Sunday 3 August 2014

کیا یہ بھی پاکستان ہے؟

شمالی وزیرستان کا رہائشی گُل خان زندگی میں پہلی بار بنوں سے ویگنیں بدلتا بدلتا پشاور سے بس پر سوار ہو کر براستہ جی ٹی روڈ لاہور روانہ ہوا۔

گُل خان کے لاہور جانے کا مقصد ایک شیخ صاحب کے ہاں ڈرائیوری کی نوکری کرنا تھا۔ گُل خان اپنے چچا کے کہنے پر لاہور جا رہا تھا۔ جو اِن شیخ صاحب کے ہاں تیس سال ڈرائیوری کرچکے تھے۔

جونہی گُل خان کی بس راولپنڈی، جہلم، وزیر آباد اور گجرانوالہ سے ہوتے ہوئے شاہدرہ پہنچی اور گُل خان نے سڑک کے درمیان میں میٹرو بس کا جنگلہ دیکھا تو اس سے رہا نہیں گیا اور اس نے اپنی ساتھ والی سیٹ پر براجمان لاہوری سے دریافت کیا کہ یہ جنگلہ کس مقصد کے لئے لگایا گیا ہے؟

لاہوری نے بڑے فخر سے جواب دیا۔ یہ میٹرو بس کے لئے ہے۔

گُل خان کی جانب سے میٹرو بس سے متعلق دریافت کیا گیا کہ یہ کیا ہے؟

لاہوری نے کہا یہ شہباز شریف کا لاہوریوں کے لئے تحفہ ہے۔ اس جنگلے میں چلنی والی بسیں بغیر کسی ٹریفک کے سواریوں کو سفر کرواتی ہیں اور اس کا کرایہ صرف 20 روپے ہے۔

گُل خان لاہوری کا یہ جواب سن کر بڑا حیران ہوا، اتنی دیر میں ایک بس جنگلے کے اندر سے گزری جسے گُل خان نے سر باہر نکال کر دیکھا۔

بس دیکھنے کے بعد گُل خان بہت حیران ہوا اور شش و پنج میں مبتلا ہو کر سوچنے لگا کہ میں تو بنوں کے آئی ڈی پی کیمپ سے ذلیل ہوتا ہوا پشاور کے راستے کھچڑا بس پر سوار ہو کر لاہور پہنچا ہوں اور یہاں کے شہریوں کے لئے تو کیا کمال بسیں ہیں۔ واہ کیا بات ہے۔ کیا یہ بھی پاکستان ہی ہے؟

جوں جوں بس آگے بڑھتی گئی۔ گُل خان آتی جاتی بسوں کو دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ اس بس میں سفر کرنے والے کتنے خُوش نصیب ہیں۔

گُل خان کی شکل اور عقل دیکھ کر ساتھ بیٹھے لاہوری نے سوال کیا۔ آپ پشاور سے آئے ہیں؟

جواب میں گُل خان بولا؛

"میرا تعلق شمالی وزیرستان کے علاقے میران شاہ سے ہے۔ جہاں آپریشن جاری ہے اور میں اپنے گھر والوں کو بنوں آئی ڈی پی کیمپ چھوڑ کر لاہور نوکری کے لئے آیا ہوں۔"

یہ جاننے کے بعد لاہوری نے سوال کیا کہ تم یہاں کسی کو جانتے بھی ہو اور تم نے جانا کہاں ہے؟

اس سوال پر گُل خان نے اپنے میلے کپڑوں کی سامنے کی جیب میں سے ایک پرچی نکالی۔ جس پر نشتر کالونی، فیروز پور روڈ کا ایک پتہ درج تھا۔

اتنے میں بس راوی کا پُل کراس کرتے ہوئے آزادی چوک پر نئے تعمیر شدہ پُل پر چڑھنے لگی۔

لاہوری نے پتہ دیکھ کر گُل خان سے کہا کہ تم اگلے سٹاپ پر اترتے ہی اس جنگلے والی بس پر سوار ہوجانا۔ یہ سیدھا تمھیں نشتر کالونی لے جائیگی۔

لاہوری کا یہ جواب سن کر گُل خان بہت خوش ہوا کہ اسے بھی اس بس میں بیٹھنے کا موقعہ ملے گا۔

اتنے میں گُل خان نے محسوس کیا کے بس چڑھائی چڑھ رہی ہے اور بائیں جانب کی عمارتیں نیچے ہوتی جارہی ہیں۔ جونہی اسے مینار پاکستان نظر آیا تو اس نے بڑے جوش سے لاہوری سے پوچھا۔

