پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف سے منسوب ایک بیان میں کہاگیا ہے کہ پیمرا کی طرف سے جیو نیوز کو دی جانے والی سزا نہ ناکافی ہے اور وہ اس سزا کو بڑھانے کے لیے عدالت سے رجوع کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔
ہفتے کو ریڈیو پاکستان کی ویب سائٹ پر صرف تین سطروں پر مشتمل انتہائی مختصر خبر میں کہا گیا کہ وزیر دفاع نے جیو کو پیمرا کی طرف سے دی جانے والی سزا پر عدم اطمیان کا اظہار کیا ہے
اس بیان کی تیسری اور آخری سطر میں کہا گیا کہ وزارتِ دفاع آئی ایس آئی کا عدالتوں میں بھر پور دفاع کرے گی۔
یاد رہے کہ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولٹری اتھارٹی نے نجی ٹی وی چینل کی طرف سے آئی ایس آئی اور اس کے سربراہ پر الزام تراشی کے جرم پر جیو نیوز کی نشریات کو پندرہ دن معطل رکھنے اور ایک کروڑ روپے جرمانہ عائد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
جیو نیوز کے خلاف آئی ایس آئی کی شکایت بھی پیمرا کو وزیر دفاغ خواجہ آصف کے ہی دستخطوں سے موصول ہوئی تھی۔
جیوا کے خلاف خواجہ آصف کی طرف سے پیمرا کو بھیجے جانے والی شکایت کے
بعد سے اب تک خواجہ آصف نے اس ضمن میں کسی نشریاتی ادارے کو کوئی بیان نہیں دیا ہے اور ہفتے کو جاری ہونے والا ان کا اس بارے میں یہ پہلا بیان تھا۔
یہ انتہائی مختصر ترین بیان بھی مقامی اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ کو وزارت دفاع کے اہلکار خود فون کر کے بتاتے رہے یا یہ سرکاری ذرائع ابلاغ سے نشر کیا گیا۔
قبل ازیں خواجہ آصف کی شکایت پر پیمرا کے پانچ آزاد ارکان نے عمل کرتے ہوئے جنگ گروپ کے تین چینلوں کے لائسنس معطل اور ان کے دفاتر کو سیل کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس سے پیمرا کے حکومتی ارکان نے لا تعلقی کا اظہار کرتے ہوئے رد کر دیا تھا۔
پیمرا کے رکن اسرار عباسی سابق پولیس آفسر پرویز راٹھور کو پیمرا کا چیئرمین مقرر کرنے کے حکومتی فیصلے کو پہلے ہی ہائی کورٹ میں چینلج کر چکے ہیں۔
جیو کی انتظامیہ اس دوران یہ شکایت کرتی رہی ہے کہ پیمرا کے آزاد ارکان کی طرف سے فیصلہ سنائے جانے کے بعد پاکستان کے مختلف شہروں میں کیبل آپریٹروں نے جیو کی نشریات بند کر دی تھیں۔
وزارتِ دفاع نے وزیر دفاع خواجہ آصف کی جانب سے پیمرا آرڈیننس سنہ 2002 سیکشن 33 اور 36 کے تحت پیمرا حکام کو جو درخواست دی تھی اس میں جیو کی ادارتی ٹیم اور انتظامیہ کے خلاف مقدمات شروع کیے جانے کی استدعا بھی کی تھی۔
وزارت دفاع نے موقف اختیار کیا تھا کہ ریاست کے ایک ادارے کے خلاف توہین آمیز مواد چلایا گیا ہے جو کہ نہیں چلایا جانا چاہیے تھا۔
No comments:
Post a Comment