20
ہزار لاشوں کا پوسٹ مارٹم کرنے والی ڈاکٹر کی یادیں جو کسی سنسنی خیز ناول سے کم نہیں
،تصویر کا کیپشنڈاکٹر شرلی واسو 2016 میں کیرالہ کے وزیر اعلیٰ سے ایوارڈ وصول کرتے ہوئے
انتباہ: اس مضمون میں لاشوں اور پوسٹ مارٹم کی تفصیلات دی گئی ہیں۔
جو کام ڈاکٹر شرلی واسو کرتی ہیں اُس کے لیے انھیں متعدد ایوارڈز مل چکے ہیں لیکن اُن کے اہلخانہ اُن کے اِس کام کی تفصیلات کے بارے میں بہت زیادہ جاننے سے ڈرتے ہیں۔
گذشتہ تین دہائیوں کے دوران ڈاکٹر واسو نے ایسے افراد کی لاشوں کا معائنہ کیا ہے جو اچانک، تشدد کا شکار ہو کر یا مشتبہ انداز میں مارے گئے تھے۔
ڈاکٹر واسو انڈیا میں تین کروڑ 30 لاکھ آبادی والی ریاست کیرالہ کی پہلی خاتون فرانزک پیتھالوجسٹ ہیں۔
ریاست کیرالہ میں یہ بات خاص طور پر غیرمعمولی ہے کیونکہ یہاں خواتین اکثر شمشان گھاٹ پر جانے سے بھی گریز کرتی ہیں۔
لگ بھگ 30 برسوں کے دوران ڈاکٹر واسو نے تقریباً 20 ہزار پوسٹ مارٹم کیے ہیں جن میں جنین (پیٹ میں موجوہ بچہ جو ابھی پیدا نہیں ہوا ہوتا) سے لے کر 100 سال کے بوڑھوں تک سب شامل تھے یعنی انھوں نے زندگی کے ہر مرحلے یا ہر عمر کے فرد کی موت دیکھی ہے۔
لیکن 68 سالہ ڈاکٹر واسو کی گذشتہ تین دہائیوں کی بہت سی یادیں طبی نصابی کتب سے زیادہ کرائم تھرلر ناول کے لیے زیادہ مناسب ہیں۔
ڈاکٹر واسو
،تصویر کا کیپشنتین دہائیوں میں ڈاکٹر واسو نے تقریباً 20,000 پوسٹ مارٹم کیے ہیں
پہلا کیس
ڈاکٹر واسو کو انسانی باقیات یا کسی لاش کا معائنہ کرنے کا پہلا تجربہ سنہ 1981 میں پوسٹ گریجویٹ طالب علم کے طور پر ہوا، جب اُن کے پروفیسر نے اُن سے ایک میت کی کھوپڑی اور بازو کی اوپری ہڈیوں کا معائنہ کرنے کو کہا۔ یہ کھوپڑی اور بازو کی ہڈیاں ایک آبشار کے نیچے 13 میٹر پانی کے اندر سے ملی تھیں۔
ڈاکٹر واسو یاد کرتی ہیں کہ ’ہڈیاں اپنا تمام حیاتیاتی مواد کھو چکی تھی۔‘
دو دیگر طالب علموں کے ساتھ انھوں نے کھوپڑی کو ریڑھ کی ہڈی سے جڑنے کے طریقے کو دیکھ کر اندازہ لگایا کہ مرنے والا مرد تھا اوراس کی عمر 14 سے 15 سال کے درمیان تھی۔
انھوں نے اُس وقت لکھا تھا کہ ’بازو کی اوپر والی ہڈیوں پر جسمانی اعضا کاٹنے کی کوشش میں لگنے والے زخموں کے نشان تھے۔ یہ ایک قتل تھا۔‘
ڈاکٹر واسو کے پاس اُس وقت کوئی کیمرا نہیں تھا، اس لیے وہ ہڈیوں کو فوٹو سٹوڈیو لے گئیں اور انھیں ایک میز پر رکھ کر ایک فوٹوگرافر کو اُن کی تصاویر لینے کے لیے کہا۔
