روسی گیس کی طاقت
یوکرین میں جیسے ہی کوئی گڑ بڑ ہوتی ہے تو اس کے اثرات اس ملک کی سرحدوں سے بہت دور تک محسوس ہوتے ہیں اور اپنی توانائی کی ضروریات کا سوچ کر پورے یورپ کی نیند اڑ جاتی ہے۔
یورپ کی نیند بے وجہ نہیں اڑی ہوئی کیونکہ یورپی ممالک کی ملنے والی کُل گیس کا ایک تہائی روس سے آ رہا ہے جبکہ اس گیس کا نصف یوکرین کے راستے گذرتا ہے۔
سب سے زیادہ پریشانی ان چار ممالک کو ہے جن کی تمام کی تمام گیس روس سے آ رہی ہے جبکہ یورپ کے بارہ ممالک ایسے ہیں جن کی آدھی ضروریات روسی گیس سے پوری ہو رہی ہیں۔
میں نے گذشتہ کچھ دنوں میں جب بھی گیس کی پائپ لائنوں کی ذمہ دار کمپنیوں کے افسران، توانائی
کے شعبے سے منسلک ماہرین یا پھر یورپی ممالک کے سرکاری افسران سے بات کی تو مجھے ان تمام نے آف دی ریکارڈ یہی بتایا کہ انھیں خاصی پریشانیوں کا سامنا ہے۔ اور ایک فقرہ جو مجھے ان لوگوں سے گفتگو کے دوران بار بار سننے کو مل رہا ہے وہ یہ ہے: تیل ’دولت‘ ہے مگر گیس ’طاقت‘ ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر روس کے خلاف پابندیوں میں آہستہ آہستہ اضافہ ہوتا رہا تو کہیں صدر پوتن گیس کے نل بند تو نہیں کر دیں گے؟ یا یہ کہ صدر پوتن ایسا نہیں کریں گے کیونکہ اس سے روس کو بہت نقصان ہوگا؟
اگر یوکرین روس کی جانب سے بھیجے جانے والے گیس کے بل ادا نہیں کرتا اور اس پر لال و لیت سے کام لیتا ہے تو روس گیس بند کر کے یوکرین کو بھُوکا مار دے گا؟
اگلے جمعے کو یوکرین، روس اور یورپی یونین کے نمائندوں کے درمیان پولینڈ کے شہر وارسا میں ہونے والے مذاکرات میں گیس کے مسئلے کا کوئی حل تلاش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
اور اگر یوکرین میں جاری لڑائی اس مقام تک چلی جاتی ہے جہاں بھاری اسلحے کے استعمال کی باتیں ہونا شروع ہو جاتی ہیں تو کسی بڑے حادثے سے بچاؤ کے لیے گیس سے لدی ہوئی پائن لائینیں بند تو نہیں کر دی جائیں گی؟ یہ فکر بھی بلا وجہ نہیں کیونکہ یوکرین دنیا کا وہ سب سے بڑا ملک ہے جہاں سے اتنی زیادہ گیس گذر رہی ہے۔
مانا کہ ان خدشات میں سے کچھ کے امکانات کم ہیں اور کچھ کے بہت زیادہ، لیکن مغربی طاقتوں اور روس کے درمیان جاری فقرے بازی سنیں تو آپ کے دماغ میں اس قسم کے خیالات کا آنا قدرتی ہے۔
سوچ کا ایک انداز یہ ہو سکتا ہے کہ حالیہ تنازعے کے دونوں فریق جانتے ہیں کہ اگر توانائی جیسی اہم چیز کو اس جگھڑے میں گھسیٹا گیا تو بہت نقصان ہو جائےگا، اس لیے فکر کی کوئی بات نہیں۔ آخر کار گیس روس کی اہم ترین درآمدات میں سے ایک ہے اور ماضی میں جب مشرق اور مغرب کے درمیان شدید سرد جنگ بھی جاری تھی، تب بھی یورپی ممالک مزے سے روسی گیس جلاتے رہے اور روس نے بھی کبھی اس کی ترسیل بند نہیں کی۔
لیکن دوسری جانب اگر گیس کے شعبے سے منسلک اہم یورپی اہلکاروں کی باتیں سنیں تو آپ حیران ہوتے ہیں کہ ابھی تو بہار کے دن بھی پورے نہیں ہوئے اور انہیں یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ اگر سردیوں تک گیس کے موجودہ ذخائر کم پڑ گئے تو کیا ہوگا۔
تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ یورپی ممالک فوری طور پر ایسے اقدامات کیوں نہیں کر رہے کہ روس کی گیس پر ان کا انحصار آہستہ آہستہ کم ہونا شروع ہو جائے۔
اس سوال کا مختصر جواب یہ ہے کہ یورپی ممالک ایسا کر رہے ہیں، بلکہ اس ہفتے کے آخر میں ’جی سیون‘ ممالک کے توانائی کے وزراء کے اجلاس میں اسی بات پر غور کیا جائے گا کہ مغربی یورپ روسی گیس پر انحصار میں کیسے کمی کر سکتا ہے۔
