Sunday 3 August 2014

شہری انتظامیہ سانحہ سی ویو کی ذمہ دار قرار

کراچی: کراچی پولیس نے سانحہ سی ویو کی ذمہ داری شہری انتظامیہ پر ڈال دی ہے۔

پولیس کی جانب سے قائم کی جانے والی تحقیقاتی کمیٹی نے رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ سانحہ کے وقت ساحل پر دفعہ 144 نافذ ہی نہیں تھی۔

ایڈیشنل انسپکٹر جنرل(اے آئی جی) غلام قادر تھیبو نے انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ غلام حیدر جمالی کو رپورٹ پیش کی جس میں کہا گیا ہے کہ دفعہ 144 کے عدم نفاذ کے باعث پولیس کے پاس لوگوں کو سمندر میں جانے سے روکنے کا اختیار نہیں تھا۔

آئی جی سندھ نے سانحہ سی ویو کی تحقیقات کے لیے قائم کمیٹی کے اجلاس میں رپورٹ پیش کر دی ہے۔

رپورٹ میں واقعہ کی ذمہ دار شہری انتظامیہ کو قراردیتے ہوئے انکشاف کیا گیا ہے کہ جس وقت یہ سانحہ پیش آیا ساحل پر دفعہ 144 کا نافد نہیں تھا بلکہ واقعہ کے فوری بعد اس قانون کے اطلاق کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔

تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق واقعہ کے وقت سمندر کی لہریں زیادہ تیز نہیں تھیں، ہاکس بے پر تین افراد ڈوبے تھے جبکہ زیادہ تر افراد ہائپر اسٹار کے پیچھے ساحل پر ڈوب کر ہلاک ہوئے۔

پولیس رپورٹ میں جائے حادثہ پر پڑنے والے گڑھوں کی تحقیقات کرانے کی بھی سفارش کی گئی ہے۔

آئندہ اجلاس میں کمیشن نے ڈی ایچ اے اور کنٹونمنٹ بورڈ کے حکام کو بھی طلب کر لیا ہے جبکہ پاک بحریہ کے حکام کو بھی اجلاس میں مدعو کیا جائے گا۔

یاد رہے کہ عید کے روز سمندر میں ڈوب کر 39 افراد ہلاک ہو گئے تھے یہ افراد عید کی چھٹیوں میں ساحل پر تفریح کی غرض سے آئے تھے۔

طاہر القادری کا 10 اگست کو یومِ شہداء منانے کا اعلان

لاہور: پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر علامہ طاہر القادری نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے خلاف دس اگست کو یومِ شہداء منانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ انقلاب مارچ سے پہلے سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ہلاک ہونے والے افراد کے خون کا حساب ہوگا۔

لاہور میں اپنی طویل پریس کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت نے کسی قسم کی بھی روکاوٹ پیدا کی تو اگست کا مہینہ ختم ہونے سے قبل ہی حکومت ختم ہوجائے گی۔

طاہر القادری کا کہنا تھا کہ تمام افرادنےسانحہ ماڈل ٹاؤن کی ذمہ داری حکومت پنجاب پرڈالی ہے۔

"وزیراعظم نواز شریف اب خود یہ فیصلہ کریں کہ وہ خود پہلے جائیں گے یا ان کے بھائی"۔

انہوں نے کہا کہ 17 جون کو ماڈل ٹاؤن میں براہ راست فائرنگ سے14 افراد ہلاک اور 90 کے قریب زخمی ہوئے۔

طاہر القادری نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ پولیس کی جانب سے نہتے بزرگوں اور خواتین کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ جیسا پولیس ہمارے کارکنوں کے ساتھ کرے گی، ویسا ہی ان کے ساتھ بھی ہوگا اور یومِ شہداء کو روکا گیا تو دمادم مست قلندر ہوگا۔

طاہر القادری نے اپیل کی کہ عوام دس اگست کے یومِ شہداء میں بھرپور انداز میں شرکت کریں۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب پولیس حکمرانوں کی فریق نہ بننے اور کسی قسم کے غیر قانونی احکامات کو ماننے سے انکار کردے۔

انہوں نے اس موقع پر یہ بھی دعویٰ کیا کہ ان کی اسلام آباد آمدپر عوامی تحریک کے تقریباً 1400 کارکنوں کو حراست میں لیا گیا۔

یاد رہے کہ 17 جون کو لاہور میں منہاج القرآن سیکریٹریٹ کے اطراف پولیس اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کے درمیان ہونے والی جھڑپ میں کم سے کم 8 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔

طاہر القادری کا کہنا تھا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ثبوت موجود ہیں اور وقت آنے پر انہیں پیش کریں گے۔

پاکستانی ٹیم دورہ سری لنکا پر روانہ

کراچی: پاکستان کرکٹ ٹیم سری لنکا کے خلاف دو ٹیسٹ اور تین ایک روزہ میچز کھیلنے کے لئے سری لنکا روانہ ہوگئی۔

ڈان نیوز کے مطابق کراچی کے ہوٹل میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مصباح الحق کا کہنا تھا کہ سری لنکا کی ٹیم اپنی ہوم کنڈیشنز میں بے حد خطرناک ثابت ہوتی ہے لیکن پاکستان ٹیم کے تمام کھلاڑیوں نے بھرپور تیاری کی ہے۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ میں پاکستانی کپتان کے حوالے سے کہا گیا کہ مخالف ٹیم کے بلے بازوں خاص طور پر جے وردھنے کو کم رنز کے اندر ہی آؤٹ کرنا ہوگا۔

انہوں نے اس موقع پر جے وردھنے کی صلاحیتوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ وہ سری لنکن بلے باز کی بہت عزت کرتے ہیں تاہم اس دورے پر ان کا مقصد سیریز جیتنا ہے جس کے لیے انہیں مخالف ٹیم کے سینئر بلے بازوں کو زیادہ اسکور کرنے سے روکنا ہوگا۔

ان کے مطابق سعید اجمل، محمد طلحہ، جنید خان سب ہی فارم میں ہیں جبکہ بیٹسمین بھی لنکن باؤلرز کے خلاف اچھی کارکردگی کے لئے پرعزم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے اسپن باؤلروں نے عام طور پر سری لنکا میں اچھا پرفارم کیا ہے تاہم ہم فاسٹ باؤلرز پر بھی انحصار کررہے ہیں۔

اس موقع پر کوچ وقار یونس نے بھی قومی ٹیم کی تیاریوں پر اطمینان کا اظہار کیا۔

دوسری جانب قومی ٹیم ائیر پورٹ روانہ ہوتے وقت کپتان مصباح الحق کو ساتھ لینا ہی بھول گئی تاہم بعد میں کسی کھلاڑی کے یاد دلانے پر مصباح الحق بھی بس میں سوار ہوگئے۔

آن لائن سائبر کرائم کے قوانین کی عدم موجودگی خواتین کے لیے خطرہ

اسلام آباد : مناسب قانونی فریم ورک کی عدم موجودگی کے باعث آن لائن ہراساں کرنے، سائبر حملوں یا نجی مواد افشا کرنے والے بچ نکلنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔

حال ہی میں اسلام آباد ہائیکورٹ (آئی ایچ سی) نے اپنی سابقہ منگیتر کی تصاویر اپ لوڈ کرنے کے الزام میں گرفتار ایک نوجوان کو ضمانت پر رہا کردیا، کیونکہ پراسیکیوشن اسے ملزم ثابت کرنے کے لیے شواہد پیش کرنے میں ناکام رہا تھا۔

عدالت سے موصول اطلاعات کے مطابق ملزم راولپنڈی کی رہائشی ایک لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوگیا اور ان دونوں کی منگنی لگ بھگ چار سال چلی۔

ملزم کے بھائی کے مطابق منگنی دونوں خاندانوں کے لیے خوشگوار ثابت ہوئی مگر رواں برس مارچ میں یہ تعلق ٹوٹ گیا۔

