اسلام آباد میں اگست کے گرم موسم سے تحریک انصاف کا سیاسی پڑاؤ جاری ہے لیکن جیسے جیسے دارالحکومت کا موسم سرد ہونا شروع ہوا تو احتجاجی دھرنا بھی لوگوں کی تعداد کے حوالے سے ٹھنڈا پڑنا شروع ہو گیا۔
لیکن اب 30 نومبر کے جلسے نے اس دھرنے کی رونق بحال کر دی ہے کیونکہ جلسے میں جتنے بھی لوگوں سے بات کرنے کا اتفاق ہوا وہ تمام ڈی چوک کے دھرنے میں میں متعدد بار شرکت کر چکے تھے اور ان میں سے سے بعض شروعات میں روزانہ یہاں حاضری دیتے تھے لیکن پھر ان میں وقفہ کرنا شروع کر دیا۔
ان میں فہد بھی شامل تھے جو کہ اسلام آباد کے رہائشی ہیں اور تحریک انصاف کے دھرنے میں باقدگی سے شرکت کرتے تھے لیکن اب ویک
اینڈ پر کبھی کبھار اپنے خاندان کے ساتھ ڈی چوک کا رخ کرتے ہیں۔
فہد کو 30 نومبر کے جلسے کی کسی خاص اہمیت کا اندازہ تو نہیں تھا لیکن صرف یہ کہا’ آج ویک اینڈ ہے اور وہ اپنے اہلخانہ کے ساتھ یہاں عمران خان کو سننے آئے ہیں۔‘
ماہا اسلام آباد کے قریب واقع شہر ٹیکسلا سے اپنے خاندان کے ساتھ جلسے میں شرکت کے لیے آئی تھیں۔
ماہا کے مطابق وہ پانچ بار پہلے بھی ڈی چوک کے دھرنے میں شرکت کی چکی ہیں۔
فہد کے مقابلے میں ماہا 30 نومبر کے جلسے کی بارے میں زیادہ آگاہی رکھتی تھیں کہ آج ان کے رہنما عمران خان ’ پلان سی‘ کا اعلان کریں گے۔
ماہا کے مطابق عمران خان کی تحریک کامیاب ہوئی ہے کیونکہ لوگوں میں شعور آیا ہے اور ایک نیا پاکستان بنے گا۔
تو کیا نئے پاکستان میں عمران خان کے ساتھ پرانے چہرے انھیں قبول ہوں گے تو اس پر ماہا نے کہا کہ وہ عمران خان کی مشروط حمایت کر رہی ہیں کیونکہ آزمائی ہوئی سیاسی شخصیات انھیں قبول نہیں ہیں۔
’ کل کو عمران خان اقتدار میں آتے ہیں تو ان چہروں کو ہٹانے کے لیے بھی ایک نئی تحریک شروع ہو سکتی ہے کیونکہ عوام میں شعور آ چکا ہے۔‘
جلسے میں اہلخانہ کے ساتھ شرکت کرنے والے شبیر احمد کا تعلق تو کراچی سے ہے لیکن گذشتہ پندرہ سال سے اسلام آباد میں رہائش پذیر ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ عمران خان سے پہلے وہ متحدہ قومی موومنٹ کو ووٹ دیا کرتے تھے اور ان کے خیال میں ایم کیو ایم اور تحریک انصاف میں کوئی فرق نہیں کیونکہ دونوں ایک جیسی بات کرتے ہیں۔
جلسے کے شرکا سے سکیورٹی اور 31 اگست کے پرتشدد واقعے کے بارے میں پوچھا گیا تو وہ کافی حد تک مطمئن نظر آئے کہ تشدد کا کوئی واقعہ پیش نہیں آئے گا۔
شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی ماضی کے برعکس آج کے جلسے میں پولیس اہلکاروں کی تعداد بہت کم تھی اور ان کی جگہ ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کی تعداد زیادہ تھی جو کہ ٹریفک کو رواں رکھنے اور شرکا کو پارکنگ کا راستہ دکھاتے نظر آئے۔
جلسہ گاہ میں داخل ہونے والے نوجوانوں کی ایک ٹولی میں سے نے دوسرے سے کہا کہ’یار جیسا سنا تھا ویسا تو کچھ نہیں، لگتا ہے کہ یہ تو فرینڈلی جلسہ ہے۔
No comments:
Post a Comment