سعودی عرب میں سزائے موت پانے والے شیخ نمر کی زندگی کے بارے میں وہ تمام باتیں جو آپ جاننا چاہتے ہیں
جدہ(مانیٹرنگ ڈیسک) سعودی عرب میں گزشتہ روز دہشت گردی کے جرم میں 47افراد کے سرقلم کر دیئے گئے جن میں ایک سکالر نمر باقر النمر بھی تھے جو عرف عام میں شیخ نمر کے نام سے جانے جاتے تھے۔ شیخ نمر ایک شیعہ عالم تھے اور ان کا سرقلم کرنے پر سعودی عرب اور ایران کے کے تعلقات میں کشیدگی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ ایران میں سعودی سفارتخانہ نذرآتش کر دیا گیا ہے اور جواب میں سعودی عرب نے ایرانی سفیر کو ملک بدر کر دیا ہے۔ ایسے میں ہر شخص جاننا چاہتا ہے کہ شیخ نمر دراصل کون تھے؟
شیخ نمر 1959ء میں پیدا ہوئے اور 2جنوری 2016ء کو ان کا سرقلم کیا گیا۔ وہ سعودی عرب کے مشرق صوبے عوامیعہ کے شہری اور آزاد شیعہ عالم تھے۔ وہ نوجوانوں میں سعودی حکومت پر تنقید کرنے کی وجہ سے
خاصی شہرت رکھتے تھے۔ شیخ نمر نے تعلیم کے سلسلے میں قریبا دس برس تہران میں گزارے اور شام میں بھی وقت گزارا .وہ سعودی شاہی خاندان پر تنقید کے حوالے سے بھی کافی شہرت رکھتے تھے, سعودی ولی عہد نائف بن عبدلعزیز کی ٢٠١٢ میں وفات پر انتہائی سخت جملے بھی کہے جنہیں دوہرانا شائد مناسب نہیں. عرب نیوز کے مطابق وہ سعودی عرب میں انتخابات کا مطالبہ بھی کرتے رہتے تھے۔2009ء میں انہوں نے سعودی حکام پر کڑی تنقید کی اور کہا کہ اگر ریاست میں اقلیتوں کے حقوق ادا نہیں کیے جا سکتے تو مشرقی صوبے عوامیعہ کو آزاد ملک بنا دیا جائے۔
ان کے اس بیان پر ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے گئے اور اس وقت 35اور لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ 2011-12ء میں احتجاجی مظاہروں کے دوران شیخ نمر نے مظاہرین سے کہا کہ وہ تشدد کی بجائے الفاظ کی طاقت سے سکیورٹی فورسز کی مزاحمت کریں۔ اس وقت برطانوی اخبار’’گارڈین‘‘ نے ان کے متعلق لکھا کہ وہ سعودی حکومت کے خلاف بغاوت کی تحریک کی قیادت کر رہے ہیں۔8جولائی 2012ء کو گرفتاری کے دوران شیخ نمر کی ٹانگ میں گولی لگی ۔ پولیس کی طرف سے موقف سامنے آیا تھا کہ شیخ نمر اور اس کے ساتھیوں نے پولیس مقابلہ کیا اور فائرنگ کے تبادلے میں زخمی ہو کر گرفتار ہوئے ہیں۔
15اکتوبر 2014ء کو سپیشل کریمنل کورٹ کی طرف سے شیخ نمر کو سزائے موت سنائی گئی۔ ان پربیرونی ممالک کو سعودی عرب میں مداخلت کی دعوت دینے، سعودی فرمانرواؤں کی نافرمانی اور سکیورٹی فورسز کے خلاف ہتھیار اٹھانے جیسے الزامات عائد کیے گئے تھے جو ثابت ہونے پر انہیں موت کی سزا سنائی گئی۔ اور گزشتہ روز 2جنوری 2016ء کو ان کی سزا پر عملدرآمد کر دیا گیا۔
No comments:
Post a Comment