ملزم کے بھائی نے ڈان کو بتایا کہ یہ منگنی اس وقت ٹوٹی جب اس لڑکی کی چند نازیبا تصاویر سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر اپ لوڈ کردی گئیں۔

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم سرکل میں درج کرائی گئی شکایت میں لڑکی نے تصاویر اپ لوڈ کرنے کا الزام اپنے سابقہ منگیتر پر لگایا۔

اپنی درخواست میں اس لڑکی نے شکایت کی کہ وہ لڑکا اسے سوشل میڈیا پر بلیک میل کررہا تھا اور اس نے یہ تصاویر اس کے ایک کزن کو بھی ارسال کی تھیں۔

اس لڑکی کا مزید کہنا تھا کہ ملزم نے اس کے فیس بک اکاﺅنٹ کو ہیک کرکے خود اس کے بجائے رشتے داروں اور دوستوں سے بات چیت کرتا رہا۔

ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل نے ملزم نوجوان کو گیارہ جون کو حراست میں لیا اور اس کے خلاف مقدمہ درج کرلیا۔

ایف آئی آر میں لکھا گیا تھا "تحقیقات کے دوران یہ بات ظاہر ہوئی ہے کہ ملزم نے شکایت کنندہ کی اجازت کے بغیر اس کی فیس بک پروفائل تک رسائی حاصل کی اور غیرمہذب کمنٹس پوسٹ کیے، جبکہ اس نے فیس بک پیج پر لڑکی کی نازیبا تصاویر بھی اپ لوڈ کیں"۔

پاکستان میں سائبرکرائم سے نمٹنے کا کوئی مخصوص قانون موجود نہیں، خاص طور پر سائبر اسٹاکنگ کے حوالے سے، اس قانون یا آرڈنینس کی عدم موجودگی کے باعث ایف آئی اے متعدد معاملات کو ہاتھ لگانے سے قاصر رہتی ہے۔

حکومتی عہدیداران پہلے 2007ء میں پیش کیے گئے الیکٹرونکس کرائم آرڈنینس پر گزارہ کررہے تھے، تاہم نومبر 2009ء میں اس کی مدت ختم ہونے کے بعد سے پرانے الیکٹرونک ٹرانزیکشن آرڈنینس 2002ء (ای ٹی او) کو استعمال کرنا پڑرہا ہے، اس قانون کے تحت سائبرکرائم پر زیادہ سے زیادہ سزا سات سال قید سنائی جاسکتی ہے۔

یہ قانون دستاویزات، ریکارڈ، اطلاعات اور کمیونیکشن کے دیگر ذرائع کے الیکٹرونکس ٹرانزیکشن پر لاگو ہوتا ہے، تاہم اس میں مخصوص معاملات جیسے آن لائن ہراساں کیا جانا یا نازیبا تصاویر و وڈیوز کی اشاعت کے حوالے سے کچھ بھی صراحت موجود نہیں۔

ای ٹی او کا مسودہ اس وقت تیار ہوا تھا جب انفارمیشن ٹیکنالوجی موجودہ دور کی مقابلے میں اس قدر ترقی یافتہ نہیں تھی۔

آئی ٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس قانون کو ہیکرز یا اسلام آباد کے نوجوان جیسے سائبر ملزمان کے خلاف استعمال نہیں کیا جاسکتا، جس نے اپنی منگیتر کی نجی زندگی کو تباہ کرکے رکھ دیا۔

اگرچہ نوجوان کے خلاف مقدمہ بدستور عدالت میں زیرسماعت ہے، مگر مناسب قوانین کی عدم موجودگی کی بناء پر اسے سخت سزا ملنے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس نورالحق قریشی نے ناکافی شواہد کی بناء پر اس کی ضمانت کی درخواست منظور کرلی تھی، اور عام عدالتی حقیقت بھی یہی ہے کہ ضمانتیں ان مقدمات میں ہی دی جاتی ہے جس میں عدالت کو محسوس ہو کہ ملزم کے خلاف شواہد بہت کمزور ہیں۔

انٹرنیٹ سروسز پروائیڈر ایسوسی ایشن آف پاکستان (آئی ایس پی اے کے) کے کنویئنر وہاج السراج کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا ویب سائٹس کے غلط استعمال کے حوالے سے کوئی قوانین موجود نہیں۔

انہوں نے کہا "قانون نافذ کرنے والے ادارے تاحال ملزمان کے خلاف موجودہ عہد کے تقاضے پورا نہ کر پانے والے قانون ای ٹی او اور پاکستان پینل کوڈ کی مخصوص شقوں پر انحصار کررہے ہیں۔ مختلف مقدمات میں لوگوں خاص طور پر خواتین کے لیے اپنے وقار اور پرائیویسی کا تحفظ کرپانا کافی مشکل ہوجاتا ہے"۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نئے سائبر کرائم بل پر کام کررہی ہے "مگر وہ ابھی تک پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا گیا اور نہ ہی وفاقی کابینہ میں اس پر بحث ہوئی ہے"۔

وزارت اطلاعات و نشریات کے ترجمان صغیر وٹو نے بھی تسلیم کیا کہ اس وقت نازیبا مواد کی روک تھام کے لیے قوانین موجود نہیں جس سے عام افراد خاص طور پر خواتین کی زندگیاں اور عزت خطرے کی زد میں ہیں۔

انہیں نے کہا کہ سائبر کرائمز بل 2014ء کو حتمی شکل دے دی گئی ہے اور عید کے بعد اسے وفاقی کابینہ کے سامنے پیش کردیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا "یہ بل انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزیر انوشہ رحمان نے تیار کیا ہے اور انہوں نے اس قانون میں خواتین کے تحفظ کے لیے مناسب شقیں شامل کی ہیں"۔

سلمان نے مانا شاہ رخ کو بولی وڈ کنگ

سلمان خان نے شاہ رخ خان کی بولی وڈ پر بادشاہت تسلیم کرلی، سلو بھائی کہتے ہیں شاہ رخ بادشاہ ہیں تو انہیں بادشاہ ہی رہنا چاہئیے۔

سلمان خان کی حالیہ فلم 'کِک' باکس آفس پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہی ہے، ہندوستانی اخبار ٹائمز آف انڈیا کے مطابق جب سلمان خان سے یہ سوال پوچھا گیا کہ اب وہ بولی وڈ کے بادشاہ ہیں کیونکہ ان کی فلم باکس آفس پر ہٹ ہوگئی ہے۔

تو جواب میں سلمان نے برجستہ جواب دیا کہ بولی وڈ میں پہلے سے ایک بادشاہ شاہ رخ خان کی شکل میں موجود ہے اور انہیں ہی بادشاہ رہنے دینا چاہیے ، مجھے انکی رعایا ہی رہنے دیں، میں اسی میں خوش ہوں اور انکی بادشاہت قبول کرتا ہوں۔

سلمان نے کہا کہ انہیں سیاست اور فلمسازی سے دلچسپی نہیں، میں اداکاری کرتا رہوں گا جبکہ مجھے شاہ رخ خان کی بادشاہت سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

حال ہی میں سلمان اور شاہ رخ نے ایک افطار پارٹی میں گلے مل کر ماضی کے گلے شکوے دور کئے تھے۔

دبنگ خان نے مزید کہا کہ میں کبھی شادی نہیں کروں گا، اپنے سوشل ورک سے بھی مطمئن ہوں۔

سلمان خان کہتے ہیں کہ لوگ مجھ سے خوف کھاتے ہیں لیکن مجھے اس کی وجہ کبھی سمجھ نہیں آئی، شاید وہ میری بڑی بڑی آنکھوں سے خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مجھے اس وقت غصہ ضرور آتا ہے جب کوئی ماحول خراب کرنے کی کوشش کرتا ہے ، ویسے بھی ہر وقت مسکرایا نہیں جا سکتا۔