تاہم انسانی باقیات کو دیکھ کر خوفزدہ ہو جانے والے فوٹوگرافر نے یہ دیکھ کر پولیس کو فون کر دیا اور پھر ڈاکٹر واسو کے پروفیسر کو مداخلت کر کے پولیس سے اُن کی جان چھڑوانی پڑی۔
بعد ازاں مقتول کی شناخت ایک ایسے لڑکے کے طور پر ہوئی جو41 دن پہلے لاپتا ہو گیا تھا۔ مرکزی ملزم اُس کا 18 سالہ کزن تھا لیکن کیس چلنے کے بعد اس نوجوان لڑکے کی موت کے سلسلے میں کسی کو بھی مجرم نہیں ٹھہرایا گیا۔
پوسٹ مارٹم کیسے ہوتا ہے؟
،تصویر کا کیپشنپوسٹ مارٹم کے بعد مردہ خانے کا عملہ لاش لواحقین کے حوالے کرنے سے قبل اسے سفید کپڑے میں لپیٹ دیتا ہے
پوسٹ مارٹم کا مقصد موت کے وقت اور وجہ کا تعین کرنا ہوتا ہے اور اگر یہ معلوم نہ ہو کہ مرنے والا شخص کون تھا تو اس کی شناخت بھی پوسٹ مارٹم کے ذریعے کرنا بھی مقصود ہوتا ہے۔
ڈاکٹر واسو نے سنہ 1982 میں کوزی کودے ہسپتال کے شعبہ فرانزک میں کام کرنا شروع کیا اور اس کے بعد سے روزانہ انھوں نے دو سے تین پوسٹ مارٹم کیے۔ ایک مصروف دن میں وہ سات پوسٹ مارٹمز تک کرتی تھیں۔
جلی ہوئی، مسخ شدہ، بوسیدہ، کچلی ہوئی، بُری طرح مسخ شدہ اور یہاں تک کہ کھود کر نکالی گئی انسانی باقیات کا بھی جائزہ لینا اُن کا معمول تھا۔
ڈاکٹر واسو کا کہنا ہے کہ ’زخم، نشانات اور تشویش ناک چیزوں کی تلاش کے لیے پہلا قدم بیرونی بصری معائنہ تھا۔‘
اس کے بعد سینے، پیٹ اور ان کے اندر کے اعضا اور ڈھانچے کا اندرونی معائنہ کیا جاتا تھا اور بافتوں (ٹشو) کے نمونے ٹیسٹ کے لیے جمع ہوتے اور آخر میں، دماغ کے معائنے کے لیے کھوپڑی کو کھولا جاتا تھا۔
اگر کسی شخص کو گولی لگی ہو تو گولیوں کا پتا لگانے کے لیے پورے جسم کا ایکسرے کیا جاتا تھا۔ اگر متوفی کو تپ دق تھا یا کینسر کے علاج کے لیے تابکار امپلانٹس کروائے گئے تھے، تو دو ڈاکٹر وقفے وقفے سے پوسٹ مارٹم کا عمل مکمل کرتے تاکہ اُن کے متاثر ہونے کا امکان کم سے کم ہو۔
ڈاکٹر واسو کو ہر سال ایک یا دو ایسی لاشیں دیکھنا بھی یاد ہے جن میں خاندان کے ایک فرد نے دوسروں کو، بشمول بچے کو، اجتماعی خودکشی میں حصہ لینے پر راضی کیا تھا۔
وہ کہتی ہیں ’یہ ہمارے پیشہ ورانہ کام کا ایک حصہ ہے مگرآپ کو بچوں کی لاشیں دیکھ کر دُکھ ہوتا ہے۔‘
مجرمانہ اسقاطِ حمل
جب وہ شمالی کیرالہ میں کام کر رہی تھیں تو ڈاکٹر واسو نے نوجوان حاملہ خواتین کی اموات میں اضافہ دیکھا۔
اُن کے پوسٹ مارٹم کے دوران ڈاکٹر واسو کو شبہ ہوا کہ یہ اموات غیر تربیت یافتہ افراد کی جانب سے ’زبردستی اسقاط حمل‘ کروانے کی وجہ سے ہوئی ہے۔