یہ یادگارِ پاکستان ہے نا؟

لاہوری نے جواب دیا۔ ہاں اور یہ نیا پل بھی شہباز شریف کی حکومت میں ہی بنا ہے۔

گُل خان نے دوبارہ اپنا سر کھڑکی سے باہر نکالا اور اپنے آپ کو سائیڈوں پر واقع عمارات سے اوپر محسوس کرنے لگا اور یہ سوچنے لگا "کیا یہ بھی پاکستان ہے!؟

اتنے میں سٹاپ آگیا اور ساتھ بیٹھے لاہوری نے گُل خان کو کھڑکی میں سے اندر کھینچتے ہوئے کہا کہ تمھارا سٹاپ آگیا ہے۔ یہاں اتر جاؤ اور وہ سامنے سٹاپ ہے میٹرو بس کا۔

جونہی گُل خان بس سے نیچے اترا تو وہ نیا تعمیر ہونے والا پُل دیکھ کر حیران رہ گیا اور سب کچھ ُبھلا کر ادھر اُدھر دیکھنے لگ پڑا اور اپنے آپ سے سوال کرنے لگا کہ ہمارے علاقے میں تو دور دور تک پھیلے ہوئے پہاڑ نظر آتے ہیں اور یہاں حکمرانوں کے شہر میں اترتے ہی جدید ترین تعمیر شدہ پُل اور میٹرو بس کا نظارہ ہوتا ہے۔ یہ بھی سب کچھ اسی ملک میں ہے جہاں ہمارا شمالی وزیرستان ہے۔ "کیا یہ بھی پاکستان ہے"؟

خیر گُل خان لاہوریوں کی ہدایات پر عمل کرتا ہوا میٹرو بس کے سٹاپ کی جانب چل پڑا۔ راستے میں مدد حاصل کرتا گُل خان جب ایکسیلیٹرز تک پہنچا جو خوش قسمتی سے لائٹ ہونے کی وجہ سے چل رہی تھی، تو گُل خان ایک مرتبہ پھر حیران ہوا اور دل میں بولا کہ یہاں تو بندے کو اوپر لیجانے کے لئے بھی انتظامات کئے گئے ہیں۔

اس طرح گُل خان ٹکٹ بوتھ سے بیس روپے کے عوظ ٹکٹ لیتا ہوا پیلٹ فارم تک پہنچا جہاں انتظار گاہ میں پنکھے خالی کرسیوں کو ہوا دے رہے تھے۔

کچھ دیر کرسیوں پر ہوا کھانے کے بعد بس آتے ہی گُل خان بس پر سوار ہوگیا۔

میٹرو بس کے کھچا کھچ بھرے ہونے کی وجہ سے گُل خان کو بیٹھے کی جگہ نا ملی اور وہ داخلی دروازے کے نزدیک ہی کھڑا ہوگیا۔ جہاں ایئر کنڈیشنڈ کی کھڑکی بھی تھی۔

گُل خان نے کچھ دیر بعد محسوس کیا کہ اسے سردی لگنے لگی ہے، غور کیا تو اسے اپنے پر پڑنے والی ٹھنڈی ہوا کا پتہ چلا۔

دائیں ہاتھ سے ٹھنڈی ہوا کو چیک کرتے ہوئے گُل خان نے ساتھ کھڑے مسافر سے پوچھا کہ یہ ہوا کہاں سے آرہی ہے؟

مسافر نے جواب دیا کہ یہ اے سی ہے۔

گُل خان: کیا ہے؟

مسافر: اے سی۔

گُل خان شرمندہ ہوکر چپ ہوگیا اور تپتی گرمی میں ٹھنڈی ہوا کے مزے لینے لگا اور سوچنے لگا "کیا یہ بھی پاکستان ہے"!؟

اتنے میں ایک زنانہ آواز نے پہلے انگلش اور پھر اردو میں اگلے آنے والے سٹاپ کا اعلان کیا۔ جس پر گُل خان حیرانگی سے ادھر اُدھر دیکھنے لگ پڑا کہ یہ آواز کہاں سے آرہی ہے۔

کچھ ہی دیر بعد بس اگلے سٹاپ پر رکی اور دروازہ کھلتے کے ساتھ ہی اخراجی دروازے کی جانب لپکتے ہوئے ایک مسافر نے گُل خان کو کندھا مارا اور معزرت کرتا ہوا آگے چلا گیا۔ مزید مسافر بھی بس پر چڑھ گئے اور خودکار دروازہ بند ہوتے ساتھ ہی بس چل پڑی۔

اس طرح گُل خان ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کھاتا، گمنام زنانہ آواز کے مزے لیتا ہوا اپنی منزل مقصود کی جانب بڑھتا گیا۔