اس کے علاوہ مجھے اپنی فلم کی پروموشن کرنا اچھا نہیں لگتا کیونکہ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں اپنی سٹار پاور کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو فلم دیکھنے کیلئے مجبور کر رہا ہوں۔

سلمان نے امید ظاہر کی کہ ان کی فلم 'کِک' پانچ سو کروڑ کا بزنس کرنے میں کامیاب ہوگی۔

عامر خان کیخلاف 'فحاشی' کی شکایت

معروف بولی وڈ سٹار عامر خان کی نئی فلم پی کے کے پوسٹر کی ریلیز کے فوراً بعد ہی ان کے خلاف ایک انڈین عدالت میں فحاشی پھیلانے کی شکایت درج کرا دی گئی ہے۔

ہندوستانی اخبار ٹائمز آف انڈیا کے مطابق یہ شکایت انڈور کی عدالت میں ایل ایل بی کے طالبعلم ابھیشیک بھارگوا نے درج کرائی ہے۔

طالبعلم کا کہنا ہے کہ "دسمبر 19 کو ریلیز ہونے والی فلم پی کے پوسٹر میں عامر خان کو برہنہ دکھایا گیا ہے جو کہ معاشرے میں فحاشی کے فروغ کا باعث بنے گا اسلئے متعلقہ دفعات کے تحت کیس کا اندراج کرے۔

ہندوستان ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق، ایڈووکیٹ منوج کمار نے بھی کانپور کورٹ میں عامر خان اور فلم کے پروڈیوسر ودھو ونود چوپڑا اور راج کمار ہیرانی کے خلاف کیس کی درخواست کی ہے۔

فلم کے پوسٹر کو فحش قرار دیتے ہوئے کمار کا کہنا تھا کہ اس سے احساسات کو نقصان پہنچا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'جب مجھے اخبار کی کاپی موصول ہوئی تو مجھے پوسٹر دیکھ کر شدید دھچکا لگ کیونکہ اخبار بچوں اور بڑوں سمیت کروڑوں لوگوں تک پہنچتا ہے'۔

اسرائیل نے فوجی انخلاء شروع کر دیا

غزہ: اسرائیل کی جانب سے پہلی بار غزہ میں آپریشن بند کرنے کے اشارے ملے ہیں البتہ جنگ بندی کے لیے ایک بار پھر ہونے والی کوششوں کے دوران بھی بمباری جاری رکھی گئی۔

ایک جانب فلسطینیوں کا ایک وفد جنگ بندی کی کوششوں کے حوالے سے مصر پہنچا تو دوسری جانب اسرائیل کی جانب سے شمالی غزہ کے مکینوں کو واپس اپنے گھروں کو جانے کا پیغام دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اس علاقے کے مکین اب ’’محفوظ‘‘ ہیں۔

اسرائیل کے ایک ترجمان نے غیر ملکی خبر رساں ادارے کو بتایا ہے کہ بیت الہیہ اور الاتاتارا کے رہائشی اپنے گھروں کو واپس آ سکتے ہیں، اس علاقے میں آپریشن روک دیا گیا ہے۔

مقامی افراد نے بھی اسرائیلی فوج کو علاقے سے نکلتے ہوئے دیکھنے کی تصدیق کی ہے۔

واضح رہے کہ 26 روز سے جاری جنگ کے دوران یہ پہلا موقع ہے کہ کسی علاقے سے اسرائیلی فوج واپس روانہ ہوئی ہے البتہ اس آپریشن کے دوران 1660 سے زائد فلسطینی ہلاک ہوئے ہیں جبکہ آبادی کا ایک چوتھائی حصہ نقل مکانی پر مجبور ہوا ہے۔

اسرائیلی فوجی ترجمان نے یہ بھی بتایا ہے کہ فورسز اپنے اہداف کے حصول کے بہت قریب ہیں، زمینی آپریشن کا بنیادی مقصد زیر زمین سرنگوں کو تباہ کرنا تھا، ان سرنگوں سے جنوبی اسرائیل میں حملے کیے جا رہے تھے۔

جذوی طور پر فوج کی واپسی سے قطع نظر اسرائیل کی جنگی کابینہ نے قاہرہ میں جنگ بندی کے حوالے سے وفد بھیجنے کی مخالفت میں فیصلہ کیا ہے۔

فوجی ریڈیو پر ایک سینئر اسرائیلی اہلکار کا کہنا تھا کہ حماس کو حالیہ کیے جانے والے جنگ بندی کے انتظامات میں دلچسپی نہیں ہے۔

بعض مبصرین کا خیال فوجیوں کی واپسی یک طرفہ انخلاء بھی ہو سکتا ہے۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے واضح امکانات بہت کم ہیں کیوں کہ اسرائیل کا خیال ہے کہ اس کا ایک 23 سالہ فوجی حماس کی حراست میں ہے۔

غزہ میں رفاہ کے علاقے پر گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کی جانے والی بمباری میں 114 افراد ہلکا ہو چکے ہیں جس سے غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد برھ کر 1670 ہو گئی ہے جس کی تصدیق طبی امداد کے ادارے کے ترجمان اشرف القدرا نے بھی کی ہے ان کے مطابق 9000افراد زخمی ہوئے۔

یاد رہے کہ اسرائیل کے سیکنڈ لیفٹیننٹ حدر گولڈین کو مبینہ طور پر مغوی بنائے جانے کی اقوام متحدہ اور امریکہ نے سخت مذمت کی ہے کیونکہ اس سے اسرائیل اور حماس کے درمیان 72گھنٹے کی جنگ بندی کا معاہدہ چند گھنٹوں میں ٹوٹ گیا تھا۔

اسرائیل کا الزام تھا کہ حماس نے اس کے دو فوجی ہلاک کیے ہیں جبکہ ایک فوجی کو یرغمال بنا لیا گیا ہے۔

حماس کے عسکری ونگ نے حملے میں فوجیوں کی ہلاکت کی تو تصدیق کی تھی البتہ اس نے کسی فوجی ہو حراست میں لینے کی تردید کی ہے۔

اسرائیل کی جانب سے اپنے لاپتہ فوجی کی تلاش کے لیے رفاہ اور اس کے نواحی علاقوں میں تلاش کی جارہی ہے، اس علاقے میں 21ہزار سے زائد فلسطینی آباد ہیں۔ یروشلم کو خدشہ ہے کہ اس کے یرغمال فوجی کو زیر حراست افراد کے تبادلے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

یاد رہے کہ 2006 میں غزہ میں اسرائیلی فوجی گلیڈ شالیت کو یرغمال بنایا گیا تھا اور اس جو 5 سال تک قید میں رکھا گیا تھا اس کی رہائی کے بدلے میں 1000 فلسطینی قیدیوں کی رہائی ممکن بنائی گئی تھی۔

شالیت کو یرغمال بنائے جانے کے چند دن بعد اسرائیل نے لبنان میں عسکری تنظیم حزب اللہ کے خلاف آپریشن شروع کیا تھا اس 34 روزہ آپریشن میں بھی اسرائیل کے دو فوجی یرغمال بنا لیے گئے تھے جس کے بعد اسرائیل نے نہ صرف آپریشن ختم کر دیا تھا بلکہ ان دو فوجیوں کی رہائی کے بدلے میں مبینہ طور پر سیکڑوں قیدیوں کو بھی رہا کیا تھا۔

علاوہ ازیں مصر کے صدر عبدالفتح السیسی کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کے لیے منصوبے سے بڑھتے ہوئے تشدد کا خاتمہ ممکن ہو گا۔

فلسطین کی جانب سے مصر جانے والے وفد میں انٹیلی جنس چیف ماجد فراج، حماس کے اعلیٰ عہدیدار موسی ابو مرزق اور اسلامک جہاد کے رہنما زید النخلے شامل ہیں۔