وہ یاد کرتی ہیں کہ ’مجھے کاٹنے کے نشان ملے۔ جب اصل ڈاکٹر اسقاط حمل کرتے ہیں، تو وہ ایسے ظالمانہ نشانات نہیں چھوڑتے۔‘
تحقیق سے معلوم ہوا کہ اُن خواتین کی موت دردناک ’یوٹرین سیپسس‘ کی وجہ سے ہوئی تھی۔
اس معاملے میں بعدازاں اسی سرکاری ہسپتال کی ریٹائرڈ آیاؤں کا ایک گروہ پکڑا گیا جہاں ڈاکٹر واسو کام کرتی تھیں۔ یہ خواتین چوری شدہ طبی آلات کا استعمال کرتے ہوئے اپنے گھروں میں قائم نجی کلینکس پر اسقاط حمل کرتی ہوئی پکڑی گئیں اور آخرکار چھ خواتین کو گرفتار کر کے سزائیں دی گئی۔
مجرمانہ رویے کا ثبوت سامنے لانے کے ساتھ ساتھ، پوسٹ مارٹم ایسے معاملات میں بھی وضاحت دے سکتا ہے جب کچھ غلط نہ ہوا ہو۔
ڈاکٹر واسو کو وہ شخص یاد ہے جس کی 98 سالہ والدہ بستر سے گر کر مر گئی تھیں اور اسے خوف تھا کہ اس پر قتل کا شک کیا جائے گا۔
لیکن ڈاکٹر واسو نے پوسٹ مارٹم کے بعد قرار دیا کہ خاتون کی موت ایک حادثہ تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’چھوٹے بچوں کے ساتھ ساتھ بوڑھے لوگوں کے لیے گِرنا مہلک ہو سکتا ہے۔ وہ ایک ایسے
زاویے پر گری تھیں جس نے اس کے دماغ اور ریڑھ کی ہڈی کا تعلق توڑ دیا تھا۔‘
شیر کی کھائی ہوئی لاش
سنہ 1980 کی دہائی کے آخر میں ڈاکٹر واسو اور ایک اور ڈاکٹر ویاند ٹائیگر ریزرو گئے، جو کوزی دوئے ہسپتال سے تقریباً 110 کلومیٹر دور تھا۔ یہاں انھیں شیر کا شکار بننے والی ایک عورت کی باقیات کا پوسٹ مارٹم کرنا تھا جس کا صرف سر اور گردن باقی تھے۔
جائے حادثہ پر ایسا لگ رہا تھا جیسے عورت نے اپنی ساڑھی کی مدد سے درخت سے لٹک کر خودکشی کی کوشش کی ہو اور ساڑھی پھٹنے سے وہ شیروں کا نوالہ بنی ہو لیکن لاش کے معائنے سے معلوم ہوا کہ موت خودکشی نہیں تھی۔
ڈاکٹر واسو بتاتی ہیں کہ ’قاتل نے موت کو اس طرح پیش کیا تھا کہ جس سے محسوس ہو کہ عورت اپنی پیلی ساڑھی کا استعمال کرتے ہوئے درخت کی ایک شاخ سے خود لٹکی تھیں، پھر اُن کی گردن کی ہڈی ٹوٹی اور وہ نیچے گر گئیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’بلندی سے لٹک کر پھانسی لگنے میں گردن پر نشان بالکل مختلف ہوتا ہے۔ یہ افقی نشان تھا اور گلا گھونٹنے کا واضح معاملہ تھا۔‘
پتا چلا کہ مجرم نے مقتولہ کا گلا گھونٹا، پھر اس کی ساڑھی پھاڑ کر درخت پر چڑھ کر شاخ سے باندھ دی۔
پولیس نے موت کو ایک مہوت (ہاتھی کے ٹرینر) کی شکایت سے جوڑا جس کی بیوی اور اس کا معاون دونوں لاپتہ ہو گئے تھے۔
