مصر میں خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے بڑھتے ہوئے واقعات پر قابو پانے کے لیے نئے قوانین متعارف کرائے گئے ہیں۔
ملک کے سبکدوش ہونے والے نگران صدر عدلی منصور نے ایک نیا حکم نامہ جاری کیا ہے جس کے تحت جنسی ہراس ایک جرم ہے جس کی سزا پانچ سال قید تک ہو سکتی ہے۔
ابھی تک مصر میں جنسی ہراس کی قانونی طور پر کوئی تعریف نہیں کی گئی تھی۔
اقوامِ متحدہ کی طرف سے سنہ 2013 میں کی گئی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ دس میں سے نو مصری خواتین کو کسی نہ کسی شکل میں جنسی ہراس کا سامنا کرنا پڑا جس میں معمولی جنسی ہراس سے لے کر ریپ تک کے واقعات شامل ہیں۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں نے
مصر میں جنسی ہراس کے واقعات میں اضافے کو ’خوفناک‘ قرار دیا ہے۔
سابق صدر حسنی مبارک کا سنہ 2011 میں اقتدار سے علحیدگی کے بعد جنسی ہراس کے واقعات میں بہت اضافہ ہوا ہے۔
نئے قوانین کے تحت جنسی ہراس میں ملوث افراد کو چھ ماہ سے لے کر پانچ سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ اس میں بڑے لمبے عرصے کی سزا اس شخص کو دی سکتی ہے جو متاثرہ فرد پر طاقت اور اختیارات کے لحاظ سے حاوی ہو جیسا کہ وہ شخص متاثرہ فرد کا نوکری میں سپروائزر ہو یا اس کے ہاتھ میں ہتھیار ہو۔
صدارتی ترجمان ایحاب بداوی نے کہا کہ اس حکم نامے میں اس فرد کو جنسی طور پر ہراساں کرنے والا بیان کیا گیا ہے جو ’جنسی طرز کی خواہش پوری کرنا چاہتا ہو۔‘
انھوں نے کہا کہ ایسا جرم دوسری بار کرنے والوں کی سزائیں دگنی کر دی جائیں گی۔
نئے قوانین کے تحت ملزمان کو جیل کے علاوہ پانچ ہزار مصری پاؤنڈ یا 714 امریکی ڈالر تک کا جرمانہ بھی ہو سکتا ہے۔
تاہم ’میں نے جنسی ہراس دیکھا‘ مہم کے بانی فاتحی فرید کا کہنا ہے کہ نئے قوانین کسی کام کے نہیں کیونکہ اس میں ججوں کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ جیل اور جرمانے میں کوئی ایک سزا منتخب کریں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہجوم کی طرف سے جنسی حملوں کے لیے ان قوانین کے تحت تجویز کی گئی سزائیں ناکافی ہیں۔
No comments:
Post a Comment