ہونے والی انتہا پسند کاروائیوں کو روکنے کے لئے اپنے فوجی دستے بھیجے۔ جواب میں اِس چینل کے اعلیٰ افسر نے آسانی سے کہہ دیا کے مجھے اس بارے میں کوئی معلومات نہیں۔
اس کا یہ جواب سن کر میں یہ سمجھنے میں کامیاب ہوا کے یہاں کے لوگ اپنے آپ کو حکومت کی جانب سے کئے گئے اقدامات سے بالکل علیحدہ سمجھتے ہیں۔ ان کو اس بات کا تو افسوس ہے کہ امریکہ پاکستان میں ڈرون حملوں کے ذریعے لوگوں کو مار رہا ہے۔ مگر ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ ہو سکتا ہے امریکی حکومت کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی حل ہی نا ہو۔
جب میں نے مقامی چینل کے افسر سے یہ پوچھا کے افغانستان سے انہوں نے کیا سبق سیکھا ہے تو ان کا یہ جواب تھا کے امریکہ کے پاس افغانستان پر حملے کے علاوہ کوئی اور حل ہی نہیں تھا۔ اگر القاعدہ ایک مرتبہ امریکہ پر حملہ کر سکتی ہے تو دوبارہ بھی کر سکتی ہے۔ جس کی انہوں نے بے حد کوششیں بھی کی ہیں۔
میرا اگلا سوال تھا کے افغانستان سے انخلا کے بعد کیا امریکہ کو درپیش سیکیورٹی تحفظات ختم ہو جائیں گے؟
جواب میں چینل کے پروگراموں کے ہیڈ نے جواب دیا کے امریکہ پہلے ہی اس جنگ پر بہت پیسہ ضائع کر چکا ہے اور اب ہمارے مالی حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے کے ہم اس جنگ کو مزید لڑیں۔ ویسے ابھی یہ فیصلہ نہیں ہوا کے امریکہ نے اپنی تمام افواج وہاں سے نکالنی ہیں یا کچھ رکھنی ہیں۔ اور ابھی تو نئے منتخب ہونے والے افغان صدر کے ساتھ سیکیورٹی معاہدے پر بھی معاملات چل رہیں ہیں۔
دفتر میں اپنا مقررہ وقت مکمل ہونے کے بعد جب میں ریسٹورنٹ پہنچا تو حلال ریسٹونٹ میں بیٹھے ایک گورے صاحب سے میں نے پوچھا کہ آپ حلال ریسٹورنٹ میں کھانا کیوں کھا رہے ہیں؟
ان کا جواب تھا کہ مجھے حلال حرام سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میں تو اس ریسٹورنٹ میں کھانے اس لئے آتا ہوں کیونکہ یہاں کے کھانے چٹ پٹے ہوتے ہیں۔
پھر میں نے پوچھا کہ کیا آپ واقعی سمجھتے ہیں کے نائن الیون کے پیچھے القاعدہ نہیں بلکہ کوئی اور ہو سکتا ہے؟
ساٹھ سالہ چٹورے امریکی کا جواب تھا کہ ہمیں بعض اوقات حالات اس بارے میں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ہم یہ بھی سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کوئی افغانستان سے اٹھ کر کیسے امریکہ کے سب سے مصروف ترین شہر پر حملہ کر سکتا ہے۔ لیکن جو کچھ ہم نے میڈیا پر دیکھا اور جو کچھ ہماری حکومت کی جانب سے بتایا گیا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کے ان حملوں کے پیچھے القاعدہ ہی تھا۔
میں نے اگلا سوال کیا کہ کیا وجہ ہے کے امریکی حکومت نے اسامہ بن لادن کو مارنے کے بعد کسی بھی قسم کی کوئی ویڈیو یا تصاویر نشر نہیں کیں۔ کیا ایسا کرنے سے امریکی حکومت کے اس دعوے پر سوالات نہیں اٹھتے؟
ہاتھ میں مرغی کی ٹانگ تھامےامریکی نے جواب دیا کے ہاں اس قسم کے شک وشہبات پیدا ہو رہے ہیں۔ مگر اگر ہماری حکومت دعویٰ کر رہی ہے تو اس نے اسامہ کو مارا ہی ہوگا۔ جیسا کہ امریکی حکومت کا ماننا ہے کہ اگر ہم ایسی کوئی تصاویر شائع کرتے ہیں تو اس سے مسلمانوں میں بدلہ لینے کا جذبہ بھڑک سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کے ان کے تحفظات ٹھیک ہوں۔