بعد میں تفتیش کاروں نے نائب مہوت کا سراغ لگایا اور اس کے قتل کی سازش کا پردہ فاش کیا۔
،تصویر کا کیپشنانڈیا میں پوسٹ مارٹم کے آلات کہیں بنیادی ہیں تو شہروں میں بہترسہولیات بھی دستیاب ہیں
ایک ساتھ کئی اموات
جب کسی قدرتی آفت یا ٹریفک حادثے کی صورتحال ہو تو اُن میں مرنے والے ہر فرد کی الگ الگ تحقیقات کرنی پڑتی ہیں۔ ڈاکٹر واسو کہتی ہیں کہ ’پیتھالوجسٹ کے لیے ہر فرد الگ اور خاص ہوتا ہے۔‘
جون 2001 میں شمالی کیرالہ میں ایک ٹرین پٹری سے اُتر کر دریا میں جا گری تھی جس سے 59 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ابتدائی میڈیا رپورٹس میں ہلاکتوں کی وجہ ڈوبنا بتائی گئی۔
لیکن جب ڈاکٹر واسو اور اُن کی ٹیم نے متاثرین کا پوسٹ مارٹم کیا تو انھیں پتا چلا کہ صرف ایک موت ڈوبنے سے ہوئی جبکہ دیگرہلاکتوں کی وجہ سر پر چوٹیں تھیں یا لوگ سامان اور ملبے تلے کچلے جانے سے ہلاک ہوئے تھے۔
اسی سال، ملاپورم میں ایک بس میں آگ لگنے سے 44 افراد ہلاک ہوئے۔ زیادہ تر لاشیں جل چکی تھیں اور اس وقت ڈاکٹر واسو کو ڈی این اے کی بنیاد پر شناخت کے لیے صحیح ٹیکنالوجی تک رسائی نہیں تھی۔
وہ یاد کرتی ہیں کہ ’ہم نے متاثرین کی شناخت کے لیے جسمانی خصوصیات جیسے جسم کی اقسام کے ساتھ ساتھ ان کے ذاتی سامان جیسے گھڑیاں، زنجیریں، جوتے، کپڑے اور بیگ استعمال کیے۔‘
پوسٹ مارٹم کے دوران شناخت کرنے والے دیگر عوامل بھی سامنے آئے جن میں دھاتی پلیٹیں اور ماضی میں ہونے والی سرجریز کے شواہد شامل تھے۔
ڈاکٹر واسو کہتی ہیں کہ ’ایک غیرمعمولی طور پر طویل قامت آدمی تھا جس نے کرشنا کے ایک مشہور مندر کا لاکٹ پہنا ہوا تھا اور اس کا معدہ ناقابل ہضم بریانی سے بھرا ہوا تھا۔‘
مرنے والے شخص کے دوستوں نے بعد میں تصدیق کی کہ انھوں نے ایک ساتھ بریانی کھائی تھی، جو اس کی شناخت میں کام آنے والی ایک چیز بنی۔
بہتر ٹیکنالوجی
،تصویر کا کیپشنورچوئل پوسٹ مارٹم سی ٹی سکین، ایم آر آئی اور سونوگرافی کے ذریعے حاصل کردہ تصاویر کی مدد سے کیا جاتا ہے
ڈاکٹر واسو نے اپنے 34 سالہ کریئر کے دوران اس شعبے میں وسیع تکنیکی بہتری دیکھی ہے۔
ایک زمانے میں وہ فارمل ڈیہائیڈ کو دھونی دینے کے لیے کُھلے برتن میں رکھا دیکھنے کی عادی تھیں اور اب ہم جانتے ہیں کہ یہ زہریلا ہو سکتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’اب ہمارے پاس جراثیم کو مارنے کے لیے الٹراوائلٹ لائٹس ہیں۔ مردہ خانے کی عمارتوں میں اب ہوا کا باقاعدہ گزر اور اس کا معیار کنٹرول کیا جاتا ہے۔‘