جہاں تک یوکرین کا تعلق ہے تو اس کے لیے مسئلے کا فوری حل یہ ہے کہ وہ روس کی بجائے مغربی ممالک سے گیس لینا شروع کر دے۔ یوکرین نے ایسا کرنا شروع بھی کر دیا ہے اور ’ریورس فلو‘ کی پالیسی کے تحت مغربی ممالک نے یوکرین سے آنے والی پائپ لائنوں میں گیس واپس یوکرین کی جانب دھکیلنا شروع بھی کر دی ہے۔
نئے ذرائع
اگرچہ کچھ مغربی مالک فی الحال ’ریورس فلو‘ سے کام لے رہے ہیں لیکن زیادہ تر کو امید ہے کہ وہ گیس کے نئے ذخائر استعمال کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔ خاص طور پر ان ممالک کی نظر مائع قدرتی گیس (لیکیوفائیڈ نیچرل گیس یا ایل این جی) پر لگی ہوئی ہے جسے عموماً بحری جہازوں کے ذریعے پہنچایا جاتا ہے۔
لیتھوئنیا بڑی تیزی کے ساتھ ایک بندرگاہ تعمیر کر رہا ہے جہاں وہ دنیا کے مختلف ممالک سے آنے والے بحری جہازوں سے مائع گیس اتار سکے گا۔ اگرچہ لیتھوئنیا ایک عرصے سے ایسا کرنے کی سوچ رہا تھا، تاہم گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور یوکرین میں جاری لڑائی کی وجہ سے حکومت نے مذکورہ بندرگاہ کی تعمیر ہنگامی بنیادوں پر شروع کر دی ہے۔
پولینڈ، ایستونیا اور یوکرین بھی اِنہی بنیادوں پر سوچ رہے ہیں اور وہ بھی توانائی کی ضروریات ایل این جی سے پوری کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
تاہم اس میں ایک مسئلہ ہے۔ چونکہ قدرتی گیس کے برعکس ایل این جی کی خرید و فروخت عالمی منڈی میں ہوتی ہے اس لیے ٹرینیڈاڈ اور قطر میں پیدا کی جانے والی ایل این جی کے لیے ہر ملک کو بولی لگانا پڑتی ہے اور سنہ 2011 میں جاپان میں فوکوشیما کے حادثے کے بعد جب جاپان نے اپنا جوہری مرکز بند کر دیا تھا، تب سے عالمی منڈی میں ایل این جی کی قیمتیوں میں بہت اضافہ ہو چکا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر یورپی ممالک روسی گیس سے جان چھڑا کر ایل این جی پر چلے جاتے ہیں تو انھیں تحفظ کا احساس تو بڑھ جائے گا لیکن ان کو اس تحفظ کی قیمت بھی زیادہ دینا پڑے گی۔
ایک بڑی امید یہ بھی ہے امریکہ بھی جلد ہی عالمی منڈی میں شیل گیس فروخت کرنا شروع کر دے گا، لیکن اس میں بھی کم از کم ایک سال لگ جائے گا کیونکہ جب تک ریاست لوزیانا میں امریکہ اپنا پہلا برآمدی ٹرمینل نہیں کھولتا، اس وقت تک شیل گیس دوسرے ممالک تک نہیں پہنچ سکتی۔امریکہ کے باقی ٹرمینلز کی تکمیل اس دہائی کے آخر سے متوقع ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ کئی یورپی رہنماؤں کی التجاؤں کے باوجود امریکہ کے گیس کے گھڑ سواروں کو یورپی مدد کے لیے آنے میں خاصا وقت چاہییے۔
یورپ کے لیے ایک دیرپا حل یہ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی گیس کی ضروریات اپنےگھر سے پوری کریں۔
ناروے، برطانیہ اور ہالینڈ شاید ایسا کرنا کی کوشش کریں، لیکن اس بات کے امکانات کم ہیں کہ اس سے گیس کی مقدار میں خاطر خواہ اضافہ ہو سکے گا۔
اس کے علاوہ، یورپی ممالک یہ کوشش بھی کر سکتے ہیں کہ وہ بھی امریکہ کی نقل کریں اور شیل توانائی پیدا کرنا شروع کر دیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ماحول اور فضا پر منفی اثرات کی وجہ سے زیادہ تر مغربی ممالک میں شیل توانائی پر کام بہت سست روی کا شکار ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ ہر متوقع حل میں تاخیر بھی ہوگی اور اضافی مالی وسائل بھی درکار ہوں گے۔
لیکن یوکرین میں حالات جس قدر خراب ہوں گے اسی قدر اس بات کے امکانات بڑھتے جائیں گے کہ آنے والے دنوں میں جہاں توانائی کے حوالے سے پابندیوں میں اضافہ ہوگا وہاں ان پابندیوں کے خلاف استعمال ہونے والا ہتھیار بھی توانائی ہی ہوگا۔
No comments:
Post a Comment