Friday 6 June 2014

’اس نام کا تو کوئی مریض یہاں نہیں‘



شمال مغربی لندن کے ویلنگٹن ہسپتال اور پاکستانی سیاستدانوں کا تعلق نیا نہیں اور ملک کے کئی نامور سیاستدان یہاں زیرِ علاج رہ چکے ہیں اور تقریباً ڈھائی برس قبل جنوری کی ایک خنک شام میں یہیں حروں کے روحانی پیشوا پیر صاحب پگاڑا نے اپنی آخری سانسیں لی تھیں۔
ان کے انتقال کی کوریج کے بعد پہلی مرتبہ جمعرات کو یہاں کا رخ کرنے کا موقع ملا تو وجہ یہاں زیرِ علاج ایم کیوایم کے زیر حراست قائد الطاف حسین تھے۔
مدیر اعلی کی ہدایت پر کاغذ قلم تھامے یہ سوچتا ہوا وہاں پہنچا کہ شاید ان کی عیادت کا موقع مل جائے لیکن ایم کیو ایم کے رہنما واسع جلیل کی اس اطلاع نے ذرا مایوس کر دیا کہ ایسا ممکن نہیں اور بابر غوری کی قیادت میں ہسپتال پہنچنے والے پارٹی کے قائدین کو بھی باہر سے ہی واپس کیا جا چکا ہے۔
ویسے تو یہ ہسپتال چار مختلف عمارتوں پر مشتمل ہے لیکن پولیس کے چوکس نوجوانوں کو ہسپتال کی شمالی عمارت میں داخل ہونے والے افراد کوگھورنے پر مامور دیکھ کر اندازہ ہو گیا کہ ایم کیو ایم کے قائد یہیں زیرِ علاج ہیں۔
اب اندر کیسے داخل ہوا جائے، یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اندر سے ویل چیئر پر باہر آتے ایک مریض پر نظر پڑی جس نے باہر نکلتے ہی سگریٹ سلگائی۔ غنیمت جان کر میں بھی سگریٹ ہاتھ میں تھامے اس کے قریب گیا تو اس نے خود ہی لائٹر پیش کر دیا۔
کویت کے متمول خاندان سے تعلق رکھنے والا یہ شخص سابق پاکستانی وزیراعظم بےنظیر کا شیدائی نکلا اور اس کی کافی کی پیشکش میرے لیے داخلے کا ٹکٹ بن گئی۔
کافی پر بات چلی تو میرے میزبان نے یہ راز آشکار کیا کہ اس ہسپتال میں ’کمرے کی فیس ڈیڑھ سے دو ہزار پاؤنڈ روزانہ کے لگ بھگ ہے اور کنسلٹنٹ اتنا ہی مہنگا ہوتا ہے جتنی آپ کی بیماری شدید ہو۔‘
ہسپتال کے باہر پولیس کی نفری تعینات دکھائی دی
خیر میزبان سے اجازت لے کر سیدھا استقبالیہ پر یہ خیال لیے پہنچا کہ شاید ہسپتال کے اندر سے آتے دیکھ کر انتظامیہ میرے سوالات کا جواب دے ہی دے گی۔
لیکن جیسے ہی
الطاف حسین کی عیادت کی خواہش سے آگاہ کیا تو سب کے کان کھڑے ہوگئے۔ جواب ملا اس نام کا کوئی مریض یہاں نہیں۔
لیکن آج صبح ہی تو حکومت پاکستان کے نمائندے نے یہیں ان کی عیادت کر کے میڈیا کو آگاہ کیا تھا؟
اس سوال کا جواب ملنے سے پہلے ہی دروازے سے مجھے گھورتے سکاٹ لینڈ یارڈ کے دو جوانوں کی سوال کرتی نظروں پر نظر پڑ گئی۔ اس سے پہلے کہ ان کا سوال نظر سے زبان تک آتا میں نے چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے انہیں خود بتایا کہ میں صحافی ہوں۔
اس پر بھی سوال ہوا ’آپ اندر کس لیے آئے؟‘ جس سے اندازہ ہوا کہ الطاف حسین کی عیادت کی خواہش سے صرف استقبالیہ پر موجود افراد کے ہی نہیں بلکہ باہر کھڑے اہلکاروں کے کان بھی کھڑے ہوگئے تھے۔
جب انہیں اندازہ ہوا کہ میں واقعی صحافی ہوں تو ایک پولیس اہلکار نے مسکرا کر کہا یہاں کسی کو کچھ پتا نہیں۔
اس پر ان سے کہا کہ وہ بس خود ہی وہ بتا دیں جو بتا سکتے ہیں تو جواب ملا ’اتنا پتہ ہے کہ صبح سے یہاں ڈیوٹی دے رہا ہوں اور رات گیارہ تک ادھر ہی ہوں۔‘

اور اس کے بعد بھی کیا کوئی اور ہو گا ؟ جواب ملا جی بالکل، میرے اور چاق و چوبند ساتھی۔

No comments:

Geo News English

Blogger Tricks

Power Rangers video

Adi Shankar Presents a Mighty Morphin' Power Rangers Bootleg Film By Joseph Kahn.

To Learn More About Why This Bootleg Exists Click Here: http://tinyurl.com/mw9qd79