میں نے اگلا سوال کیا کہ آپ کو نہیں لگتا کے امریکہ پاکستان کے ساتھ زیادتی کر رہا ہے۔ جبکہ پاکستان امریکہ کی اس جنگ میں پاکستان بےحد نقصان برداشت کر رہا ہے؟
زیادہ مرچیں ہونے کے سبب پیپسی پیتے ہوئے امریکی نے جواب دیا کے ہم یہ مانتے ہیں کے امریکیوں کو ڈرون حملے بند کر دینے چاہیئں۔ مگر پاکستان کی حکومت کو بھی چاہیے کے وہ اب بین الاقوامی حالات کو سمجھے اور اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرے۔ کب تک پاکستان امریکہ سے امداد لے کر ملک چلاتا رہیگا۔
ساٹھ سالہ چٹورے گورے کی یہ بات سن کر میرے دل میں فوراً خیال آیا کے ہمارے سیاستدان انتخابات سے قبل تو کشکول توڑنے کے بڑے دعوے کرتے ہیں۔ مگر منتخب ہوتے ساتھ ہی کشکول توڑنے کی بجائے کشکول کا سائز بڑا کر دیتے ہیں اور تو اور قرضے یا امداد کی قسط ملنے وزیر خزانہ کی جانب سے سینہ تان کر اعلان بھی کیا جاتا ہے۔ جیسے کے انہوں نے بہت بڑا تیر مارا ہو۔
خیر اتنے سوالات کے بعد میں نے مناسب نہیں سمجھا کے میں گورے سے مزید سوالات کر کے اس کے کھانے کا مزہ کِرکرا کروں۔ لہزٰا میں نے اپنے بائیں ہاتھ میں لیگ پیس اور دائیں ہاتھ میں زینگر جکڑا اور بھول گیا کے میرے سامنے کون بیٹھا ہے۔
دنیا کے کسی بھی ملک میں جو چاہے ہو جائے۔ کسی بھی ملک پر جو مرضی قبضہ کرلے۔ امریکیوں کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ امریکیوں کو صرف اتنا غرض ہے کہ ان کی متعلقہ کاؤنٹی حکومت عوام کے لئے کیا کر رہی ہے۔ امریکیوں کو اس بات کا بھی بے حد علم ہے کے اس ہفتے کے اختتام پر کن دو ٹیموں کے مابین باسکٹ بال کا میچ ہے اور اس ہفتے موسم کتنا سخت رہے گا۔
کچھ دن امریکہ میں گزارنے کے بعد مجھے یہ احساس ہوا ہے کہ امریکی اس بات کو بالکل بھی اہمیت نہیں دیتے کے اِن کے ملک کی حکومت دنیا میں رونما ہوالی تبدیلیوں کے بارے میں کیا اقدامات اٹھا رہی ہے۔
امریکیوں کو اس بات سے ہر گز بھی سروکار نہیں کہ عراق میں آئی ایس آئی ایس نامی انتہا پسند تنظیم نے قبضہ شدہ علاقوں میں اسلامی خلافت کا اعلان کردیا ہے۔ اکثریت کو تو یہ تک بھی پتہ نہیں کہ امریکہ عراق میں مزید فوجی بھجوا رہا ہے۔
لنکاسٹر کے ایک مقامی چینل میں کام کرنے والے ایگزیکٹو پروڈیوسر سے جب میں نے پوچھا کے امریکہ کو کیا ضرورت ہے کے وہ عراق میں ہونے والی انتہا پسند کاروائیوں کو روکنے کے لئے اپنے فوجی دستے بھیجے۔ جواب میں اِس چینل کے اعلیٰ افسر نے آسانی سے کہہ دیا کے مجھے اس بارے میں کوئی معلومات نہیں۔
اس کا یہ جواب سن کر میں یہ سمجھنے میں کامیاب ہوا کے یہاں کے لوگ اپنے آپ کو حکومت کی جانب سے کئے گئے اقدامات سے بالکل علیحدہ سمجھتے ہیں۔ ان کو اس بات کا تو افسوس ہے کہ امریکہ پاکستان میں ڈرون حملوں کے ذریعے لوگوں کو مار رہا ہے۔ مگر ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ ہو سکتا ہے امریکی حکومت کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی حل ہی نا ہو۔
جب میں نے مقامی چینل کے افسر سے یہ پوچھا کے افغانستان سے انہوں نے کیا سبق سیکھا ہے تو ان کا یہ جواب تھا کے امریکہ کے پاس افغانستان پر حملے کے علاوہ کوئی اور حل ہی نہیں تھا۔ اگر القاعدہ ایک مرتبہ امریکہ پر حملہ کر سکتی ہے تو دوبارہ بھی کر سکتی ہے۔ جس کی انہوں نے بے حد کوششیں بھی کی ہیں۔
میرا اگلا سوال تھا کے افغانستان سے انخلا کے بعد کیا امریکہ کو درپیش سیکیورٹی تحفظات ختم ہو جائیں گے؟