تجزیہ : پاکستان میں فیس بک کا مسئلہ

پاکستان بھر میں اس وقت فیس بک استعمال کرنے والے افراد کی تعداد لگ بھگ ایک کروڑ 54 لاکھ کے قریب ہے جو کہ مجموعی آبادی کا 8.5 حصہ بنتا ہے، یا کراچی کے برابر کا ایک ورچوئل شہر، اور بلاشبہ فیس بک پاکستان کی سب سے بڑی سماجی رابطے کی ویب سائٹ ہے، تاہم کچھ حلقوں کی جانب سے دلیل دی جارہی ہے کہ یہ ویب سائٹ وقت کا ضیاع یا معاشرے کے اعلیٰ طبقے کے لیے ہے۔

پاکستان تحریک انصاف نے مئی 2013ءکے عام انتخابات میں فیس بک کی سیاسی اہمیت ثابت کردی تھی، جبکہ متعدد کمپنیاں، کاروبار، بڑی و چھوٹی صنعتیں بھی اپنے روزمرہ کے کام کے لیے سوشل میڈیا پر انحصار کررہی ہیں، کیونکہ اس طرح ان کی پہنچ معاشرے کے ہر طبقے کے فرد تک ہوجاتی ہے، یعنی شہری سے لے کر دیہی آبادی تک جوکہ رابطے، شیئرنگ، رشتے بنانے، رائے بنانے اور یقیناً صرف تفریحی مقاصد کے لیے اس کا استعمال کرتی ہے۔

تھری جی کے متعارف ہونے اور مارکیٹ میں سستے ترین اسمارٹ فونز کی بھرمار کی مدد سے ٹیلی کمپنیاں فیس بک اور ٹوئیٹر تک اشتہارات کی رسائی سے لاکھوں کمارہی ہیں، صارفین ان ویب سائٹس تک مفت رسائی حاصل کرپاتے ہیں جبکہ فیس بک نے ایک منفرد حیثیت دسمبر 2013ءمیں اس وقت حاصل کرلی جب اس نے اپنی آفیشل زبانوں میں اردو کو بھی شامل کرلیا۔

پاکستانی معاشرے میں فیس بک کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں اور 2013ءکے اعدادوشمار میں یہ بات سامنے آچکی ہے کہ اس ویب سائٹ پر کسی چیز کو پوسٹ کرنے سے ایک مقامی صارف تک وہ معلومات تک بارہ سیکنڈ تک پہنچ جاتی ہے اور یہ بات یقینی ہے کہ مارک زیوکربرگ کا یہ نیٹ ورک پاکستان میں طویل عرصے تک راج کرنے والا ہے۔

فیس بک کا مستقبل روشن نظر آتا ہے کیونکہ اس پلیٹ فارم پر کسی اچانک اور مستقل پابندی کا امکان نظر نہیں آتا۔

تاہم فیس بک غلطیوں سے پاک بھی نہیں، اور چند انتہائی سنجیدہ معاملات سامنے آئے ہیں جن کی وجہ سے یہ سوالات اٹھے ہیں کہ کس طرح حکومت اور معاشرے کو اس ویب سائٹ کے غلط استعمال کو روکنے کی ضرورت ہے ۔

فیس بک پر دھمکیوں، بلیک میل اور ہراساں کئے جانے کی شکلوں میں خواتین کے خلاف تشدد کی اقسام، کسی فرد کی نجی تفصیلات کا ہیکنگ کے ذریعے غلط استعمال بہت عام ہوگیا ہے جس کا نتیجہ حقیقی دنیا میں سنگین خطرات کی صورت میں نکل رہا ہے۔

فیس بک پر نفرت انگیز تحریریں بھی عام ہوچکی ہیں اور اس طرح کے مواد کا بڑا حصہ اردو یا رومن اردو رسم الخط میں ہے، جن کے خلاف فیس بک پر شکایت درج کرانے کا میکنزم ناکارہ ثابت ہوتا ہے۔

کسی پوسٹ کے شیئر ، لائک یا بس کسی دوسرے فرد کی نیوز فیڈ پر آنے سے بھی مذہب کی توہین کے الزامات پر گرفتاریاں بھی ہوجاتی ہیں، جس کی مثال ملتان کی بہاولدین ذکریہ یونیورسٹی کے وزٹنگ لیکچرر جنید حفیظ کیس ہمارے سامنے ہے ۔

فیس بک پر ہی اس طرح کے الزامات پر گجرانوالہ میں حال ہی میں فسادات پھوٹ پڑے تھے جس کے نتیجے میں احمدی برادری کی دوبچیاں اور ایک خاتون ہلاک ہوگئی تھیں۔

اسی طرح کالعدم گروپس جیسے سپاہ صحابہ سے لے کر تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے فیس بک کو رابطوں، نظم اور بھرتیوں کے لیے استعمال کرنا ایک بہت بڑا حقیقی خطرہ ہے۔

ان ابھرتے مسائل پر انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے رضاکاروں اور انٹرنیٹ اسٹیک ہولڈرز کو یوٹیوب جیسی مکمل پابندی جیسے ردعمل کا خدشہ ہے۔

اس وقت ملک میں سائبر کرائمز کے حوالے سے قوانین موجود نہیں اور پرانا و دقیانوسی الیکٹرونک ٹرانزیکشن آرڈنینس(ای ٹی او) 2002ءکو استعمال کیا جارہا ہے، جس کے تحت فیس بک پر مجرمانہ سرگرمیوں کے خلاف قانون نافذ کرنے والے ادارے کچھ زیادہ کرنہیں سکتے۔

سائبر کرائمز پر نیا قانون ایک سال سے اسمبلیوں سسے منظوری کا منتظر ہے، جس میں بھی ان مسائل پر کچھ زیادہ توجہ نہیں دی گئی ہے۔

اراکین پارلیمنٹ بھی فیس بک کے مسائل کو حل کرنے میں کچھ زیادہ سنجیدہ نہیں، ان قوانین کے استعمال(یا غلط استعمال) کو کیسے ممکن بنایا جائے، اس سے کس کو فائدہ ہوگا اور کون ہدف بنے گا، کیا بائیں بازو کی جانب جھکاﺅ رکھنے والے، سیکیولر گروپس، مذہبی اقلیتوں اور ریاست کے ناقدین سمیت دیگر کو ہی بلاک اور آن لائن پابندیوں کا سامنا ہوگا؟ فیس بک کی سرگرمیوں پر تحقیقات کے لیے کیا میکنزم اپنایا جائے گا؟ کیا ان ہی افراد کو ریاست کی جانب سے سوشل نیٹ ورک کے ورکنگ ریلیشن شپ کا اختیار دیا جائے گا جنھوں نے عوام کو یوٹیوب سے دور کررکھا ہے؟ سوشل میڈیا پر مذہب کی توہین کے الزامات پر دھمکیوں کا سامنا کرنے والوں کے لیے کیا کچھ کیا جائے گا؟

فیس بک متعدد خوبیوں کی حامل سائٹ ہے جو سوشل نیٹ ورک کی دنیا پر راج کرنے کی اہلیت رکھتی ہے جیسے اطلاعات تک عام رسائی، اطلاعات کے پھیلنے کی رفتار اور دیگر تاہم ان خوبیوں کا پاکستانی معاشرے کے حکمران طبقوں سے براہ راست تصادم ہوگیا ہے، جیسے مذہبی خیالات کی آزادی اور ان کے اظہار وغیرہ نمایاں مثالیں ہیں، پاکستانی معاشرے میں اس پلیٹ فارم سے واقفیت نہ ہونے کے برابر ہے خاص طور پر پرائیویسی اور سیکیورٹی معاملات میں۔

جب تک ہر ادارے کلاس روم سے لے کر پارلیمنٹ، دفاتر سے عدالتیں اور دیگر تک فیس بک کے مسائل کو ہرسطح پر اٹھایا نہیں جاتا اور ان کی روک تھام نہیں ہوتی اس وقت تک یہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ہماری قوم کے لیے نقصان کا ہی باعث بنے گی۔