ڈاکٹر واسو نئی ٹیکنالوجیز کے بارے میں پُرامید ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’سنگاپور اور جاپان پہلے ہی ورچوئل پوسٹ مارٹم کی طرف بڑھ رہے ہیں، جس میں نہ چھری کا استعمال ہے اور نہ ہی خون نکلتا ہے۔‘
لاشوں کو سی ٹی سکینر کے ذریعے سکین کیا جاتا ہے اور ’ڈاکٹر جلد سے ہڈی تک جسم کی ہر تہہ کا معائنہ کرتے ہیں۔‘
یہ ٹیکنالوجی اب امریکہ اور یورپ کے کچھ حصوں کے علاوہ نئی دہلی کے ایک مہنگے ہسپتال میں بھی دستیاب ہے۔
تھکا دینے والا کام
،تصویر کا کیپشنمصروف شیڈول کے باوجود، ڈاکٹر واسو اپنے دفتر کے عملے کے ساتھ کبھی کبھار تفریح بھی کرنے میں کامیاب رہیں
ڈاکٹر واسو نے اپنا آخری پوسٹ مارٹم سنہ 2014 میں کیا اور سنہ 2016 میں وہ سروس سے ریٹائر ہوئیں۔ اب وہ ایک نجی میڈیکل کالج میں پڑھاتی ہیں۔
جب کہ وہ اپنے کام سے خوش ہیں، یہ بتاتے ہوئے کہ لاشوں کے ساتھ کام کرنے سے منفی جذبات جنم لیتے ہیں، وہ کہتی ہیں کہ وہ اس بات پر بھی خوش ہیں کہ انھوں نے اسے صحیح وقت پر چھوڑ دیا۔
’میں مردہ خانے کے قریب کہیں نہیں جانا چاہتی۔ یہ آپ کی ساری توانائی نچوڑ لیتا ہے۔‘
ڈاکٹر واسو پوسٹ مارٹم کے درمیان کھانا پسند نہیں کرتی تھیں، اس لیے وہ دن میں اپنے دماغ کو مستعد رکھنے کے لیے چاکلیٹ پر گزارہ کرتی تھیں۔
جنوبی ہندوستان میں موت سے منسلک مقامات ثقافتی طور پر بہت زیادہ بدنام ہیں۔ اونچی ذات کی خواتین عام طور پر شمشان گھاٹ نہیں جاتیں لیکن موت کے موقع پر ادا کی جانے والی کچھ رسومات میں حصہ لیتی ہیں۔
ڈاکٹر واسو نے اپنے گھر کے باہرغسل خانہ بنوایا ہوا تھا جہاں وہ کام کے بعد گھر کے اندر جانے سے پہلے نہا لیا کرتی تھیں۔
ان کے شوہر بھی ایک ڈاکٹر ہیں تاہم ان کے بقول جو انھوں نے دیکھا ہے ’وہ اس بارے میں بات کرنے سے بہت ڈرتا ہے‘ جبکہ ان کے بچے بھی ان سے ان کے کریئر کے بارے میں سوالات کرنے سے گریز کرتے ہیں۔
اگرچہ اس کی دو بہنیں بطور جج خدمات انجام دے چکی ہیں اور ڈاکٹر واسو نے عدالت میں ان کے سامنے گواہی دی ہے، لیکن ان کی بہنوں نے بھی اس سے کبھی ’عدالت کے باہر (گھر میں) پوسٹ مارٹم کے بارے میں کبھی کچھ نہیں پوچھا۔‘
ڈاکٹر واسو کا کہنا ہے کہ مُردوں کے ساتھ کام کرنے نے یقینی طور پر اُن کی سوچ کو بدلا ہے۔ ’مردہ خانے میں رہنا آپ میں عاجزی لاتا ہے۔ آپ غرور نہیں کرتے، بس ایک صاف ستھری زندگی گزارنے کی خواہش رکھتے ہیں۔‘