راستے میں اسے یہ دیکھ کر مزید حیرانگی ہوئی کہ اس بس کے لئے علیحدہ سے پُل تعمیر کئے گئے ہیں۔ جہاں سے گُل خان کو ہر عمارت اوپر ہونے کی وجہ سے کلیئر دکھائی دے رہی تھی۔ جو اسے بار بار یہ سوال کرنے پر مجبور کر رہی تھے کہ "کیا یہ بھی پاکستان ہے!!؟؟"

اس طرح گُل خان شاہ جمال، مسلم ٹائون، کلمہ چوک اور چونگی امرسدھو کے اوور ہیڈ برجز سے ہوتا ہوا غازی چوک پہنچا۔ جس کے قریب ہی اسے ایک اور عجیب و غریب سا گھومتا ہوا برج تعمیر ہوتا دکھائی دیا۔ ساتھ کھڑے مسافر سے دریافت کیا کہ یہ پُل کس مقصد کے لئے تعمیر کیا جا رہا ہے؟

جواب ملا کہ یہ پُل پیدل سڑک پار کرنے والوں اور موٹر سائیکل سواروں کے لئے تعمیر کیا جارہا ہے۔

پہلے سے حیران گُل خان یہ سن کر مزید اضطراب کا شکار ہوگیا اور سوچنے لگا کہ اس شہر میں تو حکمرانوں کو سب کا خیال ہے۔ ہم ہی بد قسمت ہیں جو لاکھوں کی تعداد میں اپنا گھر بار چھوڑ کر اس پورے ملک میں امن کے قیام کے لئے لاوارثوں کی طرح آئی ڈی پیز کیمپس منتقل ہورہے ہیں۔ جہاں ہمیں حکومت سے امداد لینے کے لئے نت نئے طریقے بتائے جاتے ہیں۔ کبھی رجسٹریشن اور کبھی سمارٹ کارڈ جیسی نامعلوم چیزوں کا اعلان کیا جاتا ہے۔ اس شہر میں کئے جانے والے کاموں سے تو لگتا ہی نہیں کہ یہ وہی ملک ہے جس کے ہم بھی شہری ہیں؟

اس دوران چلتی بس سے گُل خان یہ دیکھ کر اور بھی حیران ہوتا رہا کہ سڑک پر چلنے والی ٹریفک تو رش میں پھنسی ہے اور میٹرو بس بنا کسی روک ٹوک کے چلتی ہی جارہی ہے۔ یہ دیکھ کر گُل خان کو یہ احساس بھی ہوا کہ اس شہر میں تو غریبوں کو بھی بڑے حقوق حاصل ہیں جبکہ گاڑیوں والے اپنی ایئر کنڈیشنڈ گاڑیوں میں رش میں پھنسے کھڑے ہیں۔

اپنی منزل کی طرف گامزن میران شاہ کا رہائشی دوران سفر یہی سوچ سوچ کر حیران ہوتا رہا کہ "کیا یہ بھی پاکستان ہے؟"

کچھ ہی دیر بعد انجانی گمنام زنانہ آواز نے نشتر ٹاؤن کے سٹاپ کا اعلان کیا۔ جس کے بعد گُل خان اترنے کے لئے چوکنا ہوگیا اور خود کار دروازوں کے کھلنے پر نشتر ٹاؤن کے بس سٹاپ پر اُتر گیا۔

گُل خان سٹاپ سے باہر نکلنے کے بعد وہاں پہلے سے موجود رکشے کے پاس گیا اور سامنے کی جیب سے پرچی نکال کر رکشے والے کو دکھائی۔

خوش قسمتی سے رکشے کا ڈرائیور بھی پٹھان ہی تھا۔ جس کو دیکھتے ہی گُل خان مسکرا اٹھا اور پشتو میں درخواست کی کہ اسے اس پرچی پر درج پتے پر پہنچا دے۔

مطلوبہ پتے پر پہنچنے پر گُل خان نے اپنے پٹھان بھائی کا شکریہ ادا کیا اور سیدھا ہاتھ پیسے نکالنے کے لئے اپنی جیب میں ڈالا۔

جیب میں ہاتھ ڈالتے ہی گُل خان کو احساس ہوا کہ اس کی جیب کٹ چکی ہے اور جتنے پیسے لیکر وہ بنوں سے لاہور لایا تھا اب اس کے پاس نہیں رہے۔

بلآخر اسے یقین آ ہی گیا کہ؛

"یہ پاکستان ہی ہے!"

No comments:

Geo News English

Blogger Tricks

Power Rangers video

Adi Shankar Presents a Mighty Morphin' Power Rangers Bootleg Film By Joseph Kahn.

To Learn More About Why This Bootleg Exists Click Here: http://tinyurl.com/mw9qd79