یہ نقصان سخت گیر قوانین، ذاتی فوائد اور نظر انداز کئے جانے کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے یا اس سے بھی برا یعنی قومی سطح پر اس نیٹ ورک پر پابندی کی صورت میں بھی، تاہم اس طرح کی پابندی کے منفی اثرات کا اندازہ صرف اس ناقابلیت سے لگایا جا سکتا ہے جو کہ اس کی وجہ سے پیدا ہو گی۔

یہ تجزیہ ڈان اخبار کے تین اگست کے شمارے میں شائع ہوا ہے

Friday 1 August 2014

صحت کی 7 علامات جنھیں نظرانداز کرنا پڑسکتا ہے بھاری

نیویارک : ہر انسان بچپن سے لڑکپن، نوجوانی، درمیانی عمر یا اڈھیر عمری سے ہوتا ہوا بڑھاپے کی عمر تک پہنچتا ہے مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ اس سفر کے دوران کچھ خاص جسمانی کیفیات کو نظرانداز کرنے کا نتیجہ قبل ازوقت موت کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے؟
جی ہاں اڈھیرعمری یا درمیانی عمر (چالیس سال کے بعد سے) میں ان طبی علامات کو نظرانداز کرنا کافی بھاری بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

سینے میں درد

سینے میں چبھتا درد ہوسکتا ہے کہ دل کا دورہ ہو جیسا آپ ٹی وی پر دیکھتے ہی رہتے ہیں یا عام تکلیف بھی ہوسکتی ہے، تاہم یہ بات اہمیت رکھتی ہے جب بھی آپ کو سینے میںگھٹن اور تکلیف محسوس ہو تو طبی امداد کے لیے فون ضرور کریں اور کوئی گولی کھا کر اطمینان سے نہ بیٹھ جائے۔
ہوسکتا ہے کہ درد زیادہ شدید نہ ہو مگر یہ نہ بھولیں کہ ضروری نہیں کہ دل کے دورے کا احساس ہمیشہ سینے میں ہی ہوتا ہے، کئی بار یہ کمر درد، جبڑے میں درد یا دیگر تکالیف کی صورت اظہار کرتا ہے کہ آپ کا دل تکلیف میں ہے، اگر آپ ایسے درد کا احساس ہو تو طبی امداد لینے سے ہچکچائیں مت۔

سر کا شدید درد

اگر آپ کو اچانک ہی سر میں درد کا احساس ہو اور آپ کو ایسا لگے کہ یہ زندگی کا سب سے بدترین درد ہے تو فوری طور پر طبی امداد حاصل کریں، کیونکہ یہ ہوسکتا ہے کہ دماغ کو خون پہنچانے والی شریان میں کسی کمزوری یا رکاوٹ کا نتیجہ ہو، یہ درد اس شریان کو دماغ کو پھیلانے کا سبب بن سکتا ہے اور اگر یہ برقرار رہے تو اس کا نتیجہ فالج یا برین ہیمبرج کی شکل میں موت کی صورت میں نکل سکتا ہے، تو طبی امداد لینے گریز مت کریں۔
تاہم یہ ذہن میں رہے کہ یہ درد آدھے سر کے درد یا مائیگرین سے مختلف ہوتا ہے اور اگر وہ اچانک ہی آپ کو شکار کرتا ہو اور یہ سب معمول کا حصہ بن جائے تو یہ کسی خرابی ہوسکتا ہے۔

پیٹ کا درد

اگر آپ کے پیٹ میں اکثر درد رہتا ہو، پھولتا ہوا محسوس ہوتا ہے، کھانے سے رغبت ختم ہوجائے یا اجابت کے نظام میں کوئی تبدیلی محسوس ہو تو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہئے کیونکہ یہ کسی سنگین بیماری کی ابتدائی علامات بھی ہوسکتی ہیں۔

ہاتھوں یا پیروں کا سن ہوجانا

اگر آپ کو ہاتھوں یا پیروں میں کمزوری، سن ہوجانے کی شکایت یا جھنجھناہٹ محسوس ہو یا ان کی مضبوطی ختم ہوجائے(جیسے آپ کو سیڑھیاں چڑھنے میں مسئلہ ہو وغیرہ) تو یہ ممکنہ طور پر ریڑھ کی ہڈی میں کسی قسم کا مسئلہ ہوتا ہے جو آپ کے اعصاب کو دبا رہا ہوتا ہے۔
اگر آپ اس دباﺅ سے اپنے عصبی نظام کو نجات نہیں دلاتے تو آپ مستقل دماغی تبدیلیوں یا نقسان کا شکار ہوسکتے ہیں، اگرچہ ڈاکٹر اس کا علاج علامات ظاہر ہونے کے بعد ہی کرتے ہیں مگر اس صورت اگر آپ مناسب غذا اور ادویات کا استعمال کریں اور دیگر احتیاطی تدابیر کو اختیار کریں تو آپ کو مستقبل میں پریشانی کا سامان نہیں ہوگا۔

ٹانگ میں سوجن کے ساتھ درد

اگر آپ پنڈلی پر ورم اور درد کو محسوس کریں تو یہ وہ علامت ہے جس کو فوری توجہ کی ضرورت ہوتی ہے اور انتظار کرنا نقصان دہ بھی ثابت ہوسکتا ہے۔
یہ علامات اس بات کا عندیہ دے رہی ہوتی ہیں کہ آپ کی ٹانگ میں بلڈ کلوٹ یا لوتھڑا موجود ہوسکتا ہے اور یہ ایک خطرناک حالت ہے کیونکہ یہ جما ہوا خون اگر سفر کرتا ہوا پھیپھڑوں میں پہنچ گیا تو یہ جان لیوا بھی ہوسکتا ہے، ایک اندازے کے مطابق اس کیفیت کے نتیجے میں صرف امریکہ میں ہی ہر سال دو لاکھ افراد ہلاک ہوجاتے ہیں کیونکہ بلڈ کلوٹ سے پھیپھڑوں میں آکسیجن کی سپلائی رک جاتی ہے۔
تاہم اگر اس کا فوری علاج کرلیا جائے تو موت کا خطرہ دس فیصد سے کم رہ جاتا ہے۔

مسلسل کھانسی

اگر آپ کی کھانسی کی شدت میں کوئی کمی نہیں آرہی تو ڈاکٹر سے رجوع زیادہ بہتر طریقہ کار ہوگا، کیونکہ کھانسی مختلف امراض جیسے انفیکشن، کسی قسم کے کینسر، خوراک کی نالی میں تکلیف، پھیپھڑوں کے مسائل اور دیگر کا سبب ہوسکتی ہے۔

بہت زیادہ تھکاوٹ

ہر شخص کے توانائی کا لیول مختلف ہوتا ہے، خاص طور پر عمر کے حساب سے، تاہم اگر آپ خود اپنی زندگی میں یہ محسوس کرتے ہیں کہ آپ کا جسم ہر وقت تھکاوٹ کا شکار رہتا ہے اور آرام کا مطالبہ کرتا رہتا ہے تو یہ خون کی کمی کی علامت ہوسکتا ہے، یا آپ کے ہارمون عدم توازن کا شکار ہوسکتے ہیں ، یہ دل کے دورے کی بھی ایک علامت ہوسکتی ہے۔ کسی بھی حالت میں اسے نطر انداز مت کریں اور اپنے ڈاکٹر سے فوری طبعی معائنہ ضرور کرائیں۔

