پاناما لیکس پر کمیشن قائم، ’تازہ لہر کو خوب سمجھتا ہوں‘
پاناما کی ایک لا فرم موساک فونسیکا سے ملنے والی خفیہ دستاویزات میں وزیر اعظم پاکستان کے بچوں کے نام آنے کے بعد میاں نواز شریف نے قوم سے خطاب میں کہا ہے کہ الزامات کی اصل حقیقت کو جاننے کے لیے عدالتی کمیشن تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس عدالتی کمیشن کی سربراہی سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ کمیشن تحقیقات کے بعد فیصلہ دے گا کہ اصل حقیقت کیا ہے اور الزامات میں کتنا وزن ہے۔
’میں گھسے پٹے الزامات دہرانے اور روز تماشا لگانے والوں سے کہتا ہوں کہ وہ اس کمیشن کے سامنے جائیں اور اپنے الزامات ثابت کریں۔‘
٭ ’نواز شریف کے بچوں نے کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا‘
انھوں نے کہا کہ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ سالہا سال تک یکطرفہ احتساب کا نشانہ بنایا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ جدہ میں ان کے والد نے سٹیل کی فیکٹری لگائی اور جلا وطنی ختم ہونے کے بعد یہ فیکٹری بیچی جس سے حاصل ہونے والی رقم سے ’میرے بیٹوں نے اس سے کاروبار شروع کیا‘۔
یاد رہے کہ بڑے پیمانے پر خفیہ دستاویزات افشا ہونے سے پتہ چلا ہے کہ دنیا بھر کے چوٹی کے امیر اور طاقتور افراد اپنی دولت کیسے چھپاتے ہیں۔
ان افراد میں کئی ملکوں کے سربراہانِ حکومت اور سیاسی رہنما شامل ہیں۔
یہ دستاویزات پاناما کی ایک لا فرم موساک فونسیکا سے افشا ہوئیں اور ان کی تعداد ایک کروڑ دس لاکھ ہے۔
کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ 40 برسوں سے بے داغ طریقے سے کام کر رہی ہے اور اس پر کبھی کسی غلط کام میں ملوث ہونے کا الزام نہیں لگا۔
دستاویزات میں دنیا کے 73 حالیہ یا سابقہ سربراہانِ مملکت، بشمول آمروں، کا ذکر کیا گیا ہے، جن پر اپنے ملکوں کی دولت لوٹنے کا الزام ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان کے وفاقی وزیرِ اطلاعات پرویز رشید نے پاناما پیپرز کے ریلیز کے بعد کہا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف کے بچے کوئی غیر قانونی کام نہیں کر رہے۔
پاناما پیپرز کے منظر عام پر آنے کے بعد سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور دیگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے وزیراعظم نواز شریف اور ان کے خاندان پر تنقید کی گئی تھی۔
وزیرِ اطلاعات نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہا کہ ’اب جو پاناما کےڈاکومینٹس سامنے آئے ہیں ان میں نواز شریف صاحب کے نام سے اور شہباز شریف صاحب کے نام سے کسی قسم کی کسی پراپرٹی کے بارے میں، کسی کمپنی کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عمران خان کے الزامات غلط تھے۔‘
No comments:
Post a Comment