پاکستان کے شہر لاہور کی بادشاہی مسجد کے باہر اگر آپ کو مصنفہ اروندھتی رائے اور آرٹسٹ انیش کپور چائے کی پیالی پر انسانی حقوق کی باریکیوں کا جائزہ لیتے ہوئے نظر آئیں، اگر مظفرآباد میں جموں کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ شامیں گزار رہے ہوں اور انھیں گھر لوٹنے کی کوئی جلدی نہ ہو، اگر لالی وڈ کے پروڈیوسروں کے گھروں کے باہر ہندی فلموں کے بڑے ستارے قطار لگا کر کھڑے ہوں، تو پریشان مت ہوئیےگا کیونکہ بِہار میں بی جے پی کے لیڈر گری راج سنگھ نے کہا ہے کہ جو لوگ نریندر مودی کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں، انھیں پاکستان جانا ہوگا۔
بس مسئلہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں کی فہرست بھی ذرا لمبی ہے۔ اگر 80 کروڑ ووٹروں میں سے 40 فیصد مودی کا ساتھ دیتے ہیں تب بھی ایسے 50 کروڑ باقی رہ جائیں گے جو یا تو ان کے خلاف ہیں یا کم سے کم ان کے ساتھ نہیں ہیں۔
مکیش امبانی اور ٹاٹا جیسے بڑے صنعت کار تو نہیں جائیں گے لیکن اسلام آْباد میں آپ کی سونیا گاندھی اور راہل گاندھی سے مڈبھیڑ ہو سکتی ہے، لالو پرساد یادو بھی ضرور ملیں گے اور ہندوستانی سیاست کے نئے سپر