اسرائیل ہٹلر جیسا فاشسٹ ہے، طیب اردوان کا الزام


انقرہ: ترک وزیراعظم رجب طیب اردوان نے فلسطینی پر اسرائیلی حملوں پر صہیوی ریاست کو ایک بار پھر آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے ان پر فلسطین کے خلاف ہٹلر جیسے فاشزم کا الزام عائد کیا ہے۔
جمعرات کو مشرقی ترکی میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے اردوان نے کہا کہ وہ 2004 میں یہودی گروپ کی جانب سے انہیں دیا گیا ایوارڈ واپس کرنے پر خوش ہیں۔
یہ ریلی اردوان کی امیدوار صدر کی حیثیت سے نامزدگی کے بعد مہم چلانے کے لیے منعقد کی گئی تھی۔
امریکی یہودی کانگریس نے اردوان کی جانب سے اسرائیلی حملوں کو ’تھرڈ رائیک‘(نازی جرمن کی جانب سے اسرائیلوں کے قتل عام) سے تعبیر کرنے پر ایوارڈ واپس کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ’اگر آپ اس ظلم، نسل کشی، ہٹلر جیسے فاشزم اور بچوں کے قتل عام کی حمایت کرتے ہیں، تو اپنا ایوارڈ واپس لیں‘۔
مشرقی صوبے وین میں انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ترک وزیر اعظم نے عالمی برادری سے سوال کیا کہ اسرائیلی کارروائیوں اور نازی اور ہٹلر کے عمل کے درمیان کیا فرق ہے؟، جو اسرائیل، فلسطین خصوصاً غزہ میں کر رہا ہے، آپ اسے کیسے بیان کریں گے، کیا یہ نسل کشی نہیں؟۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ نسل پرستی اور فاشزم ہے۔ یہ ہٹلر کے طرز عمل اور طریقہ کار کو زندہ رکھنے کے مترادف ہے۔
یاد رہے کہ فلسطین کے معاملے پر اسرائیل کے خلاف جارحانہ بیان بازی پر اردوان نے نہ صرف اسرائیل بلکہ اپنی قریب امریکا کی بھی ناراضگی مول لی۔
اردوان ان دنوں 10 اگست کو ہونے والے صدارتی انتخاب کی مہم میں مصروف ہیں اور اس دوران وہ فلسطین کے دفاع اور اسرائیل پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تاہم سیاسی ماہرین اسے انتخابات میں کامیابی کا حربہ قرار دے رہے ہیں۔
اس موقع پر انہوں نے اسرائیلی کی جانب سے سخت تنقید پر انہیں 15ویں صدی عیسوی کی یاد دہانی کراتے ہوئے کہا کہ جب یہودیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کردیا گیا تو کون ان کے ساتھ کھڑا ہوا؟ وہ ہمارے بڑے تھے، وہ خلافت عثمانیہ تھی۔
’کیا تم شرمندہ نہیں؟ کس حد تک بداخلاق ہو تم ۔۔۔۔۔۔ یہ ہم ہی تھے جنہوں نے اپنی سرزمین پر تمہیں تحفظ فراہم کیا اور پرامن انداز میں رہنے دیا‘۔

Thursday 31 July 2014

Latest Bollywood Hindi Movies 2014 Saturday Saturday - Official Song - Humpty Sharma Ki Dulhania - Varun Dhawan, Alia Bhatt



Latest Bollywood Hindi Movies 2014
Saturday Saturday - Official Song - Humpty Sharma Ki Dulhania - Varun Dhawan, Alia Bhatt

Latest Bollywood Hindi Movies 2014 What The Fark (Amit Sahni Ki List) HD



What The Fark (Amit Sahni Ki List) HD,download What The Fark (Amit Sahni Ki List) HD.free watch song What The Fark (Amit Sahni Ki List) HD.watch song What The Fark (Amit Sahni Ki List) HD

Watch Latest Comedy Movies Trailers & New Bollywood Movies Songs



مووی ریویو: 'کک' صرف سلمان خان کی فلم نہیں



بطور ڈائریکٹر، پروڈیوسر ساجد ناڈیا والا کی پہلی فلم 'کِک' نئے زمانے کے جوشیلے رابن ہڈ کی کہانی ہے- ناڈیا والا گرینڈسن انٹرٹینمنٹ کے تحت بننے والی یہ ایکشن تھرلر، سنہ دو ہزار نو میں اسی نام کی تیلگو فلم کا ری میک ہے-
دیوی لال سنگھ اے.کے.اے. ڈیوِل (سلمان خان)، ایک حد سے زیادہ ذہین اور جوشیلا نوجوان ہے جسے چھوٹی سے چھوٹی چیز میں بھی ایڈونچر چاہیے- اپنی سیماب فطرت کی بنا پر وہ کوئی نوکری بھی نہیں کر سکتا چناچہ کوئی لڑکی اس میں دلچسپی نہیں رکھتی- حالات و واقعات اسے ایک ہائی - پروفائل چور بنا دیتے ہیں اور یوں وہ قابل اور جانباز پولیس افسر ہیمانشو (رندیپ ہودا) کی نظروں میں آجاتا ہے-
سکرین شاٹ
سکرین شاٹ
ہیمانشو ہر حال میں اسے گرفتار کرنے کی قسم کھاتا ہے اور اس کے پیچھے پولینڈ پہنچ جاتا ہے جہاں اس کی ملاقات اپنی بچپن کی دوست شائنا (جیکولین فرنینڈز) سے ہوتی ہے- ہیمانشو کو پتا چلتا ہے کہ شائنا کسی عجیب وغریب فطرت کے انسان سے محبّت کرتی تھی جو اس کا دل توڑ کر چلا جاتا ہے، جو بات وہ نہیں جانتا وہ یہ کہ اس کا دردِ سر اور شائنا کا ایکس-بوائے فرینڈ دونوں ایک ہی شخص ہیں، یعنی 'ڈیول'- ڈیول ایک طرف شائنا کو بیوقوف بناتا ہے دوسری طرف پولیس کے ساتھ چوہے بلّی کا کھیل کھیلتے ہوئے ڈکیتی کا منصوبہ بناتا ہے-
کِک، کی کہانی معقول ہے اور سکرپٹ پر خاصی محنت کی گئی ہے- بطور ڈائریکٹر، ساجد ناڈیا والا نے اپنی پہلی فلم میں ناصرف باصلاحیت اداکار اکھٹے کیے ہیں بلکہ انہیں اپنا کردار ادا کرنے کے لئے مناسب گنجائش، ڈائیلاگ اور کیمرا ٹائم بھی دیا ہے-
سکرین شاٹ
سکرین شاٹ
کِک ، محض سلمان خان کی فلم نہیں ہے بلکہ اس میں رندیپ ہودا، سنجے مشرا، سوربھ شکلا، نوازالدین صدیقی، متھن چکربورتھی اور ارچنا پورن سنگھ بھی شامل ہیں- ان باصلاحیت اداکاروں کے ساتھ فلم بنا کر ساجد ناڈیا والا نے خود کو ایک قابل ڈائریکٹر منوا لیا ہے-
فلم کی شوٹنگ ممبئی اور پولینڈ میں کی گئی ہے- ایکشن سینز بہترین انداز میں فلمائے گئے ہیں، پچھلے سال اسی موضوع پر بننے والی فلم 'دھوم -تھری' کے مقابلے میں، کِک کے اسٹنٹس زیادہ حقیقی اوردلچسپ نظر آتے ہیں- بھڑکیلے ڈانس نمبرز نے مووی کو مزید دلچسپ بنا دیا ہے-
سکرین شاٹ
سکرین شاٹ
سلمان خان، فلم میں خاصے فریش، کم عمر اور اپنے مداحوں کو متاثر کرنے کے لئے پرعزم دکھائی دیتے ہیں- رندیپ ہودا، سلمان خان کی موجودگی کے باوجود پراعتماد نظر آئے، اور ہر اس سین میں جہاں دونوں سٹار ایک ساتھ نظر آئے رندیپ کا پلڑا بھاری رہا- اب سوال یہ ہے کہ دونوں میں سے کون فلم کا اصل ہیرو ہے؟ سلمان جو اپنی روایتی سلمانیت کے مطابق بولڈ، گھمنڈی اور اکھڑ رہے اور آخر میں لڑکی بھی انہی کو ملی، یا رندیپ ہودا جو ایک سمارٹ، سمجھدار، اور بہادر پولیس والے ہیں (افسوس آخر میں انہیں کوئی لڑکی نہیں ملی)-
سکرین شاٹ
سکرین شاٹ
فلم میں جیکولین نے اپنی پرفارمنس سے یہ ثابت کردیا کہ انکا کردار محض خانہ پوری نہیں ہے-
سنجے مشرا نے ایک بونگے پولیس والے کا کردار کیا، اپنے مختصر رول کے باوجود وہ سلمان پر بازی لے گئے- سوربھ شکلا، متھن چکرابورتھی اور ارچنا پورن سنگھ کی پرفارمنس بھی اپنی جگہ اعلیٰ رہی-
آخر میں نوازالدین صدیقی اپنی شیطانی ہنسی اور شاطرانہ کردار کے ساتھ مووی کے اصل 'ڈیول' ٹھہرے-
فلم میں کامیڈی کے نام پر لچرپن کا استعمال نہیں کیا گیا، مزاح صحیح وقت پر صحیح جگہ استعمال کیا گیا ہے- ڈائیلاگ برجستہ اور نیچرل ہیں- بعض لائنز یاد رہ جانے والی ہیں، جیسے:۔
**عید آرہی ہے اور وہ اپنی عیدی لینے ضرور آئے گا-
میں تمہارے ساتھ بوڑھا ہوں، تمھاری وجہ سے نہیں-
میرے بارے میں زیادہ مت سوچنا، دل میں آتا ہوں سمجھ میں نہی