جواب میں چینل کے پروگراموں کے ہیڈ نے جواب دیا کے امریکہ پہلے ہی اس جنگ پر بہت پیسہ ضائع کر چکا ہے اور اب ہمارے مالی حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے کے ہم اس جنگ کو مزید لڑیں۔ ویسے ابھی یہ فیصلہ نہیں ہوا کے امریکہ نے اپنی تمام افواج وہاں سے نکالنی ہیں یا کچھ رکھنی ہیں۔ اور ابھی تو نئے منتخب ہونے والے افغان صدر کے ساتھ سیکیورٹی معاہدے پر بھی معاملات چل رہیں ہیں۔
دفتر میں اپنا مقررہ وقت مکمل ہونے کے بعد جب میں ریسٹورنٹ پہنچا تو حلال ریسٹونٹ میں بیٹھے ایک گورے صاحب سے میں نے پوچھا کہ آپ حلال ریسٹورنٹ میں کھانا کیوں کھا رہے ہیں؟
ان کا جواب تھا کہ مجھے حلال حرام سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میں تو اس ریسٹورنٹ میں کھانے اس لئے آتا ہوں کیونکہ یہاں کے کھانے چٹ پٹے ہوتے ہیں۔
پھر میں نے پوچھا کہ کیا آپ واقعی سمجھتے ہیں کے نائن الیون کے پیچھے القاعدہ نہیں بلکہ کوئی اور ہو سکتا ہے؟
ساٹھ سالہ چٹورے امریکی کا جواب تھا کہ ہمیں بعض اوقات حالات اس بارے میں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ہم یہ بھی سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کوئی افغانستان سے اٹھ کر کیسے امریکہ کے سب سے مصروف ترین شہر پر حملہ کر سکتا ہے۔ لیکن جو کچھ ہم نے میڈیا پر دیکھا اور جو کچھ ہماری حکومت کی جانب سے بتایا گیا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کے ان حملوں کے پیچھے القاعدہ ہی تھا۔
میں نے اگلا سوال کیا کہ کیا وجہ ہے کے امریکی حکومت نے اسامہ بن لادن کو مارنے کے بعد کسی بھی قسم کی کوئی ویڈیو یا تصاویر نشر نہیں کیں۔ کیا ایسا کرنے سے امریکی حکومت کے اس دعوے پر سوالات نہیں اٹھتے؟
ہاتھ میں مرغی کی ٹانگ تھامےامریکی نے جواب دیا کے ہاں اس قسم کے شک وشہبات پیدا ہو رہے ہیں۔ مگر اگر ہماری حکومت دعویٰ کر رہی ہے تو اس نے اسامہ کو مارا ہی ہوگا۔ جیسا کہ امریکی حکومت کا ماننا ہے کہ اگر ہم ایسی کوئی تصاویر شائع کرتے ہیں تو اس سے مسلمانوں میں بدلہ لینے کا جذبہ بھڑک سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کے ان کے تحفظات ٹھیک ہوں۔
میں نے اگلا سوال کیا کہ آپ کو نہیں لگتا کے امریکہ پاکستان کے ساتھ زیادتی کر رہا ہے۔ جبکہ پاکستان امریکہ کی اس جنگ میں پاکستان بےحد نقصان برداشت کر رہا ہے؟
زیادہ مرچیں ہونے کے سبب پیپسی پیتے ہوئے امریکی نے جواب دیا کے ہم یہ مانتے ہیں کے امریکیوں کو ڈرون حملے بند کر دینے چاہیئں۔ مگر پاکستان کی حکومت کو بھی چاہیے کے وہ اب بین الاقوامی حالات کو سمجھے اور اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرے۔ کب تک پاکستان امریکہ سے امداد لے کر ملک چلاتا رہیگا۔
ساٹھ سالہ چٹورے گورے کی یہ بات سن کر میرے دل میں فوراً خیال آیا کے ہمارے سیاستدان انتخابات سے قبل تو کشکول توڑنے کے بڑے دعوے کرتے ہیں۔ مگر منتخب ہوتے ساتھ ہی کشکول توڑنے کی بجائے کشکول کا سائز بڑا کر دیتے ہیں اور تو اور قرضے یا امداد کی قسط ملنے وزیر خزانہ کی جانب سے سینہ تان کر اعلان بھی کیا جاتا ہے۔ جیسے کے انہوں نے بہت بڑا تیر مارا ہو۔
خیر اتنے سوالات کے بعد میں نے مناسب نہیں سمجھا کے میں گورے سے مزید سوالات کر کے اس کے کھانے کا مزہ کِرکرا کروں۔ لہزٰا میں نے اپنے بائیں ہاتھ میں لیگ پیس اور دائیں ہاتھ میں زینگر جکڑا اور بھول گیا کے میرے سامنے کون بیٹھا ہے۔