ملک بھر میں عید کے اجتماعات ہوئے جہاں ملکی سلامتی اور استحکام کے لیے خصوصی دعائیں مانگی گئیں

                                                             batkhela news

 ملک بھر میں عید کے اجتماعات ہوئے جہاں ملکی سلامتی اور استحکام کے لیے خصوصی دعائیں مانگی گئیں

































اگر800 اسرائیلی ہلاک ہوتے تو پھر کیا ہوتا؟



آٹھ سو فلسطینوں کی ہلاکت پر ایک ہی لفظ ذہن میں آتا ہے جو ہے بریت یا استثنیٰ۔

آٹھ سو یہ تعداد درحقیقت یوکرائن میں حادثے کا شکار ہونے والی پرواز ایم ایچ 17 کی ہلاکتوں سے دوگنا سے بھی زیادہ ہے اور اگر آپ صرف " معصوم" ہلاکتوں کا حوالہ دیں یعنی حماس جنگجوﺅں، نوجوان ہمدردوں یا کرپٹ حماس حکام کو شامل نہ کریں، جیسا کہ اسرائیلی کرتے ہیں، تو بھی غزہ میں مارے جانے والے خواتین، بچوں اور بزرگوں کی مجموعی تعداد پھر بھی ایم ایچ 17 کے متاثرین سے زیادہ ہوگی۔

اور یہاں کچھ بہت عجیب ہے، کیا واقعی ان دونوں جگہوں پر ہونے والی ہلاکتوں پر ہمارا ردعمل مختلف نہیں، غزہ میں ہم جنگ بندی کی اپیل تو کرتے ہیں مگر وہاں کے لوگوں کو غزہ کی تپتی دھرتی میں دفن کرنے دیتے ہیں اور زخمیوں کے لیے ایک انسانیت کے نام پر ایک راستہ تک نہیں کھولتے۔

مگر جہاں تک ایم ایچ 17 کے مسافروں کی بات ہے، ہم ان کی فوری مناسب تدفین اور ہلاک شدگان کے ورثاءکے خیال کا مطالبہ کرتے ہیں، ہم ان کو بددعائیں دیتے ہیں جنھوں نے مشرقی یوکرائن کے کھیتوں میں لاشوں کو چھوڑ دیا، اگرچہ بیشتر لاشیں کچھ وقت کے لیے ہی کھیتوں میں پڑی رہی، اور وہاں غزہ کے آسمان کی طرح اوون جیسا گرم موسم بھی نہیں تھا۔

یہ چیز برسوں سے مجھے جھنجھوڑ رہی ہے، ہم فلسطینوں کی زیادہ پروا نہیں کرتے، کیا ہم کرتے ہیں؟ ہم اسرائیلیوں کی قابل تعزیر کارروائیوں کی پروا بھی نہیں کرتے، حالانکہ اسرائیلی فوج بہت بڑی تعداد میں عام شہریوں کو ہلاک کرچکی ہے۔ مگر حماس کی صلاحیت ضرور ہمارے لئے معنی رکھتی ہے،اگر آٹھ سو اسرائیلی اور صرف 35 فلسطینی ہلاک ہوتے تو میرا خیال ہے کہ میں جانتا ہوں کہ ہمارا ردعمل کیا ہوتا۔

ہم اسے کیا قرار دیتے ہیں ؟ یقیناً ایک قتل عام، بربریت، ایک جرم جس کے مرتکب افراد کا احتساب ہونا چاہئے، جی ہاں حماس کو بھی قانون کے کٹہرے میں لانا چاہئے۔

مگر آخر آج ہم صرف ان ملزمان کی ہی تلاش میں کیوں سرگرداں ہیں جنھوں نے یوکرائن میں ایک طیارے پر ایک یا ہوسکتا ہے دو میزائلوں کو فائر کیا؟ اگر اسرائیل میں ہلاکتیں فلسطینیوں کے برابر ہوتی ہیں اور میں دوبارہ دوہراتا ہوں کہ شکر ہے کہ ایسا نہیں ہوا، مجھے شک ہے امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو " ایرانی حمایت یافتہ دہشتگردوں" سے تحفظ کے لیے مکمل فوجی تعاون کی پیشکش کردی جاتی۔

ہوسکتا ہے کہ ہمارا حماس سے مطالبہ ہو کہ وہ عفریت ہمارے حوالے کئے جائیں جو اسرائیل پر راکٹ برسا رہے ہیں اور وہ لوگ بھی، جنھوں نے تل ابیب کے بن گورین ائیرپورٹ پر طیارے کو مار گرانے کی کوشش کی، مگر ہم ایسا نہیں کررہے کیونکہ اس وقت بیشتر ہلاک ہونے والے افراد فلسطینی ہیں۔

مزید سوالات یہ ہیں کہ آخر فلسطینیوں کی ہلاکتوں کی وہ کون سی حد ہے جس کے بعد ہم جنگ بندی کرائیں گے؟ آٹھ سو؟ یا آٹھ ہزار؟ کیا ہمارے پاس اسکور بورڈ ہے؟ ہلاکتوں کا ایکسچینج ریٹ؟ یا ہم اس وقت تک انتظار کریں گے ہمارا حلق خون سے بھرجائیں گے اور کہٰں بس بہت ہوگیا، یہاں تک کہ اسرائیل کی جنگ بھی اب برداشت سے باہر ہوگئی ہے۔

اسرائیل کی نئی فوج کے ہاتھوں 1948ءمیں عرب دیہاتیوں کے قتل عام سے لے کر 1982ءکے صابرہ اور شتیلا کے قتل عام تک، جب اسرائیل کے اتحادی لبنانی عیسائیوں نے سترہ سو افراد کو قتل کردیا تھا اور اسرائیلی فوجی دیکھتے رہے تھے، 1986ءمیں لبنانی عربوں کا اقوام متحدہ کی بیس میں جی ہاں اقوام متحدہ کی بیس میں کانہ قتل عام، دس سال بعد 1996ءمیں کانہ کے علاقے میں ایک بار پھر سفاکانہ قتل عام، اور 2008-09ءکی غزہ جنگ میں شہریوں کی بڑے پیمانے پر ہلاکتیں۔

صابرہ اور شتیلا کے واقعات کے بعد تحقیقات کرائی گئی، کانہ میں بھی ایک انکوائری ہوئی اور 2008-09ءکے قتل عام پر بھی ایک انکوائری ہوئی، کیا ہمیں یاد نہیں کہ کس طرح جج گولڈاسٹون نے دستبردار ہونے کی ہرممکن کوشش میرے اسرائیلی دوستوں کے مطابق اس وقت کی، جب اسے شدید ذاتی دباﺅ کا سامنا کرنا پڑا؟

باالفاظ دیگر ہم یہ سب پہلے بھی دیکھ چکے ہیں، یہ دعویٰ کہ صرف " دہشتگرد" ہی اس کے ذمہ دار ہیں جنھیں حماس ہلاک کرتی ہے اور صرف " دہشتگرد" کو ہی مودر الزام ٹھہرایا جاسکتا ہے جنھیں اسرائیل مارتا ہے(یقیناً حماس " دہشتگرد")۔ اور مسلسل یہ دعویٰ بار بار دہرایا جاتا ہے کہ اسرائیل کی فوج کا معیار دنیا میں کسی بھی ملک کے مقابلے میں سب سے بلند ہے اور وہ کبھی شہریوں کو نقصان نہیں پہنچاتی۔

یہاں میں 1982ءمیں لبنان پر اسرائیلی حملہ یاد دلانا چاہوں گا جس میں ساڑھے سترہ ہزار افراد ہلاک ہوگئے تھے جن میں اکثریت شہریوں کی تھی۔

کیا ہم وہ سب بھول چکے ہیں؟
استثنیٰ سے ہٹ کر ایک اور لفظ حماقت بھی میرے ذہن میں آتا ہے، میں یہاں کرپٹ عرب حکمرانوں اور آئی ایس آئی ایس کے قاتلوں کو بھول سکتا ہوں اور عراق و شام میں ہول سیل بنیادوں پر ہونے والے قتل عام کو بھی فراموش کرسکتا ہے، کیونکہ ان کی فلسطین کے مسئلے پر بے حسی متوقع تھی۔

وہ ہمارے اقدار کی نمائندگی کا دعویٰ نہیں کرتے، مگر ہم انہیں جان کیری کو ضرور پیش کردیتے ہیں۔ اوبامہ کے سیکرٹری اسٹیٹ، جس نے گزشتہ ہفتے میں ہمیں بتایا تھا کہ اسرائیلی فلسطینی جنگ کے " بنیادی مسائل" کو حل کئے جانے کی ضرورت ہے؟ آخر وہ گزشتہ برسوں میں اس دنیا میں کیا کرتا رہا تھا، جبکہ اس نے دعویٰ کیا تھا کہ بارہ ماہ کے دوران مشرق وسطیٰ میں امن قائم ہوجائے گا؟ کیا انہیں احساس نہیں تھا کہ آخر فلسطینی غزہ میں بھی موجود ہیں؟

یہ سچائی کہ دنیا بھر کے لاکھوں افراد اور یہ میری خواہش بھی ہے کہ میں کہوں کہ لاکھوں افراد اس استثنیٰ کا خاتمہ چاہتے ہیں، وہ ان جملوں جیسے "غیر متوازن ہلاکتیں" (یعنی ایک طرف بہت زیادہ اور دوسری جانب نہ ہونے کے برابر)۔ غیرمتوازن کیا؟ بہادر اسرائیلی بھی ایسا ہی محسوس کرتے ہیں۔ وہ اس پر لکھتے بھی ہیں۔ اسرائیلی اخبار ہیراٹز بھی زندہ باد۔ دوسری جانب عرب دنیا میں اشتعال کے ساتھ بدحواسی بھی بڑھ رہی ہے، اور ہمیں اس کی قیمت چکانا پڑے گی۔

Wednesday 30 July 2014

میں اُن کو کیسے کہوں ‘مبارک‘


اداس عیدیں منا رہی ہیں





 "اُداس عیدیں"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں اُن کو کیسے کہوں ‘مبارک‘؟
وہ جن کے نورِ نظر گئے ہیں
وہ مائیں جن کے جگر کے ٹکڑے
گلوں کی صورت بکھر گئے ہیں
وہ جن کی دکھ سے بھری دعائیں
فلک پہ ہلچل مچا رہی ہیں
میرے ہی دِیں کی بہت سی نسلیں
اداس عیدیں منا رہی ہیں
وہ بچے عیدی کہاں سے لیں گے؟  
تباہ گھر میں جو پل رہے ہیں
وہ جن کی مائیں ہیں نذرِ آتش
وہ جن کے آباء جل رہےہیں
وہ جن کی ننھی سی پیاری آنکھیں
ہزاروں آنسو بہا رہی ہیں
میرے ہی دِیں کی بہت سی نسلیں
اداس عیدیں منا رہی ہیں
بتاؤ اُن کو میں عمدہ تحفہ
کہاں سے کر کے تلاش بھیجوں؟
بہن کو بھائی کی نعش بھیجوں
یا ماں کو بیٹے کی لاش بھیجوں؟
جہاں پہ قومیں بہت سے تحفے
بموں کی صورت میں پا رہی ہیں
میرے ہی دِیں کی بہت سی نسلیں
اداس عیدیں منا رہی ہیں
وہاں سجانے کو کیا ہے باقی؟
جہاں پہ آنسو سجے ہوئے ہیں
جہاں کی مہندی ہے سرخ خوں کی
جنازے ہر سُو سجے ہوئے ہیں
جہاں پہ بہنیں شہیدِ حق پر
ردائے ابیض سجا رہی ہیں
میرے ہی دِیں کی بہت سی نسلیں

Plz save Palestine at least for the sake of those kids




Photo

Photo

Photo: ‎اب تک کی میری سب سے چشم کشا رپورٹ آپ کی خدمت میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
http://ummat.net/2014/07/24/news.php?p=story1.gif‎






They are not a muslim. Even not a human.They only know how to eat Haram. If your neighbour sleeps hungry you will never be a muslim. I hope they will go to hell.

Photo

Photo: ‎مزید پڑھئے: http://www.express.pk/story/273996/‎


Photo

Photo

Photo: ‎یا اللہ غزہ کے ان مجاہدین کی مدد فرما آمیں
افطاری کا وقت ہے سب بولیں آمیں‎









Some Steps need to be taken immediately against Israel for what they are doing in GHAZA, Palestine,
1. All Muslim Countries should immediately boycott Israeli Products as well as countries of other religion because this is not a matter of religious this is a matter of humanity.
2. All Muslims countries especially Arab Should immediately take out their money from World bank and other americans bank as American are supporting israel openly. By doing this the economy of americans will fall upto major extent.
3. All Muslim Countries Should immediately prepare one unite army to fight against Israel, if they are not stopping attacks on Palestine.
This is awake up call for all Muslims, otherwise this fire will come to our houses and will burnt our each and everything.
IF THEY ARE KILLING MUSLIMS WITHOUT ANY REASONS, THAN WHY WE SHOULD NOT TAKE STAND FOR A REASON TO SAVE HUMANITY.
THE BEST WAY TO DEFEND IS TO ATTACK

Photo



Photo





احنا حانسكت كدة لحد امتاا نفسي اعرف ؟؟؟ الي تهان قدامة انسان وما يحسش بالاهانة ما يستحقش لقب انسان ولا حيوان حتي دة حتي الحيوانات عندهم رحمة كدنا القرف فيناا وفي كل العرب








85 مليون مصري .. 40 مليون جزائري .. 32 مليون مغربي .. 30 مليون عراقي .. 30 مليون سوداني .. 25 مليون سعودي ..25 مليون سوري ... 23 مليون يمني ... 10 مليون تونسي ...7مليون اماراني .. 5 مليون لبناني .. 5 مليون اردني ... 6 مليون ليبي ... 3 مليون كويتي ...3 مليون بحريني وقطري .. 2 مليون عماني ..... " 320 مليون مسلم ... لا يقدرون على 8 مليون اسرائيلي ...
لك الله يـــــــــا غزة














Geo News English

Blogger Tricks

Power Rangers video

Adi Shankar Presents a Mighty Morphin' Power Rangers Bootleg Film By Joseph Kahn.

To Learn More About Why This Bootleg Exists Click Here: http://tinyurl.com/mw9qd79